Express News:
2025-09-22@10:20:14 GMT

ٹرمپ کی بنائی دیواریں

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

ٹرمپ اس دفعہ بھی وہی کر رہے ہیں جس کی ان سے توقع تھی۔ انھوں نے اپنی پہلی صدارت کے دوران نفرت، امتیاز اور ظلم کے وہ بیج بوئے جن کی بازگشت دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ ان کی واپسی صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ اس زوال کی علامت ہے جو سرمایہ دار تہذیب کے قلب سے پھوٹ رہی ہے، وہ تہذیب جو جمہوریت، مساوات اور انسانی حقوق کے نعرے لگاتے لگاتے خود اپنی بنیادیں بھول چکی ہے۔

ٹرمپ کی زبان میں جو زہر ہے وہ اتفاقیہ نہیں، یہ ایک سوچ کی نمایندگی کرتا ہے وہ سوچ جو کہتی ہے کہ صرف سفید فام انگریزی بولنے وال ہی اصل انسان ہے، باقی سب یا تو خطرہ ہیں یا بوجھ ، وہ مہاجر جو اپنی بستی جلنے کے بعد نئی زندگی کی تلاش میں امریکا آتا ہے، وہ عورت جو اپنی بچیوں کو طالبان سے بچا کر ایک آزاد فضا میں لانا چاہتی ہے، وہ نوجوان جو بھوک، گولی یا سمندر سے بچ کر ہجرت کرتا ہے، وہ سب ٹرمپ کے امریکا میں ناقابلِ قبول ہو جاتے ہیں۔

مجھے وہ مائیں یاد آتی ہیں جن کے معصوم بچوں کو امریکی سرحدوں پر ان سے چھین لیا گیا۔ وہ بچے جنھیں ایک جیل میں رکھا گیا اور ماں کو دوسری میں۔ سن کر ہی دل بیٹھ جاتا ہے، کیا یہ مہذب دنیا ہے؟ کیا یہی انسانی حقوق ہیں جن کا پرچار وائٹ ہاؤس سے کیا جاتا ہے؟ ٹرمپ کی صدارت نے یہ واضح کردیا ہے کہ انسانیت، انصاف اور ہمدردی اب صرف تقریروں میں پائے جاتے ہیں، حقیقت میں ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔

 وہ ملک جو خود مہاجرین سے وجود میں آیا، آج دوسروں کی ہجرت کو جرم بنا چکا ہے۔ امریکا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس سرزمین کے اصل باشندے ریڈ انڈینزکو تباہ کرکے یہ ملک تعمیرکیا گیا۔ پھر جرمنی، آئرلینڈ، پولینڈ، اٹلی، چین اور افریقہ سے لوگ آئے۔ کسی کو غلام بنا کر لایا گیا، کسی نے غربت سے بھاگ کر یہاں پناہ لی، ان ہی ہاتھوں سے وہ عمارتیں بنیں، وہ ریلیں چلیں، وہ جنگیں لڑی گئیں، جن کی بنیاد پر آج امریکا دنیا کی طاقتور ترین ریاست بنا بیٹھا ہے۔

ٹرمپ خود بھول گئے ہیں کہ ان کے دادا فریڈرک ٹرمپ 1885 میں جرمنی سے ہجرت کر کے امریکا آئے تھے۔ ان کی جیب میں نہ سرمایہ تھا، نہ طاقت اور نہ علم، صرف ایک خواب تھا، وہی خواب جو آج بھی کسی یمنی ،کسی نکارا گوا کے شہری، کسی پاکستانی یا افغانی کے دل میں پلتا ہے، اگر اُس وقت کا امریکا اُنھیں دروازے سے لوٹا دیتا تو آج وہ خود وائٹ ہاؤس تک نہ پہنچتے۔

مگر یاد داشت اگر کمزور ہو یا طاقت اگر سچ کو دبا دے تو تاریخ کی تذلیل ہونے لگتی ہے۔ اب ٹرمپ کہتے ہیں کہ یہ مہاجر امریکا کے لیے خطرہ ہیں، یہ منشیات لاتے ہیں، جرائم کرتے ہیں، ہماری نوکریاں چھین لیتے ہیں۔ یہ ہم اور وہ کی جو لکیر انھوں نے کھینچی ہے وہ صرف نسل پرستی نہیں بلکہ فسطائیت کی وہ شکل ہے جسے ہم یورپ کی تاریخ میں دیکھ چکے ہیں اور جس کا نتیجہ ہمیشہ بربادی ہی نکلا ہے۔

 یہ محض امریکا کا مسئلہ نہیں، یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، وہ یورپ جہاں ہٹلرکے خلاف لاکھوں جانیں قربان ہوئیں، آج وہی یورپ حجاب پر پابندی لگا رہا ہے، مسجدیں جلائی جا رہی ہیں اور پناہ گزینوں کی کشتیوں کو سمندر میں ڈوبنے دیا جا رہا ہے۔ انسان کا رنگ، مذہب اور زبان اب اس کے جینے یا مرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں اور اس بے رحمی کو قانون، آئین اور قومی سلامتی کا نام دیا جا رہا ہے۔

جب لوگوں کو مسلسل بتایا جائے کہ ایک مخصوص گروہ خطرہ ہے تو آہستہ آہستہ یہ سوچ نفرت کا رنگ لے لیتی ہے اور وہ نفرت سچائی میں ڈھلنے لگتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا؟ کیا ہٹلر اور مسو لینی کی تباہی کافی سبق نہ تھی؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی صرف امریکا کے لیے خطرہ نہیں بلکہ اس عالمی مزاحمت کی بھی آزمائش ہے جو ظلم کے خلاف اٹھتی ہے، جو لوگ نیویارک کی سڑکوں پر No ban No wall کے نعرے لگاتے رہے جو نوجوان مسلم بین کے خلاف عدالتوں میں گئے، جو صحافی اپنے کالموں میں سچ لکھتے رہے، آج ان کی آزمائش کا وقت ہے۔ اب صرف احتجاج کافی نہیں، اب ضمیر کی گواہی عمل میں بدلنی ہوگی۔

 مجھے وہ بچی یاد آتی ہے جس نے ٹرمپ کی پالیسی کے خلاف ایک پوسٹر اٹھایا تھا:

  am a child, not a threat.

I

کتنی سادہ بات ہے اورکتنی بھاری یہ وہ آواز ہے جو تاریخ کا رخ بدل سکتی ہے، اگر ہم سننے اور سمجھنے کے قابل ہوں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہجرت جرم نہیں، بقا کی کوشش ہے۔ وہ انسان جو اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر جان بچا پاتا ہے ، وہ کمزور نہیں، وہ تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے اور ہر ایسے انسان کے ساتھ ناانصافی پوری انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ میں جانتی ہوں، وہ دن آئیں گے، جب یہ دیواریں گریں گی جب سفید فام برتری کا جھوٹا خواب چکنا چور ہوگا اور جب وہ بچہ جو آج قید ہے،کل ایک شاعر، ایک سائنس دان یا ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا بنے گا اور دنیا کو یاد دلائے گا کہ انسانیت کو دیواروں سے نہیں دروازوں سے پہچانا جاتا ہے۔

ایک بے گھر بے زمین بچہ اور اس کی ماں جو انصاف کے متلاشی ہیں، اگر ان کے لیے زمین تنگ کردی جائے تو یہ دنیا آخرکس کے لیے رہ جائے گی؟ ہمیں وہ روشنی بننا ہوگا جو اندھیرے میں امید دکھائے، وہ آواز بننا ہوگا جو خاموش لبوں کو زبان دے، اگر ہم آج خاموش رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ایک دن یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا وقت بھی آیا تھا جب کسی کو صرف رنگ نام یا مذہب کے سبب دروازے پر روکا گیا تھا؟ اور تب ہم شرم سے آنکھیں جھکا دیں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے خلاف ٹرمپ کی کے لیے

پڑھیں:

ٹک ٹاک معاہدہ، بائٹ ڈانس کو امریکی آپریشنز میں بورڈ سیٹ مل گئی

امریکا اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ٹک ٹاک کی امریکی شاخ کے بورڈ میں سات میں سے ایک رکن بائٹ ڈانس منتخب کرے گا، جبکہ باقی چھ نشستیں امریکی ارکان کے پاس ہوں گی۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 170 ملین امریکی صارفین رکھنے والی اس ویڈیو ایپ پر پابندی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس نے 2024 میں قانون منظور کیا تھا جس کے تحت اگر بائٹ ڈانس نے جنوری 2025 تک امریکی اثاثے فروخت نہ کیے تو ٹک ٹاک کو بند کر دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک کا امریکی آپریشن امریکیوں کے کنٹرول میں ہوگا، وائٹ ہاؤس

ٹرمپ نے اس قانون پر عمل درآمد دسمبر کے وسط تک مؤخر کر دیا ہے تاکہ امریکی سرمایہ کاروں کو شامل کرکے ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے الگ کیے جائیں اور 2024 کے قانون کے مطابق مکمل ڈی ویسچر کے تقاضے پورے ہوں۔

رواں ہفتے ہونے والی پیش رفت کو امریکا اور چین کے درمیان مہینوں سے جاری بات چیت میں ایک نادر پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، جس کا مقصد تجارتی کشیدگی کو کم کرنا ہے جس نے عالمی منڈیوں کو غیر یقینی کا شکار بنا رکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی

ٹرمپ نے جمعے کو کہا کہ ان کی چینی صدر شی جن پنگ سے فون پر بات ہوئی ہے اور ٹک ٹاک کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے۔ دونوں رہنما چھ ہفتے بعد آمنے سامنے ملاقات بھی کریں گے۔ تاہم بیجنگ نے پیش رفت کی تفصیلات واضح نہیں کیں۔

عہدیدار کے مطابق، ٹرمپ 2024 کے قانون پر عمل درآمد کی حالیہ مہلت کو مزید 120 دن کے لیے بڑھا دیں گے، جس کا مطلب ہے کہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کی اگلی ڈیڈلائن اپریل میں ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news امریکا بائٹ ڈانس ٹک ٹاک چین

متعلقہ مضامین

  • بگرام ایئربیس تو دور ہم ایک انچ بھی امریکا کو نہیں دیں گے: افغانستان کا دو ٹوک مؤقف
  • چین اور امریکہ دنیا کی دو بڑی اور بااثر طاقتیں ہیں، چینی وزیر اعظم
  • ٹرمپ کے بیانات سے لگتا بگرام ایئربیس امریکا کی مجبوری ہے، مسعود خان
  • ہم ایک انچ زمین بھی امریکا کو نہیں دیں گے، افغانستان کا ٹرمپ کو دو ٹوک جواب
  • ٹک ٹاک معاہدہ، بائٹ ڈانس کو امریکی آپریشنز میں بورڈ سیٹ مل گئی
  • سندھ پولیس کی بہادری پر بنائی گئی دستاویزی فلم ’’دی پولیس اسٹوری‘‘ ریلیز
  • امریکا کی پارٹی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے، پوپ لیو کا اعلان
  • امریکا اور افغانستان میں بگرام ائربیس پر مذاکرات کا آغاز‘ صدر ٹرمپ کی تصدیق
  • ٹک ٹاک پر چین کا مؤقف برقرار، ٹرمپ کال کے بعد بھی لچک نہ دکھائی
  • ٹرمپ-شی فون کال: تعلقات میں بہتری کا اشارہ، مگر ٹک ٹاک ڈیل تاحال غیر یقینی