نیویارک (نیوزڈیسک)ٹیسلا اور اسپیس ایکس جیسی کمپنیوں کے مالک ایلون مسک کو ٹیکنالوجی کی دنیا کا بڑا نام تصور کیا جاتا ہے، مگر وہ کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے۔

جی ہاں واقعی یہ دعویٰ ایلون مسک کے وکلا کی جانب سے کیلیفورنیا کی ایک عدالت میں زیرسماعت مقدمے کے دوران کیا گیا۔

وکلا نے عدالت میں جمع کرائے گئے بیان میں کہا گیا کہ ایلون مسک کے موبائل فونز اور ای میلز کو سرچ کیا جاسکتا ہے، مگر وہ کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے۔

یہ مقدمہ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک اور چیٹ جی پی ٹی تیار کرنے والی کمپنی اوپن اے آئی کے درمیان جاری قانونی تنازع کا حصہ ہے۔

دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے بارے میں شواہد جمع کیے جا رہے ہیں۔

ایلون مسک کی جانب سے کمپیوٹر استعمال کرنے کا دعویٰ اس لیے حیران کن ہے کیونکہ اکثرایکس (ٹوئٹر) پر تصاویر یا پوسٹس میں وہ اپنے لیپ ٹاپ کا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔

درحقیقت اکثر وہ گیمنگ کے حوالے سے بھی ایسی پوسٹس اور کمنٹس کرچکے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں۔

یعنی وہ جن ویڈیو گیمز کا حوالہ دیتے ہیں، ان میں سے اکثر صرف کمپیوٹر پر ہی کھیلی جاسکتی ہیں۔

اسی طرح دسمبر 2024 میں انہوں نے ایکس پر ایک لیپ ٹاپ کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ‘یہ میرے لیپ ٹاپ کی تصویر ہے، یہ 3 سال پرانا لیپ ٹاپ ہے’۔

مگر وکلا کے مطابق ایلون مسک لگ بھگ اپنا تمام کام موبائل فون پر کام کرتے ہیں اور اس کے لیے بڑے ڈسپلے والے فونز کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایلون مسک کی جانب سے اوپن اے آئی اور سام آلٹمین کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اوپن اے آئی کو غیر منافع بخش بنیادوں پر کام کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا مگر سام آلٹمین اور کمپنی نے ان اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

اوپن اے آئی نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

اب دونوں فریقین کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے جوابات میں دستاویزات اور ای میلز کو شواہد کے طور پر پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ٹیلی نار پاکستان اور پی ٹی سی ایل، یوفون کا معاہدہ ستمبر 2025 تک توسیع، ریگولیٹری منظوریوں کا انتظار

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کمپیوٹر استعمال کی جانب سے ایلون مسک اوپن اے لیپ ٹاپ

پڑھیں:

دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے

وہ جو کائنات کا رنگ، دھرتی کی ہریالی، سمندرکی وسعت اور آسمان کی نیلاہٹ دیکھ کر خاموشی سے سوچتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے اورکہاں جا رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ امن فقط ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ انسان کی بقا کی شرطِ اول ہے۔

یہ زمین جو ہماری ماں ہے، لاکھوں کروڑوں برس پہلے وجود میں آئی اور ہم ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے ماضی کی عظیم تہذیبوں کو مٹی میں ملا دیا اور وہ جانور جو کبھی اس دھرتی کے بادشاہ تھے، کیوں نابود ہو گئے۔


ہم صرف موجودہ لمحے میں زندہ ہیں اور اکثر تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے خود کو ناقابلِ شکست سمجھ بیٹھتے ہیں۔ کچھ دن پہلے بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے سامنے ایٹمی طاقت کے بدمست گھوڑوں پر سوار تھے، ایک چنگاری، ایک غلطی اور ایک ایسا طوفان اٹھتا جو نسلِ انسانی کو برباد کر سکتا تھا۔

آج پھر روس اور یوکرین کی سرحدوں پر موت رقص کر رہی ہے۔دنیا کے طاقتور حکمران اپنے محلات سے جھانکتے ہوئے جنگ کے شعلوں کو تماشا سمجھتے ہیں، جیسے شطرنج کی بساط پر بس مہرے بدلنے کا کھیل ہو لیکن اُن مہروں میں بسنے والے انسان ہیں، بچے، مائیں، مزدور، طالبعلم اور بزرگ جن کے لیے ہر جنگ ایک قیامت ہوتی ہے۔

کبھی روم کی سلطنت تھی، کبھی مغلوں کا جاہ وجلال، کبھی نازیوں کا غرور، کبھی سامراجی قوتوں کا ظلم، آج اُن کے نقش بھی مٹ چکے ہیں، وقت کا صحیفہ اُن کے اقتدار کے دنوں کو محض عبرت کی کہانیوں میں بدل چکا ہے۔ تاریخ یہ سبق بار بار دیتی ہے کہ جو لوگ پوری دنیا کو زیرِنگیں کرنا چاہتے ہیں، انھیں آخرکار خاک ہونا پڑتا ہے، مگر افسوس کہ یہ سبق آج کے حکمران پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔

ہماری اس دنیا کو آج جتنے خطرات لاحق ہیں، اُن میں سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ ہم نے امن کوکمزوری اور جنگ کو طاقت کا نشان سمجھ لیا ہے۔ ہم نے ہتھیاروں کی دوڑکو ترقی اور امن کی بات کو بزدلی کا طعنہ بنا دیا ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک ہتھیار بیچ کر معیشت سنوار رہے ہیں اور کمزور ملک اُن ہتھیاروں کے بوجھ تلے دب کر بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

ایسے میں اگر کوئی امن کی بات کرتا ہے تو اُسے خام خیالی یوٹوپیا یا نادان کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ انسان کی اصل ضرورت روٹی، پانی، مکان، دوا، تعلیم اور عزت ہے۔ امن ان سب کا دروازہ ہے، جنگ ہر دروازہ بند کردیتی ہے۔

ہم کب سمجھیں گے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ہم کب سیکھیں گے کہ بندوق سے کبھی سکون نہیں آیا۔ ہم کب سوچیں گے کہ نفرت کی زمین پر کبھی محبت کے پھول نہیں کھلتے۔آج اگر دنیا کے حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اگر انھوں نے اپنے اقتدار کی ہوس کو انسانیت پر غالب رکھا تو ایک چھوٹی سی غلطی پوری دنیا کو برباد کرسکتی ہے اور اس سانحے کے بعد پھرکوئی باقی نہ رہے گا، یہ کہنے کو کہ ہم نے خبردار کیا تھا۔

ہم جو آج یہاں بیٹھے لکھ رہے ہیں، بول رہے ہیں، سانس لے رہے ہیں یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہے کہ کوئی جنگ ابھی ہمارے دروازے تک نہیں پہنچی لیکن اگر ہم نے امن کے دیپ نہ جلائے، اگر ہم نے جنگ کے خلاف آواز بلند نہ کی تو وہ دن بھی دور نہیں جب ہم صرف ماضی کی یادوں میں زندہ رہیں گے اور ہمارے بچے صرف یہی پوچھتے رہ جائینگے کہ وہ دنیا کہاں گئی جو کبھی خوبصورت تھی، جو کبھی ہنستی تھی جو کبھی رنگوں سے بھری تھی۔

خدارا، ان انسانوں کو سکون سے جینے دو، جن کی زندگی پہلے ہی غموں سے بھری ہے۔ ایک غریب آدمی کے پاس پہلے ہی روٹی کا مسئلہ، دوا کی کمی اور تعلیم کا فقدان ہے اور اگر اس پر جنگ بھی مسلط کر دی جائے تو اُس کو سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔

امن انسان کا بنیادی حق ہے، یہ کسی طاقتور کی خیرات نہیں، یہ زمین صرف بادشاہوں کی اور حکمرانوں کی جاگیر نہیں، یہ مزدور کی بھی ہے، کسان کی بھی ہے، شاعرکی بھی ہے اور ایک عام انسان کی بھی۔ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا جہاں چھوڑنا ہے، جس میں وہ خواب دیکھ سکیں نہ کہ پناہ گاہیں تلاش کرتے پھریں۔

جنگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف جسموں کو ہی نہیں ذہنوں اور روحوں کو بھی زخم دیتی ہے۔ جو بچ جاتے ہیں وہ بھی اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ دنیا کے وہ علاقے جہاں دہائیوں سے جنگ جاری ہے، اُن کے بچوں کی آنکھوں میں بچپن نہیں خوف ہوتا ہے جسے اسکول میں ہونا چاہیے وہ پناہ گاہ میں ہوتا ہے، جسے استاد کے سوالوں کے جواب دینے چاہیے وہ گولے اور بم گنتا ہے۔

امن کوئی مہنگا سودا نہیں، جنگ ہے جو مہنگی پڑتی ہے، تباہی لاتی ہے، پچھتاوے چھوڑتی ہے، امن وہ شجر ہے جس کی جڑیں انصاف میں ہیں، اگر ہم واقعی امن چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اس نظامِ پر سوال اٹھانا ہوگا جو چند ملکوں کی طاقت اور ہزاروں انسانوں کی کمزوری پر قائم ہے۔

یہ جو سرمایہ داری کا نظام ہے جس نے دنیا کو منڈیوں میں بانٹ رکھا ہے وہی تو ہے جو جنگ کو ہوا دیتا ہے۔ اسلحہ بیچنے والے تیل پر قبضہ کرنیوالے سستی مزدوری کے لیے ملکوں کو عدم استحکام میں رکھنے والے یہی اصل دشمن ہیں، ان کے خلاف اگر ہم آواز نہیں اٹھاتے تو امن کا خواب محض ایک خواب ہی رہے گا۔شاعر، ادیب، دانشور، استاد، طالب علم سب کو مل کر اس شورش زدہ دنیا میں امن کا علم اٹھانا ہوگا۔ ہمیں وہ دیے جلانے ہوں گے جو نفرتوں کی آندھیوں میں بھی بجھنے نہ پائیں۔

ہمیں وہ حرف لکھنے ہوں گے جو بارود کی مہک کو شکست دے سکیں۔آج اگر کوئی یہ کہے کہ ہم بار بار امن کی بات کیوں کرتے ہیں تو اسے بتانا ہوگا کہ ہم اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ابھی تک انسان نے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر سیکھ لیا ہوتا تو آج بھی فلسطین خون میں نہ نہا رہا ہوتا، یمن میں بچے بھوک سے نہ مر رہے ہوتے، افریقہ میں زمینیں ہتھیائی نہ جا رہی ہوتیں اور برما ،کشمیر، یوکرین، سوڈان، غزہ میں انسانی لاشوں کا بوجھ زمین کو نہ اٹھانا پڑتا۔ 

یہ دنیا ہمیں اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے لیے سنوارنی ہے، ہم تو آج ہیں، کل نہیں ہوں گے مگر ہمارے بچے جو آنے والا کل ہیں، ان کے لیے اس دنیا کو سنوارنا اور سنبھالنا ہوگا۔توآئیے، جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں آواز بلند کریں، اس لیے نہیں کہ یہ مقبول بات ہے بلکہ اس لیے کہ یہ سچ ہے اور سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • معرکہ حق کے 95 روز بعد پاکستانی طیارے گرانے کا بھارتی دعویٰ بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے،سینیٹر عرفان صدیقی
  • دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آباد ہندو برادری کو رکشا بندھن کی پیشگی مبارکباد پیش کرتے ہیں، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
  • خیبر پی کے میں حکومت کی تبدیلی خارج از امکان نہیں: امیر مقام 
  • خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی خارج از امکان نہیں،مناسب وقت پر اکثریت ثابت کرینگے، امیر مقام
  • نیا ماڈل متعارف؛ اب اوپن اے آئی انٹرنیٹ کے بغیر چلے گا
  •  خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی ممکن ہے، امیر مقام کا دعویٰ 
  • خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی خارج از امکان نہیں، امیر مقام
  • اوپن اے آئی نے انٹرنیٹ کے بغیر چلنے والا نیا اے آئی ماڈل متعارف کرا دیا
  • ملک کے بڑے شہروں کی یونیورسٹیز اور کالجوں میں منشیات کی فروخت کا انکشاف