Islam Times:
2025-11-05@02:39:22 GMT

جنسی درندے، بھیڑیئے اور دین کا لبادہ

اشاعت کی تاریخ: 25th, July 2025 GMT

جنسی درندے، بھیڑیئے اور دین کا لبادہ

اسلام ٹائمز: مدارس دینیہ و مراکز میں کم سن بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات و سانحات اس قدر عام فعل بن چکا ہے کہ کوئی شہر ایسے سکینڈلز سے محفوظ نہیں، شاید ہی کوئی شہر بچ گیا ہو، جہاں باقاعدہ ایف آئی آرز درج نا کی گئی ہوں، مگر اسکی روک تھام کیلئے کہیں سے کوئی موثر آواز نہیں سنائی دیتی۔ جو بے حد افسوسناک و خطرناک ہے، معاشرے کی تعلیم و تربیت اور تہذیب کا ذمہ چونکہ دین کے ٹھیکیداروں کے سپرد ہی سمجھا جاتا ہے۔ لہذا یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی میں جوں کا توں ہی رہنے کا اندیشہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ خاندان کے ایک بچے کو حافظ قرآن بنا کر بخشوانے کے چکر میں اپنے لعل و گوہر کو جہنم کے گڑھے میں مت پھینکیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان میں اس وقت جہاں اور بہت سے ایشوز میڈیا پر دیکھے، سنے اور پڑھے جا رہے ہیں، وہاں ایک اہم ایشو ایسا ہے، جس پر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع اپنا نکتہ نظر پیش کر رہے ہیں، مگر چھوٹی چھوٹی سی بات پر ہنگامنہ کھڑا کر دینے پر تیار مذہبی عناصر کو اس ایشو پر بات کرنا مدارس کو بدنام کرنا لگتا ہے۔ ایسے ایشو کو سامنے لانا دینی حلقوں کی برائی کرنے کے مترادف محسوس کیا جاتا ہے، جبکہ یہ ایشو تقریباً ہر دن کسی نا کسی علاقے میں ایسے ہی سامنے آتا ہے، مگر تھوڑا سا ہائی لایٹ ہونے کے بعد دبا دیا جاتا ہے۔ ہم جس ایشو پر بات کر رہے ہیں، وہ مدارس و مساجد میں بچوں، کم سن بچیوں کیساتھ ہونے والی جنسی زیادتی، ہراسمنٹ اور مدارس میں رائج تشدد کا ہونا ہے۔ حالیہ دنوں میں سوات کے ایک مدرسہ میں ایک کم سن طالبعلم کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی، کم سن طالبعلم سے دراصل جنسی ہوس کو پورا کرنے کی وجہ سے تشدد کیا جاتا تھا، تاکہ وہ مار کے ڈرسے خود کو قاری کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور قاری جسے بھیڑیا کہنا زیادہ مناسب ہے، اسے اپنی شہوت مٹانے کیلئے صبح مساء نوچتا رہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

سوات کا یہ واقعہ جس میں ایک بارہ سال کا بچہ جان سے چلا گیا، کوئی پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی آخری ہے۔ یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی مدرسہ، اسکول اور دیگر مقامات پر ہوتے ہیں، جہاں والدین بچوں کو تعلیم و تربیت کیلئے بھیجتے ہیں، اعتماد کرتے ہیں۔ پاکستانی مدارس میں چونکہ آج بھی پرانے طرز کی سختی ہوتی ہے، اساتذہ عمومی طور پر غیر شادی شدہ جوان ہوتے ہیں، شادی شدہ بھی ہوں تو تو کم عمر بچوں کیساتھ مستقل رہنے کی وجہ سے ان میں شہوانیت ابھر آتی ہے اور وہ اپنے شہوانی جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ نتیجتاً یہ سلسلہ دراز ہو جاتا ہے، ہر ایک بچہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ مزاحمت کرے، اکثر بچے کم عمری میں اپنے استاد کے رعب و دبدبہ میں ہوتے ہیں۔ اسکولز کی نسبت مدارس میں آج بھی بچوں کو بدترین طریقہ سے مارا جاتا ہے، سختی کی جاتی ہے، ڈنڈے سوٹے، پلاسٹک کے پائیپ اور نا جانے کیسے کیسے طریقہ سے سبق یاد کروانے کیلئے تشدد کیا جاتا ہے۔

