UrduPoint:
2025-11-05@01:57:31 GMT

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فوجی مہم کے ذریعے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن وہ اس خطے میں جوہری تباہی سے بھی بچنا چاہتا ہے، جہاں کروڑوں لوگ رہتے ہیں اور دنیا کا زیادہ تر تیل پیدا ہوتا ہے۔

خلیج میں تباہی کے خدشات اس وقت بڑھ گئے، جب اسرائیلی فوج نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اس نے خلیج کے ساحل پر واقع بوشہر میں ایک مقام پر حملہ کیا، جہاں ایران کا واحد جوہری پاور اسٹیشن ہے۔

تاہم بعد میں اس نے کہا کہ یہ اعلان غلطی سے کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اب تک کن مقامات کو نشانہ بنایا؟

اسرائیل نے نطنز، اصفہان، اراک اور تہران میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی تصدیق کی ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنا ہے۔ تاہم ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ کبھی ایٹم بم بنانا چاہتا تھا۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے رپورٹ کیا ہے کہ نطنز میں یورینیم افزودگی کے پلانٹ، اصفہان کے جوہری کمپلیکس (بشمول یورینیم کنورژن فیسیلٹی) اور تہران میں سینٹری فیوج پروڈکشن کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔

’جارحیت کی جنگ میں‘ آئی اے ای اے اسرائیل کی شراکت دار، ایرانی الزام

اسرائیل نے اراک (جسے خنداب بھی کہا جاتا ہے) پر بھی حملہ کیا۔

آئی اے ای اے کے مطابق، اسرائیلی فوجی حملوں نے خنداب ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر کو نشانہ بنایا، جو زیر تعمیر تھا اور ابھی آپریشنل نہیں ہوا تھا جبکہ قریبی ہیوی واٹر بنانے والے پلانٹ کو بھی نقصان پہنچایا۔ آئی اے ای اے نے کہا کے مطابق یہ پلانٹ آپریشنل نہیں تھا اور اس میں کوئی جوہری مواد موجود نہیں تھا، اس لیے تابکاری کے کوئی اثرات نہیں دیکھے گئے۔

آئی اے ای اے نے آج بروز جمعے کو اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا کہ اس مقام پر اہم عمارتیں متاثر ہوئیں۔ ہیوی واٹر ری ایکٹرز سے پلوٹونیم تیار کیا جا سکتا ہے، جو افزودہ یورینیم کی طرح ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

ان حملوں سے کون سے خطرات ہیں؟

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف لیورپول کے پروفیسر پیٹر برائنٹ، جو تابکاری تحفظ سائنس اور جوہری توانائی کی پالیسی کے ماہر ہیں، نے کہا کہ اب تک کے حملوں سے تابکاری کا زیادہ خطرہ نہیں ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ اراک کی تنصیبات آپریشنل نہیں تھیں، جبکہ نطنز کی سہولت زیر زمین ہے اور تابکاری اخراج کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ انہوں نے کہا، ''اصل سوال یہ ہے کہ اس سہولت کے اندر کیا ہوا، لیکن جوہری تنصیبات اس کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔ یورینیم صرف اس صورت میں خطرناک ہے، جب اسے سانس کے ذریعے یا کھانے کے ذریعے جسم میں داخل کیا جائے یا کم افزودگی پر جسم میں داخل ہو۔

‘‘

لندن کے تھنک ٹینک آر یو ایس آئی کی سینئر ریسرچ فیلو داریہ دولزیکووا نے کہا کہ جوہری ایندھن کے ابتدائی مراحل (جہاں یورینیم کو ری ایکٹر کے لیے تیار کیا جاتا ہے) پر حملوں سے بنیادی طور پر کیمیائی خطرات ہوتے ہیں، نہ کہ تابکاری خطرات۔

افزودگی کی سہولیات میں، یورینیم ہیکسا فلورائیڈ (UF6) تشویش کا باعث ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''جب UF6 ہوا میں موجود پانی کے بخارات کے ساتھ تعامل کرتی ہے، تو اس سے نقصان دہ کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں۔

