Express News:
2025-08-03@22:09:41 GMT

منا ڈے

اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT

وجے بھٹ اور میوزک ڈائریکٹر شنکر ویاس ایک فلم بنا رہے تھے ۔ 1943کا زمانہ تھا۔ شنکر میوزک ڈائریکٹر تھے اور وجے بھٹ پروڈیوسر ۔ فلم کا نام رام راجیا تھا ۔ دونوں مل کر اس زمانے کے مشہور گائیک ’’کے سی ڈے‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اس فلم کے لیے گانے گائیں ۔ کے سی ڈے کا طوطی بولتا تھا، کمال کے سنگر تھے۔ نابینا تو تھے مگر خدا نے ان کی آواز میں اتنا سوز بھر دیا تھا کہ ان کے گائے ہوئے گیت امر ہو جاتے تھے ۔

کے سی ڈے ایک درویش صفت آدمی تھے ، انھوں نے انکار کر دیا ۔ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے ۔ اس وقت تک گانوں کی عکس بندی ‘ گائیک پر ہی ہوتی تھی۔ اکثر اوقات ہیرو پر پکچرائزشن کی اجازت نہیں تھی۔کے سی ڈے نے اسی بنیاد پر انکار کیا کہ اپنی آواز کو کسی اور اداکار کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ کمرے میں 23سال کا نوجوان کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ کے سی ڈے نے کہا کہ اس نوجوان سے گانے گوا لیجیے۔ اس کے لیے یہ ایک بہت بڑی خوش قسمتی تھی ۔ فوراً مان گیا۔ وہ برصغیر کا مشہور ترین گائیک منا ڈے تھا ۔

ہو سکتا ہے کہ منا ڈے کا نام بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس ہو۔ خصوصاً نوجوان نسل میں سے اکثریت ناواقف ہوں۔ مگر یہ عظیم گلو کار پانچ دہائیوں تک برصغیر کی موسیقی پر راج کرتا رہا۔ قراقلی ٹوپی اور سادہ لباس میں ملبوس ‘ موٹے چشمے کے ساتھ گائیک کم اور پروفیسر زیادہ لگتا تھا۔اس کی لازوال آواز روح کی تاروں کو مضطرب کر ڈالتی تھی۔

آج بھی یہی حال ہے۔پرابود چندرا ڈے یکم مئی 1919کو کلکتہ میں پیدا ہوا ۔ اس کا اصل نام مجھے بھی نہیں معلوم تھا ۔ بعد میں منا ڈے کے نام سے دنیا کے سامنے نمو دار ہوا۔ اسکاٹش چرچ اسکول اور اسکاٹش چرچ کالج سے تعلیم حاصل کی ۔ نوجوانی میں باکسر بننا چاہتا تھا۔ اسی اثناء میں میلان موسیقی کی طرف ہو گیا۔ اپنے ماموں کرشنا چندرا ڈے کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ استاد دبیر خان سے راگ ‘ راگنیاں سیکھنی شروع کر دیں۔ 1942میں ماموں کے ساتھ ممبئی آ گیا اور انھی کا معاون بھرتی ہوا۔ اسی سال منا ڈے نے ‘ ثریا کے ساتھ فلم تمنا کا گانا گایا جو اسے شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ منا ڈے ایک ایسا ہموار بلکہ لاجواب گائیک تھا جس نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کے تمام گائیکوں ‘ موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے لتا منگیشکر کو آگے آنے کا موقع دیا ۔ مگر یہ بالکل درست ہے کہ لتا کے منا ڈے کے ساتھ گانوں کا فائدہ لتا کو بہرحال زیادہ پہنچا ۔ دلیل یہ کہ جب منا ڈے نے لتا کے ساتھ گانا شروع کیا تو وہ فلمی دنیا میں بہت مستحکم ہو چکا تھا۔ 1942 سے لے کر 1992تک ‘ فلمی موسیقی کی دنیا پر اس کی چھاپ رہی ۔ویسے تو اس کی آواز نے بہت سے اداکاروں کو تقویت بخشی ۔ لیکن راجیش کھنہ کو فلموں میں بلندی کی سطح پر لے جانے میں منا ڈے کی مدھر آواز کا بہت حصہ ہے۔ راجیش کھنہ کوشش کرتا تھا کہ جس بھی فلم میں کام کرے ‘ منا ڈے بطور گائیک ضرور موجود ہو۔

