(واہ کینٹ)
نباتاتی نام: ( Botanical Name)
کیلے کا نباتاتی نام ( acuminata Musa) ہے۔
تاریخی پس منظر: کیلا خوش نما اور خوش ذائقہ پھل ہے۔ یہ دنیا بھر میں کھایا جانے والا پھل ہے۔ یہ عام طور پر لمبا اور خم دار ہوتا ہے۔ نشاستہ سے بھرپور ہے۔ چھلکے سے ڈھکا ہوتا ہے۔ پکنے پر یہ کئی رنگوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ پھل پودے کے اوپری حصے پر لگتا ہے۔ اس کے پودے تناور درخت کی مانند ہوتے ہیں۔ پتے چپٹے اور بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ کیلے کا پودا سب سے بڑی جڑی بوٹیوں والا پھول دار پودا ہے۔ کیلے مختلف قسم کی زمینوں میں اگتے ہیں۔ انہیں نشوونما پانے کے لیے مناسب درجۂ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تیزی سے بڑھنے والے پودے ہیں۔
اس کے پودے اونچائی میں پانچ میٹر یعنی سولہ فٹ تک بڑھ سکتے ہیں۔ کیلے کا ایک جھرمٹ گیارہ درجنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس جھرمٹ میں تقریباً 49 سے 143 کیلے ہوتے ہیں۔ ایک جھرمٹ کا وزن تقریباً پانچ سے 22 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔ ایک کیلے کا اوسطاً وزن تقریبا 125 گرام یعنی 4.
اقسام: ماہرین نباتات کے مطابق کیلے کی تقریباً 1000 اقسام ہیں۔ ریا ست ہائے متحدہ امریکا میں کیلے کی 100 سے زیادہ اقسام اُگائی جاتی ہیں۔ چند مشہور اقسام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
ایپل بنانا: اس قسم کو لینٹنڈن کیلے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک میٹھی اور مزے دار قسم ہے۔ یہ دو جنگلی انواع سے تیار کی گئی ہے۔ پہلی موسی بلبلیانہ اور دوسری موسی ایکو منیاٹا۔ اس کا منفرد ذائقہ غیرمعمولی خصوصیت کا حامل ہے جو عام طور پر کیونڈش کیلے کی مٹھاس سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کی شدید مٹھاس کی وجہ سے انہیں کینڈی ایپل بیننا بھی کہا جاتا ہے۔
کنگ بنانا: جیسا نام سے ظاہر ہے اس قسم کو کیلے کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا نام رائل بنانا ہے۔ یہ انڈونیشین قسم ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا نام تیرہویں صدی میں اس وقت منظرعام پر آیا جب ایک بادشاہ نے اسے اپنا پسندیدہ پھل قرار دیا تھا۔ یہ کیلے بیج کے بغیر اور میٹھے ہوتے ہیں۔ انہیں پکوڑے بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ قسم دیکھنے میں چمک دار، رنگت میں گلابی اور جامنی دکھائی دیتی ہے۔ اس قسم کے پودے پانچ سے نو فٹ تک بڑھتے ہیں۔ ان کے پتے گہرے سبز اور پھول پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ سیاحوں میں بہت مقبول قسم ہے۔
گروس مشیل بنانا: اسے کیلے کی بہترین قسم تسلیم کیا گیا ہے۔ اسے 1871 سے فرانسیسی کیروبین جزیر ے گواڈے لوپ میں اگایا جا رہا ہے۔ یہ غیرمعمولی طور پر میٹھے ہوتے ہیں۔ کیلے کی یہ مہنگے ترین قسم ہے۔ اس قسم کو خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اسے مخصوص طبقہ ہی خریدتا ہے۔
لیڈی فنگر بنانا:لیڈی فنگر بنانا کو موسی ایکو منیاٹا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ صدیوں پرانی قسم ہے۔ یہ قسم صحت کے ان گنت فوائد فراہم کرتی ہے۔ لیڈی فنگر کیلوں کا ایک الگ سا ذائقہ ہے جو انہیں دوسرے کیلوں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ کیلے دیگر اقسام کی نسبت زیادہ میٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں نشاستے کی مقدار کم ہوتی ہے۔ یہ قسم سائز میں چھوٹی، ساخت میں پتلی اور ذائقے میں میٹھی ہوتی ہے۔ اس کا ذائقہ عام طور پر کھجور یا انجیر سے ملتا جلتا ہے۔ اس میں فائبر بہت زیادہ موجود ہوتا ہے جب کہ کیلوریز بہت کم۔ یہ ناشتے کی ایک بہترین قسم ہے۔
بلیو جاوا بنانا: بلیو جاوا کو ونیلا آئس کریم کی مماثلت کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ نہایت ہی دل کش اور لذیذ قسم ہے۔ اس کا نام اس حقیقت پر مبنی ہے کہ اس کی جلد کچی ہونے پر نیلی نظر آتی ہے۔ اس کا گودا نرم اور خاص مہک رکھتا ہے۔
منزانو بنانا: منزانو نام ہسپانوی لفظ منزائیلو سے لیا گیا ہے جس کا مطلب چھوٹا سیب ہے۔ یہ قسم سب سے پہلے میکسیکو میں اگائی گئی۔ بعد ازآں پورے وسطی امریکا میں پھیل گئی۔ یہ کوسٹا ریکا میں سب سے زیادہ اگائی جانے والی قسم ہے۔ یہ قسم تین پاؤنڈ تک کے بڑے پھل پیدا کرتی ہے۔ اس کی جلد زرد، سبز، ہم وار اور چمک دار ہوتی ہے۔ یہ تیزی سے نشوونما پانے والی قسم ہے جو چھوٹے سائز کے گچھے پیدا کرتی ہے۔
ریڈ بنانا: اس قسم کی جلد سرخ اور جامنی ہوتی ہے۔ یہ کیلا گلابی اور نارنجی رنگ کے ساتھ خوش نما دکھائی دیتا ہے۔ اس کا گودا میٹھا ہوتا ہے۔ یہ ذائقے میں ہلکا اور ساخت کے اعتبار سے کریمی ہے۔
گولڈ فنگر بنانا: یہ بھی مشہور ترین قسم ہے۔ یہ وسطی امریکا کے لیے مثالی مانی جاتی ہے۔ اس کا نام اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ جب سیاہ روشنی کے نیچے دیکھا جائے تو یہ سونے کے رنگ جیسا لگتا ہے۔ مزے دار ہونے کے ساتھ اس کی کٹائی اور اگائی بھی آسان ہے۔ گولڈ فنگرز کی بہت سی اقسام ہیں، مثلاً سیاہ، سرخ، پیلا اور سفید۔ اس کی افزائش کے لیے معتدل آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کا ذائقہ سیب کی طرح ہوتا ہے۔ یہ قسم پانچ مہینوں کے اندر اندر پختگی تک پہنچ جاتی ہے۔ اس قسم کو عام طور پر پکنے پر کاٹا جاتا ہے۔ پکنے کے بعد جلد مکمل طور پر زرد ہوجاتی ہے۔
ننجن گڈ بنانا: یہ قسم ہندوستان کے کیلے کی آٹھ اقسام میں سے ایک ہے۔ یہ ریاست کرناٹک کے ضلع چامراج نگر کے گاؤں نانجان گڑھ کے آس پاس کالی مٹی کی جلوٹھی استعمال کی وجہ س یقدرے کھٹے ذائقے کے لیے مشہور مانی جاتی ہے۔ اسے پورے خطے میں لگ بھگ 50 ہزار کسان اگاتے ہیں۔ یہ ہندوستان کے سب سے مشہور پھلوں میں سے ایک ہے۔ یہ میٹھا پھل کرناٹک ریاست کی گرم مرطوب آب و ہوا میں خوب پھلتا پھولتا ہے۔ یہ قسم کچی اور پکی دونوں طرح سے کھائی جاسکتی ہے۔ اس کیلے کے پودے قدرتی طور پر اگتے ہیں۔ ان کیلوں سے مٹھائیاں، حلوہ، کھیر اور پاستہ بنائے جاتے ہیں۔
پرینک ہینڈ بنانا: یہ کیلے کی غیرمعمولی قسم ہے۔ اس کی شکل و صورت پریگ ہینڈ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ یہ دور سے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے دو ملحقہ ہاتھ ہیں، جو آپس میں مل کر آگے ہیں۔ یہ منفرد شکل جلد کو نقصان پہنچائے بغیر پھلوں کو چھیلنا آسان بناتی ہے۔ مزے دار ہونے کے ساتھ انہیں پکانا بھی آسان ہے۔ انہیں کم پانی اور کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے کھیتوں کے لیے مثالی ہیں۔
مجموعی پیداوار:فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے اعدادوشمار کے مطابق کیلیکی سالانہ پیداوار 179 ملین ٹن ہے۔ کے اعدادوشمار کے مطابق کیلے کے سب سے بڑے پیداواری ممالک بھارت اور چین تھے جن کی مجموعی پیداوار کا 26 فی صد حصہ ان ممالک کے پاس موجود تھا۔ چند ممالک کے نام جن میں کیلے کی پیداوار سب سے زیادہ شہرت کے حامل ہیں۔ ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
٭ انڈیا :: 34.5 ٭ چین : : 11.8
٭ یوگنڈا :: 10.4 ٭ انڈونیشیا ::9.2
٭ فلپائن :: 9.0 ٭ نائجیریا :: 8.0
٭ کانگو :: 5.7 ٭ میزان: :169 ّ
دفاعی مرکبات
٭ Flavonoids ٭ Tannins
٭acid Phenolic ٭ Carotenoids
٭Phytosterols ٭ Dopamine
٭Catechines ٭ Anthocyanins
غذائی حقائق:
کیلے میں مندرجہ ذیل غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں:
٭ کیلوریز …… 105
٭ پانی… 88.4 گرام
٭ کاربوہائیڈریٹس… 2284 گرام
٭ شوگر… 12.23 گرام
٭ ڈائٹری فائبر…2.6 گرام
٭ فیٹ…0.33 گرام
٭ پروٹین… 1.09 گرام
وٹامنز / مقدار / یومیہ ضرورت
٭ ٹامن اے… 19.2 مائیکرو گرام 2
٭ تھایامین بی ون…0.031 ملی گرام 3
٭ رائبو فلیون بی ٹو… 0.073 ملی گرام 6
٭ نیاسین بی تھری… 0.665 ملی گرام 4
٭ پینٹو تھینک ایسڈ بی فائیو… 0.334 ملی گرام
٭ وٹامن بی سکس…0.4 ملی گرام 24
٭ فولیٹ بی نائن… 20 مائیکرو گرام 5
٭ چولین…9.8 ملی گرام 2
٭ وٹامن سی… 8.7 ملی گرام 10
معدنیات / مقدار /یومیہ ضرورت
٭ کاپر… 0.0101 11
٭ آئرن… 0.26 ملی گرام 1
٭ مگنیشیم…27ملی گرام 6
٭ میگنیز… 22 ملی گرام12
٭ پوٹاشیم… 358 ملی گرام 12
٭ سوڈیم…1 ملی گرام
٭ زنک… 0.15 ملی گرام
طبی فوائد:
ٹائپ ٹو ذیابیطس: طبی ماہرین کے مطابق کیلا ٹائپ ٹو ذیابطیس کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وزن کم کرنے یا بڑھانے، اعصابی نظام کو مستحکم کرنے میں اور خون کے سفید سیلز کی پیداوار میں مددگار ہے۔ علاوہ ازیں کیلا جگر، معدے، گردوں، دماغ، دل کی شریانوں اور بینائی کے لیے انتہائی سودمند ہے۔ اس میں پوٹاشیم کی بھاری مقدار مختلف امراض سے بچانے کی استعداد رکھتی ہے۔ خاص طور پر یہ پھل دل کے مختلف امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ لہٰذا روزمرہ زندگی میں عام آدمی کو روزانہ دو سے چار کیلے روزانہ کھانے چاہییں۔ طبی لحاظ سے اس کی کچھ خصوصیات پر نظر ڈالتے ہیں۔
دل کے مختلف امراض میں: کیلے کے اندر پوٹاشیم کی کافی مقدار پائی جاتی ہے اور پوٹاشیم دل کی شریانوں کے لیے انتہائی اہم چیز ہے۔ یونیورسٹی آف الباما کی تحقیق کے مطابق پوٹاشیم شریانوں کو سخت ہونے سے بچاتا ہے اور بلڈ پریشر کو کنٹرول بھی کرتا ہے۔
وزن میں کمی یا زیادتی: کیلے میں وزن کم یا زیادہ کرنے کی دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اسے وزن بڑھانے کے لیے کھانے کے بعد اور وزن کم کرنے کے لیے ناشتے سے آدھا گھنٹہ پہلے صبح نہار منہ کھا نا چاہیے۔
کم زور بینائی: کیلے میں وٹامن اے کی موجودگی کم زور بینائی کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ Night blindness سے بچاتا ہے۔
گردوں کا کینسر:کیلا گردوں کے کینسر سی بچاتا ہے۔ 2005 کی ریسرچ کے مطابق جو خواتین اپنی خوراک میں پھل اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کرتی ہیں وہ 40 فی صد تک گردوں کے امراض اور کینسر سے محفوظ رہتی ہیں۔ کیلا حمل سے پہلے اور بعد میں کھانا انتہائی مفید ہے۔ دی رائل سوسائٹی کے مطابق جن خواتین نے حمل سے پہلے کیلے کا وافر مقدار میں استعمال کیا ان کو خدا نے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ اس سوسائٹی نے 740 خواتین پر تجزیہ کیا، جس سے پتا چلا کہ جن خواتین نے پوٹاشیم کی زیادہ مقدار لی انہیں خدا نے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔
ہڈیوں کی مضبوطی: ہڈیوں کے بھر بھرے پن یعنی آسٹیوپروسس کا خدشہ ہو تو کیلے کا استعمال انتہائی مفید ہے۔ کیلے کے ساتھ نمک کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، کیوںکہ نمک ہڈ یوں لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
خون میں کولیسٹرول کی سطح:کیلا کولیسٹرول لیول کی مقدار نارمل رکھتا ہے اور مزید بڑھنے سے روکتا ہے۔
نظام انہضام کی خرابیاں: ایک عام کیلے میں تقریباً دس فی صد فائبر پایا جاتا ہے اور 33 % وٹامن بی 6، کیلا تیزابیت اور السر کے کے اثرات و فتور دور کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
اعصابی بے حسی:جو لوگ روزانہ ورزش کرتے ہیں ان کے لیے کیلا انتہائی مفید ہے۔ انہیں دو کیلے کھانے سے پہلے اور دو کیلے کھانے کے بعد کھانے چاہییں۔ کیلا اعصابی خرابیوں کو دور کر کے خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے۔
احتیاطی تدابیر:عام طور پر کیلا کھانے کے لیے محفوظ ہے، تاہم پھر بھی اسے کھاتے وقت چند احتیاطی تدابیر پر عمل ضرور کرنا چاہیے:
٭ کیلے میں بہت زیادہ پوٹاشیم پایا جاتا ہے، خاص طور پر جو لوگ گردوں کے مسائل میں مبتلا ہیں، انہیں اس سے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
٭ ایسے لوگ جن کو کیلا کھانے سے الرجی ہو یا سانس کی تنگی ہو وہ ا سے ہرگز نہ کھائیں۔
٭ جن لوگوں کو نظام ہضم کا مسئلہ ہو وہ بھی اسے کھانے سے پرہیز کریں، کیوںکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
٭ کچھ لوگ کیلے کو ہضم نہیں کرپاتے، خاص طور پر ایسے لوگ جو آنتوں کے سنڈروم یا معدے کی دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہیں بھی کیلا کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔
٭ بہت زیادہ کیلے کھانے سے خون میں پوٹاشیم کی زیادتی ہوسکتی ہے، جو ممکنہ طور پر دل کے مسائل اور پٹھوں کی کم زوری کا باعث بن سکتی ہے۔
٭ کیلے بکٹیریا سے آلودہ ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر سالمو نیلا یا کیڑے مار ادویات، چناںچہ انہیں استعمال سے پہلے ضرور دھو لیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سونے کی قیمت میں 300روپے فی تولہ کمی
ملک بھر میں سونے کی قیمتوں میں آج کمی ہوگئی۔صرافہ مارکیٹوں کے مطابق 24 قیراط فی تولہ سونا 300 روپے سستا ہو کر 3 لاکھ 62 ہزار 400 روپے کا ہو گیا۔اسی طرح 24 قیراط 10 گرام سونے 257 روپے تنزلی سے 3 لاکھ 10 ہزار 699 روپے میں فروخت ہوا جب کہ 22 قیراط 10 گرام سونا 236 روپے کمی سے 2 لاکھ 84 ہزار 817 روپے کا ہو گیا۔ادھر عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 3 ڈالر کم ہوکر 3 ہزار 397 ڈالر فی اونس ہوگئی۔ واضح رہے گزشتہ روز قیمتوں میں اضافے کے باعث مقامی صرافہ بازاروں میں فی تولہ سونے کی قیمت 3 لاکھ 62 ہزار 700 روپے اور دس گرام سونے کی قیمت 3 لاکھ 10 ہزار 956 روپے ہوگئی تھی۔