ماں باپ کی علیحدگی میں پھنسے خواب: کراچی کی ماہ نور کا شناختی کارڈ نہ ملنے پر عدالت سے رجوع
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
میاں بیوی کی علیحدگی بچوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، اور ایسے کئی واقعات روزمرہ زندگی اور عدالتوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ کراچی کی نوجوان ماہ نور کا ہے، جس کی زندگی ماں باپ کی علیحدگی کے باعث کئی مشکلات کا شکار ہے۔
ماہ نور کی کہانی 22 سال پرانی ہے، جب اس کے والدین کا طلاق ہوگیا تھا اور وہ صرف 9 ماہ کی تھی۔ چھوٹی عمر میں اس کے لیے باپ کی محبت اور تعلق کا مطلب سمجھنا مشکل تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنے والد کی کمی محسوس کرنے لگی۔ 17 برس کی عمر میں ماہ نور نے اپنے ماموں کے ذریعے اپنے والد سے رابطہ کیا اور 2023 میں پہلی ملاقات کی، جو یادگار ثابت ہوئی۔ والد نے معافی مانگی اور ملاقات تحائف کے تبادلے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
تاہم وقت کے ساتھ ماہ نور کے والد کے رویے میں تبدیلی آئی اور انہوں نے ماہ نور پر غلط الزامات عائد کرنے شروع کردیے، حتیٰ کہ وہ ٹارچر کا نشانہ بھی بنیں۔ مجبور ہو کر ماہ نور نے والد کا نمبر بلاک کر دیا۔
مزید پڑھیں: ’شکر گزار ہوں ہمارے بچے نہیں ہیں‘ آغا علی کی حنا الطاف سے طلاق کی تصدیق
اس سال ماہ نور کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے والد کے کچھ دستاویزات درکار تھے تاکہ وہ اپنا ڈومیسائل اور قومی شناختی کارڈ بنوا سکے، لیکن والد نے نادرا میں علیحدگی کا اندراج نہیں کروایا اور دستاویزات فراہم کرنے سے انکار کیا۔
ماہ نور نے وفاقی محتسب نادرا سے رجوع کیا، جس نے اس کے حق میں فیصلہ دیا، مگر شناختی کارڈ جاری نہ کرنے کی وجہ سے ماہ نور کا ڈاکٹر بننے کا خواب متاثر ہو رہا ہے اور وہ ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں بھی شامل نہیں ہو سکی۔
ماہ نور کی وکیل عثمان فاروق کے مطابق، والد کی جانب سے تعاون نہ کرنے کی وجہ سے عدالت نے نادرا اور دیگر متعلقہ فریقین سے 26 اگست تک جواب طلب کرلیا ہے تاکہ ماہ نور کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
شناختی کارڈ کراچی کی ماہ نور ماں باپ کی علیحدگی نادرا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: شناختی کارڈ کراچی کی ماہ نور ماں باپ کی علیحدگی شناختی کارڈ کی علیحدگی ماہ نور نے والد باپ کی
پڑھیں:
بعض ججز طاقتوروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیتے ہیں؛ جسٹس صلاح الدین
عمر کوٹ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 اگست 2025ء ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پہنور کا کہنا ہے کہ بعض ججز طاقتوروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیتے ہیں، اگر ہم کچھ نہیں کر سکتے تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ عمرکوٹ بار ایسوسی ایشن کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے عدالتی نظام اور اداروں کی کوتاہیوں پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور ان ججز، وکلاء و پولیس افسران کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو عوام کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر یا انکار کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے "انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے" کے مقولے کو بالکل درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو عدالت انصاف نہ دے اس کا کوئی فائدہ نہیں، ایک خاتون کو وراثت کا فیصلہ آنے میں 71 سال لگے جب کہ ایک اور شخص کا حادثے سے متعلق کیس 24 سال بعد نمٹایا گیا۔(جاری ہے)
جسٹس صلاح الدین پہنور نے جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کے اثر و رسوخ کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض جج طاقتوروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں، ججوں کو بے خوف ہو کر دیانتداری سے فیصلے دینے چاہئیں کیوں کہ حلف سے غداری عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے، ہم کس کے جج ہیں عوام کے یا اشرافیہ کے؟ کبھی کبھی لگتا ہے ہم جج نہیں ڈاکو ہیں، پاکستان میں لوگ نیکی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہوتا ہے، ججز عوام سے براہ راست تعلق قائم کریں کیوں کہ ہمیں خود کو الگ تھلگ رکھنا چھوڑ کر دیکھنا ہوگا کہ لوگ کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بالائی سندھ میں "ڈاکو کلچر" اور زیریں سندھ میں "منشیات کی وباء" ہے، خاص طور پر عمرکوٹ میں یہ پورے نظام کو مفلوج کرچکی ہے، سکھر کے ایک ایس ایس پی نے جرائم پر قابو پانے میں بے بسی کا اعتراف کیا، عمرکوٹ پولیس جرائم روکنے کی بجائے بھتہ خوری میں مصروف ہے، ایک سابق سیشن جج کے دور میں جرائم میں اضافہ ہوا، ہمارے حکمران جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے ادارے جھوٹ بولتے ہیں، اور عوام نے بھی سچ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو یہ نظام تباہ ہو جائے گا۔