ایران اسرائیل جنگ سے جنگ بندی تک
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران اور اسرائیل کی لڑائی میں تباہ حال عمارتوں کی تعداد اور نقصان کا تناسب نہیں لڑنے کی ادا اور انداز یادگار رہے گا۔ دونوں کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے مگر اب بھی تصادم کے امکانات اور خطرات سایوں کی طرح سر پر منڈلا رہے ہیں۔ اسرائیل مسلم دنیا میں اپنے اندر کے خوف کی تمام وجوہات کو دور کرتا ہوا آخر کار ایران تک پہنچ گیا۔ یہاں بھی اسرائیل کے خوف کی بنیادیں بھی وہی تھیں اور مقاصد اور مقاصد کے حصول کا انداز بھی پرانا ہی تھا۔ اسرائیل کے مقاصد میں پہلا یہ ہے کہ مسلم دنیا جس کی زمین پر وہ اپنی دیوہیکل عمارت تعمیر کرچکا ہے دوبارہ اس عمارت کو خاکستر کرنے کی پوزیشن میں نہ آئے۔ اس خوف کی بنیاد پر اسرائیل نے اپنے گرد وپیش کے خطرات کو اپنی باڑھ میں بدل دیا ہے۔ یعنی جن مسلمان ملکوں کو اسرائیل سے اپنی ہتھیائی ہوئی زمین واپس لینا تھی وہ اس کے محافظ اور نگہبان بن بیٹھے ہیں۔ اسی خوف کے تحت اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹم بم جیسا مہلک ہتھیار نہ رہے۔ عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کی تباہی سے پاکستان کے ایٹم بم کے تعاقب تک اور لیبیا کے ایٹمی مواد کی منتقلی سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں تک اسرائیل ہمیشہ اپنے خوف کے زیر اثر رہا ہے۔ ایران اس سفر کا اہم پڑاؤ تھا جہاں اسرائیل کو ہمیشہ مزاحمت اور مخاصمت کی چنگاریاں نظر آتی رہی ہیں۔ ایران پر حملے کے اسرائیل کے دو مقاصد تھے جن میں پہلا ایران کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ اور دوسرا ایران میں رجیم چینج یعنی حکومت کی تبدیلی۔ ایٹمی صلاحیت کی طرح حکومت کی تبدیلی کا تعلق بھی اسرائیل کے خوف سے ہے۔ اسے مسلم دنیا میں اپنی مخالفت میں جلتی بجھتی ہوئی ہلکی سی چنگاری بھی قبول نہیں کہیں یہ شعلہ بن کر اس کے دامن سے نہ لپک جائے۔
ظاہر ہے کہ اسرائیل کے جو کرتوت اور عزائم ہیں اس میں یہ سارے خوف بے سبب بھی نہیں۔ ایران کو ایٹمی توانائی سے محروم کرنے کے لیے میزائلوں کی بارش کی منصوبہ بندی تھی اور اس کے ساتھ ہی ایٹمی پروگرام سے وابستہ سائنس دانوں کو نشانہ بنا نا بھی مقصود تھا تاکہ ایران دوبارہ یہ صلاحیت حاصل کرنے کے قابل نہ رہے۔ اس دوران موساد کے سلیپرز سیل حرکت میں آنا تھے اور غیر مطمئن عوام کے جتھوں کا بالکل اسی طرح ظہور ہونا تھا جیسے لیبیا میں معمر قذافی کا تختہ اْلٹنے کے وقت ہوا تھا۔ اس بارات کا دولہا بھی تیار تھا اور وہ تھا سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کا بیٹا محمد رضا پہلوی جو برسوں سے امریکا میں مقیم ہے۔ ایران پر حملے کے ساتھ ہی رضا پہلوی کی رونمائی بھی ہوئی اور وہ ٹویٹر اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر ایران میں جمہوریت کی بحالی پر بھاشن دیتے نظر آنے لگے۔ اس سے بھی بڑھ کر رضا پہلوی کی رونمائی کا انداز بھی تکبر اور نخوت سے بھرپور تھا۔ رضا پہلوی کی امریکا کے مجسمہ ٔ آزادی کے ساتھ تصویر نظر آتی تو اچنبھا نہ تھا مگر ان کی تصویر اسرائیل میں دیوار گریہ کے ساتھ ماتھا ٹیکتے ہوئے سامنے آئی اور وائرل ہوئی۔ اس تصویر کے ذریعے اسرائیل دنیا کو بالعموم اور مسلم دنیا کو بالخصوص یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ ماضی کی رجیم چینج کے برعکس ایران کی رجیم چینج کا قافلہ سالار خود اسرائیل ہے اور ایران کے متوقع حکمران سے دیوار گریہ سے ماتھا ٹیکنے کا کام لینے کا مقصد اسرائیل کی وفاداری کا حلف لینا تھا۔ یہ مسلمان دنیا کے حکمرانوں کے پیغام تھا کہ ان کے پاس اسرائیل کی اطاعت کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہا اب انہیں امریکا کے بجائے اسرائیل کی وفاداری کی بنیاد منصب اور عہدہ ملا کرے گا۔ رضا پہلوی نے بھی اعلان کیا کہ ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای اپنا کنٹرول کھو چکے ہیں اور اب حکومت کی تبدیلی میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ امریکا بھی ایرانی قیادت کے اعصاب کا امتحان لے کر دھمکانے کا انداز اپنائے ہوئے تھا۔
یہاں ایران کی قیادت نے کمال استقامت کا مظاہرہ کرکے اپنا فوکس اسرائیل پر رکھا اور اسرائیل کے تقدس اور تقدیس کا جامہ تار تار کردیا۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے جو حالات فلسطینی مسلمانوں کا مقدر بنا کر رکھ چھوڑے تھے پہلی بار اسرائیل کے عافیت کدے کو انہی حالات کا سامنا کر نا پڑا۔ بیروت گولان کی پہاڑیوں غزہ، رام اللہ اور دمشق اپنی حدود سے دور جنگ لڑنے کے عادی اسرائیل کو پہلی بار تل ابیب اور حائفہ میں جنگ کا نظارہ کرنا پڑا یوں غزہ اور تل ابیب کے مقدر کی تفریق مٹ کر رہ گئی۔ جو مناظر اسرائیل نے فلسطینیوں کا مقدر بنائے تھے تل ابیب بھی انہی مناظر سے آشنا ہوتا چلا گیا۔ غزہ کی صورت حال نے گردو نواح کے مسلمان ملکوں کو محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کیا۔ غزہ کے حالات کی وجہ سے مسلمان رائے عامہ میں درد وکرب کی ایک خاموش لہر دوڑ رہی ہے اس میں اگر کسی مسلمان ملک نے اسرائیل کی معمولی سی حمایت دکھائی تو رائے عامہ میں ایک بیزاری اور بیداری کی لہر پیدا ہونے کا امکان پوری طرح موجود تھا اسی لیے مسلمان حکمران اس جنگ میں حد درجہ محتاط رویہ اپنائے ہوئے نظر آئے۔ اسرائیل کو امریکا کے غیر متوقع ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اپنا ٹرمپ کارڈ لے آیا۔ اسرائیل کا ٹرمپ کارڈ جنگ میں امریکا کا کود پڑنا تھا۔ ا مریکا یہ جانتا ہے کہ خلیج میں ایران کے ساتھ دو اور شکاری پھندہ لگائے زمین پر ا س کا انتظارکر رہے ہیں۔ چند برس قبل صدر پیوٹن صدر شی جن پنگ اور ایرانی صدر حسن روحانی کی ایک تصویر سامنے آئی تھی جس میں وہ دوربین سے کچھ دیکھ رہے تھے۔ اس وقت خیال تھا کہ امریکا براہ راست غزہ میں آنا چاہتا ہے اور اس تصویر کو اسی تناظر میں لیا گیا تھا کہ تین شکاری گھات لگائے بیٹھے ہیں۔
ایران اسرائیل تنازع طوالت اختیار کرتا تو یہ تصویر عمل کی شکل میں سامنے آسکتی تھی۔ امریکا اسرائیل کی براہ راست مدد کو آتا تو ایران کے دوستوں کو بھی اس جنگ میں کودنے سے روکنا ممکن نہ رہتا۔ اس لیے امریکا نے ایران پر حملے کرنے کے ساتھ اپنی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کیا اور یوں امریکا نے اسرائیل کے مطالبے اور اصرار پر اتمام حجت کرلیا۔ ایران نے بھی امریکا کے اڈوں پر حملے کرکے حساب بے باق کر دیا۔ اسرائیل اس جنگ میں امریکا کو گھسیٹ کر اپنا ٹرمپ کارڈ کھیل بیٹھا مگر ایران کے پاس کئی کارڈ موجود تھے۔ ایران نے حماس حزب اللہ اور حوثیوں کو متحرک نہیں کیا۔ ایران نے صرف آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی جو اس کا سب سے اہم ٹرمپ کارڈ ہے۔ آبنائے ہرمز تجارت کی وہ عالمی گزرگاہ ہے جس کو بند کرنے کی صلاحیت اور طاقت ایران کے پاس ہے۔ یہ وہ بحری راستہ ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال عرب ملکوں کو تجارت کے لیے یورپ اور شمالی امریکا سے ملاتا ہے اور دنیا میں تیل کی بیس فی صد تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ ایران اس گزر گاہ کو بند کرکے دنیا میں ایک بڑا بحران پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس گزرگاہ کی بندش سے تیل کی پیداوار کے حامل اور اس کے خریدار سبھی ملک متاثر ہوسکتے ہیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھ کر کئی معاشی بحرانوں کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایران اپنے اس پوٹینشل کو دوسروں کے قدموں میں پھینک کر خود کو عالمی اور علاقائی سیاست میں بے وقعت نہیں کرتا بلکہ وہ گاہے گاہے اس ہتھیار کو استعمال کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ اس بار بھی ایران کی پارلیمنٹ نے اس ہتھیار کو استعمال کرنے کی منظوری دی تو دنیا میں خوف وخطرے کی ایک لہر دوڑ گئی اور یوں امریکا اور اسرائیل دونوں کو حالات نے اپنے عزائم منصوبوں اور ارادوں کی پوٹلی کاندھے پر اْٹھائے واپس لوٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے اسرائیل کی رضا پہلوی امریکا کے مسلم دنیا ٹرمپ کارڈ ایران کے دنیا میں ایران کی ایران اس کے ساتھ پر حملے کرنے کی تیل کی نا پڑا تھا کہ کے پاس اور اس
پڑھیں:
ایران نے امریکا اور اسرائیل کی پہنچ سے دور اپنا "متبادل جوہری مرکز" مکمل کر لیا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ پک ایکس تنصیب نہ صرف یورینیم کو افزودہ کرنے بلکہ سینٹری فیوجز تیار کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق یہ پہاڑ سطح سمندر سے 1608 میٹر بلند ہے، یعنی فردو کے پہاڑ سے 50 فیصد زیادہ بلند ہے، اور اس کے نیچے موجود چیمبرز اتنے گہرے ہیں کہ امریکی بنکر بسٹر بم بھی انہیں تباہ کرنے میں شاید ناکام ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تنصیب کی گہرائی سطح زمین سے 100 میٹرز سے بھی نیچے ہے جبکہ فردو تنصیب کی گہرائی 60 سے 90 میٹر ہے۔ خصوصی رپورٹ:
ایران ایک ایسا مربوط جوہری نظام چلاتا ہے جو نقشے پر محض چند جامد مقامات نہیں بلکہ ایک وسیع، محفوظ اور مضبوط انفرا اسٹرکچر پر مشتمل ہے۔ مغربی میڈیا رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں درجنوں تنصیبات میں ہزاروں سائنسدان اور انجینئر کام کرتے ہیں، ایران کا افزودہ یورینیئم کا ذخیرہ، جسے 16 چھوٹے کینسٹروں میں سمیٹا جاسکتا ہے، کسی ایک جگہ نہیں رکھا جاتا، وہ ایران کے مختلف جوہری مراکز میں مسلسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
برطانوی روزنامے کی رپورٹ میں یہ دعویٰ سامنے آیا کہ جب عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل نے ایران سے وضاحت طلب کی تھی کہ پک ایکس پہاڑ کی سطح کے نیچے کیا ہو رہا ہے تو انہیں مختصر جواب دیا گیا کہ اس سے آپ کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اپریل 2025 میں رافیل گروسی کی جانب سے پوچھا گیا یہ سوال اب زیادہ اہم ہوگیا ہے کیونکہ فردو اور نطنز میں جوہری افزودگی کرنے والے مراکز کو امریکی طیاروں نے بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا ہے۔ رافیل گروسی نے ایران سے اس وقت وضاحت طلب کی جب انہیں معلوم ہوا کہ 'پک ایکس' کے نام سے معروف پہاڑ 'کوہِ کولنگ گزلہ' کے نیچے کوئی بڑا منصوبہ جاری ہے۔ برطانوی روزنامے ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حملے سے قبل 16 ٹرکوں کو فردو کے باہر قطار لگائے دیکھا گیا تھا اور ایرانی جوہری پروگرام کے ایک ماہر نے برطانوی روزنامے کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے افزدہ یورینیم کو امریکی بمباری سے قبل ایک خفیہ مقام میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ پک ایکس کے نام سے معروف پہاڑ نطنز کے قریب صوبہ اصفہان میں واقع ہے اور فردو سے صرف 90 میل دور جنوب میں واقع ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہاں حالیہ برسوں میں خفیہ طور پر ایک نئی وسیع اور گہری زیرِزمین تنصیب تعمیر کی گئی ہے جس کے چار سرنگی داخلی راستے ہیں اور گہرائی 100 میٹر سے زائد ہے، جس کے باعث یہ فردو سے زیادہ محفوظ مرکز ہے۔ اس تنصیب کی تعمیر بدستور جاری ہےاور اسے گزشتہ 4 برسوں سے خفیہ طور پر توسیع دی جا رہی ہے۔ اسرائیلی دفاعی اداروں سے وابستہ سابق افسر سیما شائن کا کہنا ہے کہ ایران نے سینکڑوں یا ہزاروں جدید سینٹری فیوجز خفیہ مقامات پر منتقل کیے ہیں جو ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کی تیاری میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 17 مئی تک ایران کے پاس 60 فیصد تک افزودہ 408.6 کلوگرام یورینیم موجود تھا جو کہ 90 فیصد کی حد سے کچھ کم ہے جو ایٹمی ہتھیار کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پک ایکس تنصیب نہ صرف یورینیم کو افزودہ کرنے بلکہ سینٹری فیوجز تیار کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق یہ پہاڑ سطح سمندر سے 1608 میٹر بلند ہے، یعنی فردو کے پہاڑ سے 50 فیصد زیادہ بلند ہے، اور اس کے نیچے موجود چیمبرز اتنے گہرے ہیں کہ امریکی بنکر بسٹر بم بھی انہیں تباہ کرنے میں شاید ناکام ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تنصیب کی گہرائی سطح زمین سے 100 میٹرز سے بھی نیچے ہے جبکہ فردو تنصیب کی گہرائی 60 سے 90 میٹر ہے۔ امریکی تھنک ٹینک FDD سے وابستہ ماہرریول مارک گریچٹ کے مطابق یہ تنصیب ایران کو ایسی جگہ مہیا کرتی ہے جسے امریکی فضائیہ بھی اپنے طاقتور ترین بموں سے تباہ کرنے میں دشواری محسوس کرے گی۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا ہے، لیکن جنگ بندی کے فوراً بعد اسرائیلی طیاروں نے ایران میں اہداف کو نشانہ بنایا جس پر ناراض ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فون کر کے شکایت کی کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ اگر تہران کو ریاستی بقا کا خطرہ محسوس ہوا تو وہ کھلے عام جوہری ہتھیار بنانے کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی کا کہنا ہے کہ اگر تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو جائیں تو بھی کھیل ختم نہیں ہوتا کیونکہ علم، مواد اور ارادہ موجود ہے۔ ایک اور رکنِ پارلیمنٹ احمد نادری کے مطابق اب ہمیں جوہری بم کا تجربہ کرنا ہو گا اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ تاہم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا فتویٰ تاحال موجود ہے جس کے مطابق جوہری ہتھیار بنانا حرام ہے لیکن کچھ علما اور ارکان پارلیمنٹ اب کہہ رہے ہیں کہ 'وقت اور حالات کے تحت فتویٰ بھی بدلا جا سکتا ہے'۔ عالمی طاقتوں کی نظریں اب کوہِ کولنگ گزلہ کے نیچے چھپے ایران کے جوہری راز پر جمی ہوئی ہیں۔ کیا واقعی ایران نے امریکا اور اسرائیل کی پہنچ سے دور اپنا "متبادل جوہری مرکز" مکمل کر لیا ہے؟ اس کا جواب آنے والے وقت میں ہی ملے گا۔
بشکریہ: جیو ڈاٹ کام