UrduPoint:
2025-09-19@19:36:27 GMT

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فوجی مہم کے ذریعے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن وہ اس خطے میں جوہری تباہی سے بھی بچنا چاہتا ہے، جہاں کروڑوں لوگ رہتے ہیں اور دنیا کا زیادہ تر تیل پیدا ہوتا ہے۔

خلیج میں تباہی کے خدشات اس وقت بڑھ گئے، جب اسرائیلی فوج نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اس نے خلیج کے ساحل پر واقع بوشہر میں ایک مقام پر حملہ کیا، جہاں ایران کا واحد جوہری پاور اسٹیشن ہے۔

تاہم بعد میں اس نے کہا کہ یہ اعلان غلطی سے کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اب تک کن مقامات کو نشانہ بنایا؟

اسرائیل نے نطنز، اصفہان، اراک اور تہران میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی تصدیق کی ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنا ہے۔ تاہم ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ کبھی ایٹم بم بنانا چاہتا تھا۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے رپورٹ کیا ہے کہ نطنز میں یورینیم افزودگی کے پلانٹ، اصفہان کے جوہری کمپلیکس (بشمول یورینیم کنورژن فیسیلٹی) اور تہران میں سینٹری فیوج پروڈکشن کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔

’جارحیت کی جنگ میں‘ آئی اے ای اے اسرائیل کی شراکت دار، ایرانی الزام

اسرائیل نے اراک (جسے خنداب بھی کہا جاتا ہے) پر بھی حملہ کیا۔

آئی اے ای اے کے مطابق، اسرائیلی فوجی حملوں نے خنداب ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر کو نشانہ بنایا، جو زیر تعمیر تھا اور ابھی آپریشنل نہیں ہوا تھا جبکہ قریبی ہیوی واٹر بنانے والے پلانٹ کو بھی نقصان پہنچایا۔ آئی اے ای اے نے کہا کے مطابق یہ پلانٹ آپریشنل نہیں تھا اور اس میں کوئی جوہری مواد موجود نہیں تھا، اس لیے تابکاری کے کوئی اثرات نہیں دیکھے گئے۔

آئی اے ای اے نے آج بروز جمعے کو اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا کہ اس مقام پر اہم عمارتیں متاثر ہوئیں۔ ہیوی واٹر ری ایکٹرز سے پلوٹونیم تیار کیا جا سکتا ہے، جو افزودہ یورینیم کی طرح ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

ان حملوں سے کون سے خطرات ہیں؟

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف لیورپول کے پروفیسر پیٹر برائنٹ، جو تابکاری تحفظ سائنس اور جوہری توانائی کی پالیسی کے ماہر ہیں، نے کہا کہ اب تک کے حملوں سے تابکاری کا زیادہ خطرہ نہیں ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ اراک کی تنصیبات آپریشنل نہیں تھیں، جبکہ نطنز کی سہولت زیر زمین ہے اور تابکاری اخراج کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ انہوں نے کہا، ''اصل سوال یہ ہے کہ اس سہولت کے اندر کیا ہوا، لیکن جوہری تنصیبات اس کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔ یورینیم صرف اس صورت میں خطرناک ہے، جب اسے سانس کے ذریعے یا کھانے کے ذریعے جسم میں داخل کیا جائے یا کم افزودگی پر جسم میں داخل ہو۔

‘‘

لندن کے تھنک ٹینک آر یو ایس آئی کی سینئر ریسرچ فیلو داریہ دولزیکووا نے کہا کہ جوہری ایندھن کے ابتدائی مراحل (جہاں یورینیم کو ری ایکٹر کے لیے تیار کیا جاتا ہے) پر حملوں سے بنیادی طور پر کیمیائی خطرات ہوتے ہیں، نہ کہ تابکاری خطرات۔

افزودگی کی سہولیات میں، یورینیم ہیکسا فلورائیڈ (UF6) تشویش کا باعث ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''جب UF6 ہوا میں موجود پانی کے بخارات کے ساتھ تعامل کرتی ہے، تو اس سے نقصان دہ کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں۔

‘‘

کسی بھی مواد کے پھیلاؤ کی حد کا انحصار موسم سمیت دیگر عوامل پر بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''کم ہواؤں میں، زیادہ تر زہریلا مواد سہولت کے آس پاس جمع ہو جاتا ہے جبکہ تیز ہواؤں میں، مواد دور تک جاتا ہے اور زیادہ پھیل جاتا ہے۔‘‘ تاہم زیر زمین تنصیبات میں تابکاری کے پھیلاؤ کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف لیسٹر کے سول سیفٹی اینڈ سکیورٹی یونٹ کے سربراہ سائمن بینیٹ کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل زیر زمین تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے تو ماحولیاتی خطرات کم ہوتے ہیں کیونکہ ''آپ جوہری مواد کو ممکنہ طور پر ہزاروں ٹن کنکریٹ، مٹی اور چٹانوں میں دبا رہے ہیں۔

‘‘ جوہری ری ایکٹرز کا کیا حال ہے؟

سب سے بڑی تشویش ایران کے بوشہر میں واقع جوہری ری ایکٹر پر حملہ ہے۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کے ایپی ڈیمیالوجی کے اعزازی پروفیسر رچرڈ ویک فورڈ کہتے ہیں کہ افزودگی کی سہولیات پر حملوں سے آلودگی ''بنیادی طور پر ایک کیمیائی مسئلہ‘‘ ہو گا تاہم بڑے پاور ری ایکٹرز کو وسیع نقصان ''ایک مختلف کہانی‘‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تابکار عناصر یا تو غیر مستحکم مادوں کے بادل کے ذریعے یا سمندر میں خارج ہو سکتے ہیں۔

کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے شریک ڈائریکٹر جیمز ایکٹن بتاتے ہیں کہ بوشہر پر حملہ ''ایک مکمل تابکاری تباہی‘‘ کا باعث بن سکتا ہے، لیکن افزودگی کی سہولیات پر حملوں سے ''اہم آف سائٹ نتائج‘‘ کا امکان کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوہری ری ایکٹر میں جانے سے پہلے یورینیم بمشکل تابکار ہوتا ہے، ''یورینیم ہیکسا فلورائیڈ کی کیمیائی شکل زہریلی ہوتی ہے، لیکن یہ زیادہ فاصلے تک نہیں جاتی اور یہ بمشکل تابکار ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے اسرائیلی حملوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ''تاہم اب تک اسرائیلی حملوں کے تابکاری نتائج تقریباً صفر رہے ہیں۔

‘‘

یونیورسٹی آف لیسٹر کے بینیٹ نے کہا کہ بوشہر پر حملہ کرنا اسرائیلیوں کے لیے ''احمقانہ اقدام‘‘ ہو گا کیونکہ اس سے ری ایکٹر کی دیوار ٹوٹ سکتی ہے، جس سے تابکار مواد فضا میں خارج ہو گا۔

خلیجی ریاستیں کیوں پریشان ہیں؟

خلیجی ریاستوں کے لیے، بوشہر پر کسی بھی حملے کے اثرات خلیج کے پانیوں کی ممکنہ آلودگی سے مزید سنگین ہو سکتے ہیں، جو کہ پینے کے صاف پانی کے ایک اہم ذریعے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں 80 فیصد سے زیادہ پینے کا پانی صاف شدہ سمندری پانی پر مشتمل ہے، جبکہ بحرین 2016ء سے مکمل طور پر سمندر کے صاف شدہ پانی پر انحصار کرتا ہے۔ خلیجی حکام کے مطابق زیر زمین پانی کو ہنگامی منصوبوں کے لیے محفوظ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح قطر 100 فیصد سمندری صاف شدہ پانی پر انحصار کرتا ہے۔

سعودی عرب ایک بڑا ملک ہے اور اس کے پاس قدرتی زیر زمین پانی کے زیادہ ذخائر ہیں۔

تاہم سن 2023 تک اس کی تقریباً 50 فیصد پانی کی فراہمی صاف شدہ سمندری پانی سے آتی تھی۔ اگرچہ سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے کچھ خلیجی ممالک کے پاس پانی کے حصول کے لیے ایک سے زیادہ سمندروں تک رسائی ہے، لیکن قطر، بحرین اور کویت جیسے ممالک خلیج کے ساحل پر واقع ہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا ساحل نہیں ہے۔

ابوظہبی کے واٹر ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر اور پروفیسر انجینئرنگ نضال ہلال کہتے ہیں، ''اگر کوئی قدرتی آفت، تیل کا اخراج یا حتیٰ کہ ایک حملہ پلانٹ کو متاثر کرے، تو لاکھوں لوگ تقریباً فوری طور پر تازہ پانی تک رسائی کھو سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: رابعہ بگٹی

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یونیورسٹی آف انہوں نے کہا آئی اے ای اے کی سہولیات نے کہا کہ سکتے ہیں کے ذریعے پر حملوں ری ایکٹر حملوں سے صاف شدہ جاتا ہے ہوتا ہے پر حملہ پانی کے کے لیے

پڑھیں:

عالمی پانی کا نظام غیر مستحکم ہوگیا ، سیلاب اور خشک سالی کے خطرات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے . عالمی موسمیاتی ادارہ

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 ستمبر ۔2025 )عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کہا ہے کہ دنیا کے پانی کا نظام غیر مستحکم ہو گیا ہے اور سیلاب اور خشک سالی کے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں رپورٹ کے مطابق عالمی موسمیاتی ادارے نے بتایا ہے کہ پانی کا نظام اب تیزی سے غیر مستحکم اور شدید ہوگیا ہے، جس کے باعث پانی کے بہاﺅ میں اتار چڑھا ﺅآرہا ہے اور کبھی سیلاب، کبھی خشک سالی دیکھنے کو مل رہی ہے.

(جاری ہے)

ڈبلیو ایم او کی رپورٹ میں زیادہ یا کم پانی کے لوگوں کی زندگی اور معیشت پر پڑنے والے اثرات کو بیان کیا گیا ہے 2024 میں دنیا کے صرف ایک تہائی دریاﺅں کے علاقے عام حالات میں تھے، جب کہ باقی علاقے یا تو زیادہ پانی یا کم پانی والے تھے اور یہ مسلسل چھٹے سال ہے کہ پانی کے نظام میں توازن نہیں رہا سال 2024 مسلسل تیسرے سال کے لئے گلیشیئر کے بڑے پیمانے پر پگھلنے کا سال تھا، کئی چھوٹے گلیشیئر والے علاقے پہلے ہی یا جلد اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں گلیشیئر اپنا زیادہ سے زیادہ پانی بہا چکا ہوتا ہے اور اس کے بعد گلیشیئر کے سکڑنے کی وجہ سے پانی کا بہا ﺅکم ہونا شروع ہو جاتا ہے 1990 کی دہائی سے تقریبا ہر جگہ گلیشیئر پگھلنے لگے ہیں اور 2000 کے بعد یہ عمل اور بھی تیز ہو گیا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گرمیوں میں برف زیادہ پگھل رہی ہے اور سردیوں میں نئی برف جمع ہونے کی شرح کم ہے، 2024 میں گلیشیئر نے 450 گیگا ٹن پانی کھویا، جو دنیا کے سمندر کی سطح میں 1.2 ملی میٹر اضافے کے برابر ہے.

ڈبلیو ایم او کی سیکرٹری جنرل سیلسٹ سالو نے کہا کہ پانی ہمارے معاشرے کی زندگی کے لیے ضروری ہے، یہ ہماری معیشت چلانے میں مدد دیتا ہے اور ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھتا ہے، لیکن دنیا کے پانی کے وسائل پر دبا بڑھ رہا ہے اور پانی سے جڑے شدید خطرات لوگوں کی زندگی اور روزگار پر زیادہ اثر ڈال رہے ہیں اقوام متحدہ کے واٹر کے مطابق تقریبا 3 ارب 6 کروڑ افراد سال میں کم از کم ایک مہینے کے لیے صاف پانی تک نہیں پہنچ پاتے اور توقع ہے کہ 2050 تک یہ تعداد 5 ارب سے زیادہ ہو جائے گی، دنیا پانی اور صفائی کے حوالے سے مقررہ ترقیاتی ہدف 6 سے کافی پیچھے ہے.

رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں دنیا کے صرف ایک تہائی دریاں کے علاقوں میں پانی کا بہا عام حالات کے مطابق رہا، جب کہ باقی دو تہائی علاقوں میں پانی یا تو زیادہ تھا یا کم، جو پانی کے نظام کے بڑھتے ہوئے غیر مستحکم ہونے کو ظاہر کرتا ہے 2024 میں دنیا کے تقریبا 60 فیصد علاقوں میں دریا کا پانی عام حالت سے مختلف تھا، گزشتہ چھ سالوں میں بھی دنیا کے صرف ایک تہائی علاقوں میں پانی کا بہا معمول کے مطابق رہا 2024 میں وسطی اور شمالی یورپ اور ایشیا کے کچھ علاقوں، جیسے قازقستان اور روس کے دریاﺅں میں پانی کا بہا ﺅ معمول سے زیادہ یا بہت زیادہ رہا اہم دریاں جیسے ڈینوب، گنگا، گوداوری اور سندھ میں پانی کی سطح معمول سے زیادہ تھی، زیر زمین پانی کی سطح جانچنے کے لیے 47 ممالک کے 37 ہزار 406 اسٹیشنز کا ڈیٹا استعمال کیا گیا.

زیر زمین پانی کی سطح مقامی علاقوں میں مختلف ہوتی ہے کیونکہ زمین کے اندر پانی کے ذخائر اور انسانی سرگرمیاں، جیسے پمپنگ اثر ڈالتی ہیں، لیکن بڑے علاقوں میں کچھ واضح رجحانات دیکھے گئے 2024 میں مطالعہ کیے گئے اسٹیشنز میں سے 38 فیصد میں پانی کی سطح معمول کے مطابق تھی، 25 فیصد میں کم یا بہت کم تھی اور 37 فیصد میں زیادہ یا بہت زیادہ تھی تاریخی جائزے کے مطابق دنیا کے تقریبا 30 فیصد علاقے میں خشک حالات تھے، 30 فیصد میں حالات معمول کے مطابق تھے اور باقی 30 فیصد میں پانی زیادہ تھا 2024 میں خشک علاقوں کا رقبہ 2023 کے مقابلے میں کم ہو گیا، جب کہ پانی زیادہ والے علاقوں کا رقبہ تقریبا دوگنا بڑھ گیا. 

متعلقہ مضامین

  • جنوبی لبنان میں اسرائیلی فضائی حملے، اقوام متحدہ کی شدید مذمت
  • عالمی پانی کا نظام غیر مستحکم ہوگیا ، سیلاب اور خشک سالی کے خطرات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے . عالمی موسمیاتی ادارہ
  • سلامتی کونسل: کیا ایران پر آج دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی، احمد حسن العربی
  • مسجد، اسپتال اور رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر، 83 فلسطینی شہید
  • اسرائیلی طیاروں نے دوحہ پر بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر سے فائر کیے، امریکی اہلکار
  • اسرائیل سے خطرات،عرب ممالک متحرک،اہم سیکیورٹی اقدامات کا اعلان,مشترکہ فضائی نظام،خلیج دفاعی اتحاد کی تشکیل شامل
  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا
  • اسرائیل کے حملوں سے ہماری کارروائیوں میں شدت آئیگی، یمن
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان