وجے بھٹ اور میوزک ڈائریکٹر شنکر ویاس ایک فلم بنا رہے تھے ۔ 1943کا زمانہ تھا۔ شنکر میوزک ڈائریکٹر تھے اور وجے بھٹ پروڈیوسر ۔ فلم کا نام رام راجیا تھا ۔ دونوں مل کر اس زمانے کے مشہور گائیک ’’کے سی ڈے‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اس فلم کے لیے گانے گائیں ۔ کے سی ڈے کا طوطی بولتا تھا، کمال کے سنگر تھے۔ نابینا تو تھے مگر خدا نے ان کی آواز میں اتنا سوز بھر دیا تھا کہ ان کے گائے ہوئے گیت امر ہو جاتے تھے ۔
کے سی ڈے ایک درویش صفت آدمی تھے ، انھوں نے انکار کر دیا ۔ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے ۔ اس وقت تک گانوں کی عکس بندی ‘ گائیک پر ہی ہوتی تھی۔ اکثر اوقات ہیرو پر پکچرائزشن کی اجازت نہیں تھی۔کے سی ڈے نے اسی بنیاد پر انکار کیا کہ اپنی آواز کو کسی اور اداکار کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ کمرے میں 23سال کا نوجوان کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ کے سی ڈے نے کہا کہ اس نوجوان سے گانے گوا لیجیے۔ اس کے لیے یہ ایک بہت بڑی خوش قسمتی تھی ۔ فوراً مان گیا۔ وہ برصغیر کا مشہور ترین گائیک منا ڈے تھا ۔
ہو سکتا ہے کہ منا ڈے کا نام بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس ہو۔ خصوصاً نوجوان نسل میں سے اکثریت ناواقف ہوں۔ مگر یہ عظیم گلو کار پانچ دہائیوں تک برصغیر کی موسیقی پر راج کرتا رہا۔ قراقلی ٹوپی اور سادہ لباس میں ملبوس ‘ موٹے چشمے کے ساتھ گائیک کم اور پروفیسر زیادہ لگتا تھا۔اس کی لازوال آواز روح کی تاروں کو مضطرب کر ڈالتی تھی۔
آج بھی یہی حال ہے۔پرابود چندرا ڈے یکم مئی 1919کو کلکتہ میں پیدا ہوا ۔ اس کا اصل نام مجھے بھی نہیں معلوم تھا ۔ بعد میں منا ڈے کے نام سے دنیا کے سامنے نمو دار ہوا۔ اسکاٹش چرچ اسکول اور اسکاٹش چرچ کالج سے تعلیم حاصل کی ۔ نوجوانی میں باکسر بننا چاہتا تھا۔ اسی اثناء میں میلان موسیقی کی طرف ہو گیا۔ اپنے ماموں کرشنا چندرا ڈے کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ استاد دبیر خان سے راگ ‘ راگنیاں سیکھنی شروع کر دیں۔ 1942میں ماموں کے ساتھ ممبئی آ گیا اور انھی کا معاون بھرتی ہوا۔ اسی سال منا ڈے نے ‘ ثریا کے ساتھ فلم تمنا کا گانا گایا جو اسے شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ منا ڈے ایک ایسا ہموار بلکہ لاجواب گائیک تھا جس نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کے تمام گائیکوں ‘ موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے لتا منگیشکر کو آگے آنے کا موقع دیا ۔ مگر یہ بالکل درست ہے کہ لتا کے منا ڈے کے ساتھ گانوں کا فائدہ لتا کو بہرحال زیادہ پہنچا ۔ دلیل یہ کہ جب منا ڈے نے لتا کے ساتھ گانا شروع کیا تو وہ فلمی دنیا میں بہت مستحکم ہو چکا تھا۔ 1942 سے لے کر 1992تک ‘ فلمی موسیقی کی دنیا پر اس کی چھاپ رہی ۔ویسے تو اس کی آواز نے بہت سے اداکاروں کو تقویت بخشی ۔ لیکن راجیش کھنہ کو فلموں میں بلندی کی سطح پر لے جانے میں منا ڈے کی مدھر آواز کا بہت حصہ ہے۔ راجیش کھنہ کوشش کرتا تھا کہ جس بھی فلم میں کام کرے ‘ منا ڈے بطور گائیک ضرور موجود ہو۔
اپنے پورے کیریئر میں منا ڈے نے تین ہزار سنتالیس گانے ریکارڈ کرائے ۔ مختلف زبانوں میں یکساں مہارت کے ساتھ گاتا تھا۔ اردو‘ بنگالی ‘ بھوج پوری ‘ پنجابی ‘ گجراتی سمیت چودہ مختلف علاقائی زبانوں میں گانے ریکارڈ ہوئے۔ رفیع ‘ مکیش ‘ سندھیا موہر جی‘ طلعت محمود ‘یسو داس ‘ مبارک بیگم ‘ انور‘ پریتی ساگر اور متعدد گائیکوں کے ساتھ جوہر دکھاتا رہا ۔ ایک سو دو موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے والا واحد گائیک تھا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1992میں ہندی فلموں کی موسیقی سے دور ہو گیا۔ اگلے دس سال صرف اسٹیج پر آ کر آواز کا جادو جگاتا رہا۔ منا ڈے 2013میں جہان فانی سے کوچ کر گیا ۔
موسیقی کا کوئی ایسا ایوارڈ نہیں ہے جو اس نے حاصل نہ کیا ہو۔ اپنی زندگی میں بنگالی زبان میں خودنوشت بھی تحریر کی ۔ جس کا نام ’’جبونیر جلسا بورے‘‘ تھا۔ 2005میں اسے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ۔ نسخے کا نام Memories come Alive رکھا گیا۔ کتاب کا مراٹھی اور ہندی دونو ں میں ترجمہ بھی ہوا۔ 2008میں مناڈے کی زندگی پر ایک ڈاکومنٹری ترتیب دی گئی ۔ جس کا نام جبونیر جلسا بورے رکھا گیا۔2016میں اس کی تصویر پر مبنی ایک یاد گاری ٹکٹ بھی جاری ہوا۔منا ڈے کی شادی سروچنا کماری سے 1953میں ہوئی اور اس کی دو بچیاں تھیں ۔ عجیب بات ہے کہ دونوں بیٹیوں نے موسیقی پر بالکل توجہ نہیں دی ۔ ایک بچی شوروما ہیری کر ‘ امریکا میں سائنس دان بن گئی ۔ دوسری بیٹی شومیتا دیو بنگلور کی ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت کے روپ میں دنیا کے سامنے آئی۔ بیوی کی وفات کے بعد ‘ بمبئی چھوڑ کر بنگلور منتقل ہو گیا تھا۔ پھر مرتے دم تک وہیں قیام پذیر رہا۔
مختصر تحریر میں منا ڈے کے کام پر نظر ڈالنا بہت مشکل ہے۔ مگر وہ واحد شخص تھا جو ہر طرح کے موسیقار کے ساتھ کام کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے مبرا تھا ۔منا ڈے بنیادی طور پر قدیم فلمی موسیقی کا آخری نمایندہ تھا۔ کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کشور کمار کی جادوئی آواز جب فلموں میں آئی تو بہت سے پرانے چراغ گل ہونے لگے۔فقیدالمثال گائیک ‘ محمد رفیع اکثر کہا کرتے تھے کہ اب ان کا مقابلہ ایک ایسے گلوکار یعنی کشور کمار سے ہے ، جسے گانوں کی نزاکت کا بالکل علم نہیں۔ محمد رفیع کے فلمی زوال کا بہت بڑا عنصر کشور کمار کی نایاب اور جدید آواز تھی ، جس کا آج بھی لوگ دم بھرتے ہیں ۔
موسیقی ایک ایسا سمندر ہے جس میں برصغیر پاک و ہند میں کمال آوازیں ابھریں ۔ آج تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو دعویٰ کر سکے کہ موسیقی کی تمام جزئیات کو سمجھتا ہے ۔ پاکستان میں ‘ طالب علم ان گنت صف اول کے موسیقاروں سے ملتا رہا ہے۔ اپنے اندر میوزک کا طلاطم برپا ہونے کے باوجودصرف ایک فقرہ کہتے تھے کہ ہم اس فن میں صرف اور صرف طالب علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی حال گلوکاروں کا ہے۔ مہدی حسن ‘ غلام علی ‘ نیئر نور ‘ مہناز ‘ ریشماں ‘ ناہید اختر اور دیگر افراد نے کبھی اس علم پر دسترس کا دعویٰ نہیں کیا۔ بڑے غلام علی خان ‘ امانت علی خان بھی ہمیشہ اپنی کم علمی کا اظہار کرتے رہے ۔ یہی ان کا بڑا پن تھا۔
