WE News:
2025-11-11@05:19:36 GMT

کتابوں کا سحر اور نثار عزیز بٹ

اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT

ممتاز فکشن نگار نثار عزیز بٹ (1927-2020) کی خود نوشت ‘گئے دنوں کا سراغ’ سے ان کے بچپن، لڑکپن اور جوانی میں ذوقِ مطالعہ کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کہانی اس لیے دلچسپ ہے کہ یہ برصغیر کے معروف علمی و ادبی مراکز کے بجائے تقسیم سے پہلے صوبہ سرحد کے چھوٹے بڑے شہروں میں تشکیل پاتی ہے۔ ماں کا سایہ بچپن میں سر سے اٹھنے کے بعد گھریلو زندگی میں آنے والے تغیرات اور والد میاں عبد العزیز (نائب تحصیلدار) کے جگہ جگہ تبادلوں کی وجہ سے اس مسافر کو نگری نگری پھرنا پڑا لیکن ہر جگہ کتاب سے تعلق کی صورت پیدا ہوتی رہی اور جب وہ تعلیم کے لیے لاہور آئیں تو کتابوں سے رشتہ مزید مستحکم ہوگیا۔

اس مضمون میں ہم نثار عزیز کے بچپن سے ایم اے ریاضی تک کے زمانے کی کتابی دنیا کی سیر کریں گے۔

نثار عزیز نے مردان، نوشہرہ، ہنگو، پارا چنار، کوہاٹ، چارسدہ، ہری پور، ایبٹ آباد اور بنوں میں اسکولی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک میں صوبے بھر میں ان کی پہلی پوزیشن تھی۔

ان کے مطالعے کی واضح سمت ایبٹ آباد میں اس وقت متعین ہوئی جب والدہ مرحومہ کے 6 سال سے بندھے سامان کو مصرف میں لانے کا فیصلہ ہوا۔ نثار نے صرف کتابوں میں دلچسپی ظاہر کی۔ ان کے بقول ‘میری توجہ کا مرکز کتابوں کا وہ ڈھیر تھا جو بے پروائی سے برآمدے میں ڈال دیا گیا تھا۔’ کتابوں کے اس ڈھیر سے انہوں نے خوب استفادہ کیا۔ ان کتابوں میں ‘گودڑ کا لعل’، اخترالنسا بیگم، قصہ التمش، قصص الانبیا، طلسم ہوش ربا اور آغا حشر کے ڈرامے شامل تھے۔ ‘سہیلی’ کے بہت سے پرچے بھی ان کے حصے میں آئے۔

نثار عزیز ناول اور کہانیاں پڑھ پڑھ کر آنسو بہایا کرتی تھیں۔

ہری پور میں قلعے میں سرکاری گھر کی تیسری منزل پر مطالعہ میں غرق رہتیں۔ معروف ادبی پرچے ‘ہمایوں’ اور ‘نیرنگ خیال’ زیر مطالعہ رہتے۔ میرزا ادیب کی کتاب ‘صحرا نورد کے خطوط’ انہی دنوں نظر سے گزرے۔ اس زمانے میں حجاب امتیاز علی کی کتابوں نے مسحور کیا۔ ان کا ناول ‘میری ناتمام محبت’ اس قدر بھایا کہ اسے اپنی کاپیوں پر نقل کر ڈالا۔ اس کے بعد لاہور سے وی پی کے ذریعے ان کا ناول ‘صنوبر کے سائے’ منگوایا۔ ان کے بقول ‘یہ نام مجھے بہت پسند تھا کہ ایبٹ آباد کے بنگلوں میں ایستادہ صنوبر کے بانکے درخت میرے دل میں اترے ہوئے تھے۔’ اس وقت ان کے سان گمان میں بھی نہ ہوگا کہ عشروں بعد لاہور میں محبوب مصنفہ سے ان کی دوستی ہو جائےگی۔

حجاب امتیاز علی کی ہستی اور فکشن، زندگی کے دو اہم مرحلوں میں نثار عزیز کے لیے رفیقِ تنہائی ثابت ہوئے۔ انہوں نے ‘گئے دنوں کا سراغ میں’ لکھا:

’جس طرح ان کی ذات نے لاہور میں میرے ابتدائی دنوں کی اداسی اور ویرانی میں رونق اور زندگی پیدا کی اسی طرح ان کے ناولوں اور کہانیوں نے میرے لڑکپن کی ذہنی تنہائی کے دھندلکے کو منور کیا۔‘

اب دوبارہ ہری پور چلتے ہیں جہاں رائیڈر ہیگرڈ کے ناول ‘شی’ کا ‘عذرا’ کے عنوان سے ترجمہ پڑھنے کے بعد لاہور سے ‘عذرا کی واپسی’ وی پی کے ذریعے منگوائی گئی۔

