آئی جی سندھ کیساتھ آنلائن اجلس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ ماضی میں جیکب آباد، شکارپور اور قمبر شہداد کوٹ میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کیجانب سے دہشتگردانہ کارروائیاں ہوچکی ہیں۔ اسلئے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسی کالعدم تنظیموں کے شیڈول فور میں شامل دہشتگردوں پر گہری نظر رکھی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام پوری انسانیت کے رہبر اور نواسۂ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ ان کے غم میں منعقد ہونے والی مجالس اور جلوس عزاداری کی فول پروف سکیورٹی انتظامات حکومت کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ بات انہوں آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی زیر صدارت سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے علماء کرام اور بانیان مجالس و جلوس کے ساتھ منعقدہ آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں سکھر اور لاڑکانہ کے ڈی آئی جیز، تمام اضلاع کے ایس ایس پیز سمیت پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کیں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سندھ میں امن و امان کی ابتر صورتحال، اغواء برائے تاوان، ڈاکہ زنی اور چوری جیسے سنگین جرائم کے خلاف پولیس کو کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور آپریشن کرنا چاہئے۔ افسوس ہے کہ ایک پولیس کانسٹیبل نے کشمور میں ایک ڈاکو کو مارا تو اس پر جرگہ میں 38 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا، ایسے واقعات سے پولیس کا مورال ڈاؤن ہوگا۔

علامہ ڈومکی نے زور دیا کہ محرم الحرام میں گرمی کی شدت کے باعث مجالس عزاء زیادہ تر رات کے اوقات میں منعقد ہوتی ہیں۔ اس لئے اکثر علماء و ذاکرین مجالس پڑھنے کے لئے رات کو سفر کرتے ہیں، لہٰذا مسافروں کے راستوں کو محفوظ بنایا جائے اور علماء و ذاکرین کی سفر کے دوران سکیورٹی کا خاص انتظام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اہل سنت دیوبندی، بریلوی ہمارے بھائی ہیں۔ سبھی سردار جنت امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں۔ ہم شیعہ سنی صدیوں سے آپس میں مل کر رہ رہے ہیں۔ مسئلہ فقط کالعدم دہشت گرد تنظیموں کا ہے، جو نفرت، فتنے اور فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہیں۔ انہوں نے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جیکب آباد، شکارپور اور قمبر شہداد کوٹ میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیاں ہوچکی ہیں۔ اس لئے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسی کالعدم تنظیموں کے شیڈول فور میں شامل دہشت گردوں پر گہری نظر رکھی جائے۔ جن شرپسندوں کے نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکالے گئے ہیں، انہیں دوبارہ شامل کیا جائے۔ حال ہی میں کالعدم تنظیم کے جن شرپسندوں نے قمبر شہدادکوٹ، کشمور اور شکارپور میں شر انگیز جلسے کئے ہیں اور شیعہ اکابرین کو دھمکیاں دی ہیں، ان کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔ خصوصاً قمبر شہدادکوٹ میں کالعدم تنظیم کی شرانگیزی کو روکا جائے، اور شہدادکوٹ کے عزاداروں کے تحفظات دور کئے جائیں۔

علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ ایام عزاء میں خواتین کی مجالس عزاء کے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ لیکن لیڈیز پولیس کی نفری نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا سندھ پولیس میں خواتین اہلکاروں کی بھرتی کی جائے۔ قمبر، کشمور اور شکارپور میں محرم سے قبل شرپسند عناصر کی جانب سے شیعہ عمائدین کو دھمکیاں دی گئیں، جن پر فوری ایف آئی آر درج کی جائے اور شرانگیزی کا سدباب کیا جائے۔ آخر میں علامہ مقصود ڈومکی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم قیام امن کے لئے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ اور ایام عزاء میں مجلس وحدت مسلمین، عزاداری کے منتظمین، رضاکار اور اسکاؤٹس، پولیس و سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ اجلاس میں شیعہ رہنماء سید احسان شاہ بخاری، جعفریہ الائنس کے ڈویژن جنرل سیکرٹری زوار شاہنواز جعفری، مرکزی امام بارگاہ کے متولی سید محمد علی اصغر، راجہ ریاض علی شاہ، مجلس وحدت مسلمین ضلع شکار پور کے صدر اصغر علی سیٹھار، ضلع کشمور کے صدر میر فائق علی جکھرانی و دیگر بھی شریک ہوئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں کالعدم تنظیم ڈومکی نے کہا علامہ مقصود کرتے ہوئے نے کہا کہ

پڑھیں:

ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل

نئے نظام کے نفاذ کے پہلے دن تک ای چالان کی رقم سوا کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ اس بات کا امکان ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا تصور ختم ہوجائے، اس بناء پرکہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں ٹریفک خلاف ورزیوں پر چالان کی رقم پچاس کروڑ روپے سے زیادہ ہوجائے گی۔

ٹریفک پولیس کے جاری کردہ اعداد وشمارکے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے، ہیلمٹ نہ پہننے، اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون پر بات چیت کرتے اورکار میں ٹنٹد گلاس لگانے کے الزامات کی بناء پر ہوئے۔ کراچی میں ایکسپریس نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کے 8 مہینوں کے دوران 697 افراد زندگی سے محروم ہوئے۔ اسی طرح 10 ہزار 400 سے زائد شہری حادثات میں زخمی ہوئے۔

ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ٹرالرکی ٹکر سے ہوئیں، پھر واٹر ٹینکر سے زیادہ حادثات ہوئے۔ مرنے والوں میں اکثریت موٹر سائیکل سوار اور ان کے ساتھ سفر کرنے والے افراد تھے۔ کراچی میں ہمیشہ سے یہ ریت رہی ہے کہ کسی گنجان علاقے میں ٹرالر یا ٹینکر نے کسی موٹر سائیکل والے کوکچل دیا تو ہجوم اس ٹرالر اور ٹینکر ہی کو نذر آتش نہیں کرتا بلکہ قریب میں جتنی بھی گاڑیاں موجود ہوتی ہیں وہ ہجوم کی زد میں آجاتی ہیں۔

سندھ کی حکومت نے ٹرالر اور ٹینکرز کو بچانے کے لیے ان گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات درج کرنے کی پالیسی اختیارکی ہوئی ہے۔ جب کسی گاڑی کو ہجوم آگ لگاتا ہے تو عمومی طور پر حقیقی ملزمان تو فرار ہوجاتے ہیں پولیس بھی جائے حادثہ کے قریب نوجوانوں کو گرفتارکر لیتی ہے۔ جو افراد پولیس والو ں کو ’چمک‘ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں انھیں خاموشی سے گھر جانے کا موقع مل جاتا ہے۔

سندھ حکومت نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھاری جرمانے عائد کرنے کا قانون نافذ کیا ہے۔ اس قانون کے تحت 5 ہزار سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہوسکے گا۔ اس قانون کے مطابق ٹریفک چالان کا ٹکٹ ملنے پر شہری ہیلپ لائن 1915 پر رابطہ کرسکتا ہے۔ بعدازاں ڈیوٹی افسر اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہیلمٹ نہ پہننے پر 10 ہزار، سگنل توڑنے پر 5 ہزار یا 50 ہزار، غلط سمت میں موٹر سائیکل چلانے پر 25 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ پاکستان بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اتنے بڑے جرمانوں کی روایت نہیں رہی، اس بناء پر پورے شہر میں ایک شوروغوغا مچ گیا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں نے اس قانون کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا تقریباً ایک جیسا مؤقف ہے کہ شہر میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور ہر بڑی چھوٹی سڑک پر سیوریج کا پانی بہنا عام سی بات بن گئی ہے ، پھر سندھ حکومت نے سڑکوں اور انڈر پاس کی تعمیر کے جتنے منصوبہ شروع کیے ہیں ان میں سے بیشتر وقت پر مکمل ہی نہیں ہوسکے۔ گھگھر پھاٹک سے لے کر حب چوکی، سہراب گوٹھ سے لے کر سی ویو تک ایک جیسے حالات ہیں ۔ پھر یہ کہا گیا کہ شہر کی بیشتر شاہراہوں پر سگنل کام نہیں کرتے۔ شاہراہ فیصل جیسے اہم شاہراہ پر رات کو اسٹریٹ لائٹس بند رہتی ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل نے ایک قرارداد میں متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ای چالان بھاری جرمانوں کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں جرمانوں کی رقم کراچی کے مقابلے میں بہت کم ہے ،سندھ حکومت کراچی کے شہریوں کے ساتھ اس سلوک پر نظر ثانی کرے۔ ڈپٹی میئر سلمان عبد اللہ مراد کی زیر صدارت کونسل کے اس اجلاس میں اس قرارداد کی منظوری سے کراچی کے عوام کے موڈ کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ قرارداد حکومت سندھ کے فیصلے پر عوام کے عدم اعتماد کا اظہار ہے مگر میئر صاحب اس قرارداد کی منظوری کو غلط فہمی قرار دے کر کونسل کو مذاق بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب کراچی کا ٹریفک نظام ملک میں سب سے بہتر تھا۔گاڑیوں کا سگنل پر رکنا، ون وے کی خلاف ورزی نہ کرنا، موٹر سائیکل سواروں کا فاسٹ ٹریک پرگاڑی دوڑانے کے بجائے سڑک کے بائیں جانب چلنا، ایک معمول سی بات تھی۔ اس وقت جرمانے کی رقم کم ہوتی تھی مگر ٹریفک پولیس کے اہلکار چوکس ہوتے تھے۔ پھر شہر میں سگنل فری کاریڈور کا تصور آیا۔ پٹرول اورگیس کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار غفلت کا مظاہرہ کرنے لگے، یوں ٹریفک قوانین کی پابندی کا تصور ختم ہوتا چلا گیا۔ پھر اس کے ساتھ بسوں کے کم ہونے، سرکلر ریلوے کے بند ہونے سے متوسط اور نچلے طبقے کے لیے سستی سواری موٹر سائیکل بن گئی۔ اب میاں بیوی چار بچوں کا موٹر سائیکل پر سفر کرنا معمول بن گیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت یوں تو 71سے 77 تک ، پھر 1988سے 1991تک، 1993 سے 1996 تک برسر اقتدار رہی۔ 2008 سے پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل برسر اقتدار ہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے نفاذ سے صوبے کی آمدنی میں اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے مگر پیپلز پارٹی نے کراچی شہر کو اپنایا (Ownership) نہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ چین کی مال برداری کے لیے تیار کردہ چنگ چی پر سوار ہونے پر مجبور ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی کے عوام کو گرین لائن کا تحفہ دیا جو سفرکا جدید اور آرام دہ ذریعہ ہے۔

وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو اگلے مرحلے میں سعید منزل تک بڑھانے کے لیے کام شروع کیا تو سندھ حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں، اب بہرحال سندھ حکومت کو احساس ہوا ہے کہ اس منصوبے کو جاری رہنا چاہیے۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ حکومت کو ہر سال کھربوں روپے کی رقم ملتی ہے،آخر یہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 7سال قبل ریڈ لائن کے منصوبہ کی تعمیر کا اعلان کیا، مگر یہ منصوبہ شہریوں کے لیے وبالِ جان بن گیا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے وزیراعلیٰ کے ہمراہ بغیر پروٹوکول خاص طور پر شام کے اوقات میں ریڈ لائن کا دورہ کریں تو انھیں اندازہ ہوکہ عوام کس اذیت سے گزرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملازمتوں میں میرٹ کے تصور کو ختم کیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پبلک سروس کمیشن سے کامیاب ہوکر ملازمت حاصل کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پیزکی فہرست کی چھان بین کی جائے تو اکثر کا تعلق کسی نہ کسی طرح حکمراں وزراء یا اراکینِ اسمبلی یا پارٹی کے عہدیداروں سے نکلے گا۔ یوں ان وجوہات کی بناء پر کراچی کے عوام کا پیپلز پارٹی کی حکومت پر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ اگرچہ غیبی قوتوں کی سربراہی میں پیپلز پارٹی نے اس شہر سے قومی اسمبلی کی کئی نشستیں جیتیں ہیں اور میئر بھی ان کے ہیں مگر حقائق کچھ اور ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے جرمانہ ہونا چاہیے مگر جرمانے کی رقم کا تعین حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ کم ازکم جرمانہ 50 روپے ہوتا اور متعدد بار چالان ہونے پر جرمانے کی شرح بڑھتی جائے اور اگر 9 ماہ تک کوئی فرد ٹریفک کی مسلسل خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو تو اس کا شناختی کارڈ بلاک ہوجانا چاہیے مگر اس کے ساتھ ہی ٹریفک قوانین کے نفاذ کے لیے تشریحی مہم ضروری ہے۔ یہ مہم مساجد، اسکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں اورکمیونٹی سینٹرز میں ہونی چاہیے۔ اس کام میں سول سوسائٹی کو شریک کرنا چاہیے۔

مساجد کے پیش امام بھی اس مہم میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک اہم معاملہ پولیس کا شہریوں کے ساتھ بیہمانے سلوک ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس اگر کوئی صحیح کام بھی کرتی ہے تو عوام اسے قبول نہیں کرتی۔ مگر ٹریفک چالان قوانین کے نفاذ کا مسئلہ حقیقی حل نہیں ۔ حکومت نے 500 جدید بسیں چلانے کے اعلان کیے لیکن کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔

کراچی میں فوری طور پر 15 سے 20 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ پھر دنیا کے جدید شہروں کی طرح اب کراچی میں بھی جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ کا آغاز ہونا چاہیے۔ شہر میں انڈر گراؤنڈ ٹریک، الیکٹرک ٹرام اور Elevated Railwayکے نظام کی فوری ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی دہلی، ممبئی اور کلکتہ کی طرح ماس ٹرانزٹ کے جدید نظام کو قائم کر کے عوام کے دل جیت سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل
  • ملتان، شیعہ علماء کونسل جنوبی پنجاب کے رہنما علامہ سید کاشف ظہور نقوی کی ضلعی صدر سے ملاقات 
  • شیعہ علماء کونسل کے رہنما، معروف صحافی وارث علی حیدری انتقال کر گئے
  • کرک، مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن ، کالعدم تنظیم کا انتہائی مطلوب کمانڈر جہنم واصل
  • کوئٹہ، ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ علی حسنین کی ڈی آئی جی کوئٹہ عمران شوکت سے ملاقات
  • امن و امان کی بحالی ملک و قوم کی ترقی کی بنیاد ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • کرک میں سکیورٹی فورسز کا مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن، کالعدم تنظیم کا انتہائی مطلوب کمانڈر مارا گیا
  • فورسز کا کرک میں آپریشن: کالعدم تنظیم کا کمانڈر نثار حکیم مارا گیا
  • کرک میں  سکیورٹی فورسز کا مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن، کالعدم تنظیم کا انتہائی مطلوب کمانڈر مارا گیا
  • بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، سرفراز بگٹی