منا ڈے ایک عجیب سی شخصیت ہے جو تکبر سے توخیر ہزاروں نوری سال دور تھی ۔ مگر اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ گلوکاروں کا استاد تھا۔ ایک اور چیز عرض کرتا چلوں ۔ موسیقی ایک ایسا علم ہے جو انسان کو مکمل طور پر عاجز بنا دیتا ہے۔ اس کی میں ختم کر ڈالتا ہے ۔ انکساری کوٹ کوٹ کر بھر دیتا ہے۔ یہ تمام لوگ ذاتی زندگی میں ہر دم سادہ طبیعت کے مالک ہو جاتے ہیں۔ خواجہ خورشید انور جیسا لافانی موسیقار ‘ عجزکا چلتا پھرتا نمونہ تھا ۔ ایک اورنقطہ ‘پرانے لوگوں میں دولت کی ہوس بہت کم تھی۔ پیسے کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے ۔
دولت ‘ ان کے فن کی وجہ سے ‘ ان کے گھر کی باندی بن جاتی تھی ۔اس کے برعکس موجودہ زمانے میں‘کسی بھی شعبے میں کامیاب لوگوں کی طرف دیکھیے ۔ بہت کم انسان ‘ اوج ثریا پر عاجز انداز کے نظر آئیں گے۔بیکار سے سیاست دانوں سے لے کر فرسودہ سرکاری ملازمین تک اور دیگر شعبوں میں کامیاب لوگ اکثر خودنمائی ‘ لالچ اور مصنوعی بڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جس وقت قدرت انھیں زوال کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ عملی زندگی میں انگنت لوگ دیکھے ہیں جو کامیابی کو سنبھال نہیں سکے ۔ اپنے آپ کو مافوق الفطرت ہستی سمجھنے لگے ۔ یہ تفریق ہندوستان اور پاکستان عجیب طریقے سے موجود ہے۔ ہمسایہ ملک میں اکثر کامیاب لوگ اب بھی سادہ سے ہیں۔
رہن سہن ‘ کپڑے اور طرز زندگی بہت زیادہ صوفی منش نظر آتا ہے۔ بلکہ بہتر جملہ تو یہ ہے کہ تصنع سے بہت دور نکل جاتے ہیں ۔ مگر انسانی زندگی اور وقت بہت ظالم چیز ہے ۔ جیسے جیسے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں پیسے کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ سادگی آہستہ آہستہ صبح کاذب کی طرح معدوم پڑتی جا رہی ہے۔ منا ڈے جیسے درویش کردار کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب تو حالت یہ ہے کہ پاک و ہند میں اگر کوئی اداکار ‘ اداکارہ یا فلمی دنیا سے وابستہ شخص کامیابی کے پہلے زینے پر چڑھتا ہے۔ تو اپنے آپ کو دیومالائی کردار گرداننا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ بالکل نہیں معلوم مگر حقیقت یہی ہے ۔ مگر منا ڈے بہر حال ایسا نہیں تھا۔
منا ڈے جیسے عظیم گلوکار جو پچاس سال تک موسیقی کی دنیا پر حکومت کرتے رہے ۔ جادوئی آواز کا مالک تو تھا ہی مگر شرافت اور سادگی کا علمبردار بھی تھا۔ آج چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو چودہ زبانوں میں اپنی آواز کا جادوبکھیرنے والا منا ڈے جیسا انسان دور دور تک نظر نہیں آتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں منا ڈے موسیقی کی کے سی ڈے آواز کا کے ساتھ کا نام
پڑھیں:
شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔
’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔
فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘
اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘
شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔
جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘
اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔
شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