ہم پہلے بھی 27ویں ترمیم کو نہیں مانتے تھے اور آج بھی نہیں مانتے: جنید اکبر
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
---فائل فوٹو
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما جنید اکبر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی آج بھی وہاں کھڑی ہے جہاں 8 فروری کو کھڑی تھی، ہم پہلے بھی 27ویں ترمیم کو نہیں مانتے تھے اور آج بھی نہیں مانتے۔
جوڈیشل کمپلیکس میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جنید اکبر نے کہا کہ جس ہفتے ہم پر مقدمہ نہ ہو ہمیں اپنی وفاداری پہ شک پڑتا ہے، یہ ان کی غلط فہمی ہے، ہم ان چیزوں سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔
اس سے قبل جنید اکبر خان اپنی وکیل عائشہ خالد کے ہمراہ اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم بھرپور احتجاج کریں گے، آج ایوان میں دیکھیں گے کہ ان کے پاس کیا نمبر پورے ہوتے ہیں یا نہیں، ہم اس استثنیٰ کے خلاف ہیں۔
جنید اکبر نے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے رجوع کیا تھا۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جنید اکبر کے کیس پر سماعت کی۔
عدالت نے 5 ہزار روپے کے مچلکوں کی عوض جنید اکبر کی 22 دسمبر تک عبوری ضمانت منظور کر لی۔
عدالت نے ضمانت کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے اگلی سماعت پر دلائل دینے کی ہدایت کردی۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنما جنید اکبر کے خلاف تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نہیں مانتے جنید اکبر کی عدالت
پڑھیں:
27ویں آئینی ترمیم: جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو خط
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے 27ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا ہے جس میں انہوں نے عدلیہ کے ڈھانچے میں مجوزہ تبدیلیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم، آئینی عدالت کے قیام سے متعلق اہم نکات سامنے آگئے
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس سے بطور عدلیہ سربراہ فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر اس نوعیت کی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
عدالتی ججز کا کنونشن بلانے کی تجویز
خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے تاکہ مجوزہ ترامیم پر مشترکہ مؤقف تشکیل دیا جا سکے۔ انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس نہ صرف اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر ہیں بلکہ اس کے گارڈین بھی ہیں اور یہ لمحہ ان سے لیڈرشپ کا تقاضا کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ایک علیحدہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز شامل ہے جبکہ سپریم کورٹ کو محض ایک اپیلٹ باڈی کے طور پر محدود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیئر وکیل فیصل صدیقی کا چیف جسٹس کو خط، 27ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار
ان کے مطابق عدلیہ کے ڈھانچے میں تبدیلی ایگزیکٹو یا مقننہ کی طرف سے یکطرفہ طور پر نہیں کی جاسکتی۔
26ویں ترمیم زیرِ التواء، نئی ترمیم غیرمناسب قرار
انہوں نے نشاندہی کی کہ 26ویں آئینی ترمیم پہلے ہی عدالت میں زیر التوا ہے، لہٰذا اس کے فیصلے سے قبل نئی ترمیم لانا آئینی اور قانونی لحاظ سے مناسب نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی ترمیم کی قانونی حیثیت بھی ابھی طے نہیں ہوئی، اس لیے ایک اور ترمیم کا اقدام درست نہیں۔
اعلیٰ عدلیہ سے مشاورت نہ ہونے پر اعتراض
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس ترمیم پر اعلیٰ عدلیہ سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، حالانکہ دنیا کے تمام جمہوری نظاموں میں عدلیہ سے متعلق قانون سازی سے پہلے ججز سے مشاورت کی جاتی ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی دلیل پر اعتراض
جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی مجوزہ دلیل پر بھی اعتراض کیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت یہ مؤقف دے رہی ہے کہ اس عدالت کے قیام سے زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی، حالانکہ زیادہ تر زیر التوا مقدمات ضلعی عدلیہ کی سطح پر ہیں، سپریم کورٹ میں نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے، عطاتارڑ
’علیحدہ آئینی عدالت ناگزیر نہیں‘
انہوں نے لکھا کہ یہ دعویٰ درست نہیں کہ ایک علیحدہ آئینی عدالت ناگزیر ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور برطانیہ میں صرف ایک سپریم کورٹ ہے جو تمام آئینی معاملات سنبھالتی ہے۔
میثاقِ جمہوریت میں وقتی تجویز تھی
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام کی تجویز صرف چھ سال کے لیے محدود مدت تک دی گئی تھی اور وہ بھی ایک خاص سیاسی پس منظر میں، لہٰذا اسے مستقل نظام بنانے کی کوشش درست نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں