UrduPoint:
2025-08-05@01:01:19 GMT

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فوجی مہم کے ذریعے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن وہ اس خطے میں جوہری تباہی سے بھی بچنا چاہتا ہے، جہاں کروڑوں لوگ رہتے ہیں اور دنیا کا زیادہ تر تیل پیدا ہوتا ہے۔

خلیج میں تباہی کے خدشات اس وقت بڑھ گئے، جب اسرائیلی فوج نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اس نے خلیج کے ساحل پر واقع بوشہر میں ایک مقام پر حملہ کیا، جہاں ایران کا واحد جوہری پاور اسٹیشن ہے۔

تاہم بعد میں اس نے کہا کہ یہ اعلان غلطی سے کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اب تک کن مقامات کو نشانہ بنایا؟

اسرائیل نے نطنز، اصفہان، اراک اور تہران میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی تصدیق کی ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنا ہے۔ تاہم ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ کبھی ایٹم بم بنانا چاہتا تھا۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے رپورٹ کیا ہے کہ نطنز میں یورینیم افزودگی کے پلانٹ، اصفہان کے جوہری کمپلیکس (بشمول یورینیم کنورژن فیسیلٹی) اور تہران میں سینٹری فیوج پروڈکشن کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔

’جارحیت کی جنگ میں‘ آئی اے ای اے اسرائیل کی شراکت دار، ایرانی الزام

اسرائیل نے اراک (جسے خنداب بھی کہا جاتا ہے) پر بھی حملہ کیا۔

آئی اے ای اے کے مطابق، اسرائیلی فوجی حملوں نے خنداب ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر کو نشانہ بنایا، جو زیر تعمیر تھا اور ابھی آپریشنل نہیں ہوا تھا جبکہ قریبی ہیوی واٹر بنانے والے پلانٹ کو بھی نقصان پہنچایا۔ آئی اے ای اے نے کہا کے مطابق یہ پلانٹ آپریشنل نہیں تھا اور اس میں کوئی جوہری مواد موجود نہیں تھا، اس لیے تابکاری کے کوئی اثرات نہیں دیکھے گئے۔

آئی اے ای اے نے آج بروز جمعے کو اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا کہ اس مقام پر اہم عمارتیں متاثر ہوئیں۔ ہیوی واٹر ری ایکٹرز سے پلوٹونیم تیار کیا جا سکتا ہے، جو افزودہ یورینیم کی طرح ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

ان حملوں سے کون سے خطرات ہیں؟

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف لیورپول کے پروفیسر پیٹر برائنٹ، جو تابکاری تحفظ سائنس اور جوہری توانائی کی پالیسی کے ماہر ہیں، نے کہا کہ اب تک کے حملوں سے تابکاری کا زیادہ خطرہ نہیں ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ اراک کی تنصیبات آپریشنل نہیں تھیں، جبکہ نطنز کی سہولت زیر زمین ہے اور تابکاری اخراج کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ انہوں نے کہا، ''اصل سوال یہ ہے کہ اس سہولت کے اندر کیا ہوا، لیکن جوہری تنصیبات اس کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔ یورینیم صرف اس صورت میں خطرناک ہے، جب اسے سانس کے ذریعے یا کھانے کے ذریعے جسم میں داخل کیا جائے یا کم افزودگی پر جسم میں داخل ہو۔

‘‘

لندن کے تھنک ٹینک آر یو ایس آئی کی سینئر ریسرچ فیلو داریہ دولزیکووا نے کہا کہ جوہری ایندھن کے ابتدائی مراحل (جہاں یورینیم کو ری ایکٹر کے لیے تیار کیا جاتا ہے) پر حملوں سے بنیادی طور پر کیمیائی خطرات ہوتے ہیں، نہ کہ تابکاری خطرات۔

افزودگی کی سہولیات میں، یورینیم ہیکسا فلورائیڈ (UF6) تشویش کا باعث ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''جب UF6 ہوا میں موجود پانی کے بخارات کے ساتھ تعامل کرتی ہے، تو اس سے نقصان دہ کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں۔

‘‘

کسی بھی مواد کے پھیلاؤ کی حد کا انحصار موسم سمیت دیگر عوامل پر بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''کم ہواؤں میں، زیادہ تر زہریلا مواد سہولت کے آس پاس جمع ہو جاتا ہے جبکہ تیز ہواؤں میں، مواد دور تک جاتا ہے اور زیادہ پھیل جاتا ہے۔‘‘ تاہم زیر زمین تنصیبات میں تابکاری کے پھیلاؤ کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف لیسٹر کے سول سیفٹی اینڈ سکیورٹی یونٹ کے سربراہ سائمن بینیٹ کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل زیر زمین تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے تو ماحولیاتی خطرات کم ہوتے ہیں کیونکہ ''آپ جوہری مواد کو ممکنہ طور پر ہزاروں ٹن کنکریٹ، مٹی اور چٹانوں میں دبا رہے ہیں۔

‘‘ جوہری ری ایکٹرز کا کیا حال ہے؟

سب سے بڑی تشویش ایران کے بوشہر میں واقع جوہری ری ایکٹر پر حملہ ہے۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کے ایپی ڈیمیالوجی کے اعزازی پروفیسر رچرڈ ویک فورڈ کہتے ہیں کہ افزودگی کی سہولیات پر حملوں سے آلودگی ''بنیادی طور پر ایک کیمیائی مسئلہ‘‘ ہو گا تاہم بڑے پاور ری ایکٹرز کو وسیع نقصان ''ایک مختلف کہانی‘‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تابکار عناصر یا تو غیر مستحکم مادوں کے بادل کے ذریعے یا سمندر میں خارج ہو سکتے ہیں۔

کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے شریک ڈائریکٹر جیمز ایکٹن بتاتے ہیں کہ بوشہر پر حملہ ''ایک مکمل تابکاری تباہی‘‘ کا باعث بن سکتا ہے، لیکن افزودگی کی سہولیات پر حملوں سے ''اہم آف سائٹ نتائج‘‘ کا امکان کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوہری ری ایکٹر میں جانے سے پہلے یورینیم بمشکل تابکار ہوتا ہے، ''یورینیم ہیکسا فلورائیڈ کی کیمیائی شکل زہریلی ہوتی ہے، لیکن یہ زیادہ فاصلے تک نہیں جاتی اور یہ بمشکل تابکار ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے اسرائیلی حملوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ''تاہم اب تک اسرائیلی حملوں کے تابکاری نتائج تقریباً صفر رہے ہیں۔

‘‘

یونیورسٹی آف لیسٹر کے بینیٹ نے کہا کہ بوشہر پر حملہ کرنا اسرائیلیوں کے لیے ''احمقانہ اقدام‘‘ ہو گا کیونکہ اس سے ری ایکٹر کی دیوار ٹوٹ سکتی ہے، جس سے تابکار مواد فضا میں خارج ہو گا۔

خلیجی ریاستیں کیوں پریشان ہیں؟

خلیجی ریاستوں کے لیے، بوشہر پر کسی بھی حملے کے اثرات خلیج کے پانیوں کی ممکنہ آلودگی سے مزید سنگین ہو سکتے ہیں، جو کہ پینے کے صاف پانی کے ایک اہم ذریعے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں 80 فیصد سے زیادہ پینے کا پانی صاف شدہ سمندری پانی پر مشتمل ہے، جبکہ بحرین 2016ء سے مکمل طور پر سمندر کے صاف شدہ پانی پر انحصار کرتا ہے۔ خلیجی حکام کے مطابق زیر زمین پانی کو ہنگامی منصوبوں کے لیے محفوظ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح قطر 100 فیصد سمندری صاف شدہ پانی پر انحصار کرتا ہے۔

