رضوان اور بابر اسٹرائیک ریٹ میں سب سے پیچھے رہ گئے
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
کراچی:
پاکستانی سینئر بیٹرز محمد رضوان اور بابراعظم اسٹرائیک ریٹ میں تمام آئی سی سی فل ممبر ممالک کے کرکٹرز سے پیچھے رہ گئے۔
یکم جنوری 2024 سے اب تک ایک روزہ کرکٹ میں دونوں کا اسٹرائیک ریٹ سب سے کم ہے، اس عرصے میں رضوان کا اسٹرائیک ریٹ 75.03 رہا جبکہ بابر نے 78.88 کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز اسکور کیے۔
دوسری جانب سابق پاکستانی کپتان بابراعظم کی خراب فارم کا سلسلہ ختم ہونے کے بجائے طول ہی پکڑتا جا رہا ہے، بابراعظم کو ون ڈے میں سنچری بنائے 712 دن بیت گئے۔
ایشیاکپ 2023 میں نیپال کیخلاف اننگز کے بعد پھر سے پاکستانی اسٹار اب تک کمال نہیں دکھا پائے، ون ڈے کرکٹ میں 2 برس کے دوران 78 رنز سے آگے نہیں بڑھے، ٹیسٹ اور ٹی 20 میں بھی تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم بوجھل ہوچکے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسرے ون ڈے میں وہ صفر پر آؤٹ ہوئے، یہ بابر کے ون ڈے انٹرنیشنل کیریئر میں پانچواں موقع ہے جب وہ کھاتہ نہیں کھول پائے۔
اس سے قبل وہ اگست 2023 میں افغانستان کے خلاف بغیر کوئی رن بنائے رخصت ہوگئے تھے، اسی حریف کے خلاف انہوں نے لگاتار 2 ففٹیز بنائی تھیں، اس کے بعد ایشیا کپ 2023 میں نیپال کیخلاف 151 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔
یہ بدستور بابراعظم کی اب تک آخری انٹرنیشنل سنچری بنی ہوئی ہے، اس کے بعد انہوں نے 28 اننگز میں 929 رنز 37.
اس خراب فارم کے دور سے قبل بابراعظم نے 102 ون ڈے اننگز میں 19 سنچریاں اور 37 ففٹیز بنائی تھیں۔ نیپال کے خلاف ایشیا کپ میں جڑی گئی سنچری کے بعد صرف ون ڈے میں ہی نہیں بلکہ ٹیسٹ اور ٹی 20 میں بھی بابراعظم کی فارم زوال کا شکار ہوئی، تب سے اب تک ان کی 10 ٹیسٹ میچز میں بیٹنگ اوسط 23.15 رہی جس میں کوئی بھی سنچری شامل نہیں۔
انہوں نے صرف 3 ففٹیز اسکور کی ہیں، ٹی 20 انٹرنیشنل میں بابر نے 24 میچز کے دوران 33.54 کی اوسط سے 738 رنز بنائے ہیں۔ اس عرصے میں بابراعظم سے کپتانی بھی چھن گئی، ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد واپس لوٹے، قومی ٹی 20 میں ان کی جگہ بھی باقی نہیں رہی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسٹرائیک ریٹ اسکور کی کے خلاف کے بعد
پڑھیں:
تاریخ کے وارث یا مجرم
یہاں عروج کی گونج بھی محفوظ ہے اور زوال کی کراہیں بھی دفن ہیں۔ یہاں وقت کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دیتی ہے اور تقدیر کے بھنور میں گم داستانوں کی سرگوشیاں بھی۔ تاریخ انسانی کے سینے میں وہ سیکڑوں، ہزاروں کہانیاں دفن ہیں جنہیں کبھی مورخ نے لکھا، کبھی فاتح نے مٹایا، اور کبھی مٹی نے خود اپنے سینے میں چھپا لیا۔ یہ کہانیاں صرف ماضی کی گرد میں لپٹی یادیں نہیں۔ یہ وہ زندہ سائے ہیں، جو آج بھی ہمارے اطراف منڈلاتے ہیں، ہمیں پکار پکار کر کچھ سمجھانا چاہتے ہیں، بس ہم ہیں کہ سنتے نہیں۔
ذرا نظر دوڑائیں تو کہیں روم کے عالی شان سینیٹ یا کیوریا جولیا میں سنگ مرمر کے ستونوں تلے بیٹھے سینیٹرز طاقت اور اختیار کے فلسفے پر تلخ بحثوں میں الجھے نظر آتے ہیں، تو کہیں قدیم ایتھنز میں ایکروپولس کے پہاڑی علاقے کے نزدیک پاتھنوں کے عبادت خانے میں ایتھنا کے سامنے جھکے پجاری جو یونانی دیوی کو اپنی قسمت سونپتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک منظر میں چنگیز خان منگولوں کے یاک کی نو دُموں والے علم کے سائے تلے اپنے بیٹوں کو ایک سانپ کی تمثیل کے ذریعے اتحاد کا درس دے رہا ہے تو دوسرے میں مغل سلطنت کا معمار بابر ایک باپ کی بے بسی اوڑھے ہمایوں کے بستر کے گرد یوں چکر لگا رہا ہے گویا اپنی جان اپنے وارث کے لیے کسی اَن دیکھے دربار میں گروی رکھ چکا ہو۔
دوسری طرف، سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول درویش شیخ ادیبالیس کے روبرو بیٹھا اپنے اس خواب کی تعبیر تلاش کر رہا ہے جس میں چاند اس کے سینے میں اترتا ہے اور پھر ایک ایسا درخت اُگاتا ہے جس کی شاخیں تمام دنیا پر سایہ فگن ہوجاتی ہیں تو کہیں فارس کا نوجوان شہزادہ سائرس اعظم، آنثان کے تخت پر بیٹھا دنیا کی سلطنت کو مٹھی میں لینے کے خواب بن رہا ہے۔ کہیں مدینے کی گلیوں میں صدیقؓ کا صبر، فاروقؓ کی عدالت، عثمانؓ کی حیاء اور علیؓ کی جرأت رب کی رضا کے سفر میں تاریخ کے سب سے روشن باب رقم کر رہے ہیں تو کہیں بیبرس، بہ طور سپاہ سالار، پہلی بار منگولوں کے قدم روک کر عالمِ اسلام کے ماتھے پر تحفظ کی لکیر کھینچتا دکھائی دیتا ہے، میدانِ بیت المقدس میں فتح کے جھنڈے تلے رحم اور عظمت کی چادر اوڑھے سلطان صلاح الدین ایوبی نمودار ہوتا نظر آتا ہے تو کسی منظر میں شیر میسور ٹیپو سلطان اپنے لہو سے وفاداری لکھنے کو تیار کھڑا ہے۔
یہ داستانیں فقط فتوحات کی نہیں بلکہ اطاعت کی بھی ہیں، کیوںکہ زندگی کی اصل اس کی تمام تر معنویت، اطاعت کے دامن میں ہی پنہاں ہے۔ چاہے وہ اطاعت رب کی ہو، بندوں کی ہو یا حکم رانوں کی اور اطاعت کا یہ دریا صرف دو چشموں سے پھوٹتا ہے۔ محبت اور خوف۔ یہ جو گم نامی کی دھول سے اٹھ کر پہاڑوں کو سرنگوں کرنے والے کردار تھے، ان کی عظمت کا راز ان کی تلوار کی جھنکار میں نہیں بلکہ اس حکمت و دانائی میں تھا جس نے معاشروں کو وہ نظام عطا کیا جہاں رعایا حکم راں کی محبت میں جھکتی تھی اور قانون کے رعب سے سنبھلتی تھی۔ ان کے نظام میں صرف حکم نہیں تھا، اس میں یقین، وابستگی اور ایک ایسا تعلق تھا جو زبردستی نہیں بلکہ فطری طور پر دلوں میں گھر کر جاتا تھا۔
لیکن افسوس جب وہ عظیم لوگ رخصت ہوئے اور ان کے جانشین مسندِاقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ اس راز کو بھول بیٹھے۔ نشۂ اقتدار نے ان کی بصیرت کو دھندلا دیا، اور انہوں نے ریاست کو صرف قانون کی زنجیروں سے باندھنے کی سعی کی۔ وہ یہ نہ جان سکے کہ جس ریاست سے محبت کا رشتہ منقطع ہوجائے وہاں قانون صرف خوف پیدا کرتا ہے، وفاداری نہیں۔ اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ قانون کی چھڑی سے چلنے والی سلطنتیں وقت کی گرد میں دفن ہوگئیں۔ نہ وہ وقار باقی رہا، نہ وہ نظام، اور نہ ہی وہ نام جو کبھی تاریخ کے ہر صفحے پر رقم ہوتے تھے۔
مذہب کی حکمت انسان کی انفرادی بدکرداری کو روزِمحشر کے ترازو پر تولا کرتی ہے مگر فطرت کو انتظار کی عادت نہیں۔ وہ قوموں کے اجتماعی گناہوں کا حساب یہیں اسی دنیا میں چُکتا کرتی ہے۔ تاریخ کے مزار میں دفن ہر عظیم قوم کے تابوت پر ایک مشترک نوحہ کندہ ہے ’’ہم نے خود اپنے چراغ بجھا دیے‘‘ اور جب ان قوموں کے زوال کا وقت آیا تو ان کے گلی کوچے ظلم و زیادتی سے آلودہ تھے، فضا میں حسدوحرص کی بدبو تھی، ادارے مفاد پرستی کی دلدل میں دھنستے جا رہے تھے اور بستیوں میں منشیات کے اڈے، ہوس کی منڈیاں، شراب خانے، جوئے کے ٹھکانے، زنا کے بازار، چوراہوں پر ڈکیتی، گلیوں میں قتل، عدالتوں میں رشوت، مسجدوں کے قریب سود کی چمکتی عمارتیں، دلوں میں جھوٹ، زبانوں پر خوشامد، چہروں پر دوغلاپن، بازاروں میں ملاوٹ، ناپ تول میں خیانت، دفاتر میں بدعنوانی اور رشوت ستانی، اور ہر دل میں ایک خودغرض ’’میں‘‘ کا شور سنائی دیتا تھا۔
یہی تنہائی اور یہی زہر پھر راستہ بناتی ہے اُن آسیبوں کے لیے جو نظام پر قابض ہوجاتے ہیں۔ میرٹ دفن ہو جاتا ہے، اور اقتدار اُن کے ہاتھ آتا ہے جو بددیانتی میں سب سے آگے ہوں۔ ان کے لیے قومیت ایک جھنڈا نہیں بلکہ کاروبار اور مذہب ایک عقیدہ نہیں بلکہ اشتہار بن جاتا ہے۔ یوں برائی کے کارندے مذہب و قومیت کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کی تجارت کرتے ہیں۔ سیاسی کرپشن تلوار بن جاتی ہے۔
اختلاف دفن، اور گونگے تاج دار تخت پر بٹھا دیے جاتے ہیں جن کے ذہنوں میں تاریکی بسی ہوتی ہے۔ ریاست عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ترقی کے نام پر سرابوں کا تعاقب کرتی ہے۔ خوف کو امید کے ریشمی کاغذ میں لپیٹ کر خوب بیچا جاتا ہے۔ سچائی بے وقوفی کہلاتی ہے، جھوٹ ذہانت، رشوت روزمرہ کا معمول اور دیانت داری بے وقوفی۔ اعتبار کی جڑیں بے یقینی کاٹتی ہے، افواہیں اجتماعی مشغلہ بن جاتی ہیں، اور کل کیا ہوگا، جیسے سوال وقتی سکون کی چادر تلے دب جاتے ہیں۔ منصوبے ضرور بنتے ہیں مگر ان کی پرواز کاغذوں اور تقریروں سے آگے نہیں بڑھ پاتی اور جب قومیں صرف نعروں میں زندہ رہنے لگتی ہیں تو فطرت بے آواز مگر فیصلہ کن انداز میں مداخلت کرتی ہے۔ پھر ایسی قومیں صرف تاریخ کی ایک سطر بن کر رہ جاتی ہیں پڑھنے کے قابل، مگر پلٹنے کے لائق نہیں۔
تاریخ تو ہمیشہ ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر ورق پر ایک چیخ اور ہر واقعے میں ایک نصیحت پوشیدہ ہوتی ہے مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم نے اسے کبھی سنجیدگی سے سننے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ہم نے تاریخ کو استاد نہیں، افسانہ گو سمجھا۔ اس کی صدائیں نہیں سنیں بس اس کے سائے میں دل بہلانے کے افسانے تراشتے رہے۔ شاید یہی وہ ہنر ہے جو ہمیں خوب آتا ہے۔ سبق سے گریز اور تسلیوں سے رفاقت۔ اور افسوس یہ ہنر شاید ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے، کوئی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