چُپ کی عمر: دیہی خواتین اور سن یاس کے گرد پھیلی خاموشی
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
تعارف: سن یاس کیا ہے؟
سن یاس (Menopause) عورت کی زندگی میں وہ قدرتی مرحلہ ہے جب ماہواری مستقل طور پر بند ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی جسم میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون جیسے ہارمونز کی سطح گرنے لگتی ہے۔
عام طور پر یہ 45 سے 55 سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے، مگر پاکستان کے دیہی علاقوں میں غذائی قلت، سخت مشقت اور طبی سہولیات کی کمی کے باعث یہ 40 سال سے بھی پہلے شروع ہوسکتا ہے۔
سن یاس صرف ایک حیض کا رک جانا نہیں، بلکہ عورت کے جسم، ذہن اور زندگی کی ترتیب کا بدل جانا بھی ہے۔ اس میں ہڈیوں کی کمزوری، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، نیند کی خرابی اور مزاج میں اتار چڑھاؤ جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کی دیہی خواتین کے لیے یہ مرحلہ ایک مکمل ’خاموش بیماری‘ بن جاتا ہے ، جس پر نہ بات کی جاتی ہے، نہ مدد دی جاتی ہے، نہ مریض کو سُنا جاتا ہے۔
یہ فیچر انہی عورتوں کی کہانی ہے، جن کی خاموشی، ان کی سب سے بڑی چیخ ہے۔
دیہی پس منظر: سن یاس کو بدشگونی کیوں سمجھا جاتا ہے؟دیہی پاکستان میں ’سن یاس‘ کو نہ تو ایک فطری عمل کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر بات کرنا مناسب خیال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کے لیے یہ وقت اکثر شرمندگی، سکوت اور ’بیکار‘ ہو جانے کے احساس کا آغاز بن جاتا ہے۔ اکثر خواتین کہتی ہیں: ’اب تو عمر ہی ڈھل گئی ہے، بس اللہ اللہ کرو۔‘
خاموشی کی قیمت: سن یاس سے جڑی بیماریاں اور خطراتسن یاس کے ساتھ کئی جسمانی و ذہنی تبدیلیاں آتی ہیں، جنہیں دیہی خواتین اکثر بیماری نہیں سمجھتیں، مثلاً:
ہڈیوں کا بھر بھرا پن (Osteoporosis): معمولی جھٹکوں سے بھی فریکچر ہو جاتا ہے۔
دل کی بیماریاں (Cardiovascular Diseases): دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو سکتی ہے۔
نیند کی کمی (Insomnia)
موڈ کی بے ترتیبی (Mood Swings / Depression)
اندام نہانی کی خشکی (Vaginal Dryness)
ذہنی دھند (Brain Fog)
پاکستان کے ایسے علاقے جہاں گرمی کی شدت 50 ڈگری تک جا پہنچتی ہے، خواتین سن یاس کے دوران بھی کھیتوں میں کام، لکڑیاں جمع کرنے، یا پانی بھرنے جیسے کام کرتی ہیں۔ سن یاس کی علامات، جیسے تھکن، پسینہ آنا، اور جسمانی درد، شدید گرمی اور مشقت سے اور بڑھ جاتی ہیں۔
اعداد و شمار: خاموشی میں چھپی حقیقتپاکستان میں عورتوں میں سن یاس کی اوسط عمر 45 سے 50 سال کے درمیان ہے، لیکن دیہی علاقوں میں یہ عمل 40 سال سے پہلے بھی شروع ہو سکتا ہے۔
قومی ادارۂ صحت کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق، 60 فیصد خواتین سن یاس کی علامات کو صرف بڑھاپا سمجھتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک فیلڈ اسٹڈی کے مطابق، جنوبی پنجاب میں 80 فیصد دیہی خواتین نے کبھی سن یاس کے بارے میں کسی پروگرام سے معلومات حاصل نہیں کیں۔
پاکستان اوسٹیوپوروسز فاؤنڈیشن کے مطابق، ہر 3 میں سے ایک خاتون ہڈیوں کی بیماری میں مبتلا ہوتی ہے، مگر صرف 10 فیصد ہی علاج کرواتی ہیں۔
خواتین کی کہانیاں: ’ہم نے تو کبھی کسی سے پوچھا ہی نہیں‘روبینہ بی بی، 55 سالہ خاتون، کہتی ہیں: ’جب رات کو پسینے سے شرابور ہو جاتی ہوں تو لگتا ہے کوئی بیماری ہے، لیکن ڈاکٹر نے کہا یہ تو عمر کا عمل ہے۔ میں نے تو کبھی کسی سے نہیں پوچھا، شرم آتی تھی۔‘
مردوں کی لاتعلقی: ازدواجی تعلقات پر اثراتسن یاس کے بعد کئی خواتین شکایت کرتی ہیں کہ شوہر بدظن ہو جاتے ہیں، دوری اختیار کرتے ہیں یا دوسری شادی کے اشارے دیتے ہیں۔ ازدواجی قربت میں مشکلات، جذباتی تناؤ، اور جنسی تعلقات کی خرابی خواتین کی خوداعتمادی کو متاثر کرتی ہے۔
ڈاکٹر نصرت کہتی ہیں: ’دیہی خواتین میں ڈپریشن کی شرح زیادہ ہے، لیکن وہ اسے بیماری نہیں سمجھتیں وہ کہتی ہیں: دل گھبراتا ہے، کچھ اچھا نہیں لگتا۔‘
مذہبی سوچ: جب خاموشی کو عبادت بنا دیا جائےبہت سی خواتین سن یاس کے بعد صرف ’عبادت کی عمر‘ سمجھ کر دنیاوی معاملات سے الگ کر دی جاتی ہیں۔ بعض علماء کی رائے میں عورت کو اس مرحلے میں بھی جسمانی صحت کا خیال رکھنا عبادت کا ہی حصہ ہے۔
روبینہ بی بی کہتی ہیں کہ ’جسم نے جب ساتھ چھوڑا، تب رب سے دل لگا لیا۔ پہلے وقت نہیں تھا، اب تسبیح اور دعا سکون دیتی ہے۔‘
نظامِ صحت میں خلا: جب BHU میں جواب نہ ملےدیہی علاقوں میں زیادہ تر لیڈی ہیلتھ ورکرز سن یاس پر تربیت یافتہ نہیں۔
فرزانہ کلیم، فیلڈ نرس، کہتی ہیں: ’ہم نے زچگی اور حمل پر تربیت لی ہے، لیکن سن یاس پر کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی۔‘
بیٹیوں کی لاعلمی: نسل در نسل خاموشیزیادہ تر مائیں اپنی بیٹیوں سے ان تبدیلیوں پر بات نہیں کرتیں۔ کچھ خواتین ایف ایم ریڈیو یا موبائل پر ایسے پروگرام سن رہی ہیں جو انہیں سن یاس کی حقیقت سے روشناس کر رہے ہیں۔
مسرت بی بی کہتی ہیں: ’ایک دن ریڈیو پر پروگرام میں ڈاکٹر نے کہا کہ یہ عمر بیماری نہیں، تبدیلی ہے بس وہ دن میری سمجھ کو بدل گیا۔‘
مالی تحفظ کا فقدان: جب کام رک جائے، مگر اخراجات نہیںسن یاس کے بعد خواتین اکثر کھیتوں، سلائی یا دیگر کام چھوڑ دیتی ہیں، مگر ان کے پاس نہ پینشن ہے، نہ سہارے۔ 58 سالہ زرینہ بی بی کہتی ہیں کہ ’اب نہ میں جوڑوں کے درد کی وجہ سے سلائی کر سکتی ہوں، نہ کوئی کام دیتا ہے۔ بچوں کو بھی وقت نہیں دے پاتی۔‘
یہ صرف آمدن کا نقصان نہیں، بلکہ بیماریوں کا خرچ بھی ہے:اوسٹیوپوروسس کے مہنگے سپلیمنٹس، دل کی دوائیں اور بلڈ پریشر کا کنٹرول، ہارمون تھراپی جیسی سہولتوں کی کمی، ڈاکٹر تک رسائی کا کرایہ اور وقت یہ سب کچھ ان خواتین پر بوجھ بنتا ہے جو پہلے ہی اپنی معیشت سے باہر ہو چکی ہوتی ہیں۔
جعلی علاج اور خوددرمانی: نقصان دہ رجحاناتبعض دیہی علاقوں میں ’خواتین کے خاص نسخے‘ یا ’سن یاس کی دوائیں‘ کے نام پر جعلی حکیم خواتین کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اکثر خواتین دم درود، جلاب یا غیر سائنسی ادویات پر انحصار کرتی ہیں، جو مزید نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
کچھ خواتین جسمانی درد یا نیند کی کمی سے نجات کے لیے خود ہی دوا لینا شروع کر دیتی ہیں، جیسے پین کلرز، نیند کی گولیاں یا نشہ آور ٹوٹکے۔ مگر اکثر یہ علاج جسمانی طور پر نقصان دہ ہوتے ہیں، اور اصل بیماری کو چھپا دیتے ہیں۔
ماہرین کی رائےگائنا کالوجسٹ ڈاکٹر نسرین جاوید بتاتی ہیں کہ ’خواتین سن یاس کو چھپاتی ہیں، اور جب آتی ہیں تو علامات بگڑ چکی ہوتی ہیں۔ اگر بروقت آگاہی، خوراک، ورزش اور مشورہ دیا جائے تو یہ مرحلہ باعزت اور آسان ہو سکتا ہے۔یہ صرف حیض کا اختتام نہیں، پورے جسم کا ہارمونی نظام بدلتا ہے۔ عورت کو جسمانی اور ذہنی دونوں مدد کی ضرورت ہے، مگر ہماری پالیسی میں یہ مرحلہ کہیں بھی نہیں آتا۔‘
ڈاکٹر علیمہ رفیق ماہر نفسیات کہتی ہیں: ’سن یاس کے ساتھ تنہائی، ڈپریشن، اور خود سے نفرت جیسے احساسات آتے ہیں۔ ہر BHU میں ایک ہیلپ کارنر ہونا چاہیے جہاں عورت بول سکے ، یہ اس کی جذباتی بقا کے لیے ضروری ہے۔‘
نتیجہ: یہ عمر کا اختتام نہیں، ایک نئی شروعات ہے۔پاکستان کی دیہی خواتین کے لیے ’سن یاس‘ صرف حیض کا اختتام نہیں، بلکہ ایک مکمل زندگی کی خاموشی کا آغاز بن جاتا ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہونا چاہیے۔ سن یاس کو اگر سمجھا جائے، سنا جائے، اور عزت دی جائے تو یہ ایک عورت کے اندر نئی خودی، نئی پہچان، اور نئی آواز کی شروعات بن سکتا ہے۔
اب وقت ہے کہ:
ہیلتھ ورکرز کو تربیت دی جائے۔
خواتین کے لیے آگاہی پروگرامز ہوں۔
بیٹیوں کو سکھایا جائے کہ وہ ماؤں سے سن یاس پر بات کر سکیں۔
اور سب سے اہم خاموشی توڑی جائےکیونکہ جب عورت چپ ہو جائے، تو صرف آواز نہیں مرتی۔
پورا علم، پورا تجربہ، اور پورا احساس مٹی میں دفن ہو جاتا ہے۔سن یاس عورت کی زندگی کا اختتام نہیں، بلکہ ایک نیا موڑ ہے، جہاں جسمانی تبدیلی کے ساتھ ایک اندرونی خودی بیدار ہوتی ہے۔ مگر ہمارے دیہی معاشرے میں اسے کمزوری، خاموشی اور شرمندگی کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ خاموشی صرف ایک عورت کی صحت نہیں چھینتی، بلکہ اس کی خود اعتمادی، شناخت اور زندگی کا حق بھی دھندلا دیتی ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم اس خاموشی کو توڑیں، اور سن یاس کو ایک باوقار انسانی حقیقت کے طور پر قبول کریں جہاں ہر عورت کو طبی سہارا، جذباتی حمایت، معاشی تحفظ اور سب سے بڑھ کر اپنی کہانی سنانے کا حق حاصل ہو۔ کیونکہ سن یاس محض حیض کا خاتمہ نہیں، بلکہ وہ عمر ہے جہاں عورت برسوں کے تجربے، فہم اور وقار کے ساتھ اپنی مکمل پہچان کے ساتھ ابھر سکتی ہے۔ یہ چپ کی عمر نہیں یہ خودی کی عمر ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دیہی علاقوں میں کا اختتام نہیں خواتین سن یاس دیہی خواتین خواتین کے سن یاس کو سن یاس کے سن یاس کی کہتی ہیں نیند کی جاتا ہے کے ساتھ ہیں کہ کے لیے حیض کا کی عمر کی کمی
پڑھیں:
سینیٹ میں اقلیتوں کی پارلیمانی کاکس قائم کرنے کا فیصلہ
اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کاکس اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے فعال کردار ادا کرے گا، سینیٹ اجلاس میں اقلیتوں کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے خصوصی قرارداد پیش کی جائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ اقلیتوں کا قومی دن، سینیٹ میں اقلیتوں کی پارلیمانی کاکس قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اراکین کو بھی پارلیمانی کاکس میں نمائندگی دی جائے گی، خواتین اور اقلیتوں کی فلاح ہمیشہ ترجیحات میں شامل رہی۔ چیئرمین سینیٹ نے اقلیتی برادری کے سینیٹرز کے مطالبے پر کاکس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ بطور وزیراعظم خواتین اور اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کیا، شہید بے نظیر بھٹو نے اقلیتوں اور خواتین کی ترقی کے لیے نمایاں خدمات سر انجام دیں۔
سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ بلاول بھٹو خواتین کو بااختیار اور قومی اداروں میں شمولیت کے خواہاں ہیں، صدر مملکت آصف علی زرداری اقلیتوں کے حقوق اور مساوی مواقع کے لیے پُرعزم ہیں۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ خواتین و اقلیتوں کے کوٹے میں اضافے کے لیے کوششیں جاری ہیں، ایوانِ بالا میں اقلیتوں کو 4 فیصد نمائندگی دینے کی تجویز اعلیٰ فیصلہ سازی میں خواتین و اقلیتوں کو نمائندگی دینا ناانصافیوں کے ازالے میں مددگار ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کاکس اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے فعال کردار ادا کرے گا، سینیٹ اجلاس میں اقلیتوں کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے خصوصی قرارداد پیش کی جائے گی۔ سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ اقلیتوں نے پاکستان کی ترقی اور ہم آہنگی میں کلیدی کردار ادا کیا، پاکستان کثیرالثقافتی ملک ہے جہاں ہر عقیدے کے شہری ترقی میں شریک ہیں۔