UrduPoint:
2025-06-20@20:04:17 GMT

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فوجی مہم کے ذریعے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن وہ اس خطے میں جوہری تباہی سے بھی بچنا چاہتا ہے، جہاں کروڑوں لوگ رہتے ہیں اور دنیا کا زیادہ تر تیل پیدا ہوتا ہے۔

خلیج میں تباہی کے خدشات اس وقت بڑھ گئے، جب اسرائیلی فوج نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اس نے خلیج کے ساحل پر واقع بوشہر میں ایک مقام پر حملہ کیا، جہاں ایران کا واحد جوہری پاور اسٹیشن ہے۔

تاہم بعد میں اس نے کہا کہ یہ اعلان غلطی سے کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اب تک کن مقامات کو نشانہ بنایا؟

اسرائیل نے نطنز، اصفہان، اراک اور تہران میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی تصدیق کی ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنا ہے۔ تاہم ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ کبھی ایٹم بم بنانا چاہتا تھا۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے رپورٹ کیا ہے کہ نطنز میں یورینیم افزودگی کے پلانٹ، اصفہان کے جوہری کمپلیکس (بشمول یورینیم کنورژن فیسیلٹی) اور تہران میں سینٹری فیوج پروڈکشن کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔

’جارحیت کی جنگ میں‘ آئی اے ای اے اسرائیل کی شراکت دار، ایرانی الزام

اسرائیل نے اراک (جسے خنداب بھی کہا جاتا ہے) پر بھی حملہ کیا۔

آئی اے ای اے کے مطابق، اسرائیلی فوجی حملوں نے خنداب ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر کو نشانہ بنایا، جو زیر تعمیر تھا اور ابھی آپریشنل نہیں ہوا تھا جبکہ قریبی ہیوی واٹر بنانے والے پلانٹ کو بھی نقصان پہنچایا۔ آئی اے ای اے نے کہا کے مطابق یہ پلانٹ آپریشنل نہیں تھا اور اس میں کوئی جوہری مواد موجود نہیں تھا، اس لیے تابکاری کے کوئی اثرات نہیں دیکھے گئے۔

آئی اے ای اے نے آج بروز جمعے کو اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا کہ اس مقام پر اہم عمارتیں متاثر ہوئیں۔ ہیوی واٹر ری ایکٹرز سے پلوٹونیم تیار کیا جا سکتا ہے، جو افزودہ یورینیم کی طرح ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

ان حملوں سے کون سے خطرات ہیں؟

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف لیورپول کے پروفیسر پیٹر برائنٹ، جو تابکاری تحفظ سائنس اور جوہری توانائی کی پالیسی کے ماہر ہیں، نے کہا کہ اب تک کے حملوں سے تابکاری کا زیادہ خطرہ نہیں ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ اراک کی تنصیبات آپریشنل نہیں تھیں، جبکہ نطنز کی سہولت زیر زمین ہے اور تابکاری اخراج کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ انہوں نے کہا، ''اصل سوال یہ ہے کہ اس سہولت کے اندر کیا ہوا، لیکن جوہری تنصیبات اس کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔ یورینیم صرف اس صورت میں خطرناک ہے، جب اسے سانس کے ذریعے یا کھانے کے ذریعے جسم میں داخل کیا جائے یا کم افزودگی پر جسم میں داخل ہو۔

‘‘

لندن کے تھنک ٹینک آر یو ایس آئی کی سینئر ریسرچ فیلو داریہ دولزیکووا نے کہا کہ جوہری ایندھن کے ابتدائی مراحل (جہاں یورینیم کو ری ایکٹر کے لیے تیار کیا جاتا ہے) پر حملوں سے بنیادی طور پر کیمیائی خطرات ہوتے ہیں، نہ کہ تابکاری خطرات۔

افزودگی کی سہولیات میں، یورینیم ہیکسا فلورائیڈ (UF6) تشویش کا باعث ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''جب UF6 ہوا میں موجود پانی کے بخارات کے ساتھ تعامل کرتی ہے، تو اس سے نقصان دہ کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں۔

‘‘

کسی بھی مواد کے پھیلاؤ کی حد کا انحصار موسم سمیت دیگر عوامل پر بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''کم ہواؤں میں، زیادہ تر زہریلا مواد سہولت کے آس پاس جمع ہو جاتا ہے جبکہ تیز ہواؤں میں، مواد دور تک جاتا ہے اور زیادہ پھیل جاتا ہے۔‘‘ تاہم زیر زمین تنصیبات میں تابکاری کے پھیلاؤ کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف لیسٹر کے سول سیفٹی اینڈ سکیورٹی یونٹ کے سربراہ سائمن بینیٹ کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل زیر زمین تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے تو ماحولیاتی خطرات کم ہوتے ہیں کیونکہ ''آپ جوہری مواد کو ممکنہ طور پر ہزاروں ٹن کنکریٹ، مٹی اور چٹانوں میں دبا رہے ہیں۔

‘‘ جوہری ری ایکٹرز کا کیا حال ہے؟

سب سے بڑی تشویش ایران کے بوشہر میں واقع جوہری ری ایکٹر پر حملہ ہے۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کے ایپی ڈیمیالوجی کے اعزازی پروفیسر رچرڈ ویک فورڈ کہتے ہیں کہ افزودگی کی سہولیات پر حملوں سے آلودگی ''بنیادی طور پر ایک کیمیائی مسئلہ‘‘ ہو گا تاہم بڑے پاور ری ایکٹرز کو وسیع نقصان ''ایک مختلف کہانی‘‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تابکار عناصر یا تو غیر مستحکم مادوں کے بادل کے ذریعے یا سمندر میں خارج ہو سکتے ہیں۔

کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے شریک ڈائریکٹر جیمز ایکٹن بتاتے ہیں کہ بوشہر پر حملہ ''ایک مکمل تابکاری تباہی‘‘ کا باعث بن سکتا ہے، لیکن افزودگی کی سہولیات پر حملوں سے ''اہم آف سائٹ نتائج‘‘ کا امکان کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوہری ری ایکٹر میں جانے سے پہلے یورینیم بمشکل تابکار ہوتا ہے، ''یورینیم ہیکسا فلورائیڈ کی کیمیائی شکل زہریلی ہوتی ہے، لیکن یہ زیادہ فاصلے تک نہیں جاتی اور یہ بمشکل تابکار ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے اسرائیلی حملوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ''تاہم اب تک اسرائیلی حملوں کے تابکاری نتائج تقریباً صفر رہے ہیں۔

‘‘

یونیورسٹی آف لیسٹر کے بینیٹ نے کہا کہ بوشہر پر حملہ کرنا اسرائیلیوں کے لیے ''احمقانہ اقدام‘‘ ہو گا کیونکہ اس سے ری ایکٹر کی دیوار ٹوٹ سکتی ہے، جس سے تابکار مواد فضا میں خارج ہو گا۔

خلیجی ریاستیں کیوں پریشان ہیں؟

خلیجی ریاستوں کے لیے، بوشہر پر کسی بھی حملے کے اثرات خلیج کے پانیوں کی ممکنہ آلودگی سے مزید سنگین ہو سکتے ہیں، جو کہ پینے کے صاف پانی کے ایک اہم ذریعے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں 80 فیصد سے زیادہ پینے کا پانی صاف شدہ سمندری پانی پر مشتمل ہے، جبکہ بحرین 2016ء سے مکمل طور پر سمندر کے صاف شدہ پانی پر انحصار کرتا ہے۔ خلیجی حکام کے مطابق زیر زمین پانی کو ہنگامی منصوبوں کے لیے محفوظ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح قطر 100 فیصد سمندری صاف شدہ پانی پر انحصار کرتا ہے۔

سعودی عرب ایک بڑا ملک ہے اور اس کے پاس قدرتی زیر زمین پانی کے زیادہ ذخائر ہیں۔

تاہم سن 2023 تک اس کی تقریباً 50 فیصد پانی کی فراہمی صاف شدہ سمندری پانی سے آتی تھی۔ اگرچہ سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے کچھ خلیجی ممالک کے پاس پانی کے حصول کے لیے ایک سے زیادہ سمندروں تک رسائی ہے، لیکن قطر، بحرین اور کویت جیسے ممالک خلیج کے ساحل پر واقع ہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا ساحل نہیں ہے۔

ابوظہبی کے واٹر ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر اور پروفیسر انجینئرنگ نضال ہلال کہتے ہیں، ''اگر کوئی قدرتی آفت، تیل کا اخراج یا حتیٰ کہ ایک حملہ پلانٹ کو متاثر کرے، تو لاکھوں لوگ تقریباً فوری طور پر تازہ پانی تک رسائی کھو سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: رابعہ بگٹی

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یونیورسٹی آف انہوں نے کہا آئی اے ای اے کی سہولیات نے کہا کہ سکتے ہیں کے ذریعے پر حملوں ری ایکٹر حملوں سے صاف شدہ جاتا ہے ہوتا ہے پر حملہ پانی کے کے لیے

پڑھیں:

سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے رہائشی علاقے اور جوہری تنصیبات پر تازہ اسرائیلی حملے

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں، اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ہدف بنانے کی کھلی دھمکی کے بعد اسرائیل نے خامنہ ای کے رہائشی علاقے اور متعدد جوہری اہداف بھی نشانہ بنائے ہیں۔

ایرانی ذرائع کے مطابق تل ابیب نے تہران کے ’لاویزان‘ علاقے میں جو اعلیٰ عہدے داروں اور خامنہ ای کے قریبی حلقے کا رہائشی علاقہ سمجھا جاتا ہے، نئی فضائی کارروائی کی، جس سے وہاں آگ اور دھواں اٹھتا رپورٹ کیا گیا ہے۔

ایک اور حملے میں اسرائیل نے بڑے پیمانے پر نطنز، اراک، اسفہان اور خورم آباد سمیت جوہری مراکز پر حملے کیے۔ خاص طور پر ارا ک ہیوی واٹر ریئیکٹر کے گنبد پر حملہ ہوا، جہاں ایک بڑا گڑھا بن گیا۔ اقوام متحدہ کے IAEA کے مطابق وہاں ہلکی نوعیت کا جوہری مواد موجود تھا مگر ریکٹر کا ایندھن موجود نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: ایران کے تازہ و کاری ترین حملے پر اسرائیل بلبلا اٹھا، آیت اللہ خامنہ ای کو شہید کرنے کی دھمکی

ادھر امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوجی دباؤ میں اضافہ جاری رہا، تو یہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی راہ پر مجبور کر سکتا ہے۔ جوہری تنصیبات پر مسلسل حملوں کے پیش نظر یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔

ایران کے سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران خود نہایت محتاط انداز میں فیصلہ کرے گا کہ یہ جنگ کب اور کیسے ختم ہوگی، اور بیرونی طاقتوں کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیلی وزیر دفاع تل ابیب تہران سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای مشرق وسطیٰ

متعلقہ مضامین

  • ایرانی وزیر خارجہ کا دوٹوک مؤقف: اسرائیلی حملے بند نہ ہوئے تو جوہری مذاکرات نہیں ہوں گے
  • ایرانی حملوں سے اسرائیلی سائنسی تحقیق  تباہ، صہیونی سائنسدان مایوسی میں ڈوب گئے
  • ’ایران نے ابھی تک ’جدید ٹیکنالوجی‘ کے حامل استعمال نہیں کیے‘
  • سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے رہائشی علاقے اور جوہری تنصیبات پر تازہ اسرائیلی حملے
  • روس کا اسرائیل سے ایران کے جوہری اہداف پر حملے بند کرنے کا مطالبہ
  • اسرائیل میں ہسپتال پر ایرانی میزائل حملہ، درجنوں زخمی
  • اسرائیل کا بڑا دعویٰ: ایرانی راکٹ لانچر پر ڈرون حملے کی ویڈیو جاری
  • روس کا سخت ردعمل: اسرائیلی حملے دنیا کو ایٹمی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں
  • اسرائیلی حملوں سے ایرانی ایٹمی پروگرام کو کتنا نقصان پہنچا اور اس سے عوام کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