یورپی خلائی ایجنسی (ESA) نے پہلی بار 2 سیٹلائٹس کی مدد سے مصنوعی مکمل سورج گرہن پیدا کرکے سورج کی بیرونی فضا یعنی کورونا کی شفاف تصاویر حاصل کرلی ہیں۔ یہ کامیابی پیر کے روز Proba-3 مشن کے تحت حاصل کی گئی، جس میں 2 خلائی جہاز Coronagraph اور Occulter استعمال کیے گئے۔

یہ دونوں سیٹلائٹس زمینی کنٹرول کے بغیر 492 فٹ کے فاصلے پر کئی گھنٹے ایک خاص مدار میں سفر کرتے رہے تاکہ مصنوعی سورج گرہن پیدا کیا جا سکے۔ اس طریقے سے سورج کی کورونا کی وہ تفصیلات سامنے آئیں جو عام حالات یا قدرتی سورج گرہن کے دوران بھی محدود وقت کے لیے ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔

یورپی خلائی ایجنسی کے مطابق سورج کی کورونا کا مشاہدہ شمسی ہوا اور کورونل ماس ایجیکشنز (CMEs) کو سمجھنے میں مدد دے گا، جو زمین پر خلائی موسم کو متاثر کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  آنے والے ‘بلڈ مون’ چاند گرہن کے بارے میں 7 عجیب و غریب حقائق کیا ہیں؟

خلائی ادارے کے ٹیکنالوجی ڈائریکٹر ڈائٹمار پلز نے کہا کہ Proba-3 کی یہ کامیابی دنیا کا پہلا پرِسائیز فارمیشن فلائنگ مشن ہے، جس میں خلائی ٹیکنالوجی نے اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دیا۔

بلجیم کی رائل آبزرویٹری سے وابستہ سائنس دان آندرے ژھوکوف نے بتایا کہ یہ تصاویر قدرتی سورج گرہن کی تصاویر جتنی عمدہ ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ Proba-3 ہر 19.

6 گھنٹے بعد اپنا گرہن دوبارہ پیدا کر سکتا ہے، جبکہ قدرتی مکمل سورج گرہن سال میں صرف ایک یا 2 بار اور صرف چند منٹ کے لیے ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مصنوعی سورج گرہن کو Proba-3 کے ذریعے 6 گھنٹوں تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

یہ مشن اسپین کی کمپنی Sener کی زیر نگرانی چلایا جا رہا ہے اور اس میں 14 ممالک کی 29 سے زائد کمپنیاں شریک ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی نہ صرف سورج بلکہ مستقبل کے خلائی مشنز کے لیے بھی ایک بڑی پیشرفت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

Proba-3 خلائی ٹیکنالوجی مصنوعی مکمل سورج گرہن یورپی خلائی ایجنسی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خلائی ٹیکنالوجی یورپی خلائی ایجنسی کے لیے

پڑھیں:

چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور

چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔

ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔

شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔

دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔

جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔

شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔

ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔

چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔

شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان
  • یورپی اداروں کے اہلکاروں کا حساس موبائل ڈیٹا فروخت کیے جانے کا انکشاف
  • جنوبی کوریا کا 728 کھرب کا بجٹ، خودمختار دفاع اور مصنوعی ذہانت میں انقلاب کا اعلان
  • روس، چین تعلقات میں پیش رفت: توانائی، ٹیکنالوجی اور خلائی تعاون کے متعدد معاہدے
  • بین السیاراتی پراسرار دمدار ستارہ اٹلس تھری آئی ’غیر ارضی خلائی جہاز‘ ہوسکتا ہے، ایلون مسک
  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل  آئی نے تاریخ رقم کردی
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • بھارتی تاریخ کا سب سے وزنی ترین مواصلاتی سیٹلائٹ خلا کیلئے روانہ
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور