بنگلہ دیش نے پاکستان اور چین کیساتھ ملکر سہ فریقی اتحاد بنانے کی خبروں کی تردید کردی
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
بنگلہ دیش نے پاکستان اور چین کے ہمراہ مل کر کر سہ فریقی اتحاد کے قیام کی خبروں کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ تینوں ممالک کے وفود کی چین میں حالیہ ملاقات کوئی سیاسی اقدام نہیں بلکہ ایک رابطے اور تجارت سے متعلق سرگرمی تھی۔
بنگلہ دیش کے خارجہ امور کے مشیر محمد توحید حسین نے جمعرات کو وزارت خارجہ میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی اتحاد تشکیل نہیں دے رہے ہیں، یہ چین کی طرف سے شروع کیا گیا تھا اور یہ مکمل طور پر سرکاری سطح پر تھا، سیاسی نہیں۔ یہ ایک عملی بات چیت تھی جس کا مقصد رابطہ کاری میں بہتری اور تجارت کو فروغ دینا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: چین، بنگلہ دیش اور پاکستان کے سہ فریقی اجلاس کا آغاز، تعاون کے نئے دور کی بنیاد
واضح رہے کہ اس سے قبل میڈیا رپورٹس اور چین اور پاکستان سے جاری سرکاری بیانات میں ملاقات کے بعد ایک مشترکہ ورکنگ گروپ کے قیام کا ذکر کیا گیا تھا تاکہ سہ فریقی تعاون کو آگے بڑھایا جا سکے، مگر بنگلہ دیش ایسے کسی گروپ کے قیام کی تردید کی ہے۔
خارجہ امور کے مشیر نے کہا کہ ہمیں کسی بات سے انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو ہم نے اپنے بیان میں کہا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی منظم یا رسمی فریم ورک پر بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ ہر ملک نے اپنے تناظر سے بات چیت کو دیکھا۔ اگر مستقبل میں کوئی زیادہ منظم شکل اختیار کرتی ہے، تو ہم آپ کو مناسب وقت پر آگاہ کریں گے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 19 جون کو کنمنگ، چین میں ایک سہ فریقی ملاقات ہوئی، جس میں بنگلہ دیش، چین اور پاکستان کے خارجہ سیکرٹریز ایک نمائش کے دوران ملے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: بنگلہ دیشی وزارت خارجہ میں اہم تبدیلی، اسد عالم سیام نئے سیکریٹری خارجہ مقرر
انہوں نے زور دیا کہ یہ سہ فریقی روابط کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہیں اور بنگلہ دیش دیگر ممالک کے ساتھ بھی اسی طرح کے تعاون کے لیے تیار ہے، اگر بھارت، نیپال، اور بنگلہ دیش مل کر رابطہ کاری کے بارے میں بات کرنا چاہیں، تو میں تیار ہوں۔ اس ملاقات نے توجہ اس میں شامل ممالک یعنی چین اور پاکستان کی وجہ سے حاصل کی۔
بنگلہ دیش کے مشیر خارجہ نے میڈیا سے درخواست کی کہ وہ چین میں ہونےوالی اس ملاقات کی بنیاد پر زیادہ قیاس آرائیاں نہ کریں، یہ معمول کی بات چیت تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اور پاکستان بنگلہ دیش بات چیت
پڑھیں:
صدر ججز صاحبان کو ان کی مرضی کیساتھ ایک سے دوسری ہائیکورٹ منتقل کر سکتے ہیں: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر ٹرانسفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں ہائی کورٹ کے ججوں کا ٹرانسفر آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی سنیارٹی اور تبادلے کے کیس کا 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اصل نکتہ یا بنیادی شرط یہ ہے کہ جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے سے پہلے صدر مملکت کو متعلقہ جج کی رضامندی لینا ضروری ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سب سے اہم دوسرا پہلو مشاورت کا عمل ہے۔ مشاورت کے عمل میں صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے پابند ہیں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کو آئین کے تحت ججوں کے ٹرانسفر کا اختیار حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 175 اے اور 200 میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دونوں آرٹیکلز کے مطابق مختلف مواقع سے نمٹنے کے لیے موقف مختلف تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جج کی منتقلی جج کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔ ججوں کی منتقلی کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ منتقلی کے عمل میں عدلیہ کی رائے کو اولیت حاصل ہے۔ عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ ججوں کی منتقلی سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ ججوں کی منتقلی میں بدنیتی یا انتقامی کارروائی ثابت نہیں ہوئی۔ ججوں کی منتقلی آئین اور قانون کے مطابق ہوئی ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 منتقلی پر قدغن نہیں لگاتا اور صوبائی نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ معاملہ سنیارٹی کے تعین کے لیے صدر کو واپس بھجوایا جاتا ہے۔