سعودی عرب ایک بڑا ملک ہے اور اس کے پاس قدرتی زیر زمین پانی کے زیادہ ذخائر ہیں۔

تاہم سن 2023 تک اس کی تقریباً 50 فیصد پانی کی فراہمی صاف شدہ سمندری پانی سے آتی تھی۔ اگرچہ سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے کچھ خلیجی ممالک کے پاس پانی کے حصول کے لیے ایک سے زیادہ سمندروں تک رسائی ہے، لیکن قطر، بحرین اور کویت جیسے ممالک خلیج کے ساحل پر واقع ہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا ساحل نہیں ہے۔

ابوظہبی کے واٹر ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر اور پروفیسر انجینئرنگ نضال ہلال کہتے ہیں، ''اگر کوئی قدرتی آفت، تیل کا اخراج یا حتیٰ کہ ایک حملہ پلانٹ کو متاثر کرے، تو لاکھوں لوگ تقریباً فوری طور پر تازہ پانی تک رسائی کھو سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: رابعہ بگٹی

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یونیورسٹی آف انہوں نے کہا آئی اے ای اے کی سہولیات نے کہا کہ سکتے ہیں کے ذریعے پر حملوں ری ایکٹر حملوں سے صاف شدہ جاتا ہے ہوتا ہے پر حملہ پانی کے کے لیے

پڑھیں:

پرامن جوہری توانائی کا حصول ایران کا حق، شہباز شریف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایران کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق پُرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی حاصل کرنے کا مکمل حق حاصل ہے اور پاکستان اس اصولی مؤقف کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بات آج بروز اتوار اسلام آباد میں ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس سے قبل ایرانی صدر کا وزیراعظم ہاؤس پہنچنے پر پُرتپاک استقبال کیا گیا۔ یہ ان کا بطور صدر پاکستان کا پہلا باضابطہ دورہ ہے۔ ان کے ہمراہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی، سینئر وزرا اور اعلیٰ حکام پر مشتمل اعلیٰ سطحی وفد بھی موجود تھا۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان گزشتہ دو برسوں میں پاکستان کا دورہ کرنے والے دوسرے ایرانی صدر ہیں۔

(جاری ہے)

ان سے قبل صدر ابراہیم رئیسی نے اپریل 2024 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ موجودہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے، جب دونوں ممالک کو خطے میں کشیدگی اور معاشی دباؤ جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔

دونوں ممالک نے بارہ شعبوں میں باہمی تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ ان میں سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت، ثقافت، ورثہ، موسمیاتی تبدیلی، آفات سے نمٹنے، میری ٹائم سیفٹی، فائر فائٹنگ، عدالتی معاونت، اصلاحات، اور فضائی حفاظت کے شعبہ جات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مصنوعات کے معیار اور آزاد تجارتی معاہدے پر عملدرآمد سے متعلق مشترکہ اعلامیہ بھی شامل ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے یہ مفاہمتی یادداشتیں جلد معاہدوں میں تبدیل ہوں اور دونوں ممالک باہمی تجارت کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک لے جائیں۔ فی الحال دو طرفہ تجارت کا حجم تقریباً تین ارب ڈالر ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ایران پر اسرائیل کا حملہ بلاجواز تھا۔

انہوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مہذب دنیا کو مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ ان کے بقول مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی غزہ سے مختلف نہیں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک مشترکہ اقتصادی زونز اور سرحدی تجارت کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جبکہ سرحدی سکیورٹی بہتر بنانے پر بھی تعاون جاری ہے۔

دوطرفہ تعلقات میں 'نیا اعتماد‘

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، '' ایران-اسرائیل جنگ میں پاکستان کی تہران کے لیے حمایت کے بعد پاک ایران تعلقات میں نیا اعتماد آیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''بھارتی کردار کے باعث خطے میں کشیدگی موجود ہے کیونکہ ایران نے جاسوسی کے شبے میں حالیہ گرفتاریوں میں بھارتی شہریوں کو بھی شامل بتایا ہے۔