انہوں نے اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے لکھا:

’ان دنوں کتاب میرے لیے کوئی معمولی چیز نہ تھی بلکہ بڑا دھماکا خیز واقعہ ہوا کرتا تھا جو کتاب اچھی لگتی، اس میں تن من دھن سب ڈوب جاتا۔ ان دنوں کی اپنی ذہنی کیفیات مجھے اب تک یاد ہیں۔ پکنکیں، درختوں سے تازہ توڑے ہوئے امرودوں اور دوسرے پھلوں کا ذائقہ، بہار کے شگوفے اور کرنا کے پھول، مندروں میں گونجتی ناقوس کی آواز۔ چھت کا تخلیہ اور گھر کی رونق۔ کتابوں کا سحر۔ سب خلط ملط ہو کر مجھے اتنا غنی کر دیتے کہ میں سرشار سی ہو جاتی’۔

مڈل کا امتحان ایبٹ آباد سے پاس کرنے کے بعد بنوں سے میٹرک کیا۔ کتابوں کے بعد فلم تفریح کا ذریعہ تھی۔ فلمیں ایبٹ آباد میں بھی دیکھی تھیں اور ان کا ‘اشوک کمار اور لیلا چٹنس پر دم نکلتا تھا۔’ بنوں میں نلنی جیونت کی فلم ‘رادھیکا’ اس قدر پسند آئی کہ اس کی کہانی مکالمے اور ایک آدھ گانا اپنی ڈائری میں اتار لیا۔ ان کے بقول ‘اس زمانے میں ہر چیز کتنی اہم اور کتنی متاثر کن ہوا کرتی تھی۔’

بنوں میں انہوں نے زندگی میں پہلا انگریزی ناول ‘دا فرسٹ لیڈی برینڈن ‘پڑھا۔ اس ناول سے انہیں انگریزی ناولوں کی چاٹ لگ گئی۔ دسویں تک ناول پڑھ پڑھ کر انگریزی میں اچھی خاصی استعداد ہوگئی تھی۔

بنوں میں ماموں کے ہاں ایک رات دیوار پر لگے بلب کی روشنی میں صبح ہونے تک مارگریٹ مچل کے ناول ‘گون ود دا ونڈ’ کا مطالعہ کیا۔

اس شہر میں ایم اسلم کے ناولوں سے متعارف ہوئیں لیکن وہ زیادہ پسند نہیں آئے۔

ایک دکان سے ظفر عمر کے جاسوسی ناول کرائے پر لے کر پڑھنے کا تذکرہ بھی وہ کرتی ہیں۔

میٹرک کے بعد 1943 میں تعلیم حاصل کرنے لاہور جانے کی خبر عام ہوئی تو خاندان میں سیاپا پڑ گیا۔ شادی کی ایک تقریب میں ان کی خالہ نے اپنے شوہر سے کہا:

سردار صاحب! یہ لڑکی اب ہاتھ سے گئی۔ لال ساڑھی اور اونچی ایڑی کے جوتے پہن کر ٹخ ٹخ مال روڈ پر پھرتی نظر آئے گی۔‘

ایک عزیزہ نے سمجھایا کہ لاہور جا کر لڑکوں کو خط نہ لکھنا کیونکہ وہ پھر انہیں اخبار میں شائع کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ایسی گفتگو سن کر وہ سوچا کرتی تھیں کہ ‘یاخدا یہ لاہور کیسی جگہ ہے؟’

رشتہ داروں کی طرح طرح کی باتیں ان کا عزم کمزور نہ کر سکیں اور وہ لاہور پہنچ گئیں۔

اسلامیہ کالج کوپر روڈ میں ان کا داخلہ ہو گیا، والد نے انہیں تانگے پر لاہور کی سیر کروائی۔ میکلوڈ روڈ اس زمانے میں سینماؤں کا گڑھ تھا۔ وہاں کی چکا چوند نے انہیں مسحور کر لیا۔ والد نے اپنی مرضی کی فلم دیکھنے کا آپشن دیا تو انہوں نے شانتا آپٹے کی فلم ‘کادمبری’ دیکھنا پسند کی۔ تانگہ پر لارنس گارڈن کی سیر کرنے کے تجربے سے حیرت کا ایک اور در وا ہوا۔ ان کے چچا زاد بھائی نے جو اپنے تئیں ان کو اپنا منگیتر گردانتا تھا ان کے والد کو دھمکی دی کہ اگر نثار لاہور کی سیر کرے گی تو قبرستان کی سیر بھی کرے گی۔ اس گیدڑ بھبکی سے ان کے والد گھبرائے نہیں جنہیں انہوں نے ان لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

