Express News:
2025-09-20@22:56:28 GMT

ایران، اسرائیل جنگ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

دنیا اس وقت مفادات کے ٹکراؤ میں گھری ہوئی ہے،اقوامِ عالم پرجنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایران بڑا ملک ہے اور اسرائیل چھوٹا۔البتہ اسرائیل ایک بھرپور فوجی طاقت ہے ۔اسرائیل کی معیشت ایران کی بہ نسبت بہت مضبوط ہے۔

شاہ ایران کے دور میں ، ایران مغرب بلکہ یوں کہیے کہ کیپٹلسٹ لیڈر یعنی امریکا کا اتحادی تھا اورآج خامنہ ای کا ایران روس اور چین کا اتحادی ہے۔اسرائیل مغرب کا اتحادی ہے۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ، مغربی مفادات کی فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے۔

روس کو اپنے قومی بیانیے میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کا بڑا غم تھا۔سوویت یونین ان ریاستوں کا مجموعہ تھا جو زار بادشاہت نے مختلف ادوار میں ہتھیائی تھیں۔ ان ریاستوں میں بہت سی فارسی بولنے والی مسلم ریاستیں اور بالٹک اسٹیٹ تھیں۔

سوویت یونین جس کا محور تھا روس اور ان کی دوسری بڑی ریاست تھی یو کرین۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین دنیا کی سب سے بڑی طاقت تو بنا لیکن معاشی اعتبار سے ان کا ماڈل ناکام رہا،وہ چل نہ سکا۔اس کے سامنے کھڑی مغربی ریاستیں مارکیٹ اکانومی پر کھڑی تھیں، جمہوری تھیں، آزاد تھیں، انسانی حقوق کی پاسداری کی حامی تھیں،ان کے پاس ایجادات اور تحقیق تھی،سوویت یونین ان اقوام کے سامنے ٹھہر نہ سکا۔دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین نے بہت سے یورپی ممالک پر قبضہ کیا۔

جرمنی بھی دو ٹکڑے ہوا۔جرمنی ایک حصہ سوویت یونین کے ساتھ ہوا اور دوسرا یورپ میں۔جن یورپی ممالک پر سوویت یونین نے قبضہ کیا ان کو اپنا اشتراکی نظام دے کر اپنے اتحاد کا حصہ بنایا۔1990 جب یہی کام عراق نے کیا اور کویت پر حملہ کیا تو عراق کو اس حملے کے دور رس نتائج بھگتنا پڑے۔

امریکا نے حملہ کر کے کویت کو آزاد کرا دیا اوراس طرح دنیا میں یونی پولر سسٹم کا آغاز ہوا،جس کو نیو ورلڈ آرڈر کہا جاتا ہے جو اب تک قائم رہا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کو بلآخر چین کی ابھرتی طاقت نے چیلنج کردیا ہے۔ 1990 تک سوویت بلاک اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا ۔ امریکا اور نیٹو نے اس دنیا پر پینتیس سال تک راج کیا،یعنی دنیا یونی پولر سسٹم میں رہی۔

معاملات تب خراب ہوئے جب یو کرین نے یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بننا چاہا۔روس نے یوکرین پر حملہ کردیا،روس کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا۔توقع کے خلاف یو کرین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اب روس تھکاوٹ کا شکار ہے۔یوکرین کو امریکا اور یورپی یونین نے بھرپور فوجی امداد دی۔ایک طرف امریکا ، اس کے مغربی اتحادی اور اسرائیل تھے اور دوسرے بلاک میں تھے جو کہ نیا بنا ، چین، روس، ایران اور نارتھ کوریا وغیرہ۔

روس نے ایران کو یہ کہا کہ حماس ، مشرقِ وسطیٰ میں کچھ ایسا کرے کہ دنیا کا رخ اس طرف ہو اور ایسا ہی ہوا۔یہ ایک حیران کن بات تھی کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا جب کہ اس حملے سے پہلے ہمیشہ حماس نے دفاعی پوزیشن لی۔اسرائیل کو غزہ پر اپنی سفاکیت کا موقعہ مل گیا۔اسرائیل نے غزہ پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیے اور تمام عرب دنیا مجرمانہ خاموشی کے ساتھ اس ظلم کو دیکھتی رہی۔

ایران ایک بہت بڑی قوت تھا۔ ایران نے شام، یمن، حوثی باغی، حماس، حز ب اللہ جیسی بہت سی قوتیںبنائیں ،اسرائیل سے لڑنے کے لیے اور عرب دنیا جو ایران کی طرف جھکی ہوئی تھی ان سے توازن قائم کرنے کے لیے۔چند سال پہلے، عراق میں ایک پاسدارانِ انقلاب رہنما کو امریکا نے ڈرون حملے میں مار دیا تھا۔

پھر جب ایرانی صدر پچھلے سال ہیلی کاپٹر حادثے میںمارے گئے تو ان کی آخری رسومات میں حماس کے بڑے جلا وطن لیڈران نے شرکت کی۔ اسرائیل نے حماس کے لیڈر کا تہران میںڈرون حملے کے ذریعے ایسی جگہ پر نشانہ بنایا جس کا وہم و گمان کسی کو بھی نہیں تھا۔اس سے پہلے اسرائیل نے شام میںایران کی ایجنسی پر حملہ کر کے ان کے سینیئر جرنیل کو مارا۔ایران نے بھی ڈرون حملوں کے ذریعے اسرائیل پر اٹیک کیے لیکن کوئی خاص نقصان ان کو نہ پہنچا سکے۔

اسرائیل نے ایرانی اتحادیوں کو ایک ایک کرکے جنگ میں مصروف کیا اور ان کو تھکا دیا،حزب اللہ پر حملہ کیا، یمن پر حملہ کیا اور ایسا بھی ہوا کہ ایران کے اتحادی، جہاں روس نے اپنی فوجیں بھی بٹھائی ہوئی تھیں، شام کے صدر بشار الاسد کواچانک جہاز میں بیٹھ کر روس میں پناہ لینی پڑی۔

اس طرح ایران اور اسرائیل دو بدو ہوئے۔مودی اور نیتن یاہو نے پاکستان کے خلاف بھی محاذ بنایا ہوا ہے۔بہانے بناکر مودی نے پاکستان پر حملہ کیا۔جس میں اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔دنیا کے بہترین جہاز رافیل استعمال کیے گئے۔ پاکستان نے چین کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کے ہوش ٹھکانے لگا دیے۔

تیسرا راؤنڈ جو اس تسلسل کا حصہ ہے وہ اسرائیل اور ایران کی جنگ کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔یہ ٹکراؤ اب لمبا چلے گا۔اس خطے میں چین ایک بڑی طاقت کو طور پر ابھر رہا ہے۔ چین کو امریکا کی مدد کی ضرورت نہیں۔چین کی بہت سی کمپنیاں دنیا کی بہترین کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں۔امریکا کی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی دنیا کو لیڈ کر رہی ہے۔چین نہ صرف معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے بلکہ امریکا کے بعد ایک مضبوط فوجی طاقت بھی بن گیا ہے مگرچین براہِ راست کسی جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہتا۔

ایران کو اس وقت اپنے اتحادیوں کی مدد کی ضرورت ہے مگر وہ ایران کی مدد اس طرح سے نہیں کر پا رہے ہیں جس طرح سے امریکا ، اسرائیل کی کررہا ہے۔ عرب دنیا بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،بلکہ بہت سے عرب ممالک اندرونی طور پر اسرائیل کے حمایتی ہیں۔ایران ڈٹ کر اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے،مگر ایرانی حکومت پینتالیس سال سے ایران پر حکومت کر رہی ہے اور وہاں کی عوام میں غیر مقبول ہے۔دو مرتبہ ایران میں اس حکومت کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔اسرائیل کو اس جنگ سے بہت نقصان ہوا ہے مگر ایران اس رجیم کے ساتھ اس جنگ میں تھک جائے گا۔

ہندوستان اور اسرائیل مل کر پاکستان کی ایٹمی قوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب پاکستان نے سی پیک میں شمولیت اختیار کی،ہماری معاشی آزادی کو نقصان پہنچایا گیا، ہمیں دیوالیہ ہونے کی حد تک لایا گیا۔

بلوچستان اور طالبان کے مسائل کو ابھارا گیا۔ہم نے خود وفاق کو پانی کے حوالے سے متنازعہ پروجیکٹ دے کر کمزور بنایا۔ان بیرونی قوتوں کے ساتھ یہاں کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔اس وقت ہم بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور دنیا سرد اور گرم جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔

ایران اگر اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے تو یہ یہ روس اور چین کے لیے تشویش کی بات ہوگی۔پیوتن روس کے اندر اپنی مضبوطی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ٹرمپ امریکا کے روایتی صدر نہیں۔وہ دنیا کو بحران کی طرف دھکیل سکتے ہیں اور ایسا بھی ہے کہ جو آج تک کوئی نہ کر سکا وہ ٹرمپ کر گزریں گے۔امریکا کے اندر اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کا کوئی مستقل حل نکالا جائے اور اس ٹکراؤ کا فائدہ چین اٹھا رہا ہے۔

ہم جس خطے میں ہیں وہ تیسری جنگ ِ عظیم کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔اس بار جنگ توپوں اور ٹینکوں سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی سے لڑی جائے گی۔اس جنگ کے کئی سرد نوعیت کے پہلو ہیں۔جیسا کہ سوویت یونین کو تنہا کر کے اقرباء پروروں نے اس کو کھوکھلا کردیا اور جنگ کے بغیر ہی سوویت یونین ٹوٹ گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سوویت یونین اور اسرائیل پر حملہ کیا اسرائیل نے اسرائیل کی ایران کی کے ساتھ حملہ کر اور اس رہا ہے بہت سی

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی، احمد حسن العربی

بین الاقوامی امور کے ماہر حمد حسن العربی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اب تک کتنے معاشی معاہدے اور اُن پر کیا پیشرفت ہوئی؟

وی نیوز کے پروگرام ’سیاست اور صحافت‘ میں گفتگو کرتے ہوئے احمد حسن العربی نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان طے پائے جانے والا معاہدہ ’ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا‘ اور یہ گلوبل جیو پالیٹکس کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ورلڈ آرڈر تبدیل ہورہا ہے اور دنیا طاقت کے ایک مرکز سے ہٹ کر طاقت کے زیادہ مراکز کی طرف جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران پرانے معاہدے ختم ہوجاتے ہیں اور نئے گٹھ جوڑ اور معاہدے طے پاتے ہیں اور یہی سب کچھ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی ہوا تھا کہ سلطنت عثمانیہ ٹوٹی اور نئے معاہدے اور بارڈر بنے۔

احمد حسن العربی نے کہا کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے کبھی بھی مڈل ایسٹ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں نہیں تھا اور اسی طرح یورپ سارے کا سارا پہلے کبھی اکٹھا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپی یونین کا وجود ہوا اور تمام ملک اکٹھے ہوگئے، ادھر مڈل ایست الگ الگ ریاستوں میں بٹ گیا۔

’یورپ بکھرنے اور اسلامی ممالک ایک ہونے جا رہے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ اب دنیا ملٹی پولرِٹی کی طرف جارہی ہے اس تبدیلی کا  اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یورپ پھر سے ٹوٹنے اور مسلم ممالک ایک ہونے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان سعودی عرب کا ہر فورم پر بھرپور ساتھ دے گا: وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد کو یقین دہانی

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسلم اتحاد نیتن یاہو کی مڈل ایسٹ میں بڑے پیمانے پر مداخلت کی بدولت وجود میں آئے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے سابق امریکی صدر نے بھی کہا تھا کہ نیتن یاہو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مڈل ایسٹ میں جنگوں پر جنگیں کر رہا ہے۔

احمد حسن العربی نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مڈل ایسٹ کو پہلے سلطنت برطانیہ اور بعد میں امریکا کہتا تھا کہ ہم آپ کو سیکیورٹی فراہم کریں گے آپ اسلحے کی فکر نہ کریں لیکن جب اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں مختلف ملکوں پر حملے کرنا شروع کیے تو ان تمام ممالک کی سیکیورٹی گارنٹی پر سوال اٹھے۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران سعودی عرب نے اپنی سالمیت کو مقدم سمجھتے ہوئے اپنی سیکیورٹی کے لیے یہ فیصلہ کیا اور اپنے بھائی ملک پاکستان سے معاہدہ کرلیا۔

وی نیوز کے سوال کے جواب میں احمد حسن العربی نے کہا کہ یہ معاہدہ نیا نہیں اس پر بات چیت اس وقت ہی شروع ہوچکی تھی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔

مزید پڑھیں: صحرا کو کیسے قابل کاشت بنائیں؟ پاکستان سعودی عرب سے مدد لینے کا خواہاں

عربوں کو اس وقت ہی اپنی سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہوچکی تھی اور کچھ ماحول بھی ایسا ہوچکا تھا کہ یہ معاہدہ ہونا ہی تھا کیونکہ پاکستان نے معرکہ حق اور آپرشن بنیان مرصوص کے ذریعے اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔

’یہ ٹاپ لیول معاہدہ ہے، گزشتہ معاہدے اس طرح منظر عام پر نہیں لائے گئے

انہوں نے کہا کہ جو پاکستان اور سعودیہ کے پرانے دفاعی معاہدے تھے وہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر آتے تھے لیکن ابھی جو معاہدہ طے پایا ہے ٹاپ لیول کا معاہدہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان معاہدے اس طرح منظر عام پر نہیں آئے تھے جو ابھی ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی بھی اس طرح کا ہائی آرڈر معاہدہ کبھی بھی کسی ملک کے درمیان نہیں ہوا کہ ایک ملک کے کسی شہر پر حملہ دوسرے ملک کے شہر پر حملہ تصور کیا جائے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ معاہدہ سعودی عرب تک محدود نہیں رہے گا، باقی ممالک بھی اسی معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے سائے تلے جمع ہوں گے اور یہ معاہدہ مسلم اتحاد کے حقیقی سفر کی طرف بڑھنے کی شروعات ہے۔

’اس معاہدے پر 2 ممالک کو بہت تکلیف پہنچی‘

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد 2 ممالک کو بہت تکلیف پہنچی ہے جن میں سے ایک اسرائیل اور دوسرا بھارت ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان سعودی عرب باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیا معنی رکھتے ہیں؟

احمد حسن العربی نے کہا کہ یہ معاہدہ جنگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ جنگ کو روکنے کے لیے ہے، معاہدے کا مقصد امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس معاہدے کے نکات خفیہ ہی رہیں تو بہتر ہیں کیونکہ اسرائیل سمیت دیگر ملکوں نے بھی اپنے معاہدے خفیہ رکھے ہوئے ہیں۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے احمد حسن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پیش آنے والے معاہدے کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے عوام بہت خوش ہیں اور دنیا بھر کا میڈیا یہ کہہ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کا یہ ماسٹر اسٹروک ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو یہ معاہدہ کسی لسانی یا ثقافتی یا تاریخی بنیادوں پر نہیں طے پایا بلکہ اسلام کی بنیادوں پر طے پایا۔

’دیگر ممالک بھی پاکستان سے دفاعی معاہدے کریں گے‘

احمد حسن العربی نے کہا کہ سعودیہ کے اس اقدام کے بعد دیگر ممالک بھی پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے پیش نظر اس سے معاہدے کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اکانومی کافی سالوں سے گراوٹ کا شکار ہے لیکن جیو اکانومی کبھی بھی جیو اسٹریٹجک سے اوپر نہیں جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ جتنے بھی بڑے ممالک ہیں امریکا، روس اور چین ان سب نے جیو اسٹریٹجی کی بدولت ہی دنیا میں اپنی ڈھاک بٹھائی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کا سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق

احمد حسن العربی نے کہا کہ ہم سب کے سامنے ہے کہ سعودی عرب کے پاس بہترین اکانومی ہے اور ہمارے پاس بہترین دفاعی صلاحیت ہے تو دونوں مل کر بہترین حکمت عملی کے تحت اس پر کام کرسکتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان کی اکانومی بہت اوپر چلی جائے گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں احمد العربی نے کہا کہ بڑے تھنک ٹینکس اس حوالے سے بات کرچکے ہیں کہ 21ویں صدی مشرق والوں کی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاور شفٹ ہورہی ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہیے کہ 21ویں صدی مشرق کی صدی ہوگی۔

احمد حسن العربی نے کہا کہ میری رائے کے مطابق اگلے 10 سال بعد اس ملک کا مستقبل بہت اچھا ہوگا جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان اپنا پول سیٹ کرلے گا اور اس وقت قدرتی طور پر پاکستان کے لیے حالات خوشگوار دکھائی دے رہے ہیں اور پاکستان ان تینوں ملکوں کے درمیان اپنی جگہ بخوبی بنا رہا ہے۔

’بہترین ملٹری ڈپلومیسی نوجوانوں کا مستقبل محفوظ بنارہی ہے‘

انہوں نے کہا کہ یہ بات یہاں بہت اہم ہے کہ پاکستان کی ملٹری ڈپلومیسی اس وقت بہترین حکمت عملی کے تحت پاکستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ کی تفصیلات

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسی طرح پاکستان اپنے تعلقات مزید مضبوط کرتا رہا تو اگلے 10سالوں سے پہلے ہی پاکستان اس مقام پر ہوگا کہ جس کی رائے اور ہاں یا نہ طاقتور حلقوں میں مقدم ہوگی۔

احمد حسن العربی نے کہا کہ ’اگلے 10سالوں کے دوران پاکستان کا شمار دنیا کے ان 3،4 ملکوں میں ہوگا جن کی بات کہنے سے دنیا کے فیصلے ہوتے ہیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد حسن العربی پاکستان پاکستان اور سعودی عرب دفاعی معاہدہ سعودی عرب

متعلقہ مضامین

  • تیسری جنگِ عظیم کی طرف
  • دوحہ حملہ، گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنیکی طرف ایک اور قدم
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • دنیا اسرائیل کی دھمکیوں سے مرعوب نہ ہو، انتونیو گوتیریس
  • فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان
  • چاہ بہار پورٹ پابندی: بھارت کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟
  • امریکا نے بھارت کا چاہ بہار منصوبہ مشکل میں ڈال دیا، چاہ بہار استثنیٰ ختم
  • پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی، احمد حسن العربی
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی پیشرفت ہے، مشاہد حسین
  • یورپی یونین کی اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات محدود کرنے اور وزرا پر پابندیوں کی تجویز