ٹرمپ اس دفعہ بھی وہی کر رہے ہیں جس کی ان سے توقع تھی۔ انھوں نے اپنی پہلی صدارت کے دوران نفرت، امتیاز اور ظلم کے وہ بیج بوئے جن کی بازگشت دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ ان کی واپسی صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ اس زوال کی علامت ہے جو سرمایہ دار تہذیب کے قلب سے پھوٹ رہی ہے، وہ تہذیب جو جمہوریت، مساوات اور انسانی حقوق کے نعرے لگاتے لگاتے خود اپنی بنیادیں بھول چکی ہے۔
ٹرمپ کی زبان میں جو زہر ہے وہ اتفاقیہ نہیں، یہ ایک سوچ کی نمایندگی کرتا ہے وہ سوچ جو کہتی ہے کہ صرف سفید فام انگریزی بولنے وال ہی اصل انسان ہے، باقی سب یا تو خطرہ ہیں یا بوجھ ، وہ مہاجر جو اپنی بستی جلنے کے بعد نئی زندگی کی تلاش میں امریکا آتا ہے، وہ عورت جو اپنی بچیوں کو طالبان سے بچا کر ایک آزاد فضا میں لانا چاہتی ہے، وہ نوجوان جو بھوک، گولی یا سمندر سے بچ کر ہجرت کرتا ہے، وہ سب ٹرمپ کے امریکا میں ناقابلِ قبول ہو جاتے ہیں۔
مجھے وہ مائیں یاد آتی ہیں جن کے معصوم بچوں کو امریکی سرحدوں پر ان سے چھین لیا گیا۔ وہ بچے جنھیں ایک جیل میں رکھا گیا اور ماں کو دوسری میں۔ سن کر ہی دل بیٹھ جاتا ہے، کیا یہ مہذب دنیا ہے؟ کیا یہی انسانی حقوق ہیں جن کا پرچار وائٹ ہاؤس سے کیا جاتا ہے؟ ٹرمپ کی صدارت نے یہ واضح کردیا ہے کہ انسانیت، انصاف اور ہمدردی اب صرف تقریروں میں پائے جاتے ہیں، حقیقت میں ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔
وہ ملک جو خود مہاجرین سے وجود میں آیا، آج دوسروں کی ہجرت کو جرم بنا چکا ہے۔ امریکا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس سرزمین کے اصل باشندے ریڈ انڈینزکو تباہ کرکے یہ ملک تعمیرکیا گیا۔ پھر جرمنی، آئرلینڈ، پولینڈ، اٹلی، چین اور افریقہ سے لوگ آئے۔ کسی کو غلام بنا کر لایا گیا، کسی نے غربت سے بھاگ کر یہاں پناہ لی، ان ہی ہاتھوں سے وہ عمارتیں بنیں، وہ ریلیں چلیں، وہ جنگیں لڑی گئیں، جن کی بنیاد پر آج امریکا دنیا کی طاقتور ترین ریاست بنا بیٹھا ہے۔
ٹرمپ خود بھول گئے ہیں کہ ان کے دادا فریڈرک ٹرمپ 1885 میں جرمنی سے ہجرت کر کے امریکا آئے تھے۔ ان کی جیب میں نہ سرمایہ تھا، نہ طاقت اور نہ علم، صرف ایک خواب تھا، وہی خواب جو آج بھی کسی یمنی ،کسی نکارا گوا کے شہری، کسی پاکستانی یا افغانی کے دل میں پلتا ہے، اگر اُس وقت کا امریکا اُنھیں دروازے سے لوٹا دیتا تو آج وہ خود وائٹ ہاؤس تک نہ پہنچتے۔
مگر یاد داشت اگر کمزور ہو یا طاقت اگر سچ کو دبا دے تو تاریخ کی تذلیل ہونے لگتی ہے۔ اب ٹرمپ کہتے ہیں کہ یہ مہاجر امریکا کے لیے خطرہ ہیں، یہ منشیات لاتے ہیں، جرائم کرتے ہیں، ہماری نوکریاں چھین لیتے ہیں۔ یہ ہم اور وہ کی جو لکیر انھوں نے کھینچی ہے وہ صرف نسل پرستی نہیں بلکہ فسطائیت کی وہ شکل ہے جسے ہم یورپ کی تاریخ میں دیکھ چکے ہیں اور جس کا نتیجہ ہمیشہ بربادی ہی نکلا ہے۔
یہ محض امریکا کا مسئلہ نہیں، یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، وہ یورپ جہاں ہٹلرکے خلاف لاکھوں جانیں قربان ہوئیں، آج وہی یورپ حجاب پر پابندی لگا رہا ہے، مسجدیں جلائی جا رہی ہیں اور پناہ گزینوں کی کشتیوں کو سمندر میں ڈوبنے دیا جا رہا ہے۔ انسان کا رنگ، مذہب اور زبان اب اس کے جینے یا مرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں اور اس بے رحمی کو قانون، آئین اور قومی سلامتی کا نام دیا جا رہا ہے۔
