Daily Ausaf:
2025-06-19@13:32:48 GMT

ایران ،اسرائیل جنگ،عرب و عجم ، تقسیم ،نیا شاخسانہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

مشرق وسطیٰ کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہمیشہ غیر معمولی اہمیت کی حامل دکھائی دیتی ہے ۔اسرائیلی ریاست کے قیام عمل میں آجانے کے بعد سے ابتک دونوں ممالک کے تعلقات میں نشیب وفراز کی صورت دکھائی دیتی ہے ،جن میں شدید مبازرتیں ،سفارتی معاہدے اور پیچیدہ علاقائی سیاست کا عمل دخل رہا ہے ۔مصر نے عالم عرب کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ کئی جنگوں میں مرکزی کردار ادا کیا ،لیکن1979 ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر کی پلیسی میں اہک کلیدی تبدیلی رو نما ہوئی ۔حالیہ عالمی اور علاقائی حالات میں جبکہ فلسطین کا مسئلہ بدستور موجود ہے ۔غزہ بد ترین انسانی بحران کی زد میں آیا ہوا ہے اور اسرائیلی عسکری حملے عالمی سطح پر تنقید کی لپیٹ میں ہیں اور دوسری جانب اسے داخلی اور خارجی دبائو کے ساتھ علاقائی سیاست اور عالمی قوتوں کے مابین توازن برقرار رکھنے کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اس تناظر میں مصر اور اسرائیل کے جنگی تعلقات کی جنگی تاریخ کے حوالے سے بات کی جائے تو 1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے فوری بعدمشرق وسطیٰ مسلسل جنگی اور سیاسی کشیدگی کی لپیٹ میں نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔
مصر جو دنیائے عرب کا بڑا اور طاقتور ملک تھا وہ فلسطین کے مسئلے پر کبیدہ خاطر رہا ۔اسرائیل کے اعلان آزادی کے بعد مصر ،اردن ،لبنان ،شام اور عراق نے فوری طور پر اسرائیل پر حملہ کردیا ،مصر نے فلسطینی عربوں کی حمایت میں فوجی مداخلت کا قدم اٹھایا مگر اسرائیل نے نہ صرف قبضہ برقرار رکھا بلکہ مزید علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لئے۔اس طرح عرب افوج کی شکست کے بعد ایک بڑا بحران فلسطینی مہاجرین کی صورت میں اٹھ کھڑا ہوا۔1956ء میں سوئز بحران کھڑا ہوا،صدر جمال عبدالناصر نے نہرکے قومیا لینے پر فرانس ،برطانیہ اور اسرائیل نے مصر پر یلغار کر دی اور اسرائیل نے جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا یوں اقوام متحدہ ،سویت یونین اور امریک کی مداخلت سے اس جنگ کا خطرہ ٹلا۔نہر سویز مصر کے پاس واپس آگئی مگر جزیرہ نما سینا سے اسرائیل نے عارضی واپسی کا فیصلہ سنایا۔1967ء میں مصر ،شام اور اردنایک بار پھر اسرائیل کے خلاف صف آرا ہوئے اور اسرائیل نے دفعتا حملہ کر کے مصر کی فضائیہ تباہ و برباد کردی اور سینا پر بھی اپنے عارثی قبضے کو مستقل بنالیا۔اس کے ساتھ ہی غزہ، مغربی کنارہ ،گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی یروشلم بھی قبضے میں لے لئے۔عرب دنیا اس صدمے پر بہت پراگندہ حال ہوئی اور اس کے اندر شکست کا احساس سرایت کرگیا ۔
1973ء کے ماہ رمضان میں مصر اور شام نے مل کر اچانک اسرائیل پر اس غرض سے حملہ کر دیا کہ 1967ء کے نقصان کا بدلہ چکایا جاسکے۔مصر نہر سویز عبور کرتا ہوا سینا میں اسرائیلی پوزیشنوں پر حملہ آور ہو گیا ۔ سردست مصر کو نصرت ضرور ملی ،پھر جنگ میں توازن آگیا اور امریکہ ،سویت یونین اور اقوام متحدہ کی ثالثی کے نتیجے میں جنگ بند ہوگئی۔اس جنگ سے عرب دنیا کا عسکری نفسیاتی مورل بلند ہوا،1979ء امریکہ کی ثالثی میں صدر سادات اور ہیگن کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا مصر نے اسرائیل تسلیم کرلیا ۔ اسرائیل نے مصر کا جزیرہ نما سینا واپس کردیا۔مصر پہلا عرب ملک تھا جس نیاسرائیل کو با ضابطہ تسلیم کیا۔عالم عرب میں سخت تنقید اور نفرت کا طوفان اٹھ کھڑا ہو اورآخر کار1981ء میں صدر انورسادات کو قتل کر دیا گیا۔اب یہ عالم رہا ہے کہ مصر فلسطین، اسرائیل تنازعہ میں اکثر مصالحتی کوششیں کرتا ہے غزہ کی پٹی پر مصر کا اثر ورسوخ بھی چلتا ۔
سرد مہری کے باوجود مصر ،اسرائیل کے درمیان سفارت تعلقات قائم ہیں ۔مصر اسرائیل سے جنگی دشمنی سے بھی دست کشی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔تاہم موجودہ اسرائیل ایران جنگ میں مصر براہ راست کسی بھی فریق کا عسکری اتحادی بننے کا تاثر نہیں دے رہا وہ نہ ایران کے دفاع پر مصر ہے نہ اسرائیل کے ساتھ فوجی اتحاد میں شریک ہے سفارتی اور تزویراتی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو تب بھی مصر کی پالیسی غیر جانبداری کے ساتھ متوازن ثالثی پر مبنی ہے۔ چونکہ مصر ایران کو علاقائی حریف گردانتا ہے مگر اس کے ساتھ کھلی دشمنی یا دوستی سے بھی گریزاں ہے ۔اس حوالے سے مطالعہ کیا جائے توعالم اسلام میں عرب و عجم کشمکش ایک تاریخی نفسیاتی پہلو کی حیثیت میں کارفرما ہے اور خطے کی سیاست میں عرب و عجم کی واضح تقسیم موجود ہے ۔اس لئے مصری ریاست خصوصا عسکری اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ایران کے ساتھ ایک فاصلہ رکھتی آئی ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران کی سیاست زیادہ تر ’’انقلابی شیعہ ازم‘‘پر استوار ہے جو عالم عرب کے بعض حلقوں میں تشویش کا سبب رہی ہے ۔مصر کے اندر اخوان المسلمون جیسی جماعتوں کی ایران نے کبھی کھل کر حمایت نہیں کی ۔یہی مسلکی تقسیم ہے جو ایران ، اسرائیل جنگ میں مصر کو غیر متحرک رکھا ہوا ہے ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور اسرائیل اسرائیل نے اسرائیل کے کے ساتھ کے بعد اور اس

پڑھیں:

ایران کے ساتھ جنگ میں اسرائیل کو بھاری نقصان ہوا، نیتن یاہو کا اعتراف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تل ابیب: اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے تسلیم کیا ہے کہ ایران کے ساتھ جاری جنگ اور مسلسل حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کو “بھاری اور تکلیف دہ نقصان” اٹھانا پڑ رہا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق وزیر اعظم نے اسرائیلی عوام کو جنگی صورتحال اور ایران پر جاری فوجی آپریشن کی تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن اپنے مقاصد کی جانب منظم انداز سے پیش رفت کر رہا ہے اور ہماری افواج تہران کی فضائی حدود پر کنٹرول حاصل کیے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی افواج اس وقت ایران کے جوہری تنصیبات، میزائلوں اور کمانڈ سینٹرز کو نشانہ بنا رہی ہیں،ہمیں اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، یہ تکلیف دہ نقصان ہے لیکن ہماری عوام مضبوط ہے اور اسرائیل پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔

نیتن یاہو نے تمام متاثرہ افراد کو فوری امداد کی فراہمی کے لیے حکومتی وزارتوں کو ہدایات جاری کرنے کا بھی اعلان کیا تاکہ داخلی محاذ پر عوام کو سہارا دیا جا سکے۔

یاد رہے کہ یہ جنگ چھٹے روز میں داخل ہو چکی ہے اور اس دوران سینکڑوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جب کہ ایران اور اسرائیل دونوں جانب سے دعووں اور جوابی حملوں کا سلسلہ تھم نہیں رہا، عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ اور یورپی ممالک، مسلسل فریقین سے جنگ بندی اور مذاکرات کی اپیل کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کے ساتھ جنگ میں اسرائیل کو بھاری نقصان ہوا، نیتن یاہو کا اعتراف
  • خامنہ ای کی حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ؛ ایران کے سابق ولی عہد نے بتادیا
  • بھارت نے ایران کا ساتھ چھوڑ دیا
  • ایران کے بعد پاکستان ؟
  • معاشرے  میں تقسیم، انتشار اور تشدد کی بڑی وجہ نفرت انگیز تقاریر ہیں، مریم نواز
  • بڑی طاقتوں میں تقسیم اسرائیل ایران جنگ بندی میں رکاوٹ
  • حوثیوں کا ایران کی حمایت کا اعلان
  • خان یونس میں امدادی سائٹ پر اسرائیلی ٹینکوں سے شیلنگ، کم از کم 51 افراد ہلاک
  • غزہ میں خوراک حاصل کرنے کے لیے جمع ہجوم پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ، 51 فلسطینی شہید