‘‘

کسی بھی مواد کے پھیلاؤ کی حد کا انحصار موسم سمیت دیگر عوامل پر بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''کم ہواؤں میں، زیادہ تر زہریلا مواد سہولت کے آس پاس جمع ہو جاتا ہے جبکہ تیز ہواؤں میں، مواد دور تک جاتا ہے اور زیادہ پھیل جاتا ہے۔‘‘ تاہم زیر زمین تنصیبات میں تابکاری کے پھیلاؤ کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف لیسٹر کے سول سیفٹی اینڈ سکیورٹی یونٹ کے سربراہ سائمن بینیٹ کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل زیر زمین تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے تو ماحولیاتی خطرات کم ہوتے ہیں کیونکہ ''آپ جوہری مواد کو ممکنہ طور پر ہزاروں ٹن کنکریٹ، مٹی اور چٹانوں میں دبا رہے ہیں۔

‘‘ جوہری ری ایکٹرز کا کیا حال ہے؟

سب سے بڑی تشویش ایران کے بوشہر میں واقع جوہری ری ایکٹر پر حملہ ہے۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کے ایپی ڈیمیالوجی کے اعزازی پروفیسر رچرڈ ویک فورڈ کہتے ہیں کہ افزودگی کی سہولیات پر حملوں سے آلودگی ''بنیادی طور پر ایک کیمیائی مسئلہ‘‘ ہو گا تاہم بڑے پاور ری ایکٹرز کو وسیع نقصان ''ایک مختلف کہانی‘‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تابکار عناصر یا تو غیر مستحکم مادوں کے بادل کے ذریعے یا سمندر میں خارج ہو سکتے ہیں۔

کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے شریک ڈائریکٹر جیمز ایکٹن بتاتے ہیں کہ بوشہر پر حملہ ''ایک مکمل تابکاری تباہی‘‘ کا باعث بن سکتا ہے، لیکن افزودگی کی سہولیات پر حملوں سے ''اہم آف سائٹ نتائج‘‘ کا امکان کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوہری ری ایکٹر میں جانے سے پہلے یورینیم بمشکل تابکار ہوتا ہے، ''یورینیم ہیکسا فلورائیڈ کی کیمیائی شکل زہریلی ہوتی ہے، لیکن یہ زیادہ فاصلے تک نہیں جاتی اور یہ بمشکل تابکار ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے اسرائیلی حملوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ''تاہم اب تک اسرائیلی حملوں کے تابکاری نتائج تقریباً صفر رہے ہیں۔

‘‘

یونیورسٹی آف لیسٹر کے بینیٹ نے کہا کہ بوشہر پر حملہ کرنا اسرائیلیوں کے لیے ''احمقانہ اقدام‘‘ ہو گا کیونکہ اس سے ری ایکٹر کی دیوار ٹوٹ سکتی ہے، جس سے تابکار مواد فضا میں خارج ہو گا۔

خلیجی ریاستیں کیوں پریشان ہیں؟

خلیجی ریاستوں کے لیے، بوشہر پر کسی بھی حملے کے اثرات خلیج کے پانیوں کی ممکنہ آلودگی سے مزید سنگین ہو سکتے ہیں، جو کہ پینے کے صاف پانی کے ایک اہم ذریعے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں 80 فیصد سے زیادہ پینے کا پانی صاف شدہ سمندری پانی پر مشتمل ہے، جبکہ بحرین 2016ء سے مکمل طور پر سمندر کے صاف شدہ پانی پر انحصار کرتا ہے۔ خلیجی حکام کے مطابق زیر زمین پانی کو ہنگامی منصوبوں کے لیے محفوظ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح قطر 100 فیصد سمندری صاف شدہ پانی پر انحصار کرتا ہے۔

سعودی عرب ایک بڑا ملک ہے اور اس کے پاس قدرتی زیر زمین پانی کے زیادہ ذخائر ہیں۔

تاہم سن 2023 تک اس کی تقریباً 50 فیصد پانی کی فراہمی صاف شدہ سمندری پانی سے آتی تھی۔ اگرچہ سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے کچھ خلیجی ممالک کے پاس پانی کے حصول کے لیے ایک سے زیادہ سمندروں تک رسائی ہے، لیکن قطر، بحرین اور کویت جیسے ممالک خلیج کے ساحل پر واقع ہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا ساحل نہیں ہے۔

ابوظہبی کے واٹر ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر اور پروفیسر انجینئرنگ نضال ہلال کہتے ہیں، ''اگر کوئی قدرتی آفت، تیل کا اخراج یا حتیٰ کہ ایک حملہ پلانٹ کو متاثر کرے، تو لاکھوں لوگ تقریباً فوری طور پر تازہ پانی تک رسائی کھو سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: رابعہ بگٹی

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یونیورسٹی آف انہوں نے کہا آئی اے ای اے کی سہولیات نے کہا کہ سکتے ہیں کے ذریعے پر حملوں ری ایکٹر حملوں سے صاف شدہ جاتا ہے ہوتا ہے پر حملہ پانی کے کے لیے

پڑھیں:

بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری

ریاض احمدچودھری

انڈین اٹاامک انرجی ریگولیشن بورڈ نے براہموس میزائلوںکی سٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد وہاں سے جوہری مواد سے تابکاری کا الرٹ جاری کیا ہے۔بھارتی حکومت نے انڈین نیشنل ریڈیولاجیکل سیفٹی ڈویژن کے ذریعے، بیاس، پنجاب کے قریب 10مئی کو برہموس میزائل اسٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد 3سے 5کلومیٹر کے دائر ے میں مقیم لوگوں کو تابکاری کے اخراج کی وجہ سے فوری طورپر انخلاء کرنے گھرسے باہر نہ نکلنے ، کھڑکیاں بند کرنے، زیر زمین پانی کے استعمال سے گریز کرنے اور باہر نکلنے کی صورت میں حفاظتی ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال سے واضح ہوتاہے کہ بھارت کا جوہری پروگرام غیر محفوظ ہے جس سے خطے میں ماحولیاتی خرابی پیداہونے کے ساتھ ساتھ تابکاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔
بھارت کے جوہری پروگرام کو فوری طور پر بند کیاجانا چاہیے۔ پاکستان اب قانونی طور پر اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھا سکتا ہے، آئی اے ای اے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں پر زور دے سکتا ہے کہ وہ بھارت کے جوہری اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھیں اور پابندیوں پر غور کریں۔بھارت کا ٹریک ریکارڈ، بشمول مارچ 2022میں پاکستان پر برہموس میزائل کی حادثاتی فائرنگ، لاپرواہی کے خطرناک رحجان کی عکاسی کرتا ہے۔
مودی حکومت جوہری مواد کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے، جس کے باعث یورینیم چوری، اسمگلنگ اور ایٹمی مواد کی بدانتظامی بھارت کی تاریخ کی سنگین مثال بن چکی ہے۔یہ تمام صورتحال بھارتی سیکیورٹی کی ناکامی اور مودی کی نااہلی و غفلت کو بے نقاب کرتی ہے، بین الاقوامی میڈیا مشرقی جھارکھنڈ ریاست میں تین سرکاری کانوں سے نکلنے والے تابکاری فضلے کو صحت کے لیے سنگین خطرہ قرار دے چکا ہے۔ انتہا پسند مودی کا جوہری جنون عوام کی صحت اور زندگیوں کو تابکاری کے سنگین خطرات سے دوچار کر رہا ہے، جھارکھنڈ کے یورینیم ذخائر کو جوہری ہتھیاروں سے جوڑنا مودی حکومت کے سیاسی ہتھکنڈوں اور غیر ذمہ داری کا واضح ثبوت ہے۔ مودی حکومت کا جوہری ایجنڈا خطے میں کشیدگی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔امریکہ کے دارا لحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل تھریٹ انڈیکس کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔جو دنیا کے170ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت، ان کے پھیلاؤ اور عدم پھیلاؤ پر تحقیق کرتا ہے۔بعد از تحقیقات یہ ادارہ ایک رپورٹ شائع کرتا ہے،جس میں اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ کس ملک کے ایٹمی ہتھیار زیادہ محفوظ ہیں اور کس ملک کا حفاظتی انتظام ناقص ہے۔
این ٹی آئی انڈیکس کی جوہری، تابکاری سلامتی کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان جوہری مواد کی سکیورٹی امور میں 19ویں نمبر پر براجمان ہے۔پاکستان کے بعد ہندوستان، ایران اور شمالی کوریا کا درجہ ہے۔ پاکستان کا رواں سال 3 مزید پوائنٹس حاصل کرکے جوہری مواد کی سلامتی میں اسکور 49پر پہنچا، پاکستان نے 2020ء کے مقابلے میں 3پوائنٹس، 2012ء کے مقابلے میں 18 پوائنٹس بہتری دکھائی۔ ہندوستان میں جوہری سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث سکور جوں کا توں یعنی 40 رہا، جوہری تنصیبات کی سلامتی میں پاکستان 47میں سے 32 ویں نمبر پر رہا ہے۔
بھارتی صحافی اور سماجی کارکن کاویہ کرناٹیک نے کہا ہے کہ بھارت کے جوہری طاقت ہونے کی اصل قیمت جھارکھنڈ کے بھولے بھالے لوگ اور تباہ شدہ دیہات ادا کررہے ہیں جہاں جوہری فضلہ پھینکنے کی وجہ سے لوگوں کو جلتی ہوئی زمین، زہر آلود پانی اور آہستہ آہستہ موت کا سامنا ہے۔ کاویہ نے انکشاف کیا کہ جھارکھنڈ جو بھارت کے یورینیم اور کوئلے کا سب سے بڑا حصہ پیدا کرتا ہے، بنجر زمین میں تبدیل ہو چکا ہے۔ہم نے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے بجائے معذوری دی ہے۔ جادو گورا نامی گائوں کی حالت المناک ہے کہ وہاں ہرپانچ میں سے ایک عورت اسقاط حمل سے گزرتی ہے کیونکہ ہم نے اپنا ایٹمی فضلہ وہاں پھینک دیا ہے۔ جھارکھنڈ میں ہر تیسرا آدمی کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہے جبکہ لوگ اپنے پورے جسم پر دھبوں اور پگھلے ہوئے چہروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ آدھے بچوں کو ذہنی کمزوری کا سامنا ہے۔ کوئلہ پیدا کرنے والے ایک علاقے میں ضرورت سے زیادہ کھدائی کی وجہ سے مٹی خود بخودجل رہی ہے اور لوگ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
کاویہ نے حکومت کے ترقی کے دعوئوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ بھارت وشوا گرو بن گیا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ممبئی میں بڑی فلک بوس عمارتیں ہیں لیکن اس میں دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی ہے جہاں تقریبا بیس لوگ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں جو بارش میں پانی سے بھر جاتا ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں لوگوں کو ایسا پانی پلایا جاتا ہے جو پیٹرول کی طرح دکھتا ہے۔آپ باقی بھارت کی صورتحال کا تصور اسی سے کر سکتے ہیں۔شہری خوشحالی کے سرکاری دعوئوںکی مذمت کرتے ہوئے کاویہ نے کہاکہ ہماری فلموں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ممبئی اور دہلی رہنے کے لیے بہترین جگہیں ہیں جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ بھارتی شہر دنیا میں سب سے بدترین ہیں ، چاہے وہ آلودگی کا معاملہ ہو یا قدرت سے ہم آہنگی کا۔کچی آبادیوں میں بھی وائٹنر جیسی منشیات پہنچ چکی ہیں۔جب ہم باہر نکلتے ہیں، خاص طور پر خواتین کے طور پر، ہمیں کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ صحافی ایسی چیزوں کو رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے بے نقاب نہیں کرنا چاہتے۔کاویہ کے انکشافات بھارت کی نام نہاد اقتصادی ترقی کے دعوئوں اور ماحولیاتی تباہی کی قلعی کھول دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب ترین علاقے کس طرح بھارت کے جوہری اور صنعتی طاقت کے حصول کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
  • اسرائیل امن معاہدہ پھر سوالوں کی زد میں( تازہ حملوں میں 7 افراد شہید)
  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • ایران میں بدترین خشک سالی، دارالحکومت کو پانی فراہمی کرنے والے ڈیم میں صرف دو ہفتے کا ذخیرہ رہ گیا
  • ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
  • کراچی پر حملے کی خبر جھوٹی تھی، جعلی خبریں ہمیں بھی حقیقت لگنے لگیں، بھارتی آرمی چیف کا بیان
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • تہران کاایٹمی تنصیبات زیادہ قوت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنےکا اعلان
  • ہیوی ٹریفک اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کا سبب، شہریوں کی صحت کو سنگین خطرات لاحق
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران