انڈس ڈیلٹا: صفحہ ہستی سے مٹتے گاؤں، سمندر کی نذر ہوتی ایک بھرپور ثقافت، وجہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
سندھ کے علاقے کھاروچھان کے گاؤں عبداللہ میر بہر سے تعلق رکھنے والے حبیب اللہ کھٹی اپنی والدہ کی قبر پر آخری دعا کرنے پہنچے تو ان کے قدموں تلے نمک کی سفید تہہ چٹخنے لگی۔ وہ اور ان کے اہلِ خانہ اب اس بنجر اور دلدلی زمین کو خیر باد کہنے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کی عدم توجہی یا مافیا کا راج، کراچی میں ماحول دوست مینگرووز کا تیزی سے خاتمہ کیوں ہو رہاہے؟
اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈس ڈیلٹا کا علاقہ، جہاں دریائے سندھ بحیرہ عرب سے جا ملتا ہے، تیزی سے سمندری پانی کے رحم و کرم پر آتا جا رہا ہے۔ زمین کھاری ہو چکی ہے، پانی پینے کے قابل نہیں رہا اور ایک قدیم طرز زندگی جو زراعت اور ماہی گیری سے جڑی تھی، قصۂ پارینہ بنتی جا رہی ہے۔
حبیب اللہ کھٹی کہتے ہیں کہ ہم چاروں طرف سے کھارے پانی میں گھر چکے ہیں۔ کھاروچھان کبھی 40 کے قریب گاؤں پر مشتمل ہوا کرتا تھا مگر اب ان میں سے بیشتر سمندر کی نذر ہو چکے ہیں۔ سنہ 1981 میں یہاں کی آبادی 26 ہزار تھی جو 2023 میں صرف 11 ہزار رہ گئی۔
انسانی المیہ: لاکھوں لوگ بے گھرپاکستان فشر فولک فورم کا کہنا ہے کہ اب تک ہزاروں خاندان انڈس ڈیلٹا کے ساحلی علاقوں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ جِناح انسٹیٹیوٹ کی سنہ 2024 کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں میں 12 لاکھ سے زائد افراد اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
کھاروچھان اور کیٹی بندر جیسے علاقوں کے باسی اب کراچی جیسے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں پہلے ہی معاشی مہاجرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
پانی کی کمی، زمین کی بربادیدریائے سندھ کا پانی سنہ 1950 کے بعد سے 80 فیصد کم ہو چکا ہے جس کی بڑی وجوہات نہری نظام، پن بجلی کے منصوبے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے میں کمی ہیں۔
ایک امریکی-پاکستانی تحقیق کے مطابق سنہ 1990 کے بعد سے علاقے کے پانی میں نمک کی مقدار 70 فیصد تک بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کھیتی باڑی ناممکن ہو گئی ہے بلکہ جھینگے اور کیکڑے جیسی آبی حیات بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔
مزید پڑھیے: تھرپارکر میں آسمانی بجلی اتنی زیادہ کیوں گرتی ہے؟
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مقامی ماہر محمد علی انجم نے کہا کہ ’ڈیلٹا اب ڈوب بھی رہا ہے اور سکڑ بھی رہا ہے‘۔
سفید نمک کی تہہ اور نایاب میٹھا پانیکیٹی بندر میں زمین پر نمک کی سفید تہہ جمی ہوئی ہے۔ پینے کا پانی کئی کلومیٹر دور سے کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے اور لوگ اسے گدھوں پر گھر لے کر جاتے ہیں۔
حاجی کرم جت کاکہنا ہے کہ کون اپنی سرزمین چھوڑتا ہے؟ انہوں نے نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ’جن کا گھر سمندر کی بڑھتی سطح نگل چکا ہے اب وہ اندرون ملک ایک نئی جگہ بس چکے ہیں اور دوسروں کو بھی وہی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں‘۔
قدیم طرز زندگی کا خاتمہموسمیاتی کارکن فاطمہ مجید کہتی ہیں کہ انڈس ڈیلٹا کے ساتھ صرف زمین نہیں بلکہ ایک ثقافت بھی ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین جو نسلوں سے ماہی گیری کے جال بُنتی اور مچھلیاں صاف کرتی تھیں، اب شہروں میں روزگار کے لیے تگ و دو کرتی نظر آتی ہیں۔
مزید پڑھیں:
فاطمہ نے کہا کہ ہم نے صرف زمین نہیں کھوئی، ہم نے اپنا رنگ، رسم اور رشتہ بھی کھو دیا ہے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ جن کا خاندان کھاروچھان سے کراچی کے مضافات میں منتقل ہو چکا ہے۔
سیاسی و عالمی خطراتدریائے سندھ کا پانی صرف قدرتی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ بھارت، جس نے سنہ 1960 کا انڈس واٹر ٹریٹی ’منسوخ‘ کرنے کا اعلان کیا ہے، اوپری علاقوں میں ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاکستان نے اس اقدام کو اعلان جنگ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے پانی کی فراہمی مزید متاثر ہوگی۔
بحالی کی کوششیں: امید کی کرن؟ماحولیاتی تباہی کے باوجود کچھ اقدامات بھی جاری ہیں۔ سال 2021 میں حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ نے ’لِونگ انڈس انیشیٹو‘ کا آغاز کیا جس کا مقصد انڈس بیسن کو بچانا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مٹی کی زرخیزی بہتر بنانے، زراعت کو سہارا دینے اور ماحولیاتی نظام کی بحالی پر کام کیا جا رہا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے مینگروو جنگلات کی بحالی کا ایک الگ منصوبہ بھی جاری ہے جو سمندری پانی کے خلاف قدرتی دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر ایک طرف جنگلات لگائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف لینڈ مافیا اور رہائشی منصوبے ان قیمتی علاقوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
انجام کے دہانے پر ایک خزانہدریائے سندھ جو تبت سے شروع ہو کر کشمیر اور پھر پاکستان کے طول و عرض سے گزرتا ہے، ملک کی 80 فیصد زرعی زمین کو سیراب کرتا ہے۔ اسی کے کنارے بسنے والے لاکھوں افراد کی زندگیاں، روایات اور روزگار اس دریا سے جڑے ہیں۔ مگر اب یہ سب کچھ رفتہ رفتہ ڈوب رہا ہے۔
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو انڈس ڈیلٹا محض ایک ماحولیاتی بحران نہیں، بلکہ ایک قومی سانحہ بن جائے گا۔
ماہرین کے مطابق اگر پانی کی منصفانہ تقسیم، زمین کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو انڈس ڈیلٹا محض ایک ماحولیاتی سانحہ نہیں بلکہ خطے کے استحکام کے لیے خطرہ بن جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انڈس ڈیلٹا ختم ہوتے گاؤں سمندر کھاروچھان کیٹی بندر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈس ڈیلٹا ختم ہوتے گاؤں کیٹی بندر دریائے سندھ انڈس ڈیلٹا کے مطابق رہے ہیں چکے ہیں پانی کی نمک کی رہا ہے کہا کہ
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