اپنے پورے کیریئر میں منا ڈے نے تین ہزار سنتالیس گانے ریکارڈ کرائے ۔ مختلف زبانوں میں یکساں مہارت کے ساتھ گاتا تھا۔ اردو‘ بنگالی ‘ بھوج پوری ‘ پنجابی ‘ گجراتی سمیت چودہ مختلف علاقائی زبانوں میں گانے ریکارڈ ہوئے۔ رفیع ‘ مکیش ‘ سندھیا موہر جی‘ طلعت محمود ‘یسو داس ‘ مبارک بیگم ‘ انور‘ پریتی ساگر اور متعدد گائیکوں کے ساتھ جوہر دکھاتا رہا ۔ ایک سو دو موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے والا واحد گائیک تھا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1992میں ہندی فلموں کی موسیقی سے دور ہو گیا۔ اگلے دس سال صرف اسٹیج پر آ کر آواز کا جادو جگاتا رہا۔ منا ڈے 2013میں جہان فانی سے کوچ کر گیا ۔

موسیقی کا کوئی ایسا ایوارڈ نہیں ہے جو اس نے حاصل نہ کیا ہو۔ اپنی زندگی میں بنگالی زبان میں خودنوشت بھی تحریر کی ۔ جس کا نام ’’جبونیر جلسا بورے‘‘ تھا۔ 2005میں اسے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ۔ نسخے کا نام Memories come Alive رکھا گیا۔  کتاب کا مراٹھی اور ہندی دونو ں میں ترجمہ بھی ہوا۔ 2008میں مناڈے کی زندگی پر ایک ڈاکومنٹری ترتیب دی گئی ۔ جس کا نام جبونیر جلسا بورے رکھا گیا۔2016میں اس کی تصویر پر مبنی ایک یاد گاری ٹکٹ بھی جاری ہوا۔منا ڈے کی شادی سروچنا کماری سے 1953میں ہوئی اور اس کی دو بچیاں تھیں ۔ عجیب بات ہے کہ دونوں بیٹیوں نے موسیقی پر بالکل توجہ نہیں دی ۔ ایک بچی شوروما ہیری کر ‘ امریکا میں سائنس دان بن گئی ۔ دوسری بیٹی شومیتا دیو بنگلور کی ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت کے روپ میں دنیا کے سامنے آئی۔ بیوی کی وفات کے بعد ‘ بمبئی چھوڑ کر بنگلور منتقل ہو گیا تھا۔ پھر مرتے دم تک وہیں قیام پذیر رہا۔

 مختصر تحریر میں منا ڈے کے کام پر نظر ڈالنا بہت مشکل ہے۔ مگر وہ واحد شخص تھا جو ہر طرح کے موسیقار کے ساتھ کام کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے مبرا تھا ۔منا ڈے بنیادی طور پر قدیم فلمی موسیقی کا آخری نمایندہ تھا۔ کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کشور کمار کی جادوئی آواز جب فلموں میں آئی تو بہت سے پرانے چراغ گل ہونے لگے۔فقیدالمثال گائیک ‘ محمد رفیع اکثر کہا کرتے تھے کہ اب ان کا مقابلہ ایک ایسے گلوکار یعنی کشور کمار سے ہے ، جسے گانوں کی نزاکت کا بالکل علم نہیں۔ محمد رفیع کے فلمی زوال کا بہت بڑا عنصر کشور کمار کی نایاب اور جدید آواز تھی ، جس کا آج بھی لوگ دم بھرتے ہیں ۔

موسیقی ایک ایسا سمندر ہے جس میں برصغیر پاک و ہند میں کمال آوازیں ابھریں ۔ آج تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو دعویٰ کر سکے کہ موسیقی کی تمام جزئیات کو سمجھتا ہے ۔ پاکستان میں ‘ طالب علم ان گنت صف اول کے موسیقاروں سے ملتا رہا ہے۔ اپنے اندر میوزک کا طلاطم برپا ہونے کے باوجودصرف ایک فقرہ کہتے تھے کہ ہم اس فن میں صرف اور صرف طالب علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی حال گلوکاروں کا ہے۔ مہدی حسن ‘ غلام علی ‘ نیئر نور ‘ مہناز ‘ ریشماں ‘ ناہید اختر اور دیگر افراد نے کبھی اس علم پر دسترس کا دعویٰ نہیں کیا۔ بڑے غلام علی خان ‘ امانت علی خان بھی ہمیشہ اپنی کم علمی کا اظہار کرتے رہے ۔ یہی ان کا بڑا پن تھا۔

 منا ڈے ایک عجیب سی شخصیت ہے جو تکبر سے توخیر ہزاروں نوری سال دور تھی ۔ مگر اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ گلوکاروں کا استاد تھا۔ ایک اور چیز عرض کرتا چلوں ۔ موسیقی ایک ایسا علم ہے جو انسان کو مکمل طور پر عاجز بنا دیتا ہے۔ اس کی میں ختم کر ڈالتا ہے ۔ انکساری کوٹ کوٹ کر بھر دیتا ہے۔ یہ تمام لوگ ذاتی زندگی میں ہر دم سادہ طبیعت کے مالک ہو جاتے ہیں۔ خواجہ خورشید انور جیسا لافانی موسیقار ‘ عجزکا چلتا پھرتا نمونہ تھا ۔ ایک اورنقطہ ‘پرانے لوگوں میں دولت کی ہوس بہت کم تھی۔ پیسے کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے ۔

دولت ‘ ان کے فن کی وجہ سے ‘ ان کے گھر کی باندی بن جاتی تھی ۔اس کے برعکس موجودہ زمانے میں‘کسی بھی شعبے میں کامیاب لوگوں کی طرف دیکھیے ۔ بہت کم انسان ‘ اوج ثریا پر عاجز انداز کے نظر آئیں گے۔بیکار سے سیاست دانوں سے لے کر فرسودہ سرکاری ملازمین تک اور دیگر شعبوں میں کامیاب لوگ اکثر خودنمائی ‘ لالچ اور مصنوعی بڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جس وقت قدرت انھیں زوال کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ عملی زندگی میں انگنت لوگ دیکھے ہیں جو کامیابی کو سنبھال نہیں سکے ۔ اپنے آپ کو مافوق الفطرت ہستی سمجھنے لگے ۔ یہ تفریق ہندوستان اور پاکستان عجیب طریقے سے موجود ہے۔ ہمسایہ ملک میں اکثر کامیاب لوگ اب بھی سادہ سے ہیں۔

رہن سہن ‘ کپڑے اور طرز زندگی بہت زیادہ صوفی منش نظر آتا ہے۔ بلکہ بہتر جملہ تو یہ ہے کہ تصنع سے بہت دور نکل جاتے ہیں ۔ مگر انسانی زندگی اور وقت بہت ظالم چیز ہے ۔ جیسے جیسے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں پیسے کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ سادگی آہستہ آہستہ صبح کاذب کی طرح معدوم پڑتی جا رہی ہے۔ منا ڈے جیسے درویش کردار کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب تو حالت یہ ہے کہ پاک و ہند میں اگر کوئی اداکار ‘ اداکارہ یا فلمی دنیا سے وابستہ شخص کامیابی کے پہلے زینے پر چڑھتا ہے۔ تو اپنے آپ کو دیومالائی کردار گرداننا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ بالکل نہیں معلوم مگر حقیقت یہی ہے ۔ مگر منا ڈے بہر حال ایسا نہیں تھا۔

منا ڈے جیسے عظیم گلوکار جو پچاس سال تک موسیقی کی دنیا پر حکومت کرتے رہے ۔ جادوئی آواز کا مالک تو تھا ہی مگر شرافت اور سادگی کا علمبردار بھی تھا۔ آج چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو چودہ زبانوں میں اپنی آواز کا جادوبکھیرنے والا منا ڈے جیسا انسان دور دور تک نظر نہیں آتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں منا ڈے موسیقی کی کے سی ڈے آواز کا کے ساتھ کا نام

پڑھیں:

عمران خان کسی ڈیل سے نہیں عدالتی جنگ سے رہا ہوں گے، بیرسٹر گوہر  

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ عمران خان 2 سال بعد بھی پہلے دن کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہیں، وہ کسی ڈیل سے نہیں عدالتی جنگ سے رہا ہوں گے، بانی پی ٹی ئی کے قائد تھے ہیں اور رہیں گے، پی ٹی آئی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
خیبرپختونخوا کے علاقے بونیر میں پی ٹی آئی کے 5 اگست کو احتجاج کے سلسلہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 5 اگست کو عمران خان کو جیل میں 2 سال مکمل ہوں گے، بانی 2 سال بعد بھی پہلے دن کی طرح ڈٹ کر کھڑا ہے، بانی عوام جمہوریت اور قانونی کی حکمرانی کے لیے قربانی دے رہا ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا پی ٹی آئی کو مسلسل عتاب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، پی ٹی آئی آج بھی سب سے بڑی جماعت ہے، پی ٹی آئی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آج بھی اکثریت کے دلوں میں ہے اور رہے گا، عمران خان پی ٹی آئی کے قائد تھے ہیں اور رہیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ حکومت اور الیکشن کمیشن سب ملے ہوئے ہیں، یہ ملک ایسے نہیں چلے گا، پی ٹی آئی سے ممبرز چھین کر عمران خان اور پی ٹی آئی کو کمزور کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی، عمران خان کسی ڈیل سے نہیں عدالتی جنگ سے رہا ہو گا، پی ٹی آئی کارکن مایوس نہ ہو آزادی مل کر رہے گی۔
قبل ازیں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی شہرام ترکئی کے ہمراہ صوابی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ کل سے ملک بھر میں پرامن تحریک شروع کی جائے گی، 5 اگست کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف یومِ سیاہ منائیں گے۔
اسد قیصر نے کہا کہ عمران خان ملک کے لیڈر ہیں، رہائی ان کا حق ہے، عدالتیں حکومت کے زیر اثر ہیں، فیصلے اوپر سے آتے ہیں، عمران خان اور بشریٰ بی بی کو فوری ضمانت پر رہا کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ بے توقیر ہو چکی اپوزیشن لیڈرز کو ناحق سزائیں دی گئیں، چیف جسٹس سے عمران خان کے کیسز جلد نمٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں، کسی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے آپریشن کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس موقع پر رکن قومی اسمبلی شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ ہم پرامن ہیں شرارت کی گئی تو کارکن جواب دیں گے، ہمیں اسلحہ نہیں، قلم اور تجارت کے مواقع دے جائیں۔
شہرام ترکئی نے افغانستان کے ساتھ تجارتی راستے کھولنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کسی ڈیل سے نہیں عدالتی جنگ سے رہا ہوں گے، بیرسٹر گوہر  
  • سات سچائیاں
  • جس روز قضا آئے گی
  • شِلپا راؤ کو کوک اسٹوڈیو پاکستان پر تنقید کرنا مہنگا پڑ گیا
  • عمران خان کی کئی ماہ بعد بیٹوں سے فون پر بات کروا دی گئی
  • بچے دانی فورا نکلوا دیں!
  • کراچی ایئرپورٹ پر مسافر سے آلہ موسیقی میں چھپائی گئی 490 گرام افیون برآمد
  • حضورۖ کا خراجِ تحسین
  • غزہ میں بھوک کا راج ہے!