‘والد صاحب بھلا ایسی دھمکیوں میں کہاں آتے تھے۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ نہ صرف کبھی خود میرے راستے کی رکاوٹ نہ بنے بلکہ ہمیشہ مجھے حوصلہ اور سہارا دیا اور میری رہنمائی کی کہ میں تعلیم حاصل کرکے ان اندھیروں میں سے نکل سکوں جو اس زمانے میں ہمارے علاقے کی عورتوں کا مقدر تھی۔’

ایف اے کا امتحان دینے کے بعد اوگی میں قیام رہا جہاں ایک دن بیماری نے نڈھال کر دیا۔ ان کی توانائی کے لیے والد نے دو کام کیے۔ کہیں سے شربتِ فولاد کا انتظام کیا جسے پی کر ایک دو روز میں ان کی طبیعت بحال ہو گئی۔ وہ جانتے تھے مریضہ کو کتابوں کی خوراک بھی چاہیے ہو گی سو ڈاک بنگلے سے بیٹی کے لیے بہت سے انگریزی ناول لے آئے۔ نثار عزیز کے بقول ‘میں اتنی خوش ہوئی کہ تقریباً دو زانو ہو کر ان کا شکریہ ادا کیا اور ناول پڑھنے میں جٹ گئی۔’

لاہور سے 12 نومبر 1945 کو والد کے نام خط میں انہیں علالت کی اطلاع دی اور اپنی ٹیچر مس ٹھاکر داس کے ہاسٹل میں خیریت دریافت کرنے کے لیے آنے کا بتایا جو بیمار کو وکٹر ہیوگو کا ناول Les Misérables پڑھتے دیکھ کر ‘دنگ رہ گئیں۔ دو تین بار کہا ‘

‘ بچے بیماری میں یہ کتاب پڑھ رہی ہو؟’

اس کے بعد انہوں نے لائبریرین کو بلا کر کہا آئندہ نثار عزیز کو کتابیں نہ ایشو کی جائیں۔

کالج میں بی اے کے زمانے میں انگریزی ادب ڈوب کر پڑھا۔ کیٹس، شیلے اور بائرن کی دیوانی ہو گئیں۔ ہارڈی، ڈکنز، تھیکرے، شارلٹ، ایملی برانٹے اور جین آسٹن کی تصانیف کا مطالعہ کیا۔ کالج میں ان کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی جس کی وجہ سے کلاس فیلوز نے ان کا نام ‘لیڈی ود دا بک ‘رکھ دیا۔ ان کے بقول ‘صرف دن کو ہی نہیں راتوں کو بھی دروازوں کی جھریوں میں کپڑے ٹھونس کر میں پڑھتی رہتی۔ مس ٹھاکر داس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میرا بہت سا وقت ناول پڑھنے میں صرف ہوتا ہے وہ بڑے لطیف قسم کے اشاروں سے میری توجہ ریاضی کی طرف موڑ نے کی کوشش کرتیں۔’

سری نگر سیر سپاٹے کے لیے جانا ہوا تو وہاں بھی کتابوں کی رفاقت میں وقت گزرا۔ ہاؤس بوٹ میں کتابوں کا شیلف بھی تھا جس میں انگریزی ناول اور دوسرے موضوعات پر کتابیں رکھی تھیں۔ قدرتی حسن نے انہیں اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا لیکن کتابوں کے خیال سے بھی غافل نہ رہیں۔

پارا چنار میں ڈی ایف کراکا کی کتاب ‘آئی گو ویسٹ’ پڑھنے کا موقع ملا۔

نثار عزیز بٹ کی والد سے مذہب اور مابعدالطبیعیات کے بارے میں بحث بھی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ ان کے والد کا پارہ اتنا چڑھا کہ غصے میں نیاز فتح پوری کی کتاب ‘من و یزداں’ زمین پر پٹخ دی۔ سرتاج عزیز اس فکری لڑائی میں بہن کا ساتھ دیتے تھے۔

سرتاج عزیز آگے چل کر ممتاز ماہر معاشیات اور پاکستانی کے وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ بنے۔

ایم اے ریاضی کے دوران نثار عزیز نے ٹالسٹائی کی ‘وار اینڈ پیس’ اور سمرسٹ ماہم کی ‘آف ہیومن بانڈیج’ پڑھی۔