جب لوگوں کو مسلسل بتایا جائے کہ ایک مخصوص گروہ خطرہ ہے تو آہستہ آہستہ یہ سوچ نفرت کا رنگ لے لیتی ہے اور وہ نفرت سچائی میں ڈھلنے لگتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا؟ کیا ہٹلر اور مسو لینی کی تباہی کافی سبق نہ تھی؟
ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی صرف امریکا کے لیے خطرہ نہیں بلکہ اس عالمی مزاحمت کی بھی آزمائش ہے جو ظلم کے خلاف اٹھتی ہے، جو لوگ نیویارک کی سڑکوں پر No ban No wall کے نعرے لگاتے رہے جو نوجوان مسلم بین کے خلاف عدالتوں میں گئے، جو صحافی اپنے کالموں میں سچ لکھتے رہے، آج ان کی آزمائش کا وقت ہے۔ اب صرف احتجاج کافی نہیں، اب ضمیر کی گواہی عمل میں بدلنی ہوگی۔
مجھے وہ بچی یاد آتی ہے جس نے ٹرمپ کی پالیسی کے خلاف ایک پوسٹر اٹھایا تھا:
am a child, not a threat.
کتنی سادہ بات ہے اورکتنی بھاری یہ وہ آواز ہے جو تاریخ کا رخ بدل سکتی ہے، اگر ہم سننے اور سمجھنے کے قابل ہوں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہجرت جرم نہیں، بقا کی کوشش ہے۔ وہ انسان جو اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر جان بچا پاتا ہے ، وہ کمزور نہیں، وہ تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے اور ہر ایسے انسان کے ساتھ ناانصافی پوری انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ میں جانتی ہوں، وہ دن آئیں گے، جب یہ دیواریں گریں گی جب سفید فام برتری کا جھوٹا خواب چکنا چور ہوگا اور جب وہ بچہ جو آج قید ہے،کل ایک شاعر، ایک سائنس دان یا ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا بنے گا اور دنیا کو یاد دلائے گا کہ انسانیت کو دیواروں سے نہیں دروازوں سے پہچانا جاتا ہے۔
ایک بے گھر بے زمین بچہ اور اس کی ماں جو انصاف کے متلاشی ہیں، اگر ان کے لیے زمین تنگ کردی جائے تو یہ دنیا آخرکس کے لیے رہ جائے گی؟ ہمیں وہ روشنی بننا ہوگا جو اندھیرے میں امید دکھائے، وہ آواز بننا ہوگا جو خاموش لبوں کو زبان دے، اگر ہم آج خاموش رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ایک دن یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا وقت بھی آیا تھا جب کسی کو صرف رنگ نام یا مذہب کے سبب دروازے پر روکا گیا تھا؟ اور تب ہم شرم سے آنکھیں جھکا دیں گے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے خلاف ٹرمپ کی کے لیے
پڑھیں:
حافظ آباد: شوہر کا دوسری بیوی کیساتھ مل کر پہلی بیوی پر بہیمانہ تشدد، نازیبا ویڈیو بھی بنائی
---فائل فوٹوپنجاب کے شہر حافظ آباد میں شوہر نے دوسری بیوی کے ساتھ مل کر پہلی بیوی کے سر کے بال مونڈ دیے، گن پوائنٹ پر ڈانس کروا کر نازیبا ویڈیو بھی بنائی۔
پولیس کے مطابق حافظ آباد کے علاقہ جلالپور بھٹیاں میں شوہر نے دوسری بیوی کے ساتھ مل کر پہلی بیوی پر تشدد کیا جس کا متاثرہ خاتون کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق ملزم اور بیوی میں کئی ماہ سے ناچاقی چل رہی تھی، مار پیٹ سے تنگ آ کر پہلی بیوی میکے چلی گئی تھی، شوہر نے کوارٹر میں بلاکر گن پوائنٹ پر ڈانس کروایا، نازیبا ویڈیو بنا کر سر کے بال بھی مونڈ دیے اور ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
پولیس کے مطابق مقدمے کے اندراج کے بعد ملزم اور اس کی دوسری بیوی فرار ہو گئی جن کی تلاش جاری ہے۔