ایران ،اسرائیل جنگ،عرب و عجم ، تقسیم ،نیا شاخسانہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
مشرق وسطیٰ کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہمیشہ غیر معمولی اہمیت کی حامل دکھائی دیتی ہے ۔اسرائیلی ریاست کے قیام عمل میں آجانے کے بعد سے ابتک دونوں ممالک کے تعلقات میں نشیب وفراز کی صورت دکھائی دیتی ہے ،جن میں شدید مبازرتیں ،سفارتی معاہدے اور پیچیدہ علاقائی سیاست کا عمل دخل رہا ہے ۔مصر نے عالم عرب کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ کئی جنگوں میں مرکزی کردار ادا کیا ،لیکن1979 ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر کی پلیسی میں اہک کلیدی تبدیلی رو نما ہوئی ۔حالیہ عالمی اور علاقائی حالات میں جبکہ فلسطین کا مسئلہ بدستور موجود ہے ۔غزہ بد ترین انسانی بحران کی زد میں آیا ہوا ہے اور اسرائیلی عسکری حملے عالمی سطح پر تنقید کی لپیٹ میں ہیں اور دوسری جانب اسے داخلی اور خارجی دبائو کے ساتھ علاقائی سیاست اور عالمی قوتوں کے مابین توازن برقرار رکھنے کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اس تناظر میں مصر اور اسرائیل کے جنگی تعلقات کی جنگی تاریخ کے حوالے سے بات کی جائے تو 1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے فوری بعدمشرق وسطیٰ مسلسل جنگی اور سیاسی کشیدگی کی لپیٹ میں نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔
مصر جو دنیائے عرب کا بڑا اور طاقتور ملک تھا وہ فلسطین کے مسئلے پر کبیدہ خاطر رہا ۔اسرائیل کے اعلان آزادی کے بعد مصر ،اردن ،لبنان ،شام اور عراق نے فوری طور پر اسرائیل پر حملہ کردیا ،مصر نے فلسطینی عربوں کی حمایت میں فوجی مداخلت کا قدم اٹھایا مگر اسرائیل نے نہ صرف قبضہ برقرار رکھا بلکہ مزید علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لئے۔اس طرح عرب افوج کی شکست کے بعد ایک بڑا بحران فلسطینی مہاجرین کی صورت میں اٹھ کھڑا ہوا۔1956ء میں سوئز بحران کھڑا ہوا،صدر جمال عبدالناصر نے نہرکے قومیا لینے پر فرانس ،برطانیہ اور اسرائیل نے مصر پر یلغار کر دی اور اسرائیل نے جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا یوں اقوام متحدہ ،سویت یونین اور امریک کی مداخلت سے اس جنگ کا خطرہ ٹلا۔نہر سویز مصر کے پاس واپس آگئی مگر جزیرہ نما سینا سے اسرائیل نے عارضی واپسی کا فیصلہ سنایا۔1967ء میں مصر ،شام اور اردنایک بار پھر اسرائیل کے خلاف صف آرا ہوئے اور اسرائیل نے دفعتا حملہ کر کے مصر کی فضائیہ تباہ و برباد کردی اور سینا پر بھی اپنے عارثی قبضے کو مستقل بنالیا۔اس کے ساتھ ہی غزہ، مغربی کنارہ ،گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی یروشلم بھی قبضے میں لے لئے۔عرب دنیا اس صدمے پر بہت پراگندہ حال ہوئی اور اس کے اندر شکست کا احساس سرایت کرگیا ۔
1973ء کے ماہ رمضان میں مصر اور شام نے مل کر اچانک اسرائیل پر اس غرض سے حملہ کر دیا کہ 1967ء کے نقصان کا بدلہ چکایا جاسکے۔مصر نہر سویز عبور کرتا ہوا سینا میں اسرائیلی پوزیشنوں پر حملہ آور ہو گیا ۔ سردست مصر کو نصرت ضرور ملی ،پھر جنگ میں توازن آگیا اور امریکہ ،سویت یونین اور اقوام متحدہ کی ثالثی کے نتیجے میں جنگ بند ہوگئی۔اس جنگ سے عرب دنیا کا عسکری نفسیاتی مورل بلند ہوا،1979ء امریکہ کی ثالثی میں صدر سادات اور ہیگن کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا مصر نے اسرائیل تسلیم کرلیا ۔ اسرائیل نے مصر کا جزیرہ نما سینا واپس کردیا۔مصر پہلا عرب ملک تھا جس نیاسرائیل کو با ضابطہ تسلیم کیا۔عالم عرب میں سخت تنقید اور نفرت کا طوفان اٹھ کھڑا ہو اورآخر کار1981ء میں صدر انورسادات کو قتل کر دیا گیا۔اب یہ عالم رہا ہے کہ مصر فلسطین، اسرائیل تنازعہ میں اکثر مصالحتی کوششیں کرتا ہے غزہ کی پٹی پر مصر کا اثر ورسوخ بھی چلتا ۔
سرد مہری کے باوجود مصر ،اسرائیل کے درمیان سفارت تعلقات قائم ہیں ۔مصر اسرائیل سے جنگی دشمنی سے بھی دست کشی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔تاہم موجودہ اسرائیل ایران جنگ میں مصر براہ راست کسی بھی فریق کا عسکری اتحادی بننے کا تاثر نہیں دے رہا وہ نہ ایران کے دفاع پر مصر ہے نہ اسرائیل کے ساتھ فوجی اتحاد میں شریک ہے سفارتی اور تزویراتی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو تب بھی مصر کی پالیسی غیر جانبداری کے ساتھ متوازن ثالثی پر مبنی ہے۔ چونکہ مصر ایران کو علاقائی حریف گردانتا ہے مگر اس کے ساتھ کھلی دشمنی یا دوستی سے بھی گریزاں ہے ۔اس حوالے سے مطالعہ کیا جائے توعالم اسلام میں عرب و عجم کشمکش ایک تاریخی نفسیاتی پہلو کی حیثیت میں کارفرما ہے اور خطے کی سیاست میں عرب و عجم کی واضح تقسیم موجود ہے ۔اس لئے مصری ریاست خصوصا عسکری اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ایران کے ساتھ ایک فاصلہ رکھتی آئی ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران کی سیاست زیادہ تر ’’انقلابی شیعہ ازم‘‘پر استوار ہے جو عالم عرب کے بعض حلقوں میں تشویش کا سبب رہی ہے ۔مصر کے اندر اخوان المسلمون جیسی جماعتوں کی ایران نے کبھی کھل کر حمایت نہیں کی ۔یہی مسلکی تقسیم ہے جو ایران ، اسرائیل جنگ میں مصر کو غیر متحرک رکھا ہوا ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اور اسرائیل اسرائیل نے اسرائیل کے کے ساتھ کے بعد اور اس
پڑھیں:
پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے، ایرانی صدر
اسلام آباد میں وزیراعظم پاکستان کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ایرانی صدر نے کہا کہ عصرحاضر میں امت مسلمہ کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے، پاکستان اور ایران کے تعلقات مشترکہ ثقافت اور مذہب پر مبنی ہیں، علامہ اقبال کی شاعری ہمارے لئے بھی مشعل راہ ہے، علامہ اقبال کی شاعری کی اساس امت مسلمہ کا اتحاد ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ پاکستان کیساتھ اچھے تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے، دو طرفہ تعلقات کو مختلف جہتوں میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے اپنی گفتگو کا آغاز قرآن کی آیت سے کیا اور اتحاد امت پر زور دیا۔ ایرانی صدر نے کہا کہ مہمان نوازی پر وزیراعظم اور پاکستانی قوم کا شکر گزار ہوں، پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے، پاکستان کے علماء اور سیاسی قیادت سے مفید گفتگو ہوئی، اسرائیلی جارحیت کیخلاف پاکستان کی حمایت پر دل سے شکر گزار ہیں۔
ایرانی صدر نے کہا کہ عصرحاضر میں امت مسلمہ کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے، پاکستان اور ایران کے تعلقات مشترکہ ثقافت اور مذہب پر مبنی ہیں، علامہ اقبال کی شاعری ہمارے لئے بھی مشعل راہ ہے، علامہ اقبال کی شاعری کی اساس امت مسلمہ کا اتحاد ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے، دو طرفہ تعلقات کو مختلف جہتوں میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