اگر حشد الشعبی نہ ہوتی تو ہم شام کے علویوں کیطرح مارے جاتے، سابق عراقی وزیراعظم کے مشیر
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں ایوب الربیعی کا کہنا تھا کہ حشد الشعبی صرف ایک رسمی سیکورٹی ادارہ نہیں بلکہ قربانی اور بہادری کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق عراقی وزیراعظم "نوری المالکی" کے مشیر "عباس الموسوی" نے رضاکار عراقی دفاعی فورس الحشد الشعبی کے خلاف مشکوک پراپیگنڈہ مہم کے بارے میں کہا کہ اگر حشد الشعبی نہ ہوتی تو ہم بھی شام کے علویوں کی طرح قتل عام کا شکار ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ حشد الشعبی کو ختم کرنے کے لیے کسی قانونی سازی کو شیعہ رہنماؤں نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں حشد الشعبی کے تشخص کو مجروح کرنے کے لیے ایک منظم مہم چلائی جا سکتی ہے۔ عباس الموسوی نے واضح کیا کہ کوآرڈینیشن فریم ورک میں شیعہ جماعتوں کا موقف کسی تنگ نظری پر مبنی نہیں بلکہ ان کا مقصد قومی مفادات اور عراق کی حفاظت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حشد الشعبی نے شام میں ہونے والے خونریز واقعات کی تکرار کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ "مارکو روبیو" کے عراقی وزیر اعظم "محمد شیاع السوڈانی" سے حالیہ رابطے کے بارے میں کہا کہ وہ گزشتہ کوششوں میں ناکامی کے بعد محمد شیاع السوڈانی کے ذریعے اپنی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قابل غور ہے کہ گزشتہ ہفتے، عراقی پارلیمنٹ میں سیکورٹی اور دفاعی کمیٹی کے سابق رکن "ایوب الربیعی" نے کہا کہ حشد الشعبی کو نشانہ بنانے کی امریکی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
ایوب الربیعی نے کہا کہ حشد الشعبی صرف ایک رسمی سیکورٹی ادارہ نہیں بلکہ قربانی اور بہادری کی علامت ہے۔ یاد رہے کہ یہ فورس جون 2014ء میں افراتفری کے واقعات کے بعد شیعہ مذھبی قیادت کے فتویٰ پر وجود میں آئی جس نے عراق کو اس سازش سے بچایا جس میں اس ملک کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک دہشت گرد گروپ کے حوالے کرنا تھا۔ یہ وہ دہشت گرد گروپ تھا جسے کئی خفیہ ایجنسیوں کی مدد حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے اس نے موصل، صلاح الدین، الانبار اور دیگر علاقوں میں اپنے کنٹرول شدہ علاقوں میں قتل عام کیا۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کی حشد الشعبی کو نشانہ بنانے کی کوششیں تین وجوہات کی بنا پر ناکام ہوں گی۔
1.
