بھارتی پنجابی فلم ’سردار جی تھری‘ پر بھارتی فلم سازوں کے شدید ردعمل کے بعد دلجیت دوسانجھ نے اپنے مؤقف کا اظہار کیا ہے۔
فلم ’سردار جی تھری‘ کا ٹریلر ریلیز ہونے کے بعد گلوکار و اداکار دلجیت دوسانجھ کو بھارتی فلم سازوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
بھارت کی آل انڈیا سینی ورکرز ایسوسی ایشن (اے آئی سی ڈبلیو اے) اور فیڈریشن آف ویسٹرن انڈیا سینی ایمپلائز (ایف ڈبلیو آئی سی ای) نے دلجیت دوسانجھ اور فلم کے پروڈیوسرز کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی ہے اور بھارت میں فلم کی آئندہ ریلیز کے تمام منصوبے روکنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
فلمی تنظیم کے مطابق پاکستانی فنکاروں کو بھارتی فنکاروں پر ترجیح دینا دلجیت دوسانجھ کی وفاداری اور ترجیحات پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
حال ہی میں دلجیت دوسانجھ نے بی بی سی ایشیا کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے فلم کو بیرونِ ملک ریلیز کرنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے یہ فلم سائن کی، اُس وقت بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر تھے۔
انہوں نے بتایا کہ فلم کی شوٹنگ فروری میں ہوئی تھی، اُس وقت حالات ٹھیک تھے، مگر فروری کے بعد کچھ ایسے واقعات پیش آئے جو ان کے کنٹرول میں نہیں تھے۔
دلجیت دوسانجھ کا کہنا تھا کہ فلم کے پروڈیوسرز نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ فلم بیرونِ ملک ریلیز کریں گے، کیونکہ اس پر بہت سرمایہ لگ چکا ہے اور وہ اس فیصلے میں پروڈیوسرز کے ساتھ ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت میں فلم ریلیز نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نقصان ہوگا، کیونکہ وہ ایک بڑے ناظرین کے طبقے کو کھو دیں گے۔
ہانیہ عامر کے ساتھ کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے دلجیت نے کہا کہ ’ہانیہ عامر نہ صرف اچھی اداکارہ ہیں بلکہ بہت پروفیشنل بھی ہیں‘۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: دلجیت دوسانجھ

پڑھیں:

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز

ریاض احمدچودھری

شدت پسند مودی حکومت کے دور میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا، حالیہ ہندو مسلم فسادات نے بھارت میں مذہبی رواداری اور جمہوریت کے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ کانپور سے شروع ہونے والے مذہبی تنازع نے 4 ستمبر کو بڑے فسادات کی شکل اختیار کر لی جسے مبصرین نے "گجرات ٹو” قرار دیا ہے، یہ آگ تیزی سے دیگر ریاستوں میں بھی پھیل گئی۔ فسادات کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں متعدد معصوم مسلمان زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت کا ہندوتوا ایجنڈا بھارت کو فاشزم کی تجربہ گاہ میں بدل چکا ہے، نہ صرف اظہارِ رائے بلکہ مذہبی آزادی بھی اب مکمل طور پر ہندوتوا نظریے کی تابع بنا دی گئی ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مودی کی سیاست نے بھارت کو مذہبی منافرت اور ریاستی جبر کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
سال 2025ء کی آمد پر بھارتی ریاست منی پور میں خونریزی اور نسلی فسادات کا سلسلہ شدت اختیار کر چکا ہے، جہاں مسیحی برادری اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ منی پور کے علاقے امپھال میں عسکریت پسندوں نے حالیہ حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں کئی افراد اپنے گھروں کو چھوڑرہے ہیں۔ان حملوں میں عسکریت پسندوں نے جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا۔ حملوں کے بعد، کوکی قبائل کے افراد نے بھارتی فورسز اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا، اور ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز نے عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے گاؤں والوں کو لوٹا۔ مقامی رہنماؤں کا الزام ہے کہ مودی سرکار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نہتے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔کوکی قبائل کے افراد نے یہ بھی کہا کہ بھارتی حکومت کی متصبانہ پالیسیوں اور فرقہ وارانہ حکمت عملیوں کے باعث منی پور میں حالات مزید بگڑ چکے ہیں، اور مقامی لوگوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ منی پور میں نسلی اور مذہبی کشیدگی کی صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ بھارتی حکومت کی خاموشی اور عدم مداخلت کی وجہ سے ریاست میں امن و سکون کی فضا متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی حکومت سے فوری طور پر مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ اقلیتی برادریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کو منظم طور پر ہوا دینے کے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔ امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے لے کر گھروں کو بلڈوز کرنے تک؛ 2002 کے گجرات قتل عام سے لے کر 2020 کے دہلی فسادات تک؛ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت سے لے کر 2024 میں اس کے ملبے پر مندر کی تعمیر تک؛ گاؤ کے تحفظ کی آڑ میں تشدد اور پر ہجوم تشدد کے واقعات سے لے کر مساجد اور مزارات پر حملے—ہندوستان کا ریکارڈ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں سے داغدار ہے۔
بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت مسلم ثقافت، مذہبی ورثے اور تاریخی شناخت کو نشانہ بنانے کی منظم مہم پر گامزن ہے۔ مودی سرکار کی یہ پالیسیاں بھارت کو ”ہندو راشٹر” میں تبدیل کرنے کے انتہاء پسندانہ ایجنڈے کی عکاس ہیں۔مودی حکومت کے تحت مساجد کی شہادت، تاریخی عمارتوں پر قبضے اور مسلمانوں سے منسوب شہروں کے نام تبدیل کرنے جیسے اقدامات میں تیزی آ گئی ہے، جو بھارتی مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت اور سیاسی مفاد پر مبنی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔دی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بھارتی ریاست اْتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ضلع لکھیم پور کھیری کے علاقے مصطفیٰ آباد کا نام بدل کر کبیر دھام رکھنے کا اعلان کیا ہے۔مقامی ہندوؤں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصطفی آباد کا نام کبیر دھام رکھا جائے گا۔یوگی آدتیہ ناتھ کا الزام ہے کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ایودھیا کا نام فیض آباد، اور پریاگ راج کا الہٰ آباد رکھا تھا۔اب مودی حکومت تاریخی مقامات کے نام ہندو مذہب سے منسوب کرنے کی مہم جاری رکھے گی۔آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ فنڈز اب قبرستانوں کی چاردیواری کی تعمیر کے بجائے ہندو عقیدے اور ورثہ کی ترقی کیلئے استعمال ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، بی جے پی کی یہ مہم محض شہروں کے ناموں کی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کی مسلم تاریخ اور شناخت کو مٹانے کی سازش ہے۔ مودی کا نعرہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” عملی طور پر ”سب کو مٹاؤ، ایک کا راج” میں بدل چکا ہے۔بھارتی مسلمان، مودی حکومت کی سرپرستی میں ریاستی سطح پر جاری نفرت، انتقام اور فرقہ وارانہ تقسیم کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
  • دلجیت دوسانجھ کو دھمکیاں، آکلینڈ میں کنسرٹ متاثر ہونے کا خدشہ
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • ریاست جوناگڑھ پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 78 برس مکمل
  • آفتاب احمد شیرپاؤ کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے فوج مخالف بیان پر شدید ردعمل
  • وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا بے بنیاد اور نفرت انگیز بیان، عوام کا شدید ردعمل
  • جوناگڑھ پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 78 سال مکمل
  • بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بیان پر وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام کا شدید ردعمل
  • آخری ایٹمی تجربہ 98ء میں کیا تھا، بھارتی موقف ہمیشہ غیر واضح: پاکستان