وجے بھٹ اور میوزک ڈائریکٹر شنکر ویاس ایک فلم بنا رہے تھے ۔ 1943کا زمانہ تھا۔ شنکر میوزک ڈائریکٹر تھے اور وجے بھٹ پروڈیوسر ۔ فلم کا نام رام راجیا تھا ۔ دونوں مل کر اس زمانے کے مشہور گائیک ’’کے سی ڈے‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اس فلم کے لیے گانے گائیں ۔ کے سی ڈے کا طوطی بولتا تھا، کمال کے سنگر تھے۔ نابینا تو تھے مگر خدا نے ان کی آواز میں اتنا سوز بھر دیا تھا کہ ان کے گائے ہوئے گیت امر ہو جاتے تھے ۔
کے سی ڈے ایک درویش صفت آدمی تھے ، انھوں نے انکار کر دیا ۔ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے ۔ اس وقت تک گانوں کی عکس بندی ‘ گائیک پر ہی ہوتی تھی۔ اکثر اوقات ہیرو پر پکچرائزشن کی اجازت نہیں تھی۔کے سی ڈے نے اسی بنیاد پر انکار کیا کہ اپنی آواز کو کسی اور اداکار کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ کمرے میں 23سال کا نوجوان کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ کے سی ڈے نے کہا کہ اس نوجوان سے گانے گوا لیجیے۔ اس کے لیے یہ ایک بہت بڑی خوش قسمتی تھی ۔ فوراً مان گیا۔ وہ برصغیر کا مشہور ترین گائیک منا ڈے تھا ۔
ہو سکتا ہے کہ منا ڈے کا نام بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس ہو۔ خصوصاً نوجوان نسل میں سے اکثریت ناواقف ہوں۔ مگر یہ عظیم گلو کار پانچ دہائیوں تک برصغیر کی موسیقی پر راج کرتا رہا۔ قراقلی ٹوپی اور سادہ لباس میں ملبوس ‘ موٹے چشمے کے ساتھ گائیک کم اور پروفیسر زیادہ لگتا تھا۔اس کی لازوال آواز روح کی تاروں کو مضطرب کر ڈالتی تھی۔
آج بھی یہی حال ہے۔پرابود چندرا ڈے یکم مئی 1919کو کلکتہ میں پیدا ہوا ۔ اس کا اصل نام مجھے بھی نہیں معلوم تھا ۔ بعد میں منا ڈے کے نام سے دنیا کے سامنے نمو دار ہوا۔ اسکاٹش چرچ اسکول اور اسکاٹش چرچ کالج سے تعلیم حاصل کی ۔ نوجوانی میں باکسر بننا چاہتا تھا۔ اسی اثناء میں میلان موسیقی کی طرف ہو گیا۔ اپنے ماموں کرشنا چندرا ڈے کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ استاد دبیر خان سے راگ ‘ راگنیاں سیکھنی شروع کر دیں۔ 1942میں ماموں کے ساتھ ممبئی آ گیا اور انھی کا معاون بھرتی ہوا۔ اسی سال منا ڈے نے ‘ ثریا کے ساتھ فلم تمنا کا گانا گایا جو اسے شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ منا ڈے ایک ایسا ہموار بلکہ لاجواب گائیک تھا جس نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کے تمام گائیکوں ‘ موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے لتا منگیشکر کو آگے آنے کا موقع دیا ۔ مگر یہ بالکل درست ہے کہ لتا کے منا ڈے کے ساتھ گانوں کا فائدہ لتا کو بہرحال زیادہ پہنچا ۔ دلیل یہ کہ جب منا ڈے نے لتا کے ساتھ گانا شروع کیا تو وہ فلمی دنیا میں بہت مستحکم ہو چکا تھا۔ 1942 سے لے کر 1992تک ‘ فلمی موسیقی کی دنیا پر اس کی چھاپ رہی ۔ویسے تو اس کی آواز نے بہت سے اداکاروں کو تقویت بخشی ۔ لیکن راجیش کھنہ کو فلموں میں بلندی کی سطح پر لے جانے میں منا ڈے کی مدھر آواز کا بہت حصہ ہے۔ راجیش کھنہ کوشش کرتا تھا کہ جس بھی فلم میں کام کرے ‘ منا ڈے بطور گائیک ضرور موجود ہو۔
اپنے پورے کیریئر میں منا ڈے نے تین ہزار سنتالیس گانے ریکارڈ کرائے ۔ مختلف زبانوں میں یکساں مہارت کے ساتھ گاتا تھا۔ اردو‘ بنگالی ‘ بھوج پوری ‘ پنجابی ‘ گجراتی سمیت چودہ مختلف علاقائی زبانوں میں گانے ریکارڈ ہوئے۔ رفیع ‘ مکیش ‘ سندھیا موہر جی‘ طلعت محمود ‘یسو داس ‘ مبارک بیگم ‘ انور‘ پریتی ساگر اور متعدد گائیکوں کے ساتھ جوہر دکھاتا رہا ۔ ایک سو دو موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے والا واحد گائیک تھا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1992میں ہندی فلموں کی موسیقی سے دور ہو گیا۔ اگلے دس سال صرف اسٹیج پر آ کر آواز کا جادو جگاتا رہا۔ منا ڈے 2013میں جہان فانی سے کوچ کر گیا ۔
موسیقی کا کوئی ایسا ایوارڈ نہیں ہے جو اس نے حاصل نہ کیا ہو۔ اپنی زندگی میں بنگالی زبان میں خودنوشت بھی تحریر کی ۔ جس کا نام ’’جبونیر جلسا بورے‘‘ تھا۔ 2005میں اسے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ۔ نسخے کا نام Memories come Alive رکھا گیا۔ کتاب کا مراٹھی اور ہندی دونو ں میں ترجمہ بھی ہوا۔ 2008میں مناڈے کی زندگی پر ایک ڈاکومنٹری ترتیب دی گئی ۔ جس کا نام جبونیر جلسا بورے رکھا گیا۔2016میں اس کی تصویر پر مبنی ایک یاد گاری ٹکٹ بھی جاری ہوا۔منا ڈے کی شادی سروچنا کماری سے 1953میں ہوئی اور اس کی دو بچیاں تھیں ۔ عجیب بات ہے کہ دونوں بیٹیوں نے موسیقی پر بالکل توجہ نہیں دی ۔ ایک بچی شوروما ہیری کر ‘ امریکا میں سائنس دان بن گئی ۔ دوسری بیٹی شومیتا دیو بنگلور کی ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت کے روپ میں دنیا کے سامنے آئی۔ بیوی کی وفات کے بعد ‘ بمبئی چھوڑ کر بنگلور منتقل ہو گیا تھا۔ پھر مرتے دم تک وہیں قیام پذیر رہا۔
مختصر تحریر میں منا ڈے کے کام پر نظر ڈالنا بہت مشکل ہے۔ مگر وہ واحد شخص تھا جو ہر طرح کے موسیقار کے ساتھ کام کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے مبرا تھا ۔منا ڈے بنیادی طور پر قدیم فلمی موسیقی کا آخری نمایندہ تھا۔ کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کشور کمار کی جادوئی آواز جب فلموں میں آئی تو بہت سے پرانے چراغ گل ہونے لگے۔فقیدالمثال گائیک ‘ محمد رفیع اکثر کہا کرتے تھے کہ اب ان کا مقابلہ ایک ایسے گلوکار یعنی کشور کمار سے ہے ، جسے گانوں کی نزاکت کا بالکل علم نہیں۔ محمد رفیع کے فلمی زوال کا بہت بڑا عنصر کشور کمار کی نایاب اور جدید آواز تھی ، جس کا آج بھی لوگ دم بھرتے ہیں ۔
موسیقی ایک ایسا سمندر ہے جس میں برصغیر پاک و ہند میں کمال آوازیں ابھریں ۔ آج تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو دعویٰ کر سکے کہ موسیقی کی تمام جزئیات کو سمجھتا ہے ۔ پاکستان میں ‘ طالب علم ان گنت صف اول کے موسیقاروں سے ملتا رہا ہے۔ اپنے اندر میوزک کا طلاطم برپا ہونے کے باوجودصرف ایک فقرہ کہتے تھے کہ ہم اس فن میں صرف اور صرف طالب علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی حال گلوکاروں کا ہے۔ مہدی حسن ‘ غلام علی ‘ نیئر نور ‘ مہناز ‘ ریشماں ‘ ناہید اختر اور دیگر افراد نے کبھی اس علم پر دسترس کا دعویٰ نہیں کیا۔ بڑے غلام علی خان ‘ امانت علی خان بھی ہمیشہ اپنی کم علمی کا اظہار کرتے رہے ۔ یہی ان کا بڑا پن تھا۔
