مدارس دین بیزار سیکولرز کے نشانے پر
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کے شہر سوات میں واقع ایک مدرسے کے اساتذہ کی جانب سے کیے گئے مبینہ بہیمانہ تشدد سے 12 سالہ بچے کی شہادت کی خبریں قومی و سوشل میڈیا پر دکھائی دے رہی ہیں جس نے ہر ذی شعور انسان کو روحانی اذیت اور ذہنی کوفت میں مبتلا کر رکھاہے۔ جاں بحق ہونے والے 12 سالہ طالبعلم فرحان کے چچا نے مقامی پولیس کو بتایا کہ’’اْن کا بھتیجا گزشتہ تین سال سے مدرسہ میں زیر تعلیم تھا۔ بچے کے والد ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں۔
چار روز چھٹی کے بعد فرحان کے چچا اسے مدرسے چھوڑ کر آیا اور شام کو بچے کی موت کی خبر مل گئی جسے تشدد کرکے مارا گیا تھا۔’’واقعہ کے بعد مقامی انتظامیہ نے مدرسہ سیل کرکے وہاں زیر تعلیم 160 طلبا کو اْن کے والدین کے حوالے کر دیا ہے اور ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ان سفاک قاتلوں کو نشان عبرت بنانا ریاست کی ذمے داری ہے۔
پاکستان کے مدارس کے تمام وفاقوں کی انتظامیہ، جید علماء کرام اور دینی جماعتوں نے اس اندوہناک واقعہ کی پرزور مذمت کی اور واقعہ میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا۔ اس بربریت کی اجازت شریعت دیتی ہے، نہ قانون اور نہ کسی مہذب معاشرے میں اس قسم کے گھناؤنے واقعات کو برداشت کیا جاسکتا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ کے صدر مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے متاثرہ خاندان سے تعزیت کی ہے اور مطالبہ کیا کہ حکومت اس واقعے میں ملوث افراد کو عبرتناک سزا دے تاکہ آیندہ ایسے واقعات کا سدباب ہو سکے۔ مگر لمحہ فکریہ ہے کہ جب ملک بھر کی دینی قیادت، مدارس کے وفاق، جید علماء سب کے سب اس واقعہ کی بھرپور مذمت کررہے ہیں اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کررہے ہیں تو پھراس واقعہ کی آڑ میں ہزاروں مدارس کو اجتماعی طور پر کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟
مغرب نواز دین بیزار طبقہ اس واقعہ کی آڑ میں بلاتفریق تمام مدارس پر نشتر زنی کررہا ہے مگر ان کے جھوٹے پروپیگنڈے سے قران و سنت کی ترویج کے ان اداروں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہر دور میں مغرب پرست و دین بیزار سیکولر طبقے مدارس کے خلاف باتیں کرتے آئے ہیں مگر وقت کی دھول میں گم ہوگئے، اس بار بھی ایسا ہی ہوگا انشاء اللہ۔ مدارس نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ملک کی بے شمار مساجد انھی مدارس سے تربیت یافتہ علما چلا رہے ہیں۔ مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور ان شاء اللہ تا قیامت رہیں گے۔
ان مدارس میں پڑھائی جانے والے علوم اسلامیہ میں روحِ انسانیت کی ان تمام تشنگیوں کا مداوا ہے جو دنیاوی امور میں مختلف موڑ پر محسوس ہوتی ہیں لیکن اسے کیسے حاصل کیا جائے؟ ان پریشانیوں کو خود نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخ اسلام کی پہلی درسگاہ مقامِ صْفہ کے قیام کے ذریعہ دور کر کے امت کے لیے دینِ اسلام کی بقا اور صحیح اور اصل شکل میں اشاعت کے راستے کا تعین کر دیا۔ اکابرین امت نے مسلمانوں کی دینی تربیت اور کردار سازی کے لیے مقام صفہ کی طرح دینی مدارس قائم کرکے اپنی اور اپنی نسلوں کو تعلیماتِ اسلامیہ سے روشناس کرکے جہالت کے خاتمے کے لیے علم کی شمع روشن کرکے اپنی زمہ داری ادا کی۔
ہر دور میں دینی مدارسِ نے امتِ مسلمہ کی اسلامی اور معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کی علمی تشنگی کو دور کرنے کا حق ادا کیا تو حیاتِ اسلامی کا جزوِ لاینفک سمجھا جاتا ہے۔ آج دنیا میں کہیں نام کے اور کہیں کام کے، جو مسلمان نظر آتے ہیں ان ہی مدارس کی مرہون منت ہیں۔ مدارس دین اسلام کے قلعے اور علوم اسلامی کے سرچشمے ہیں جو ایک طرف اسلامی علوم کے ماہر، دینی کردار کے حامل اور فکری اعتبار سے صراطِ مستقیم پر گامزن افراد تیار کرتے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی دینی و اجتماعی قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ورافراد تیار کرتے ہیں۔
مدارس تہذیب وثقافت، غیرت وحمیت، ایمانداری، وفاشعاری اور ان تمام اخلاقی و معاشرتی قدروں کی تعلیم وتربیت کا منبع ہے۔ ان مدارس نے امتِ مسلمہ کو دین کے ہر شعبے میں رجالِ کار دیے ہیں، عقائد ہوں یا معاملات و معاشرات زندگی کے تمام شعبوں میں امت کی رہنمائی کے لیے افراد تیار کیے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے علوم شریعہ کے ماہرین دین مبین کا نور دنیا کے کونے کونے میں بکھیر رہے ہیں۔
پاکستان کو ایک طرف اگر عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کا اعزاز حاصل ہے تو دوسری طرف اسے یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان کے مدارس کا نیٹ ورک عالم اسلام میں ممتاز مقام رکھتے ہیں، یہ مدارس کسی حکومت سے امداد لیتے ہیں نہ بیرونی ممالک کی امداد قبول کرتے ہیں۔ بلکہ مدارس کا وسیع نیٹ ورک اپنی مدد آپ کے تحت قرآن و سنت کی ترویج میں مصروف عمل ہے۔ جس طرح پاکستان اور اسلام دشمن قوتوں کو ہمارا ایٹمی پروگرام کھٹکتا ہے بالکل اسی طرح پاکستان کے مدارس کا وسیع نیٹ ورک بھی کھٹکتا ہے اور اسی وجہ سے مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے والے مٹھی بھر عناصر مدارس کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ آج کے مدارس میں صرف دنیاوی ہی نہیں عصری تعلیم بھی دی جارہی ہے، اس کی ایک روشن مثال پنجاب کے ثانوی بورڈز کے میٹرک کے امتحانات کے نتائج ہیں، جہاں مدارس میں پڑھنے والے بچوں نے بڑے بڑے سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے بچوں کو بھی پیچھے چھوڑ کر نمایاں پوزیشنز حاصل کی ہیں۔
فیصل آباد، ملتان اور بہاولپور میں پہلی تینوں پوزیشنز مدارس کے طلباء نے اپنے نام کیں۔ جامعۃ العصر پیر محل کے طلبہ حسنین ربانی اور علی احمد نے فیصل آباد بورڈ میں پہلی اور تیسری پوزیشن جب کہ جامعہ عبد اللہ بن عباس جھنگ کے طالب علم محمد فیصل نے فیصل آباد بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اسی طرح جامعہ حنفیہ بورے والا کے طلبا محمد احمد افضل اور محمد احمد خالد نے ملتان بورڈ میں پہلی اور دوسری، جامعہ ابوہریرہ میلسی کے طالب علم سیف الرحمٰن نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
بہاولپور بورڈ میں جامعۃ المدینہ چشتیاں کے طلباء محمد عامر اور عمر قدوس نے پہلی اور دوسری جب کہ مرکز العلوم الاسلامیہ فورٹ عباس کے طالب علم اسد رضا نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ خیبر پختونخوا کے ایک امام مسجد اور مدرسے کے استاد مولانا سعید الرحمٰن کی بچی سدرہ سعید الرحمٰن نے 1161 نمبر لے کر ایبٹ آباد بورڈ میں ٹاپ کیا۔ پنجاب کے امتحانات میں بہت سے مدارس کے طلبا نے نمایاں پوزیشنز حاصل کیں، تنگیٔ دامن کی وجہ سے سب کا ذکر نہیں کرسکتا۔ جن سرکاری و نجی تعلیمی اداروں پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ان کے مقابلے میں مدارس کے بچوں کا نمایاں پوزیشنز حاصل کرنا مدارس پر تنقید کرنے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔
مدارس پر نشتر زنی کرنے والوں کو کبھی حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ عصری تعلیم اور دینی تعلیم کے اداروں کا موازنہ زمینی حقایق کی بنیاد پر کریں، کیونکہ نتیجہ ان کے ایجنڈے پر پانی پھیر دے گا۔ عصری علوم کے سرکاری اداروں پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، غیر سرکاری اداروں میں سرمایہ دار اربوں روپے لگا کر بھاری فیسوں کی شکل میں اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے قوم کو لوٹتے ہیں۔ عصری علوم کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں پڑھنے والے بچوں میں منشیات کے استعمال کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اس کے علاوہ بھتہ خوری، غنڈہ گردی اور دیگر سنگین نوعیت کے مختلف جرائم کا شکار ہیں، اکثریت اساتذہ تو دور کی بات والدین کے بھی فرمانبردار نہیں رہے۔
معاشرے میں جتنے جرائم رپورٹ ہوتے ہیں، ستر فیصد میں عصری تعلیم سے فارغ التحصیل ہی ملیں گے جب کہ دوسری طرف اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے مدارس اپنی مدد آپ کے تحت چلائے جارہے ہیں، وہاں پڑھنے والے بچے اگر عصری تعلیم کا امتحان دیتے ہیں تواسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بچوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، دینی اداروں میں پر امن، صاف ستھرا روحانی ماحول ہے، منشیات کا استعمال تو دور کی بات سگریٹ کے استعمال کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔
جرائم کی شرح ان اداروں میں صفر ہے، معاشرے میں جتنے بھی جرائم ہوتے ہیں شاذ و نادر ہی کسی مدرسے کا فارغ التحصیل ملوث نظر آئے گا۔ باادب اتنے کے صرف اساتذہ اور والدین کے ہی نہیں ہر بڑے کی تعظیم کرتے نظر آئیں گے۔ مدارس کی کارکردگی بول رہی ہے اس لیے مدارس کی عوامی مقبولیت کو جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ کل بھی قائم تھے اورتاقیامت قائم رہیں گے انشاء اللہ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پڑھنے والے عصری تعلیم مدارس کے واقعہ کی کے مدارس حاصل کی ہے اور کے لیے دین کے
پڑھیں:
پھپھو کی حسرت ہی رہ گئی، بھتیجے پاکستان نہیں آ رہے: عظمیٰ بخاری
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ 5 اگست کے احتجاج کی ناکامی واضح ہو چکی ہے، جو آغاز سے پہلے ہی ایک فلاپ شو بن چکا ہے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت، پارٹی کارکنان اور خود ان کے قریبی رشتہ دار بھی اس احتجاج سے لاتعلق ہیں۔ پھپھو کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ بھتیجے پاکستان نہیں آ رہے۔ سابق بھاوج نے اپنے بچوں کو پاکستان آنے سے روک دیا ہے۔ جب مہاتما کے اپنے بچے ہی احتجاج میں شریک نہیں ہوں گے تو انقلاب کیسے آنا تھا؟ علیمہ باجی پہلے ہی اس احتجاج کی ناکامی کی پیش گوئی کر چکی ہیں اور پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت بھی احتجاج کی حامی نہیں ہے۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ خیبر پی کے کے بلدیاتی اداروں میں 354 ارب روپے کی کرپشن ایک کھلی چارج شیٹ ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے والے فنڈز کی بندربانٹ جاری ہے۔9 مئی کے واقعات کو سیاہ باب کہ ان واقعات پر ندامت اور شرمندگی کے بجائے ان کا دفاع کرنا شرمناک ہے۔ "شہداء کے مجسمے جلانے والے آج پوری قوم کے لیے قابلِ نفرت بن چکے ہیں۔