عمران خان کے بیٹے امریکہ گئے نہیں بلکہ فیلڈ مارشل کے لنچ کے بعد بلائے گئے ہیں : حیدر نقوی
اشاعت کی تاریخ: 25th, July 2025 GMT
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی حیدر نقوی نے دعویٰ کیاہے کہ عمران خان کے بیٹے امریکہ گئے نہیں بلکہ فیلڈ مارشل کے لنچ کے بعد بلائے گئے ہیں، لگتا ہے کہ عمران خان رہا ہو رہے ہیں، لیکن آزادی ، غلامی ، بغاوت ، دھرنے ، جلسے سب کی سیاست ختم کر کے ،ہو سکتاہے کہ آخری قسط چلے جس میں چند ہزار لوگ جمع کرکے رہا ہو کر نعرے لگا کر گھر چلاجائے اور پھر بیرون ملک ۔
سینئر صحافی حیدر نقوی نے ایکس پر جاری پیغام میں کہا کہ عمران خان کے بیٹے امریکہ گئے نہیں ہیں بلکہ فیلڈ مارشل کے لنچ کے بعد اُن کو بلایا گیا ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ ، عمران خان کی رہائی کے معاملے میں اُس وقت تک نہیں پڑنا چاہتے جب تک خان کے بیٹے اپنے بڑوں کے ذریعے یہ گارنٹی نہ دے دیں کہ خان رہائی کے بعد ریاست پاکستان کے لیے کوئی پریشانی نہیں کھڑی کرے گا اور بیرون ملک جاکر رہائش اختیار کرلے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ خان کے بیٹوں نے ابھی تک پی ٹی آئی کے کسی رہنما سے ملاقات نہیں کی ہے کیونکہ وہ سب اب غیر متعلقہ ہو گئے ہیں حالانکہ عارف علوی ابھی امریکہ میں ہی ہے۔
عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر غور کر رہے ہیں: چیف جسٹس پاکستان
انہوں نے کہا کہ ریاست بھی خان کو اُس وقت تک نہیں چھوڑنا چاہتی جب تک کوئی قابل اعتبار گارنٹر بیچ میں نہ ہو اور یہ ہی وجہ ہے کہ خان ابھی تک رہا نہ ہوسکا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اُن سب کو جلد از جلد لمبی سزائیں دی جارہی ہیں جو خان کی رہائی کے بعد پیچھے بغاوت کو بڑھانے کی کوشش کریں، اب لگتا تو یہ ہی ہے کہ خان رہا ہورہا ہے مگر آزادی غلامی بغاوت دھرنے جلسے سب کی سیاست ختم کرکے ، ہوسکتا ہے ایک آخری قسط چلے چند ہزار لوگ جمع کرکے رہا ہوکر نعرے لگاکر گھر چلا جائے اور پھر بیرون ملک اور پھر لمبا سکون ۔
اسلام دلوں کو جوڑنے والا دین ہے ، ڈاکٹر طاہرالقادری کا گلاسگو میں اتحاد اُمت کانفرنس سے خطاب
عمران خان کے بیٹے امریکہ گۓ نہیں ہیں بلکہ اُن کو بلایا گیا ہے فیلڈ مارشل کے لنچ کے بعد۔
ڈونلڈ ٹرمپ خان کی رہائ کے معاملے میں اُس وقت تک نہیں پڑنا چاہتے جب تک خان کے بیٹے اپنے بڑوں کے ذریعے یہ گارنٹی نہ دے دیں کہ خان رہائ کے بعد ریاست پاکستان کے لیے کوئ پریشانی نہیں کھڑی کرے گا…
مزید :.
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل کے لنچ کے بعد ہیں بلکہ خان رہا کہ خان رہا ہو
پڑھیں:
ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حال ہی میں کچھ لوگ ہماری سیاسی کوششوں کو ’مائنس فارمولے‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جیسے یہ عمران خان کو کمزور کرنے یا پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر قبضہ کرنے کی سازش ہو، واضح رہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر ممکن ہی نہیں، وہ اس کے بانی، چہرہ اور قوت ہیں۔سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ محمود مولوی، فواد چوہدری اور میں نے جو کاوش کی ہے یہ کسی سازش کا حصہ نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش ہے کہ جس کے تحت پاکستانی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مفاہمت کی طرف واپس لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمت اور مسلسل احتجاج کی سیاست نے پی ٹی آئی کے لیے صرف گرتی ہوئی سیاسی گنجائش، گرفتاریوں اور تھکن کے سوا کچھ نہیں چھوڑا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم رک کر سوچیں، جائزہ لیں اور دوبارہ تعمیر کریں۔ہم نے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں سے مشاورت کی، تقریبا سب نے تسلیم کیا کہ محاذ آرائی ناکام ہو چکی ہے اور مفاہمت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔مزید لکھا کہ جب ہم نے کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری اعجاز سے اور پی کے ایل آئی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، تو دونوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ جمود ختم ہونا چاہیے، ان کا مطالبہ سیاسی سانس لینے کی معمول کی گنجائش تھا، سرنڈر نہیں۔
بدقسمتی سے رابطوں کی کمی، خوف اور سوشل میڈیا کی مسلسل گرمی نے پی ٹی آئی کے اندر کسی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔سابق گورنر کا کہنا تھا کہ دوسری طرف بیرونِ ملک بیٹھے کچھ خودساختہ اینکرز نے دشمنی اور انتشار کو ہوا دے کر اسے ذاتی مفاد کا کاروبار بنا لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بڑھتی ہوئی سفارتی ساکھ نے پاکستان کے بارے میں دنیا کے تاثر کو بدل دیا، یہ توقع کہ غیر ملکی طاقتیں خود بخود عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی، پوری نہیں ہوئی۔یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رہنما سمجھتا ہے کہ تصادم اور احتجاج ہی درست راستہ ہے، تو وہ آگے بڑھے اور ہم میں سے ان لوگوں کو قائل کرے جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، بحث و مباحثہ خوش آئند ہے مگر اندھی محاذ آرائی مستقل سیاسی حکمتِ عملی نہیں بن سکتی۔
ہماری کوشش آزاد، مخلص اور صرف ضمیر کی آواز پر مبنی ہے، ہم چاہتے ہیں معمول کی سیاست بحال ہو، ادارے اپنا کردار ادا کریں اور سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے۔اگر مفاہمت کو غداری سمجھا جاتا ہے، تو ٹھیک ہے، ہم دل سے پی ٹی آئی کی بقا اور پاکستان کے استحکام کے لیے سوچ رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما فواد چوہدری نے بھی یکم نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے اور وہ اس وقت تک کم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں سائیڈ یہ فیصلہ نہ کریں کہ انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور ایک نے قدم بڑھانا ہے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے، تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اُس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔اس سے قبل 31 اکتوبر کو فواد چوہدری، عمران اسمٰعیل اور محمود مولوی نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے لاہور میں اہم ملاقات کی تھی۔