منا ڈے ایک عجیب سی شخصیت ہے جو تکبر سے توخیر ہزاروں نوری سال دور تھی ۔ مگر اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ گلوکاروں کا استاد تھا۔ ایک اور چیز عرض کرتا چلوں ۔ موسیقی ایک ایسا علم ہے جو انسان کو مکمل طور پر عاجز بنا دیتا ہے۔ اس کی میں ختم کر ڈالتا ہے ۔ انکساری کوٹ کوٹ کر بھر دیتا ہے۔ یہ تمام لوگ ذاتی زندگی میں ہر دم سادہ طبیعت کے مالک ہو جاتے ہیں۔ خواجہ خورشید انور جیسا لافانی موسیقار ‘ عجزکا چلتا پھرتا نمونہ تھا ۔ ایک اورنقطہ ‘پرانے لوگوں میں دولت کی ہوس بہت کم تھی۔ پیسے کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے ۔
دولت ‘ ان کے فن کی وجہ سے ‘ ان کے گھر کی باندی بن جاتی تھی ۔اس کے برعکس موجودہ زمانے میں‘کسی بھی شعبے میں کامیاب لوگوں کی طرف دیکھیے ۔ بہت کم انسان ‘ اوج ثریا پر عاجز انداز کے نظر آئیں گے۔بیکار سے سیاست دانوں سے لے کر فرسودہ سرکاری ملازمین تک اور دیگر شعبوں میں کامیاب لوگ اکثر خودنمائی ‘ لالچ اور مصنوعی بڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جس وقت قدرت انھیں زوال کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ عملی زندگی میں انگنت لوگ دیکھے ہیں جو کامیابی کو سنبھال نہیں سکے ۔ اپنے آپ کو مافوق الفطرت ہستی سمجھنے لگے ۔ یہ تفریق ہندوستان اور پاکستان عجیب طریقے سے موجود ہے۔ ہمسایہ ملک میں اکثر کامیاب لوگ اب بھی سادہ سے ہیں۔
رہن سہن ‘ کپڑے اور طرز زندگی بہت زیادہ صوفی منش نظر آتا ہے۔ بلکہ بہتر جملہ تو یہ ہے کہ تصنع سے بہت دور نکل جاتے ہیں ۔ مگر انسانی زندگی اور وقت بہت ظالم چیز ہے ۔ جیسے جیسے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں پیسے کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ سادگی آہستہ آہستہ صبح کاذب کی طرح معدوم پڑتی جا رہی ہے۔ منا ڈے جیسے درویش کردار کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب تو حالت یہ ہے کہ پاک و ہند میں اگر کوئی اداکار ‘ اداکارہ یا فلمی دنیا سے وابستہ شخص کامیابی کے پہلے زینے پر چڑھتا ہے۔ تو اپنے آپ کو دیومالائی کردار گرداننا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ بالکل نہیں معلوم مگر حقیقت یہی ہے ۔ مگر منا ڈے بہر حال ایسا نہیں تھا۔
منا ڈے جیسے عظیم گلوکار جو پچاس سال تک موسیقی کی دنیا پر حکومت کرتے رہے ۔ جادوئی آواز کا مالک تو تھا ہی مگر شرافت اور سادگی کا علمبردار بھی تھا۔ آج چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو چودہ زبانوں میں اپنی آواز کا جادوبکھیرنے والا منا ڈے جیسا انسان دور دور تک نظر نہیں آتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں منا ڈے موسیقی کی کے سی ڈے آواز کا کے ساتھ کا نام
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