لندن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اگست 2025ء ) برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں جنوبی ایشیائی خطے میں ایک سفارتی اور اسٹریٹیجک تبدیلی کا معمار قرار دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق جریدے کے ایک حالیہ خصوصی مضمون میں کہا گیا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نا صرف پاک امریکہ تعلقات میں نئی جان ڈال رہے ہیں بلکہ چین، مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات کو بھی کامیابی سے نبھا رہے ہیں، 18 جون کو فیلڈ مارشل عاصم منیر نے واشنگٹن میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ایک نجی ملاقات کی جسے خطے میں سفارتی تبدیلی کا آغاز قرار دیا گیا، اس ملاقات کے فوری بعد امریکہ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا اور اسے مردہ معیشت قرار دیا جب کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے 19 فیصد ٹیرف لگایا۔

(جاری ہے)

دی اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اسلحے، انسداد دہشت گردی تعاون اور تجارتی روابط کی بحالی پر سنجیدگی سے کام کر رہا ہے جو جنوبی ایشیاء، چین اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی کی بڑے تبدیلی کا اشارہ ہے، امریکی پالیسی ساز بھارت کی تخریبی سرگرمیوں اور خطے میں اس کے کردار کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں، امریکی عہدیداروں نے پاکستان کی داعش کے خلاف کارروائیوں کا برملا اعتراف بھی کیا اور امریکہ پاکستان کو بکتر بند گاڑیاں، نائٹ وژن آلات اور دیگر دفاعی ساز و سامان فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے۔

مضمون میں کہا گیا ہے کہ عالمی سفارت کار اور سرمایہ کار براہ راست فیلڈ مارشل سے رابطے میں ہیں، صدر ٹرمپ کے قریبی حلقے پاکستان کے کرپٹو اور مائننگ سیکٹرز میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعے کے بعد فیلڈ مارشل کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، بھارت کے اشتعال انگیز اقدامات کے باوجود انہوں نے دباؤ قبول کیے بغیر بروقت اور مؤثر جوابی کارروائی کی، جس نے انہیں پاکستان کے اندر اور عالمی سطح پر ایک مضبوط اور فیصلہ کن قائد کے طور پر ابھارا ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فیلڈ مارشل پاکستان کے کے ساتھ

پڑھیں:

امریکہ: چابہار بندرگاہ پر بھارت کے لیے پابندیوں کی چھوٹ واپس

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بھارت کو ایران کی چابہار بندرگاہ کی تعمیر کے لیے نئی دہلی کو پابندیوں سے متعلق جو رعایات دی گئی تھیں، انہیں وہ واپس لے رہی ہے۔

ایران کی چابہار بندرگاہ دفاعی نکتہ نظر سے اہم ہے اور جب چین کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ ڈیولپ کرنے کا عمل شروع ہوا تو بھارت نے اسی تناظر میں ایران کی اس بندرگاہ کو لے کر کام شروع کیا تھا۔

چونکہ ایران کے حوالے سے امریکہ نے بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اس لیے مودی کی درخواست پر سن 2018 میں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ نے اس بندرگاہ کے آپریشنز کو پابندیوں سے مستثنٰی قرار دیا تھا، جسے اب واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ پابندیاں آج سے تقریباً 10 دن بعد یعنی 29 ستمبر سے نافذ العمل ہو جائیں گی اور کہا جا رہا ہے کہ تہران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ" بنانے کے لیے واشنگٹن نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ نے کیا کہا؟

امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان تھامس پگوٹ نے ایک بیان میں کہا، "ایرانی حکومت کو الگ تھلگ کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے مطابق، وزیر خارجہ نے 2018 میں ایران فریڈم اینڈ کاؤنٹر پرولیفریشن ایکٹ کے تحت جاری کردہ پابندیوں کی استثنٰی کو منسوخ کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ، 29 ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔

"

منسوخی کے فیصلے کے نفاذ کے بعد وہ تمام افراد جو چابہار بندرگاہ کو چلاتے ہیں یا دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہیں، وہ سب کے سب امریکی پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔

بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا

ماہرین کے مطابق گرچہ اس اقدام کے ذریعے ایران کو نشانہ بنانے کی بات کہی جا رہی ہے، تاہم اس کے بھارت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

نئی دہلی اس بندرگاہ (شاہد بہشتی ٹرمینل، چابہار پورٹ) کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے تیار کر رہا ہے۔

بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے ایسی خبریں شائع کی ہیں کہ چین کی جانب سے گوادر بندرگاہ کو جس طرح تعمیر کیا ہے، اس تناظر میں یہ فیصلہ چابہار کو ترقی دینے کے بھارتی منصوبوں کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔

استثنیٰ کی منسوخی بھارت کو ایک مشکل مقام پر ڈالتی ہے۔

13 مئی 2024 کو، نئی دہلی نے اپنے پہلے طویل مدتی ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ایران کی بندرگاہ اور میری ٹائم آرگنائزیشن کے ساتھ شراکت میں چابہار کو چلانے کے لیے 10 سال کی ڈیل کی گئی تھی۔

بھارت کے لیے چابہار صرف ایک تجارتی مرکز نہیں بلکہ اسٹریٹیجک نکتہ نظر سے بہت اہم ہے۔ نئی دہلی نے سب سے پہلے سن 2003 میں چابہار کو ترقی دینے کی تجویز پیش کی تھی کیونکہ یہ پاکستان پر بھروسہ کیے بغیر افغانستان اور وسطی ایشیا کو راستہ فراہم کرتی ہے اور یہ بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور سے بھی مربوط ہے، جو بھارت کو روس اور یورپ سے ملاتا ہے۔

بھارت اس بندرگاہ کو پہلے ہی افغانستان کو گندم کی امداد اور دیگر ضروری سامان بھیجنے کے لیے استعمال کر چکا ہے۔

امریکہ نے 2018 میں چابہار بندرگاہ کے منصوبے کو پابندیوں سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے افغانستان کے لیے اچھی کھیپ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دفاعی نکتہ نظر سے اہم ایرانی بندرگاہ

چابہار ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں واقع ایک گہرے پانی کی بندرگاہ ہے۔

یہ بھارت کے لیے سب سے قریبی ایرانی بندرگاہ ہے اور کھلے سمندر میں واقع ہے، جو بڑے کارگو جہازوں کے لیے آسان اور محفوظ رسائی فراہم کرتی ہے۔

مئی 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ تہران کے دوران بین الاقوامی ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کوریڈور (چابہار معاہدہ) کے قیام کے لیے بھارت، ایران اور افغانستان نے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بھارت نے اب تک 25 ملین امریکی ڈالر مالیت کی چھ موبائل ہاربر کرینیں اور دیگر سامان چابہار کو فراہم کیا ہے۔ بھارتی کمپنی، انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ (آئی پی جی ایل) نے اپنی ایک ذیلی کمپنی انڈیا پورٹس گلوبل چابہار فری زون کے ذریعے، 24 دسمبر 2018 میں چابہار بندرگاہ کے آپریشنز کو سنبھالا تھا۔

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • بطور سفارتکار میرا مشن ہمیشہ پاکستان اور امارات کے تعلقات بہتر بنانا رہا: فیصل ترمذی
  • امریکہ: چابہار بندرگاہ پر بھارت کے لیے پابندیوں کی چھوٹ واپس
  • پاک سعودہ باہمی دفاعی معاہدہ 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد سب سے بڑی پیشرفت ہے‘ مشاہد حسین سید
  • بھارت کرکٹ فیلڈ کو دوبارہ سیاسی اکھاڑہ نہ بنائے، پاکستان کا مطالبہ
  • غزہ میں قحط اور عالمی چیخ و پکار کے باوجود امریکہ نے جنگ بندی کی قرار داد چھٹی مرتبہ ویٹو کر دی
  • عدالت کو کہا ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہوا، انصاف کیا جائے، گوہر خان
  • سعودیہ سے معاہدے کی تیاری و تکمیل میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار ہے
  • پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ: ارشد ندیم کا پہلا تھرو ناکام، براہِ راست کوالیفائی نہ کر سکے
  • ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت