بی ایل اے بے نقاب: دہشت گردی اور مودی کی پشت پناہی کا گٹھ جوڑ WhatsAppFacebookTwitter 0 12 August, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


امریکہ نے باضابطہ طور پر بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو، جو بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے کے لیے بدنام ہے، ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ برسوں کے ایسے شواہد کے بعد سامنے آیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بی ایل اے نے نہ صرف معصوم پاکستانیوں کو خون میں نہلایا بلکہ پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے خطے کو غیر مستحکم کیا اور پاکستان کی خودمختاری کے خلاف علیحدگی پسند منصوبوں کو آگے بڑھایا۔ اب یہ امر پوری طرح عیاں ہو چکا ہے کہ یہ سازشیں بھارت کی مودی سرکار کی خفیہ معاونت سے تیار کی گئیں، جو پاکستان کے خلاف طویل عرصے سے مذموم عزائم رکھتی ہے۔ یہ اعلان پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو اس موقف کو مزید مضبوط کرتا ہے کہ ظلم اور خونریزی کرنے والے بالآخر عالمی انصاف کے کٹہرے میں ضرور لائے جائیں گے۔


مودی حکومت نے طویل عرصے سے بی ایل اے کو مادی، افرادی اور نظریاتی مدد فراہم کی، تاکہ اسے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر لسانی تقسیم کو ہوا دے اور اندرونی کمزوری پیدا کی جا سکے۔ بھارت کی یہ منصوبہ بندی نہ تو نئی ہے اور نہ ہی پوشیدہ، بلکہ دہائیوں سے اس کے آثار واضح ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب نریندر مودی کو بھی، دہشت گرد گروہوں کی مستقل سرپرستی اور ریاستی دہشت گردی کے لیے، عالمی سطح پر ایک دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔ مودی حکومت کا دامن نہ صرف مسلمانوں بلکہ بھارت کے اندر غیر مسلم اقلیتوں کے بے گناہ خون سے بھی تر ہے، جو نفرت، ظلم اور سیاسی تشدد کی سوچے سمجھے منصوبوں کے ذریعے بہایا گیا۔
بی ایل اے کے جرائم خود اس کے خلاف ثبوت ہیں۔ اس نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور مزدوروں کو نشانہ بنایا، تاکہ پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے اہم ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ اس کی مثالوں میں 11 مئی 2019 کو گوادر کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ، جس میں کئی جانیں ضائع ہوئیں، 29 جون 2020 کو کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ، جسے بہادری سے ناکام بنایا گیا، اور 23 نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ شامل ہیں۔ یہ گروہ بارہا سکیورٹی اہلکاروں، عام شہریوں اور معاشی ڈھانچے کو نشانہ بنا چکا ہے اور اکثر فخر سے ذمہ داری قبول بھی کرتا ہے۔ اس کے حربے جدید شورش پسندی کے خطرناک ترین نسخوں سے لیے گئے ہیں، جن میں گوریلا حملوں کو میڈیا پروپیگنڈے کے ساتھ جوڑ کر خوف اور عدم استحکام پیدا کیا جاتا ہے۔


سیاسی نعروں کے پیچھے چھپی حقیقت یہ ہے کہ بی ایل اے پاکستان کی ارضی سالمیت کے دشمن غیر ملکی طاقتوں کی کرائے کی فوج کے طور پر کام کرتی ہے۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے جمع کردہ شواہد، جن کی آزاد ذرائع سے بھی تصدیق ہوئی، نے اسلحے، گولہ بارود اور مالی معاونت کے راستے بھارت تک پہنچائے ہیں۔ گرفتار دہشت گردوں کے اعترافات نے سرحد پار تربیتی کیمپوں، محفوظ ٹھکانوں اور فنڈنگ کے ذرائع کو بے نقاب کیا۔ بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ”را” کا ان کارروائیوں سے بارہا تعلق سامنے آیا ہے، اور کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس مداخلت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔


نریندر مودی کا ذاتی تعلق بھی دہشت گردی سے بھرپور ہے۔ بطور وزیراعلیٰ گجرات، اس کے دور میں بھارت کی تاریخ کے بدترین مسلم کش فسادات ہوئے، جن میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور ریاستی سرپرستی کا رنگ نمایاں تھا۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان مظالم کو ریاستی پشت پناہی کے ساتھ ہونے والے قتل عام قرار دیا۔ مزید برآں معتبر رپورٹس اور تحقیقات نے مودی اور اس کے حامیوں کو ایسے جھوٹے منصوبوں سے جوڑا جن کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ 18 فروری 2007 کو سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگانے کا واقعہ، جس میں درجنوں پاکستانی اور بھارتی مسافر جاں بحق ہوئے، اور 2008 کے ممبئی حملے، دونوں ہی ایسے واقعات ہیں جن پر ریاستی سازش کے شبہات آج تک موجود ہیں۔ مودی کی ان سرگرمیوں میں شمولیت اتنی واضح تھی کہ ایک وقت میں امریکہ نے اس کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔


مودی کی سیاست کی فکری بنیادیں بھی کم خطرناک نہیں۔ بطور عمر بھر کے رکن، وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگ (آر ایس ایس) کے ہندو بالادستی کے نظریے کا پیروکار ہے، جو کثیر المذہبی بھارت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یہی نظریہ 1947 کی تقسیم کے خونریز واقعات، 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام، اور حالیہ دنوں میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر حملوں اور امتیازی قوانین کے پیچھے کارفرما ہے۔ یہی زہریلا نظریہ 1971 میں بھی عملی شکل میں سامنے آیا، جب بھارت نے کھلے عام مکتی باہنی کو اسلحہ اور مدد فراہم کی۔ ڈھاکا میں شیخ حسینہ واجد کے ساتھ کھڑے ہو کر مودی نے فخریہ اعتراف کیا کہ اس نے پاکستان کو توڑنے میں ان قوتوں کی مدد کی۔ یہ اقرار اس کے کردار اور نیت پر ایک مستقل فرد جرم ہے۔


جو لوگ نفرت، تقسیم اور خونریزی بوتے ہیں، ان کا انجام شاذونادر ہی ان کے شکار سے مختلف ہوتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد، جس نے مودی سے اتحاد کر کے اور پاکستان دشمنی کو سیاسی سرمایہ بنایا، آج سیاسی زوال کا شکار ہے۔ تاریخ ہمیشہ ان کا احتساب کرتی ہے جو امن سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ وقت زیادہ دور نہیں جب مودی اور اس کی پروپیگنڈے، خوف اور خونریزی پر مبنی سیاسی مشینری بھی اسی انجام کو پہنچے گی۔


پاکستان، جو دو دہائیوں سے زائد عرصے سے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے محاذ پر کھڑا ہے، نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ لاکھوں شہری اور فوجی شہید ہو کر ملکی خودمختاری اور خطے میں امن کے لیے جان قربان کر چکے ہیں۔ بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا پاکستان کے موقف کی دیر سے سہی مگر بڑی عالمی تائید ہے، جو اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف بھی بین الاقوامی کارروائی ہونی چاہیے، چاہے سرپرست کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں۔


دہشت گردی کے خلاف جنگ محض عسکری مہم نہیں بلکہ یہ بیانیے کی جنگ اور سیاسی عزم کا امتحان بھی ہے۔ پاکستان کی استقامت، جو اپنے شہداء کے خون اور عوام کی یکجہتی سے مضبوط ہوئی ہے، نے بارہا دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ بی ایل اے اور اس کے غیر ملکی آقا مقامی مسائل کو بہانہ بنا کر اپنی سازشیں چلاتے رہے، مگر ان کا ایجنڈا بلوچ عوام کی بھلائی نہیں بلکہ غیر ملکی مفاد کے لیے کام کرنا ہے، یہ بات دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔
یہ حالیہ پیش رفت یاد دلاتی ہے کہ جب حقائق ناقابل تردید ہوں تو عالمی رائے عامہ بدلی جا سکتی ہے۔ یہ اس بات کی بھی دعوت ہے کہ ان عناصر کو مزید بے نقاب اور تنہا کیا جائے جو سیاست، لسانی حقوق یا مذہبی نظریات کے نام پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ کے طویل سفر میں، سچ اور انصاف اگرچہ اکثر تاخیر سے آتے ہیں، مگر جھوٹ اور ظلم پر غالب آتے ہیں۔ بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دینا ایک قدم ہے، مگر یہ اس نیٹ ورک کو توڑنے کی سمت میں نہایت اہم قدم ہے جو فریب، خونریزی اور غیر ملکی سرپرستی پر پلتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان سٹاک مارکیٹ میں ہنڈرڈ انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا سردار ایاز صادق، جامعہ نعیمیہ اور حلقہ کی تبدیلی واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آزادی کا مطلب کیا؟ — تجدیدِ عہد کا دن اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میں حرام جانوروں اور مردار مرغیوں کا گوشت بیچنے اور کھانے والے مسلمان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: بی ایل اے مودی کی

پڑھیں:

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز

ریاض احمدچودھری

شدت پسند مودی حکومت کے دور میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا، حالیہ ہندو مسلم فسادات نے بھارت میں مذہبی رواداری اور جمہوریت کے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ کانپور سے شروع ہونے والے مذہبی تنازع نے 4 ستمبر کو بڑے فسادات کی شکل اختیار کر لی جسے مبصرین نے "گجرات ٹو” قرار دیا ہے، یہ آگ تیزی سے دیگر ریاستوں میں بھی پھیل گئی۔ فسادات کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں متعدد معصوم مسلمان زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت کا ہندوتوا ایجنڈا بھارت کو فاشزم کی تجربہ گاہ میں بدل چکا ہے، نہ صرف اظہارِ رائے بلکہ مذہبی آزادی بھی اب مکمل طور پر ہندوتوا نظریے کی تابع بنا دی گئی ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مودی کی سیاست نے بھارت کو مذہبی منافرت اور ریاستی جبر کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
سال 2025ء کی آمد پر بھارتی ریاست منی پور میں خونریزی اور نسلی فسادات کا سلسلہ شدت اختیار کر چکا ہے، جہاں مسیحی برادری اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ منی پور کے علاقے امپھال میں عسکریت پسندوں نے حالیہ حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں کئی افراد اپنے گھروں کو چھوڑرہے ہیں۔ان حملوں میں عسکریت پسندوں نے جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا۔ حملوں کے بعد، کوکی قبائل کے افراد نے بھارتی فورسز اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا، اور ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز نے عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے گاؤں والوں کو لوٹا۔ مقامی رہنماؤں کا الزام ہے کہ مودی سرکار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نہتے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔کوکی قبائل کے افراد نے یہ بھی کہا کہ بھارتی حکومت کی متصبانہ پالیسیوں اور فرقہ وارانہ حکمت عملیوں کے باعث منی پور میں حالات مزید بگڑ چکے ہیں، اور مقامی لوگوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ منی پور میں نسلی اور مذہبی کشیدگی کی صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ بھارتی حکومت کی خاموشی اور عدم مداخلت کی وجہ سے ریاست میں امن و سکون کی فضا متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی حکومت سے فوری طور پر مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ اقلیتی برادریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کو منظم طور پر ہوا دینے کے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔ امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے لے کر گھروں کو بلڈوز کرنے تک؛ 2002 کے گجرات قتل عام سے لے کر 2020 کے دہلی فسادات تک؛ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت سے لے کر 2024 میں اس کے ملبے پر مندر کی تعمیر تک؛ گاؤ کے تحفظ کی آڑ میں تشدد اور پر ہجوم تشدد کے واقعات سے لے کر مساجد اور مزارات پر حملے—ہندوستان کا ریکارڈ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں سے داغدار ہے۔
بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت مسلم ثقافت، مذہبی ورثے اور تاریخی شناخت کو نشانہ بنانے کی منظم مہم پر گامزن ہے۔ مودی سرکار کی یہ پالیسیاں بھارت کو ”ہندو راشٹر” میں تبدیل کرنے کے انتہاء پسندانہ ایجنڈے کی عکاس ہیں۔مودی حکومت کے تحت مساجد کی شہادت، تاریخی عمارتوں پر قبضے اور مسلمانوں سے منسوب شہروں کے نام تبدیل کرنے جیسے اقدامات میں تیزی آ گئی ہے، جو بھارتی مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت اور سیاسی مفاد پر مبنی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔دی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بھارتی ریاست اْتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ضلع لکھیم پور کھیری کے علاقے مصطفیٰ آباد کا نام بدل کر کبیر دھام رکھنے کا اعلان کیا ہے۔مقامی ہندوؤں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصطفی آباد کا نام کبیر دھام رکھا جائے گا۔یوگی آدتیہ ناتھ کا الزام ہے کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ایودھیا کا نام فیض آباد، اور پریاگ راج کا الہٰ آباد رکھا تھا۔اب مودی حکومت تاریخی مقامات کے نام ہندو مذہب سے منسوب کرنے کی مہم جاری رکھے گی۔آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ فنڈز اب قبرستانوں کی چاردیواری کی تعمیر کے بجائے ہندو عقیدے اور ورثہ کی ترقی کیلئے استعمال ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، بی جے پی کی یہ مہم محض شہروں کے ناموں کی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کی مسلم تاریخ اور شناخت کو مٹانے کی سازش ہے۔ مودی کا نعرہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” عملی طور پر ”سب کو مٹاؤ، ایک کا راج” میں بدل چکا ہے۔بھارتی مسلمان، مودی حکومت کی سرپرستی میں ریاستی سطح پر جاری نفرت، انتقام اور فرقہ وارانہ تقسیم کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • SSUکا دہشت گردی کی سے نمٹنے کے لیے ایک روزہ تربیتی سیشن
  • کیڈٹ کالج وانا پر بزدلانہ حملہ سیکیوٹی فورسز نے ناکام بنا دیا، 2 خوارج ہلاک
  • فتنۂ الخوارج اور اس کے بھارت نواز سہولت کار پاکستان کے امن و استحکام کے دشمن ہیں؛ صدرِ مملکت
  • سیکیورٹی فورسز کی خیبرپختونخوا میں دو کارروائیاں، 20 دہشت گرد ہلاک
  • ہم پہلے بھی 27ویں ترمیم کو نہیں مانتے تھے اور آج بھی نہیں مانتے: جنید اکبر
  • ہندوتوا کی آگ اور بھارت کا مستقبل
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ
  • بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز
  • انسداد دہشت گردی عدالت کا علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
  • مودی سرکار کی ایماء پر افغان میڈیا کا پاکستان مخالف جھوٹا پراپیگنڈا بے نقاب