WE News:
2025-11-10@14:16:58 GMT

27ویں آئینی ترمیم: جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو خط

اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT

27ویں آئینی ترمیم: جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو خط

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے 27ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا ہے جس میں انہوں نے عدلیہ کے ڈھانچے میں مجوزہ تبدیلیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم، آئینی عدالت کے قیام سے متعلق اہم نکات سامنے آگئے

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس سے بطور عدلیہ سربراہ فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر اس نوعیت کی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔

عدالتی ججز کا کنونشن بلانے کی تجویز

خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے تاکہ مجوزہ ترامیم پر مشترکہ مؤقف تشکیل دیا جا سکے۔ انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس نہ صرف اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر ہیں بلکہ اس کے گارڈین بھی ہیں اور یہ لمحہ ان سے لیڈرشپ کا تقاضا کرتا ہے۔

سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ایک علیحدہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز شامل ہے جبکہ سپریم کورٹ کو محض ایک اپیلٹ باڈی کے طور پر محدود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیئر وکیل فیصل صدیقی کا چیف جسٹس کو خط، 27ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار

ان کے مطابق عدلیہ کے ڈھانچے میں تبدیلی ایگزیکٹو یا مقننہ کی طرف سے یکطرفہ طور پر نہیں کی جاسکتی۔

26ویں ترمیم زیرِ التواء، نئی ترمیم غیرمناسب قرار

انہوں نے نشاندہی کی کہ 26ویں آئینی ترمیم پہلے ہی عدالت میں زیر التوا ہے، لہٰذا اس کے فیصلے سے قبل نئی ترمیم لانا آئینی اور قانونی لحاظ سے مناسب نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی ترمیم کی قانونی حیثیت بھی ابھی طے نہیں ہوئی، اس لیے ایک اور ترمیم کا اقدام درست نہیں۔

اعلیٰ عدلیہ سے مشاورت نہ ہونے پر اعتراض

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس ترمیم پر اعلیٰ عدلیہ سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، حالانکہ دنیا کے تمام جمہوری نظاموں میں عدلیہ سے متعلق قانون سازی سے پہلے ججز سے مشاورت کی جاتی ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی دلیل پر اعتراض

جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی مجوزہ دلیل پر بھی اعتراض کیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت یہ مؤقف دے رہی ہے کہ اس عدالت کے قیام سے زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی، حالانکہ زیادہ تر زیر التوا مقدمات ضلعی عدلیہ کی سطح پر ہیں، سپریم کورٹ میں نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے، عطاتارڑ

’علیحدہ آئینی عدالت ناگزیر نہیں

انہوں نے لکھا کہ یہ دعویٰ درست نہیں کہ ایک علیحدہ آئینی عدالت ناگزیر ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور برطانیہ میں صرف ایک سپریم کورٹ ہے جو تمام آئینی معاملات سنبھالتی ہے۔

میثاقِ جمہوریت میں وقتی تجویز تھی

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام کی تجویز صرف چھ سال کے لیے محدود مدت تک دی گئی تھی اور وہ بھی ایک خاص سیاسی پس منظر میں، لہٰذا اسے مستقل نظام بنانے کی کوشش درست نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: آئینی عدالت کے قیام کی جسٹس منصور علی شاہ نے 27ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ چیف جسٹس انہوں نے گیا ہے یہ بھی

پڑھیں:

عدلیہ اور آئینی ترمیم: اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

مجوزہ آئینی ترمیم میں عدلیہ کے بارے میں اصلاح احوال کی تجاویز دیکھیں تو شعیب بن عزیز یاد آ گئے :

اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

جوڈیشل ایکٹوزم نے اس ملک میں اب تک پارلیمان کے ساتھ جو ’حسن سلوک‘ فرمایا، اس پر پارلیمان کا جواب آں غزل کسی نہ کسی دن آنا ہی تھا، وہ اگر 27  ویں ترمیم کی شکل میں آ گیا ہےتو اس پر کم از کم مجھے کوئی حیرت نہیں ہے۔

جوڈیشل ایکٹوزم پارلیمان کے بارے میں مسلسل مطلع کہے جا رہا تھا ۔ اب ظاہر ہے غزل تب ہی مکمل ہونی تھی جب کوئی اٹھتا اور جواب میں مقطع کہہ دیتا۔ پارلیمان نےیہی کام کیا ہے ۔ نیا طرز مصرع آنے تک غزل مکمل سمجھی جائے۔ چاہے تو اب شمعیں گل کر دیجیے ، اور جی میں آئے تو مکرر مکررکی صدا اٹھائیے ۔

اس معاملے کو چند سادہ سی مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔

پارلیمان ہی ہے جو آئین بناتی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 5 میں لکھا ہے : ” آئین میں کی گئی کسی بھی ترمیم کو ، کسی بھی بنیاد پر ، کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا”۔ اسی آرٹیکل میں ذیلی دفعہ 6 میں ایک بار پھر لکھا گیا ہے کہ :” شک و شبہ کے ازالے کے لیے یہ واضح طور پر قرار دیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین کی کسی بھی شق میں ترمیم کرنے کے اختیار پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔”

اس قدر واضح آئینی ہدایت کے باوجود ہمارے ہاں ہوتا یہ آیا ہے کہ پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرتی اور اسے عدالت میں چیلنج کر دیا جاتا اور عدالت اس کی سماعت بھی شروع کر دیتی ۔ اس وقت بھی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سماعت عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس کے باوجود زیر سماعت ہے کہ آئین میں اس کی سرے سے کوئی گنجائش ہی موجود نہیں۔

 عدالت کے پاس یہ اختیار تو موجود ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو دیکھے کہ کیا یہ آئین میں دیے گئے اصولوں کے مطبق ہے یا ان سے متصادم ہے لیکن پاکستان کی کوئی بھی عدالت آئینی ترمیم کے خلاف کسی درخواست کی سماعت نہیں کر سکتی۔ آئین نے اس سے واضح طور پر روک دیا ہے۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی فرضی اختراع بھی آئین شکنی کا جواز نہیں بن سکتی۔

لیکن  عدالتوں میں پھر بھی سماعتیں ہوتی آئی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 239 کی خلاف ورزی ہے اور اس پر پارلیمان چاہے تو متعلقہ جج صاحبان کے خلاف ریفرنس بھی بھیجا جا سکتا ہے اور بات ریفرنس سے آگے بھی جا سکتی ہے کیونکہ چند سال پہلے آرٹیکل 6 میں ترمیم کے بعد اب آئینی پوزیشن یہ ہے کہ آئین  شکنی کا مقدمہ جج صاحبان پر بھی قائم ہو سکتا ہے۔ کمزور پارلیمان اگر اب تک ایسا کچھ نہیں کر سکی تو ضروری نہیں وہ ہمیشہ ایسی ہی کمزور رہے۔

عدالت آئین کی شرح ضرور کر سکتی ہے لیکن آئین کی واضح شق کے خلاف جانا ، شرح نہیں ہے۔ یہ آئین سے انحراف ہے۔ آئین کی تشریح کا ہر گز  یہ مطلب نہیں کہ چیف جسٹس صاحب کوئی ہم خیال بنچ بنا کر آئین ہی کو ری  رائٹ کر دیں یا آئین میں اپنی خواہشات کو شرح کا نام دے کر شامل کر دیا جائے ۔ نواز شریف کو نااہل کیا جائے تو تشریح فرمائی جائے کہ یہ تاحیات نا اہلی ہے اور کوئی محبوب نظر اس کی زد میں آتا دکھائی دے تو شرح فرما دی جائے کہ تاحیات نا اہلی تو مناسب بات نہیں ہے۔

ایک طرف پارلیمان ہے ، جو دو تہائی اکثریت سے آئین بناتی ہے یا اس میں ترمیم کرتی ہے اور آئین میں ممانعت کے باوجود عدالتیں اس کے خلاف درخواستیں سنتی بھی ہیں اور فیصلے بھی کرتی ہیں۔ دوسری جانب مشرف جیسے ڈکٹیٹر ہیں ، انہیں عدالت آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیتی ہے۔ یعنی جو اختیار خود عدالت کے پاس نہیں ہے ، وہ اختیار عدالت نے دوسروں کو دے دیا۔

یہی نہیں بلکہ بہت سارے پارلیمنٹیرین یہ سمجھتے ہیں کہ  عدالتیں بسا اوقات آئین کی شرح تک محدود نہیں رہتیں بلکہ چند جج صاحبان بیٹھ کر تشریح کے نام پر آئین کو ری رائٹ کر دیتے ہیں اور آئین میں ایسی بات ڈال دیتے ہیں جو آئین میں ہوتی ہی نہیں۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بھی ایک طرح کی آئین شکنی نہیں۔

پارلیمان کو عملا انجمن مزارعین بنا دیا گیا تھا۔ اس کا پارلیمان میں بیٹھے لوگوں کو احساس بھی تھا مگر پارلیمان کی رواایتی کمزوری آڑے آتی رہی۔ اب آ کر جیسے ہی پارلیمان کو موقع ملا ، اس نے پہلا سلام بھجوا دیا ہے۔ آپ اس سلام محبت سے اتفاق بھی کر سکتے ہی  اور اختلاف بھی لیکن یہ طے ہے کہ یہ جواب آں غزل نوشتہ دیور تھا  ۔ یہ ایک دن  ہونا ہی ہونا تھا۔ ہو گیا ، اچھا ہو گیا، یہ البتہ وقت بتائے گا کہ یہ پارلیمان کی داخلی قوت سے ہوا یا مستعار قوت سے۔

پارلیمان نے آئین میں اعلی عدلیہ کو از خود نوٹس کا اختیار دے رکھا  تھا ۔ اب یہ اختیار واپس لے لیا۔ خس کم جہاں پاک بھلے نہ کہا جائے لیکن اس پر اللہ کا شکر ضرور ادا کرنا چاہیے۔ یہ اختیار سپرم کورٹ کو مفاد عامہ کے معاملات میں دیا گیا لیکن مفاد عامہ کے نام پر کبھی عتیقہ اوڈھو کے پرس کے معاملات پر سوموٹو لے لیا  گیا ، کبھی اسلام آباد میں سموسے مہنگے ہوئے تو سوموٹو لے لیا گیا اور کبھی چپل کباب میں گوشت کی مقداد کم محسوس ہوئی تو سوموٹو صاحب حرکت میں آ گئے۔ اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا تھا لیکن عملا یہ چیف جسٹس کی ذات میں سمٹ گیا ۔ اس سے کوئی خیر برآمد ہوئی ہو تو یہ اس عہد کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز ہو گی۔

ججوں کے تبادلوں کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے اور جوجج اپنا تبادلہ قبول نہیں کرے گا وہ ریٹائر تصور ہو گا۔ ہاں کسی عدالت میں اس کے چیف جسٹس سے سینیئر کوئی جج نہیں لایا جائے گا۔ تا کہ ان کا منصب محفوظ رہے۔ یہ بھی بالکل درست تجویز  ہے۔ اسلام آباد میں ہم نے دیکھا کہ اسی شہر میں  رہنے اور اسی میں ساری عمر پریکٹس کرنے والے وکلا  اسی شہر میں ہائی کورٹ میں جج بن گئے، مزید یہ کہ انہوں نے رہنا بھی یہیں ہے کہ تبادلے کی تو کوئی صورت ہی نہیں تھی۔ چنانچہ مارگلہ سے کبھی گرم ہوا بھی نیچے اترتی ہے تو بار کے عہدیداران ” آزادی عدلیہ” کے نام پر میدان میں آ جاتے ہیں تا کہ سند رہے۔

یہی معاملہ آئینی عدالت کا ہے۔ اسے سر دست یہاں زیر بحث نہیں لا رہا کیونکہ اس پر  ” وی نیوز” کے لیے الگ سے ایک تفصیلی کالم پہلے ہی  لکھ چکا ہوں۔

 اطراف میں شور مچا ہے کہ عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ عدلیہ میں اصلاحات نہایت ضروری ہیں اور جو ہوئی ہیں یہ ناکافی ہیں ۔ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ بہت سے مقامات آہ و فغاں ابھی باقی ہیں۔

خلیل جبران کے pity the nation سے تو آپ فیض یاب ہو ہی چکے ہیں ، اب ذرا ( غالبا) حافظ شیرازی کی بھی سن لیجیے:

به تو هر چه کردم همه از دست و بود

حال خود ببر و بکش، گناه من چیست؟

“جو کچھ میں نے تمہارے ساتھ کیا، ذمہ دار تم ہی ہو

اب بھگتو اور مزے لو، اس میں میرا کیا گناہ؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے: جسٹس منصور کا چیف جسٹس کو خط
  • چیف جسٹس بطور عدلیہ سربراہ فوری ایگزیکٹو سے رابطہ کریں، جسٹس منصور علی شاہ کا خط
  • آئینی ترمیم،جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو خط،ایگزیکٹیو سے رابطے کا مطالبہ
  • آپ عدلیہ کے صرف ایڈمنسٹریٹر نہیں، گارڈین بھی ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان کو 27ویں آئینی ترمیم  پرخط لکھ دیا
  • سپریم کورٹ میں دوران سماعت آئینی عدالت پر جسٹس منصور کے دلچسپ ریمارکس پر قہقہے
  • اگر کوئی بہت مشکل سوال ہے تو ہم وفاقی آئینی عدالت بھجوا دیتے ہیں: جسٹس منصور علی شاہ
  • ’ہم تو ویسے بھی بیچارے ایسے ہی ہیں یہاں‘، آئینی عدالت سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے دلچسپ ریمارکس
  • عدلیہ اور آئینی ترمیم: اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
  • 27ویں آئینی ترمیم، آئینی عدالت کے قیام سے متعلق اہم نکات سامنے آگئے