2. عوام کا حشد الشعبی پر اعتماد جو تمام طبقات کی نمائندگی کرتا ہے
3. اس فورس پر مکمل بھروسہ جس نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے قربانیاں دیں اور اب بھی عراق کی سلامتی و استحکام کے لیے کام کر رہا ہے۔
ایوب الربیعی نے کہا کہ یہ کوششیں اُن مشکوک منصوبوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو کمزور کرنا ہے تا کہ صہیونی رژیم کو فائدہ پہنچے جو مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ کی حمایت سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف خوفناک جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 170,000 سے زائد فلسطینیوں کے شہید یا زخمی ہونے کے باوجود کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ حشد الشعبی انہوں نے کہا کہ ایوب الربیعی کے لیے
پڑھیں:
عراق جنگ کے محرک سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی انتقال کرگئے
امریکا کے سابق نائب صدر ڈک چینی جو سنہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے مرکزی منصوبہ ساز تصور کیے جاتے تھے 84 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور اریکا کرک کی گلے لگنے کی ویڈیو وائرل، شادی کی قیاس آرائیاں
ان کے اہل خانہ کے مطابق وہ پیر کی رات نمونیا اور قلبی و شریانی امراض کی پیچیدگیوں کے باعث چل بسے۔
ڈک چینی ایک وقت میں امریکی تاریخ کے سب سے بااثر نائب صدور میں شمار کیے جاتے تھے۔ انہوں نے سنہ 2001 سے سنہ 2009 تک صدر جارج ڈبلیو بش کے نائب کے طور پر خدمات انجام دیں۔
وہ واؤمنگ سے ریپبلکن پارٹی کے رکنِ کانگریس اور سابق وزیرِ دفاع بھی رہ چکے تھے۔
چینی نے اپنی سیاسی زندگی میں امریکی صدارتی اختیارات کے اضافے کے لیے بھرپور کوشش کی۔
مزید پڑھیے: ممکن ہے صدارتی انتخابات پھر سے لڑوں، سابق امریکی نائب صدر کملا ہیرس
وہ وائٹ ہاؤس میں ایک طاقتور قومی سلامتی ٹیم کے سربراہ رہے جس نے متعدد بار پالیسی سازی میں صدر سے بھی زیادہ اثر و رسوخ دکھایا۔
عراق جنگ کا معمارڈک چینی عراق پر حملے کے سب سے بڑے حامیوں میں سے تھے۔
انہوں نے سنہ 2003 میں عراق میں مبینہ طور پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا دعویٰ کیا جسے بعد میں غلط ثابت کیا گیا۔
انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ امریکی فوج کو عراق میں آزاد کنندگان کے طور پر خوش آمدید کہا جائے گا تاہم یہ جنگ تقریباً ایک دہائی تک جاری رہی۔
چینی کو اس پالیسی پر اپنے کئی ساتھیوں بشمول سابق وزرائے خارجہ کولن پاؤل اور کونڈولیزا رائس سے سخت اختلافات کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے دہشتگردی کے مشتبہ افراد پر سخت تفتیشی طریقے جن میں واٹر بورڈنگ اور نیند کی محرومی شامل تھے کی بھی حمایت کی جنہیں بعد ازاں امریکی سینیٹ اور اقوامِ متحدہ نے تشدد قرار دیا۔
سیاسی و خاندانی وراثتڈک چینی کی بیٹی لِز چینی بھی امریکی ایوان نمائندگان کی رکن رہ چکی ہیں۔ انہوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مؤقف اختیار کیا اور 6 جنوری سنہ 2021 کو امریکی کانگریس پر حملے کے بعد ان کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا جس کے نتیجے میں انہیں اپنی نشست سے محروم ہونا پڑا۔
ڈک چینی نے اس پر اپنی بیٹی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سنہ 2024 کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو ووٹ دیں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی جمہوریت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔
قلبی امراض، متنازعہ وراثتچینی کو اپنی جوانی سے ہی دل کے عارضے لاحق تھے اور انہوں نے 37 برس کی عمر میں پہلا ہارٹ اٹیک برداشت کیا۔ سنہ 2012 میں ان کا دل کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
ان کا کردار سنہ 2018 کی ہالی ووڈ فلم’ Vice’ میں اداکار کرسچن بیل نے ادا کیا تھا جنہوں نے گولڈن گلوب ایوارڈ جیتتے ہوئے طنزیہ طور پر کہا کہ میں نے یہ کردار ادا کرنے کے لیے شیطان سے رہنمائی لی۔
مزید پڑھیں: پاکستانی حملے سے قبل امریکی نائب صدر نے بھارت کو کیا پیغام دیا؟
ڈک چینی اپنی سخت گیر پالیسیاں، غیر متزلزل مؤقف اور امریکا کی عالمی پالیسی پر گہرے اثر کی وجہ سے ہمیشہ ایک متنازع مگر فیصلہ کن رہنما سمجھے جاتے رہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی نائب صدر ڈک چینی امریکی نائب صدر ڈک چینی کا انتقال