WE News:
2025-11-11@05:19:36 GMT

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT

سیاست کے کھیل میں شطرنج کی اصطلاحات کا استعمال بے سبب نہیں، سیاست کی بازی بھی شطرنج کی بازی کی طرح آگے بڑھتی ہے، اگر آپ شطرنج کا کھیل سمجھتے ہوں تو بساط کی صورتحال دیکھ کر آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس پلیئر کی پوزیشن مضبوط ہے، اور کمزور پلیئر کس جانب سے اپنی صف کمزور کر بیٹھا ہے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر آئیے مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بساط کا جائزہ لیتے ہیں۔

مولانا کا سیاسی کیریئر جنرل ضیا کی آمریت کے دوران شروع ہوا تھا، وہ نو آموز تھے سو نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم نے انہیں سرپرستی میں لے لیا۔ نوابزادہ کو پاور پالیٹکس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ احراری تھے سو احراری مزاج ہی ان کا مزاج تھا، مزاحمتی مزاج۔ ہمارے ہاں مزاحمتی سیاست ہمیشہ ہی مقبول رہی ہے۔ اس کی وجہ شاید برٹش دور ہے جس میں طویل مزاحمت چلی۔ ضیا آمریت کے سبب ملک میں مزاحمت کا ہی ماحول تھا۔ یوں مولانا کی گڈی کو اڑان میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ اس دور کی ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ یہی محترمہ بینظیر بھٹو کے سیاسی کیریئر کا بھی نقطہ آغاز تھا۔ محترمہ جانتی تھیں کہ ان کے والد کی نیہ ڈبونے میں مفتی محمود مرحوم کا رول کلیدی رہا تھا۔ سو انہوں نے مولانا کو ہمیشہ کے لیے قریب کرلیا، تاکہ اس مذہبی کارڈ کو اپنے پرس میں سنبھال کر محفوظ کرلیں جو ان کے والد کو لے بیٹھا تھا۔

یہ مذہبی کارڈ خود محترمہ کے لیے کتنا کارآمد ثابت ہوا، اس کا اندازہ ایک مثال سے لگا لیجیے۔ محترمہ جب اقتدار میں آئیں تو مولانا سمیع الحق مرحوم نواز شریف کی جیب میں تھے، سو نواز شریف نے یہی کارڈ محترمہ کے خلاف چل دیا، مولانا سمیع الحق بس ایک ہی رٹا لگائے رہے۔

’اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں‘

محترمہ نظر انداز کرگئیں، لیکن ان کے دوسرے دور میں یہ کارڈ ایک بار پھر چل دیا گیا، اس اسمبلی میں جے یو آئی کے ایک نہایت قابل رکن قاضی فضل اللہ بھی تھے۔ وہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ وکیل بھی تھے، اور سیاست سے ان کی وابستگی زمانہ طالب علمی سے رہی تھی۔ اوپر سے نہایت صاحب مطالعہ، وہ محترمہ کو بھا گئے تھے، سو محترمہ نے ایک روز انہی سے پوچھا:

’قاضی صاحب! یہ جو عورت کی حکمرانی والا مذہبی کارڈ ہے اس کا کیا کروں؟‘

قاضی صاحب بولے

’آپ جوابی سوال کیجیے کہ کیا اسلام میں نواز شریف کی حکمرانی جائز ہے؟‘

یوں نواز شریف ٹیم کے مولانا سمیع الحق کے فتویٰ غبارے سے ساری ہوا پھررررر کر گئی۔

محترمہ کا یہی دوسرا دور حکومت تھا جب مولانا فضل الرحمان نے پہلی بار پاور پالیٹکس کے مزے لیے۔ آپ ذہانت دیکھیے کہ وزارت کی بجائے انہوں صرف سفارتیں لیں۔ غالباً تین ممالک میں اپنے سفیر تعینات کروا لیے تھے۔ ساتھ ہی خود قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کی چیئرمین شپ لے لی تھی۔ اس حکمت عملی کے ذریعے وہ خود کو اپوزیشن ہی قرار دینے پر مصر رہے تھے۔

بھلا بوجھیے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اجارہ داری کس کی چلی آ رہی ہے؟ حکومت محترمہ بینظیر بھٹو کی ہو اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کی چیئرمین شپ مولانا کے پاس تو یہ سیریس معاملہ ہوا۔ سو بچھ گئی شطرنج کی سیریس بساط۔ کس نے بچھائی؟ نازک سوال ہے، سو ایک کام کرتے ہیں۔ چونکہ شطرنج کے سب سے بڑے لیجنڈز رشیا سے رہے ہیں۔ ہم مولانا کے حریف کا نام روسی قسم کا رکھ لیتے ہیں۔ ’اداروف‘ کیسا رہے گا؟ سو اداروف نے شطرنج کی بساط بچھا دی کہ مولانا کو اگلی اسمبلی میں نہیں چھوڑنا۔

1997 والے الیکشن سے ایک ہفتہ قبل ہم نے ہی ڈیرہ اسماعیل خان فون کرکے مولانا کو آگاہ کیا۔

’مولانا! آپ کی شکست طے پاچکی‘

’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس بار میری پوزیشن پچھلے تمام انتخابات سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے‘

’شاید اسی لیے فیصلہ ہوا ہے کہ آپ کو پچھلی بار سے 10 ہزار ووٹ زیادہ دے کر ہروایا جائے‘

اس پر وہ چونکے، اگلے دن ان کا فون آیا

’میں نے صدر لغاری سے بات کی، وہ قسمیں اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ آپ سے کسی نے جھوٹ کہا ہے‘

اب ہم کیا کہتے؟ چپ کر گئے، لیکن الیکشن سے دو روز قبل ان کا پھر فون آگیا۔

مجھ سے کمشنر ڈی آئی خان مل کر گیا ہے، اس نے کہا، مولانا ہمیں آپ کو ہروانے کا حکم آگیا ہے۔ مرکز میں ٹاپ لیول پر کسی سے بات وات کر سکتے ہیں تو کرلیں، ورنہ ہم نے تو تعمیل کرنی ہے۔

خلاصہ یہ کہ مولانا پچھلے الیکشن سے 10 ہزار ووٹ زیادہ لے کر ہار گئے۔ اس پر مولانا جارحانہ موڈ میں آگئے اور اعلان کردیا کہ ہم انتخابی سیاست سے لاتعلقی کے آپشن کا جائزہ لیں گے۔ افغانستان میں طالبان حکمران ہوں اور پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کا لیڈر انتخابی سیاست ترک کرنے کی بات کردے تو یہ خطرے کی گھنٹی نہیں گھنٹال تھا۔ نتیجہ یہ کہ مغربی سفارتکاروں کی دوڑیں لگ گئیں، سو اداروف کے لیے یہی موقع تھا مولانا کو بوتل میں اتارنے کا۔

اداروف کی مولانا سے دو ملاقاتیں ہوئیں، نتائج اتنے حوصلہ افزا تھے کہ مولانا کی تیسری ملاقات اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے کروائی گئی۔ معاملات کس خوش اسلوبی سے طے ہوئے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجیے کہ خوار سی ایم ایم اے کو چارہ ملنا شروع ہوگیا جو آگے چل کر جنرل مشرف کے کام آئی۔ مگر ایک گڑبڑ شروع ہوگئی۔ 2002 والے الیکشن کے نتائج آتے ہی مولانا نے ضد پکڑ لی کہ وزیراعظم انہی کو بنایا جائے۔ مشرف نے سمجھایا کہ حضور نائن الیون کے بعد کا ماحول دیکھیے اور اپنی خواہش دیکھیے، اپوزیشن لیڈر کی بھی بڑی ٹور ہوتی ہے۔ آگے پیچھے بڑے سائرن بجتے ہیں، اسی پر گزارہ کرلیجیے، مگر مولانا ایک بڑا فاؤل کر بیٹھے۔

یاد ہے ان کی 2002 والی اسمبلی کے افتتاحی سیشن کی تقریر جس میں انہوں نے پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کی تشکیل پر جملہ کسا