‘‘

ڈاکٹر عسکری نے کہا کہ ایران اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو ترتیب دے رہا ہے ، '' اگرچہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر امریکی پابندیاں برقرار رہیں گی تاہم بارڈر مارکیٹس اور چھوٹے تجارتی اقدامات پر امریکہ کو اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘

تجزیہ کار نسیم زہرہ کے مطابق پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاملہ عدالت میں ہے اور ایران تاخیر پر ہرجانہ بھی طلب کر سکتا ہے، اس لیے اس منصوبے کے مستقبل پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

ڈاکٹر ارم خالد کے مطابق پاکستان اور ایران کو بھارت اور اسرائیل کی مخالفت کا سامنا ہے، مگر حالیہ جنگوں میں دونوں ممالک نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے عالمی رائے بدل سکتی ہے۔ ان کے بقول، '' پاک ایران تعاون نہ صرف خطے بلکہ عالمی سفارت کاری پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے اور پاکستان مستقبل میں ایران اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان بات چیت میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔

‘‘ پاکستان کا 'بیلنسنگ ایکٹ‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ثقلین امام کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران کے معاملے میں سفارتی توازن قائم رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''

پاکستان کے لیے واشنگٹن کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھتے ہوئے تہران کے ساتھ بھی سفارتی روابط رکھنا ایک ''بیلنسنگ ایکٹ‘‘ ہے۔

اور فی الحال اسلام آباد کسی نہ کسی طرح یہ توازن قائم رکھے ہوئے ہے۔‘‘ تاہم ثقلین امام کے بقول یہ روابط زیادہ تر زبانی حد تک محدود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’’وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر کا پرتپاک استقبال ضرور کیا لیکن ملکی فوجی قیادت کی غیر موجودگی معنی خیز تھی۔ پاکستان میں فوج کا خارجہ پالیسی پر اثرو رسوخ دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ (فوج) خود کو ایران کی مغرب مخالف حکمت عملی سے دور رکھنا چاہتی ہے۔

‘‘

ثقلین امام کے بقول ایرانی صدر کا یہ دورہ بظاہر ایران کی علاقائی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش تھا لیکن پاکستان میں اصل طاقت کے مراکز کے ردعمل نے واضح کر دیا کہ ایران کا اثر و رسوخ محدود ہے۔ امام کے بقول، ''یہ دورہ درحقیقت مسلم دنیا میں تقسیم، پاکستان کی امریکہ اور چین کے درمیان توازن کی حکمت عملی اور ایران کی سفارتی تنہائی کی جھلک پیش کرتا ہے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • پرامن جوہری توانائی کا حصول ایران کا حق، شہباز شریف
  • اسرائیلی حملے کا خطرہ برقرار ہے، ایرانی آرمی چیف
  • اسرائیلی حملوں کیخلاف حمایت پر پاکستان کے شکر گزار ہیں، مسلم امہ کا اتحاد ناگزیر ہے، ایرانی صدر
  • ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جوہری طاقت حاصل کرنے کا پور احق ہے، شہباز شریف
  • اسرائیلی جارحیت جاری، غزہ میں امدادی مراکز پر حملے، 57 فلسطینی شہید
  • گورننگ کونسل میں ایران کیخلاف قرارداد کے 1 روز بعد ہی تہران پر حملہ محض اتفاق نہیں، ماسکو
  • ایران کی پُرامن جوہری افزودگی بھی قابل قبول نہیں، برطانوی وزیر خارجہ
  • حماس نے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو حملے بغیر رکے جاری رہیں گے؛ اسرائیلی آرمی چیف
  • غزہ: بھوک نے مزید 12 افراد کی جان لے لی، اسرائیلی حملوں میں 100سے زائد فلسطینی شہید
  • آبادی اور ماحولیاتی آلودگی