گورکی کے ناول ‘ماں’ نے ذہن میں ہیجان برپا کیا۔

ایم اے کا رزلٹ آنے کے بعد ان کی بچپن کی سہیلی انہیں کوہاٹ اپنے ہاں لے گئیں جہاں اس کے ایک عزیز کے گھر ٹالسٹائی کی آپ بیتی نثار عزیز کے ہاتھ لگ گئی۔ یہ کتاب انہیں ‘وار اینڈ پیس’ سے زیادہ اچھی لگی۔ ان کے بقول ‘ٹالسٹائی کے اثر کے مدار میں داخل ہو گئی۔ ڈھٹائی یہ کی کہ کتاب مالک کو واپس ہی نہ کی۔’

ناول اور کہانی تو بچپن سے ان کے دم ساز بن گئے تھے، ریاضی کی طرف لانے میں اسلامیہ کالج کی استاد مس ٹھاکر داس کی کوششوں کو دخل تھا۔ اس مضمون میں ماسٹر ڈگری لینے سے پہلے پھیپڑوں کی بیماری کی وجہ سے بڑی تکلیف اٹھائی انہیں ڈاڈر میں سینی ٹوریم میں بھی ٹھہرنا پڑا۔

رفتہ رفتہ انہیں احساس ہوا کہ ریاضی کے اندر بھی ایک مسحور کن دنیا بسی ہے اور انہیں اس قول پر یقین آنے لگا جسے ان کے بقول افلاطون نے اپنے دروازے پر درج کروایا تھا: جسے جیومیٹری کا علم حاصل نہیں وہ اس دروازے سے اندر نہ آئے۔

نثار عزیز بٹ نے لکھا ہے کہ اگر ان کو ریاضی کی شدھ بدھ نہ ہوتی تو فلسفے کی بعض کتابیں ان کو سمجھ نہ آتیں اس سلسلے میں ان کے نزدیک سب سے اہم کتاب سپنگلر کی ‘زوال مغرب’ ہے جس نے ان کے بقول ‘میری ذہنی زندگی میں زبردست انقلاب پیدا کیا’۔

کتابوں سے سروکار سے نثار عزیز بٹ کو لکھنے کے عمل میں یقیناً بہت فائدہ ہوا ہوگا۔ اس سے ان کی فکر میں پختگی اور کشادگی آئی ہو گی، لیکن کتابوں سے انہیں ادبی و فکری سطح سے ہٹ کر جو کچھ ملا وہ بھی کم اہم نہیں اور یہ وہ سرمایہ ہے جسے ہر پرخلوص قاری حاصل کر کے امیر ہو سکتا ہے۔ اس پہلو کو نثار عزیز بٹ نے ‘گئے دنوں کا سراغ’ میں یوں اجاگر کیا ہے:

کتابیں چاہے وہ ادب اور فلسفے کی ہوں، چاہے ریاضی کی مجھے میری معصومیت واپس دلا دیتیں۔۔۔ کتابوں کی دنیا میں اب بھی مجھے زندگی کے آغاز سی سادگی، بے ساختگی اور معصومیت میسر ہے۔ یہ بھی ایک بڑی نعمت ہے۔’

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews فکشن نگار کتابوں کا سحر نثار عزیز بٹ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فکشن نگار کتابوں کا سحر وی نیوز انگریزی ناول نثار عزیز کے ان کے بقول کتابوں کا ایبٹ آباد ریاضی کی انہوں نے سے ان کے کے ناول کی کتاب کا سراغ کے بعد کے لیے کی سیر

پڑھیں:

لاہور میں گھریلو جھگڑے پر خاتون نے خودکشی کرلی

علامتی تصویر۔

لاہور کے علاقے رائیونڈ کے آرائیاں گاؤں میں خاتون نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی۔ 

پولیس کے مطابق گھریلو جھگڑے پر دلبرداشتہ ہو کر خاتون نے کیمیکل پی لیا، حالت بگڑنے پر اسپتال منتقلی کے دوران دم توڑ گئی۔ 

پولیس کے مطابق متوفیہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے میں منتقل کی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • عوام کو صاف اور وافر پانی کی فراہمی اولین ترجیح ہے‘وزیراعلیٰ
  • محمدی گراؤنڈ عزیز آباد بلاک 8 کی تزئین و آرائش کا کام جاری
  • لاہور: گیس سلنڈر دھماکا، 3 افراد جاں بحق
  • لاہور: گیس سلنڈر دھماکا، 2 افراد جاں بحق
  • جامعۃ العروۃ الوثقى لاہور میں قومی اُردو کانفرنس کا انعقاد
  • لاہور میں گھریلو جھگڑے پر خاتون نے خودکشی کرلی
  • میرا لاہور (آخری حصہ)
  • مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق ایم این اے افتخار چیمہ انتقال، وزیر اعظم کا اظہار تعزیت
  • سینئیر قانون دان، سیاستدان جسٹس(ر)افتخار احمد چیمہ انتقال کر گئے