فلسطینی ریاست کے بغیر سعودی عرب سے تعلقات معمول پر لانے میں کامیاب ہو جاؤں گا، اسرائیلی وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست پر رضامند ہوئے بغیر سعودی عرب سے تعلقات معمول پر لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ’چینل 14‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایران کے خلاف اپنے 2 اہم اہداف کے بہت قریب پہنچ چکا ہے، جن میں پہلا ایرانی جوہری اور بیلسٹک میزائل خطرے کا خاتمہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ مسلسل جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا جنگ ختم کرنے کے لیے مناسب حالات موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فردو کی جوہری تنصیب پر بہت سنجیدہ حملہ ہوا ہے اور ہم وہ سب مکمل کر رہے ہیں جو ہمیں مکمل کرنا تھا۔
نیتن یاہو نے زور دیا کہ انہوں نے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دوسرے کو ایران کے خلاف اپنی اپنی کارروائیوں سے پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے انہیں حیران نہیں کیا، وہ ہماری کارروائی سے پوری طرح باخبر تھے جب کہ انہوں نے مجھے بھی حیران نہیں کیا، میں بھی ان کی کارروائی سے پوری طرح باخبر تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ وہ فلسطینی ریاست پر راضی ہوئے بغیر سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کا راستہ نکال لیں گے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب متعدد بار یہ مؤقف دہرا چکا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی تبھی ممکن ہو گی جب فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت کوئی واضح پیش رفت ہو گی۔
نیتن یاہو نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہماری طاقت ہی سب کچھ حاصل کرنے کی کنجی ہے، وہ عرب رہنماؤں سے بات کرتے رہتے ہیں، اور یہی چیز ان پر اثر ڈالتی ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست
پڑھیں:
ایران کی کامیاب جنگی حکمت عملی
اسلام ٹائمز: ایران کے میزائلوں نے ایک اور بڑا کام کیا ہے۔ رپورٹس آ رہی ہیں کہ "اسرائیل کی جانب سے ایرانی نیوکلیئر سائنسدانوں کے قتل کے بعد، ایران نے بدلہ لینے کے لیے وہ راستہ چنا جس نے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایران نے اسرائیل کے سب سے اہم سائنسی تحقیقی ادارے (وائزر مین انسٹیٹیوٹ) پر ہائپر سونک میزائلوں سے حملہ کیا، جس سے ادارہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ اس ادارے میں 2500ء سے زائد ماہرینِ طبیعیات، AI، کوانٹم کمپیوٹنگ، بایو ٹیکنالوجی اور دفاعی تحقیق پر کام کر رہے تھے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں ریسرچ آؤٹ پٹ میں چھٹے نمبر پر تھا اور اسرائیلی فضائیہ، جوہری منصوبوں، اور NASA و امریکی یونیورسٹیوں سے اشتراک میں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔ صرف چند منٹوں میں 91 سال کی سائنسی محنت، ڈیٹا، لیبارٹریز اور دنیا کے بہترین اذہان صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
اسلامی جمہوریہ ایران کی افواج نے دوست اور دشمن دونوں کو حیران کر دیا ہے۔ دوست پہلے دن اسرائیلی حملوں سے بہت پریشان تھے اور دشمن خوشیاں منا رہے تھے، ایسے میں سپاہ پاسدان نے صرف اٹھارہ گھنٹوں میں دشمن کو ایسا جواب دیا کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہم نے جس سوچ او رتیاری کے ساتھ حملے کیے تھے وہ تو ناکام ہو گئے ہیں۔ وہ یہ امیدیں لگا کر بیٹھے تھے جس طرح سے عراق پر حملے کے وقت صدام کی افواج بھاگ گئی تھیں اور امریکی افواج بڑی آسانی سے قابض ہوگئی تھیں اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ نام نہاد شاہ ایران کا بیٹا بھی اسرائیلی وزیراعظم کی بغل میں کھڑے ہو کر پھر آمرانہ حکومت کا خواب دیکھ رہا تھا۔ اسے تو خواجہ آصف نے صحیح آڑے ہاتھوں لیا ہے اور درست مطالبہ کیا کہ ذرا ایران کے اندر تشریف لائیں خوشبو لگا کر پھرآپ کو سمجھ میں آ جائے گی کہ آپ کی حیثیت کیا ہے؟ اسلامی جمہوریہ ایران کے مسلسل حملے دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔
ایران نے بڑی تیزی سے ایسے اہداف کو نشانہ بنایا ہے جن کے بارے میں مقامی لوگوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ فوجی اہداف ہیں۔ مثلاً موساد کا ہیڈ کوارٹر اڑا دیا گیا ہے، اسی طرح وزارت دفاع کی بلڈنگ اور وزارت داخلہ کی عمارات کو نشانہ بنایا گیا ہے، اسی طرح آئل ریفائری کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ کسی ملک کا محفوظ ترین ٹھکانہ اس کی دفاعی ایجنسی کا دفتر ہوتا ہے اس کا پتہ لگا کر اس کا درست نشانہ لگایا گیا ہے۔ ایران ابھی تک اپنے پرانے میزائل استعمال کر رہا ہے اور اسرائیل کے دفاعی نظام کو مسلسل چکمہ دینے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ ایک رات کا خرچہ دو پچاسی ملین ڈالر ہے یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے، اگر ایک دو ہفتے اور یہی معاملہ چلتا ہے تو آئرن ڈوم کی بیٹریاں بھی ختم ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں اور اسرائیل کے مالی طور پر بھی بہت بڑے نقصانات ہو رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے اتحادیوں اور سمندری ناکہ بندی کا فیصلہ نہیں کیا۔
ایران کے میزائلوں نے ایک اور بڑا کام کیا ہے۔ رپورٹس آ رہی ہیں کہ "اسرائیل کی جانب سے ایرانی نیوکلیئر سائنسدانوں کے قتل کے بعد، ایران نے بدلہ لینے کے لیے وہ راستہ چنا جس نے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایران نے اسرائیل کے سب سے اہم سائنسی تحقیقی ادارے (وائزر مین انسٹیٹیوٹ) پر ہائپر سونک میزائلوں سے حملہ کیا، جس سے ادارہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ اس ادارے میں 2500ء سے زائد ماہرینِ طبیعیات، AI، کوانٹم کمپیوٹنگ، بایو ٹیکنالوجی اور دفاعی تحقیق پر کام کر رہے تھے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں ریسرچ آؤٹ پٹ میں چھٹے نمبر پر تھا اور اسرائیلی فضائیہ، جوہری منصوبوں، اور NASA و امریکی یونیورسٹیوں سے اشتراک میں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔ صرف چند منٹوں میں 91 سال کی سائنسی محنت، ڈیٹا، لیبارٹریز اور دنیا کے بہترین اذہان صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ ایرانی حکمت عملی انتہائی زبردست تھی۔پہلے ڈرون اور کم معیار کے میزائل بھیجے تاکہ اسرائیلی دفاعی نظام (آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلِنگ، ایرو) ری لوڈ پر مجبور ہو جائے۔ پھر 11 منٹ کے اس خلاء میں ہائپر سونک میزائل داغے، جو سیدھا اس انسٹیٹیوٹ پر گرے۔ اسرائیلی صدر نے خود تسلیم کیا کہ "یہ ایک دفاعی تعلیمی ادارہ تھا، اب صرف راکھ ہے، ہم نے اپنے بہترین سائنسدان اور تحقیق کھو دئیے۔" اسرائیل ہمیشہ دیگر ممالک کے تحقیقاتی ادارے تباہ کرتا آیا ہے اب اس تکلیف سے خود گزر رہا ہے۔
دنیا میں طاقتور کو کمزور پر چڑھ دوڑنے کے لیے کسی اخلاقی و قانونی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دیکھیے صحافیوں نے ٹرمپ سے پوچھا کہ ان کے پاس ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کے حوالے سے کیا معلومات ہے کیونکہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی پہلے کہہ چکی ہے کہ ان کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ٹرمپ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’پھر میری انٹیلی جنس کمیونٹی غلط ہوگی۔ یعنی جو ٹرمپ کی آنکھیں اور کان ادارہ ہے اس کی رپورٹ غلط ہوگئی کیونکہ خود ٹرمپ صاحب حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے اب کہہ رہے ہیں کہ میں دو ہفتے بعد فیصلہ کروں گا، مذاکرات کو موقع دینا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی کہہ دیا کہ اسرائیل زیادہ بہتر جا رہا ہے ایرانی بھی اچھے جا رہے ہیں۔ ایرانیوں کو ہم سے مذاکرات کرنے چاہیئے۔ یہ تو پنجاب کے دیہی علاقے کے گھنڈوں والا طریقہ کار ہے جو بات نہیں مان رہا اس کی کسی چمچے سے لڑائی کروا دو اور پھر خود نمبر دار بن کر آجاؤ کہ میں فیصلہ کروں گا۔ اب وقت گزر چکا ہے اور دنیا میں کافی اور حقیقتیں بھی سامنے آ چکی ہیں۔
ایران پر اسرائیل کے حملے کے پہلے دن زخمی ہونے والے رہبر معظم کے سیاسی مشیر علی شمخانی نے ایکس پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ پر لکھا ہے ’تقدیر یہی تھی کہ میں زخمی جسم کے ساتھ زندہ رہوں، تو میں رہوں گا تاکہ دشمن کی دشمنی کی وجہ بنا رہوں کیونکہ وہ بھی اس کی وجہ خوب جانتا ہے اور میں بھی۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’میں ایران کے عوام کے لیے سو بار اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘ شمخانی نے گذشتہ روز آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے نام ایک پیغام میں بھی کہا تھا: ’میں زندہ ہوں اور اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ امریکہ اور اسرائیل کو معلوم ہونا چاہیئے جب ایسے مضبوط اطاعت گزار لوگ نظام میں موجود ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت اس نظام کو شکست نہیں دی سکتی۔ اب تو دنیا کے بڑے بڑے تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ اسلامی انقلاب جنگ شروع ہونے سے پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔ ایرانی قوم کی خودی پر ضرب لگائی گی ہے جس نے اسے متحد کر دیا ہے۔ آقا محسن رضائی نے درست کہا کہ پچھلی جنگ کے بعد پنتیس سال تک ہمارے ملک میں امن رہا تھا، اس جنگ کے بعد اگلے پچاس سال تک انشاء اللہ امن رہے گا اور کسی کو ہم پر حملے کی جرات نہیں ہوگی۔ یہ بات ایک بار پھر درست ثابت ہوگئی ہے کہ امن صرف اور صرف طاقت سے حاصل کیا جاتا ہے کمزور کے لیے کوئی امن نہیں ہے۔