’یہ ضمیر کی آواز نہیں، جنرل ضمیر کی آواز ہے‘

تب جنرل احتشام ضمیر ڈی جی سی تھے، سو مولانا کا جملہ پہاڑ جیسی غلطی تھی، نام کے اشارے تو کبھی محترمہ اور میاں نے نہ دیے تھے، کیونکہ یہ سنگین فاؤل ہوتا ہے، ناقابل معافی فاؤل۔ اداروف نے کس کو کیا دینا ہے؟ کب دینا ہے؟ یہ وہی طے کرتا ہے۔ مولانا کی خوش فہمی یہ تھی کہ وہ فاؤل پلے سے اپنی مرضی مسلط کروا سکتے ہیں۔ سو وہ دن ہے، یہ دن ہے اداروف نے ان کا پولیٹکل چین سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ یاد کیجیے عمران خان کے غبارے میں لاہور والے مشہور زمانہ جلسے سے ہوا بھری دی گئی تو فوراً ہی انہیں یہ ہدف بھی دے دیا گیا کہ مولانا کو ٹارگٹ کیجیے۔ خان اداروف کے اس حکم کی تعمیل میں ہر حد پار کرگئے۔

حد یہ ہے کہ مولانا اداروف سے قطع تعلق بھی نہیں کرتے اور چیلنج بھی کررہے ہوتے ہیں، اس کے نتائج بھی انہی کو بھگتنے پڑتے ہیں جانتے ہیں 2018 کے الیکشن میں اداروف نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ان سے ان کے ان امیدواروں کی لسٹیں مانگی گئیں جن کی جیت ان کے لیے بہت اہم تھی، اور انہوں نے لسٹیں دے بھی دیں۔ اداروف نے مولانا کو ان تمام سمیت شکست سے دوچار کروا دیا، اور ساتھ ہی یہ مسالہ بھی چھڑک دیا کہ ان کے برخوردار کو جتوا دیا۔ بہت ہی ستم ظریف ہے اداروف۔

اس سب کے نتیجے میں مولانا سیاسی ڈپریشن کا اس قدر شکار ہوگئے ہیں کہ اب تقاریر میں آپ کی جگہ ’تم‘ کا تخاطب اختیار کرلیا ہے۔ ذرا طرز خطاب دیکھیے۔

’تم ہمیں جانتے نہیں ہو کہ ہم کون ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘

’تم ہمارے سامنے بچونگڑے ہو بچونگڑے۔۔۔۔۔۔‘

’تم اپنی حد میں رہو، فرعون مت بنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘

اور انہیں لگتا ہے اس کے نتیجے میں انہیں وزارت عظمیٰ نصیب ہوجائے گی، یہ اداروف اور اس کے اعصاب کو جانتے نہیں۔ صرف یہی نہیں اس کے لمبے گیم کا بھی شعور نہیں رکھتے۔ انہیں لگتا ہے کہ راشد سومرو کے آنے سے جے یو آئی ایک بڑی اسٹریٹ پاور بن گئی ہے۔ ان کا لانگ مارچ، بڑے جلسے اور توہین آمیز لہجہ انہیں کامیابی کے بہت قریب پہنچا چکا ہے۔ سو یہ ہم انہیں بتا دیتے ہیں کہ بساط کے مطابق ہمیں کھیل کس انجام کی جانب بڑھتا نظر آرہا ہے۔

ہم حلفیہ کہتے ہیں کہ اگلی سطور ہم کسی اطلاع کی بنیاد پر نہیں بلکہ کھیل کے شعور کی بنیاد پر لکھ رہے ہیں۔ یہ کھیل تب تک ٹھیک سے سمجھ نہیں آتا جب تک آپ خود کو اداروف کی سیٹ پر رکھ کر نہ سوچیں۔ سو اداروف کی سیٹ سے ہمیں یہ نظر آرہا ہے راشد سومرو لاڑکانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی بھٹو فیملی کا لاڑکانہ جس کے تسلط سے سندھ کو آزاد کرانا اداروف کے اہداف میں سے ہے۔ راشد اپنے دم پر ٹھیک ٹھاک ووٹ لے لیتا ہے، بس جیت نہیں سکتا۔ اسی طرح کا امیدوار تو اداروف کو چاہیے ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ پچھلے الیکشن میں سندھ سے جے یو آئی کے بہت سے امیدواروں کا کھڑا ہونا اور قابل ذکر ووٹ لینا ایک ’ڈرائی رن‘ تھا۔ اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے؟ یہ مولانا کسی سابق اداروف دوست سے پوچھ لیں۔

سو اب اداروف کو کیا کرنا ہے؟ اسے بس اس دن کا انتظار کرنا ہے جب مولانا اپنی عمر تمام کرچکیں گے، اس کے بعد والے الیکشن میں جے یو آئی سندھ سے جیتے گی مگر بس اتنا کہ پیپلزپارٹی زلزلے سے تو دوچار ہوجائے مگر جو یو آئی کا قد اس سے چھوٹا ہی رہے۔ اداروف کی ایک بری عادت یہ ہے کہ وہ ایک تیر سے ایک شکار پر یقین نہیں رکھتا۔ سو ہدف صرف پیپلزپارٹی نہیں بنے گی۔ سوری مولانا! اداروف کی سیٹ سے تو ہمیں یہی نظر آرہا ہے کہ اس الیکشن میں آپ کے سارے برخوردار ہار جائیں گے۔ پارٹی پر آپ کے بعد گرفت آلریڈی راشد کی ہے۔ کارکن اس سے جڑے ہوئے ہیں آپ کے برخورداروں سے نہیں۔ اب یہ بھی بھلا بتانے کی ضرورت ہے کہ کارکن ویسے بھی ڈیرے وہیں جماتا ہے جہاں سیٹ اور سرکاری مزے ہوں؟ ہے ناں ہولناک منظر کہ عبدالخیل تاریخ کی نذر اور لاڑکانہ جے یو آئی کا نیا مرکز۔ جہاں آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ علامہ راشد محمود سومرو حفظہ اللہ بلاول زرداری کے سینے پر اداروف کے لیے مونگ دلا کریں گے!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews پیپلز پارٹی جمعیت علما اسلام جے یو آئی راشد محمود سومرو قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی جمعیت علما اسلام جے یو ا ئی قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمان وی نیوز الیکشن میں اداروف کے کہ مولانا اداروف نے مولانا کو اداروف کی نواز شریف جے یو آئی شطرنج کی میں یہ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

عرفان صدیقی کا انتقال، مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا پیغام بھی آگیا

اسلام آباد، لاہور (ویب ڈیسک) مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور کالم نویس عرفان صدیقی انتقال کرگئے ہیں جس پر پارٹی کے قائد نوازشریف کا تعزیتی پیغام بھی آگیا۔

ایکس پر اپنے پیغام میں نوازشریف نے لکھا کہ "انتہائی مخلص اور بااعتماد ساتھی عرفان صدیقی صاحب کی وفات سے دلی رنج ہوا۔ میرے دل میں انکی بہت اچھی اور لازوال یادیں ہیں۔ انکی وفات ایک عزیز ترین بھائی کا بچھڑ جانا ہے جسکی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔

 انکا قلم ہمیشہ حق اور سچ کے باب لکھتا رہا۔دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں میری ہمدردیاں انکے اہلخانہ کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالٰی عرفان صدیقی صاحب کو جنت کے اعلیٰ درجات عطاء فرمائے اور اہلخانہ کو صبر دے۔ آمین"۔

احمد الشراع کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ، وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والے پہلے شامی صدر بن گئے

مزید :

متعلقہ مضامین

  • عرفان صدیقی کا انتقال، مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا پیغام بھی آگیا
  • پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے والے کیخلاف کارروائی ہو گی، مولانا غفور حیدری
  • مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی ڈاکٹر نبیہا علی پر کڑی تنقید
  • مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی ڈاکٹر نبیحہ پر کڑی تنقید
  • پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ کرنے والے کیخلاف کارروائی ہو گی، مولانا غفور حیدری
  • ڈاکٹر نبیحہ نے حد سے تجاوز کیا، تنقید کے بعد مولانا طارق جمیل کے بیٹے خاموش نہ رہ سکے
  • ’27ویں منظور، اب 28ویں ترمیم کی تیاری کریں‘
  • خواب دیکھنے والے کہاں ہیں؟
  • شہرِ قائد میں ہیوی ٹریفک کیلئے مختلف روٹس بند، صبح 6 سے رات 10 بجے تک پابندی عائد