Express News:
2025-11-11@13:07:29 GMT

بیرونی مداخلت اور سازشوں کے خلاف ٹھوس موقف

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کررہا ہے مگر اس بار جواب پہلے سے زیادہ شدید ہوگا۔

پاکستان کی ریاست غیر ریاستی عناصر کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی، افغانستان میں نمایندہ حکومت نہیں، ہم افغانستان میں عوامی نمایندہ حکومت کے حامی ہیں، اگر افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دراندازی ہوئی تو پھر جنگ بندی کو ختم سمجھا جائے گا اور ایسے کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

 لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے حالیہ بیان نے نہ صرف ملکی سلامتی کے تقاضوں کو اجاگر کیا ہے بلکہ پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسی کے کئی اہم پہلوؤں پر نئی روشنی بھی ڈالی ہے۔ ان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطہ مسلسل غیر یقینی حالات سے دوچار ہے، افغانستان میں سیاسی خلا گہرا ہو رہا ہے، بھارت کی اشتعال انگیزیاں بڑھ رہی ہیں اور ملک کے اندر دہشت گردی کے نئے رنگ سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے الفاظ محض ایک ترجمان کے نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کے مؤقف کے عکاس ہیں۔ ان کے بیان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

 ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا کہ افغانستان میں نمایندہ حکومت نہیں اور پاکستان وہاں عوامی نمایندہ حکومت کا حامی ہے، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اسلام آباد اب ایک حقیقت پسندانہ مؤقف اپنا رہا ہے۔ طالبان نے دوحہ معاہدے میں لویا جرگہ بلانے اور ایک جامع حکومت کے قیام کا وعدہ کیا تھا مگر وہ وعدہ پورا نہ ہوا۔ آج افغانستان ایک محدود طبقے کے ہاتھ میں ہے جس کے فیصلے وہاں کے عوام کی نمایندگی نہیں کرتے۔ اس صورتحال نے خطے میں بے چینی پیدا کر رکھی ہے۔

پاکستان نے بارہا افغان حکومت کو آگاہ کیا کہ دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانے افغان سرزمین پر موجود ہیں، مگر کابل نے اس مسئلے کو تسلیم کرنے کے بجائے ہمیشہ انکار یا خاموشی اختیار کی۔ اب ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق، پاکستان میں مارے گئے دہشت گردوں میں ساٹھ فیصد افغان شہری شامل تھے اور یہاں تک کہ افغانستان کی فوج کے سپاہی بھی اس دہشت گردی میں ملوث پائے گئے، یہ انکشاف معمولی نہیں۔ یہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان کی سرکاری مشینری کے بعض عناصر پاکستان دشمن سرگرمیوں میں براہِ راست شریک ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور امن کی راہ اپنائی۔ ترجمان پاک فوجکا کہنا کہ ’’ہم اب بھی طالبان سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں‘‘ پاکستان کے بردبار اور ذمے دار رویے کا ثبوت ہے، مگر انھوں نے ساتھ ہی واضح کر دیا کہ اگر دراندازی جاری رہی تو جنگ بندی کو ختم سمجھا جائے گا۔

یہ الفاظ سفارتی زبان میں ایک سخت انتباہ ہیں۔ پاکستان نے دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ستر ہزار سے زیادہ جانیں قربان کی ہیں۔ اب مزید قربانیوں کی گنجائش نہیں۔ افغان قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ’’بس بہت ہوگیا‘‘ کے الفاظ پاکستان کے بڑھتے ہوئے اضطراب کی علامت ہیں۔

 ادھر بھارت کی سازشوں کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ پاک فوج کے ترجمان نے انکشاف کیا کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے سے فالس فلیگ آپریشن کرنے کا منصوبہ بنا سکتا ہے۔ بھارت کی یہ پرانی پالیسی ہے کہ وہ اپنے اندرونی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان مخالف ڈرامے رچاتا ہے۔

پلوامہ حملہ اس کی تازہ مثال تھی جس کے جھوٹ کا پول بعد میں خود بھارتی صحافیوں نے کھولا۔ اب اگر بھارت دوبارہ ایسی کوشش کرتا ہے تو پاکستان پوری طرح تیار ہے۔ ’’ اس بار جواب پہلے سے زیادہ سخت ہوگا‘‘ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک عزم ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی مگر جب بھی اس کے وقار پر حملہ ہوا تو اس نے بھرپور جواب دیا۔ بالاکوٹ کا واقعہ اس کی مثال ہے جس نے دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کسی سے کم نہیں۔ترجمان پاک فوج نے امریکا سے متعلق بھی ایک اہم وضاحت کی۔

افغانستان کے بعض حلقے یہ پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ پاکستان کی سرزمین امریکی ڈرون حملوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے، مگر انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ جھوٹ ہے، پاکستان نے امریکا کو اپنی زمین پر کوئی اجازت نہیں دی۔ یہ بیان پاکستان کی خود مختاری کے عزم کی تصدیق کرتا ہے۔ پاکستان کسی ملک کا آلہ کار نہیں اور نہ ہی کسی کی جنگ لڑنے کا خواہاں ہے۔ ایک اور نہایت اہم پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 12 ہزار ایکڑ زمین پر پوست کی کاشت ہو رہی ہے، جس سے فی ایکڑ لاکھوں روپے منافع حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہ منافع دہشت گرد گروہوں کے مالی ذرایع کا حصہ بنتا ہے۔

منشیات کا پیسہ دہشت گردی کے ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی معیشت ہے جو خون سے چلتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس گھناؤنے دھندے میں بعض مقامی سیاستدان اور بااثر افراد بھی ملوث پائے گئے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ کس حد تک خراب ہیں اور انھیں ٹھیک کرنے کے لیے سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ 

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں جس قربانی اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے، دنیا اس کی مثال نہیں دے سکتی، مگر بدقسمتی سے اس جنگ کی جڑیں صرف بندوق سے نہیں کٹ سکتیں۔ جب تک دہشت گردوں کے مالی وسائل ختم نہیں کیے جائیں گے، یہ عفریت ختم نہیں ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ پوست کی کاشت کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کرے اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا قلعہ قمع کیا جائے ۔

 ترجمان پاک فوج نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی۔ یہ جملہ پاکستان کی جمہوری سیاست کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بال حکومت کے کورٹ میں ہے۔ سیاسی قیادت کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے قابل ہے، اگر سیاستدان اپنی نااہلی یا اختلافات کی آڑ میں ہر ناکامی کا الزام فوج پر ڈالیں گے تو یہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ فوج کا سیاست سے دور رہنے کا اعلان خوش آیند ہے، لیکن اس کا تقاضا یہ ہے کہ سیاستدان بھی بالغ نظری کا مظاہرہ کریں۔

 پاکستان کو اس وقت بیرونی دشمنوں سے زیادہ خطرہ اندرونی انتشار سے ہے۔ جب قوم تقسیم ہو، ادارے ایک دوسرے پر الزام لگائیں اور سیاست دان ذاتی مفادات کی جنگ لڑیں، تو دشمن کے لیے دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں، اگر ہم نے اب بھی اتحاد پیدا نہ کیا تو بیرونی خطرات سے نمٹنا ممکن نہیں ہوگا۔پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، ایک مضبوط فوج رکھتا ہے اور قربانیاں دینے والی قوم ہے، مگر اصل طاقت اس کے اتحاد میں ہے۔ دشمن ہمیں کمزور اسی وقت کرسکتا ہے جب ہم اندر سے ٹوٹ جائیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سیاسی اختلافات کو ایک حد میں رکھیں اور قومی سلامتی کے معاملات پر ایک صفحے پر آئیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات ہوں یا بھارت کی جارحیت، یا دہشت گردی کے خلاف اقدامات۔ یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن پر قومی اتفاقِ رائے ناگزیر ہے۔

پاک فوج کے ترجمان کا بیان صرف ایک بریفنگ نہیں بلکہ ایک قومی لائحہ عمل کی جھلک ہے۔ اس میں خارجہ پالیسی کے اصول، دفاعی حکمتِ عملی اور داخلی استحکام کے پہلو ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ ایک طرف انھوں نے افغانستان کو انتباہ دیا کہ دراندازی ناقابلِ برداشت ہے، دوسری طرف بھارت کے ممکنہ حملوں پر واضح کر دیا کہ اس بار جواب شدید ہوگا، اور تیسری طرف اندرونی سطح پر منشیات اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا۔ یہ تینوں پہلو دراصل پاکستان کی قومی سلامتی کے بنیادی ستون ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن باہر بھی کم نہیں ، جب کہاندر بھی ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم شعور کے ساتھ اپنی صفیں درست کریں۔ فوج اپنی ذمے داری نبھا رہی ہے، اب سیاستدانوں، اہل علم ، علماء کرام اور ادیب وشعراء کو بھی اپنی ذمے داری پوری کرنی ہے۔ تاریخ ہمیشہ ان قوموں کو یاد رکھتی ہے جو مشکل وقت میں ایک ہو جاتی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نمایندہ حکومت افغانستان میں دہشت گردی کے پاکستان کی پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان نے بھارت کی سے زیادہ ہیں اور پاک فوج کے خلاف دیا کہ کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

افغانستان میں دہشتگردوں کو جدید اسلحے کی فراہمی امن کے لیے خطرہ، پاکستان کا اقوامِ متحدہ میں انتباہ

اقوامِ متحدہ میں پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کو جدید اور تباہ کن اسلحے تک رسائی خطے کے امن و استحکام کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔

سلامتی کونسل میں غیر قانونی چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ داعش خراسان، تحریکِ طالبان پاکستان (فتنہ الخوارج)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ جیسے گروہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف آزادانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: اقوام متحدہ: علاقائی تخفیف اسلحہ سمیت پاکستان کی 4 اہم قراردادیں منظور

سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ ان تنظیموں کو خطے کے ایک تخریبی عنصر کی مالی اور عملی حمایت حاصل ہے، یہ جدید اسلحہ پاکستانی عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، جس سے ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔

انہوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جدید اسلحے کے ذخائر میں اضافہ تشویشناک ہے اور عالمی برادری کو فوری طور پر دہشت گرد گروہوں کی اسلحے تک رسائی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے: اقوام متحدہ کے بعد امریکا نے بھی شامی صدر احمد الشرع پر پابندیاں ختم کر دیں

انہوں نے مزید کہا کہ افغان عبوری حکام کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے سے روک سکیں۔

پاکستانی مندوب نے ڈرونز، مصنوعی ذہانت پر مبنی ہتھیار، تھری ڈی پرنٹڈ بندوقیں اور نائٹ ویژن آلات جیسے جدید جنگی اوزاروں کو نئے خطرات کی مثالیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ روایتی اسلحہ کنٹرول نظام کو ان جدید چیلنجوں کے مطابق ڈھالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

انہوں نے غیر قانونی اسلحہ کی عالمی تجارت کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی، اور کہا کہ ایسے ہتھیار دنیا بھر میں تنازعات کو بھڑکانے، ترقی کے عمل کو روکنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کے مطابق، چھوٹے ہتھیار دہشت گرد حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: صدر زرداری کی سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے ملاقات، خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر زور

آخر میں، سفیر عاصم افتخار احمد نے افریقہ میں غیر قانونی اسلحے کے پھیلاؤ پر بھی گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ رجحان براعظم میں دہشت گردی، منظم جرائم اور سیاسی تشدد کو فروغ دے رہا ہے، جو عالمی امن کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلحہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی ہتھیار

متعلقہ مضامین

  • بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے: جسٹس اطہر من اللّٰہ کا چیف جسٹس کو خط
  • افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، تعاون کیلئے تیار ہیں: وزیراعظم
  • ’عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں‘ جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس کو لکھا خط منظر عام پر
  • افغانستان میں دہشتگردوں کو جدید اسلحے کی فراہمی امن کے لیے خطرہ، پاکستان کا اقوامِ متحدہ میں انتباہ
  • افغانستان، دہشت گردوں سے فاصلہ اختیارکرے
  • استنبول مذاکرات، پاکستان کا موقف تعصب سے بالاتر اور حقائق پر مبنی تھا، ذرائع
  • استنبول مذاکرات پر غیرجانبدار ممالک نے پاکستان کے موقف کی تائید کی، سفارتی ذرائع
  • پاکستان کی پیشکش کا افغانستان نے عملی جواب نہیں دیا، دفتر خارجہ
  • پاکستانی پیشکش کا افغانستان نے عملی جواب نہیں دیا، ترجمان خارجہ
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے، دفتر خارجہ