جس کی وجہ سے بچوں کے ذہن میں خوف بیٹھ جاتا ہے، جبکہ بچوں کو والدین یا سرپرستوں کی جانب سے بھی سخت تاکید کی جاتی ہے کہ وہ دین کے عالم و فاضل بننے کیلئے سختیاں جھیلیں، اسی میں بہتری ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دینی اداروں سے وابستہ لوگ اس طرح کی نازیبا حرکات کرتے ہیں، ان پر پرچے اور ایف آئی آرز بھی کٹتی ہیں، گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں، مگر نتیجہ وہ نہیں نکلتا، جو ایسے ہی کسی جرم کرنے والے عام آدمی کیساتھ نکلتا ہے، عام آدمی تو بچوں کیساتھ بدفعلی کرکے جیل جا کر ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے، جبکہ کسی مسجد کا ملاں اگر پکڑا جائے تو اہل محلہ اسے خاموشی سے مسجد سے رات کے اندھیرے میں بہ حفاظت نکال دیتے ہیں، تاکہ مسجد اور متاثرہ بچہ کی بدنامی نا ہو، بہت ہی کم کیسز میں جب کچھ حد سے آگے بڑھ جائے تو کیس سامنے آتا ہے، ورنہ ملاں، قاری کسی دوسرے محلے کی مسجد میں جا کر مصلیٰ سنبھال لیتا ہے، مجموعی طور پر ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

ایک اور پہلو یہ ہوتا ہے کہ مدارس نیٹ ورک ہر فرقہ و مکتب کے الگ الگ ہیں اور ان کے بورڈ بھی اپنے اپنے ہیں، لہذا جب کسی مکتب یا فرقہ کے مدرسہ میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو عمومی طور پر اس فرقہ و بورڈ والے بہر صورت اسے جھوٹا الزام، اسلام کے خلاف سازش اور دینی مدارس کے خلاف عالمی سازش کا حصہ ثابت کرنے کی پوری کوشش ہوتی ہے، ایسا بھی ہوتا آرہا ہے کہ ایسے واقعات کے شرمناک مناظر کو ریکارڈ کیا جاتا ہے، جو لیک ہو جاتے ہیں، اس کے باوجود ملاں کے ہم فرقہ اس کی حمایت میں نکل آتے ہیں۔ عجیب ہے کہ یہاں معمولی بات پر توہین توہین کا کھیل کھیلنے والے سب کچھ دیکھتے ہوئے کبھی مسجد کے تقدس کیلئے سراپا احتجاج نہیں ہوتے، کبھی محراب کی توہین پر جلاو گھیراو نہیں کرتے، کبھی قرآن کی بے حرمتی پر جیتے جی کسی ملزم کو آگ و خون میں نہیں نہلاتے، جبکہ بہت سے واقعات میں ایسی ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں، جن میں قاری یا مدرس سامنے قرآن رکھ کے سبق پڑھا رہا ہے اور ساتھ بچے یا بچی کیساتھ جنسی استحصال کرر ہا ہے۔

محراب مسجد جہاں نمازیں پڑھائی جاتی ہیں، جس کی اسلام میں قدر و منزلت ہے، اس کو جنسی استحصال اور زنا خانہ میں تبدیل کرنے والے کے خلاف سراپا احتجاج نہیں ہوتے۔ سوشل میڈیا ایسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے، جن میں واضح طور پر مسجد، مدرسہ، محراب، منبر کی توہین، قرآن کی بے حرمتی کا قانون لگنا چاہیئے، مگر اس میں انہیں دین کے خلاف سازش کی بو آنے لگتی ہے۔ حقیقت میں تو دین کے خلاف جنسی بھیڑیا نما قاری اور مسجد کا ملاں کرتا ہے، جس پر دین کے نام پر اعتماد کیا جاتا ہے اور کم سن نابالغ بچے اور بچیوں کو اس کے پاس بھیجا جاتا ہے اور وہ اس اعتماد کا بیڑا غرق کرتا ہے۔ اس کے اس عمل سے اسلام بدنام ہوتا ہے، مسجد و مدرسہ اور اس کے دیگر اساتذہ پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اصولی طور پر اس درندے کے خلاف بذات خود مدرسہ کے بورڈ کو ایکشن لینا چاہیئے اور اس مدرسہ کی رجسٹریشن کینسل کرکے اس ملاں کو نشان عبرت بنا دیا جائے، تاکہ وہ کسی دوسرے علاقے میں جا کر اپنا دھندہ نا کرسکے۔

مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے ہی لاہور کے ایک نامور مدرسہ و دینی جماعت سے وابستہ بڑے مفتی اور استاد پر الزام لگا تو اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اس کی تردید کی اور اسے سازش قرار دیا۔ اس کے ہم فرقہ بھی میدان میں نکلے اور پریس کانفرنسیں کرنے لگے کہ یہ سازش ہے۔ بعد ازاں اس عمل کی ویڈیوز سامنے آئیں تو ملاں جی نے فرار کیا، جسے بعد ازاں گرفتار کر لیا گیا، اس لیے کہ ایک ویڈیو نہیں تھی، تین چار کلپس تھے، جن سے کچھ بھی پردہ نہیں رہا تھا۔ یہ ایک مثال ہے، جس میں ایک بڑے مفتی کی جنسی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد اس کے ہم مکتبوں نے باقاعدہ احتجاج بھی کیا، پریس کانفرنسز بھی کیں۔ ایسے ان گنت واقعات اس دھرتی پر وقوع پذیر ہوچکے ہیں، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اس لیے کہ کبھی بھی کسی ایک واقعہ میں کسی مجرم کو سزا نہیں ملی، عدالتیں بھی دین کے نام پر بنے جتھوں سے بلیک میل ہوتی ہیں، انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

اول تو عدالتی کارروائی سے قبل ہی معاملات کنٹرول میں لائے جا چکے ہوتے ہیں، متاثرہ فیملی کو کسی نا کسی طریقہ سے رام کر لیا جاتا ہے، جیسے ایک دو برس قبل ایک کیس جڑانوالہ کے علاقے میں ہوا تھا، اس میں ملاں اور متاثرہ بچہ ایک ہی گروہ سے تھے، جسے بچانے کیلئے لاہور سے ایک نامور ملاں کے صاحبزادے فوری طور پر اپنے گروہ کے ملاں کو بچانے کیلئے میدان میں آن کھڑے ہوئے اور اندر کھاتے مل ملا کر چپکے سے صلح کروا دی۔ پاکستان میں دینی جماعتوں پر عام عوام کا اعتماد اسی وجہ سے نہیں بنتا کہ یہ منافقت، دوغلا پن اور دوہرا معیار بنائے ہوئے ہیں، ان کے اپنے معیارات اور کلیے و قاعدے ہیں، جن سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کی اسلام پسند اکثریت ان نام نہاد دینی جماعتوں کو الیکشن میں آگے نہیں آنے دیتی۔

بہرحال مدارس دینیہ و مراکز میں کم سن بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات و سانحات اس قدر عام فعل بن چکا ہے کہ کوئی شہر ایسے سکینڈلز سے محفوظ نہیں، شاید ہی کوئی شہر بچ گیا ہو، جہاں باقاعدہ ایف آئی آرز درج نا کی گئی ہوں، مگر اس کی روک تھام کیلئے کہیں سے کوئی موثر آواز نہیں سنائی دیتی۔ جو بے حد افسوسناک و خطرناک ہے، معاشرے کی تعلیم و تربیت اور تہذیب کا ذمہ چونکہ دین کے ٹھیکیداروں کے سپرد ہی سمجھا جاتا ہے۔ لہذا یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی میں جوں کا توں ہی رہنے کا اندیشہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ خاندان کے ایک بچے کو حافظ قرآن بنا کر بخشوانے کے چکر میں اپنے لعل و گوہر کو جہنم کے گڑھے میں مت پھینکیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بچوں کیساتھ کیا جاتا ہے کی وجہ سے ہوتے ہیں کوئی شہر رہے ہیں کے خلاف کے ایک ہے اور اور اس دین کے

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • بانی پی ٹی آئی کا متبادل کوئی نہیں، بات ختم، عمران اسماعیل
  • فارم 47 نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت ہوگی، عمران خان
  • ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)
  • پاکستان میں دینی مدارس کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، احسن اقبال
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • سوڈان: آر ایس ایف نے 300 خواتین کو ہلاک، متعدد کیساتھ جنسی زیادتی کردی، سوڈانی وزیر کا دعویٰ