تیراہ اور خیبر کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
پاکستان میں دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ روز سینئر صحافیوں کو ایک بیک گراؤنڈ بریفنگ دی۔ اس بریفنگ کے مختلف پہلو تھے۔ تاہم میرے لیے سب سے اہم تیرہ کی صورتحال ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ تیراہ اور خیبر میں اس وقت بارہ ہزار ایکڑ رقبے پر پوست کاشت کی گئی ہے۔ اس فصل کا منافع بھی بہت زیادہ ہے، بس اتنا بتانا کافی ہے کہ فی ایکڑ پچیس لاکھ روپے منافع ہوتا ہے۔ اس لیے مقامی لوگوں کے لیے یہ ایک پرکشش اور منافع بخش فصل ہے۔ اتنا منافع کسی اور فصل میں نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پوست کی کاشت کا دہشت گردی سے کیا تعلق ہے؟ حکومت پاکستان کے قوانین کے مطابق پوست کاشت کرنا غیر قانونی ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان کے انسداد منشیات کے مختلف ا دارے اس علاقے میں پوست کی فصلوں کو تلف کرنے کا کام کرتے ہیں۔
اس فصل کو تلف کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ ڈرون سے دوائیاں چھڑک کر بھی اس فصل کو ناکارہ اور ناقابل استعمال بنایا جاتا ہے۔ انسداد منشیات کے اداروں کے ملازمین موقع پر پہنچ کر بھی ان فصلوں کو تلف کرتے ہیں۔ پوست کاشت کرنے والوں کو پکڑا بھی جاتا ہے۔ یوں دیکھا جائے پوست کاشت کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ حکومت کے ایکشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پوست کی کاشت میں تیرہ اور خیبر کے تمام اہم لوگ ، مقامی سیاسی رہنما وعمائدین ملوث ہیں۔ مقامی اہم لوگ بھی اس کاروبارمیں حصہ دار ہیں۔ اسی لیے پاکستان میں منشیات کا سب سے بڑا بازار تیرہ میں ہے۔ جو تصاویر ہمیں دکھائی گئیں۔ ان کے مطابق اس بازار میں ہر قسم کی منشیات فروخت ہوتی ہیں ۔ یہاں تھوک کا کام ہوتا ہے۔ اصل میں یہیں سے پورے پاکستان کو منشیات سپلائی ہوتی ہیں۔
اس تھوک منڈی پر کئی دفعہ کریک ڈاؤن ہوا ہے۔لیکن بازار پھر بن جاتا ہے۔ طلب و رسد کے معاشی اصول کے مطابق جب فصل یعنی رسد برقرار رہتی ہے تو بازار خود بخود بن جاتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں تو پوست کی کاشت بہت وسیع پیمانے پر ہوتی ہے، وہاں کوئی قانونی پابندی بھی نہیں ہے۔ اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس ساری فصل کی منڈی تیراہ ہی ہے۔ منشیات کا تھوک کاروبار یہیں ہے۔ اسی لیے کھلے بارڈر بھی چاہئیں۔
اگر بارڈر بند ہو جائیں تو اربوں روپے کا یہ غیرقانونی کاروبار بند ہوجائے گا۔ یہ سارا کالا دھن ہے۔ اسی لیے پاک افغان بارڈر کی بندش کے خلاف شور اٹھاتا نظر آتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں فوجی آپریشن کے خلاف آوازیں بھی اسی لیے سنائی دیتی ہیں۔ فوجی آپریشن کے خلاف شور بھی اسی لیے نظر آتا ہے۔ مقامی سیاستدان بھی اسی لیے فوجی آپریشن کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کے بھی مالی مفاد ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں؟ ان کا کیا رول ہے؟ اس غیرقانونی فصل ، غیرقانونی کاروبار اور اس سے کمائے گئے کالے دھن کے تحفظ کے لیے اس کاروبار کے اسٹیک ہولڈرز کو ایک مسلح فورس چاہیے۔
جو حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں کوان فصلوں کو تلف کرنے سے روکے، تھوک بازار کو تباہ کرنے سے روکے۔ یہاں اس کاروبار سے وابستہ لوگ دہشت گردوں کو خود لاتے ہیں، پناہ دیتے ہیں، انھیں باقاعدہ عشریعنی فصل کا دسواں حصہ بطور معاوضہ ، غنڈا ٹیکس یا خراج جو بھی کہہ لیں ، دیا جاتا ہے۔ یہ عشر تحفظ کی قیمت ہے، پوست کی فصلوں کا تحفظ، بازار کا تحفظ۔ یہاں دہشت گرد آتے ہیں۔ انھیں مقامی ذمے داران خوش آمدید کہتے ہیں۔ انھیں پیسے بھی دیتے ہیں۔ یہ فوج سے لڑتے ہیں۔ فوج کی نقل و حرکت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی لیے لڑائی ہوتی ہے۔
ان دہشت گردوں کو بنیادی طور پر مختلف ذمے داریاں دی جاتی ہیں۔ ایک فصل کی حفاظت۔ دوسرا بازار کی حفاظت۔ تیسرا بارڈر کو کھلا رکھنا تا کہ اسمگلنگ کے لیے نقل و حرکت باآسانی جاری رہے۔ اس کام کے لیے انھیں بھر پور معاونت بھی حاصل رہتی ہے اور مقامی مدد بھی حاصل رہتی ہے۔ ریاست اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف منفی مہم بھی اسی لیے چلائی جاتی ہے کیونکہ وہ اس سارے غیرقانونی اور کالے کاروبار کو ختم کرتے ہیں۔ اسی لیے بارڈر کی چیک پوسٹوں پرلڑائی ہے۔ فوجی قافلوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے تا کہ اگلے مورچوں تک کمک نہ پہنچ سکے۔
ان دہشت گردوں کو افغان طالبان کی مکمل حمایت حاصل رہتی ہے۔ وہ اس سارے کاروبار کے بڑے سہولت کار اور بیفشریز ہیں۔ ان کا مال بھی بکتا ہے، منڈی پاکستان میں ہے اور وہ مال بیچ کر اپنے پیسے واپس افغانستان لے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ دہشت گرد گروپس کی حمائت اور سہولت کاری کرتے ہیں۔ افغان طالبان اس غیرقانونی کاروبار سے بے تحاشا دولت کماتے ہیں۔ ان کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اس کھیل کو سمجھیں۔ دہشت گردتنظیموںکو جس کام کے پیسے ملتے ہیں، وہ کرتی ہیں۔سیکیورٹی اداروں پر حملوں کی وجوہات کو سمجھیں۔ افغان طالبان کے مفادات کو سمجھیں۔
میں سمجھتا ہوں ریاست پاکستان اور حکومت یہ گھناوناکھیل عام آدمی کو سمجھانے میں ناکام رہی ہے۔ ورنہ رائے عامہ مختلف ہوتی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ منشیات ہماری نسلوں کو تباہ کر رہی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کا زہر کھل عام تھوک بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے۔ ان تھوک منڈیوںکو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ جو سیاستدان خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں، وہ پوست کی کاشت اور منشیات کی فروخت کی تھوک منڈیوں کے بارے میں کیوں خاموش ہیں؟ کیا وہ یہ سب کچھ باعلم ہونے کے باوجود کرتے ہیں یا پھر معصومیت میں اس کھیل کا حصہ بن رہے ہیں؟ اس کھیل کا یہ پہلو سب کے سامنے ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پوست کی کاشت فوجی ا پریشن بھی اسی لیے پوست کاشت کرتے ہیں یہ ہے کہ ہوتا ہے رہتی ہے کے خلاف جاتا ہے کے لیے کو تلف بھی اس
پڑھیں:
لگتا ہے بھارت سمندر کے راستے کوئی فالس فلیگ آپریشن کریگا، ڈی جی آئی ایس پی آر
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف : فائل فوٹوڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ بھارت سمندر کے راستے کوئی فالس فلیگ آپریشن کرے گا, ہمیں بھارت کی کارروائی سے متعلق پتا ہے، ہم مکمل طور پر الرٹ ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کچھ ایسے شواہد موجود ہیں کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے سے بھی کوئی کارروائی کر سکتا ہے، بلوچستان میں جو دہشتگرد ایکٹیو ہیں ان کو بھی افغانستان میں ٹھکانے مہیا کیے گئے، افغان طالبان بی ایل اے اور خوارجیوں کے ٹھکانوں کو بارڈر ایریا سے رہائشی علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں، بارڈر ایریا سے رہائشی علاقوں میں منتقلی کا مقصد دہشتگرد کو ہیومن شیلڈ فراہم کرنا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے امریکا کو اپنی سر زمین سے افغانستان پر حملوں کی کوئی اجازت نہیں دی، ایسی خبریں افغانستان کا پروپیگنڈا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاک افغانستان تعلقات کی نوعیت پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان سے متعلق ثبوت سینئر صحافیوں کے ساتھ شیئر کیے۔
افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی میں افغان فوج کے سپاہی بھی ملوثانہوں نے کہا کہ پاکستان میں افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی میں افغان فوج کے سپاہی بھی ملوث ہیں، تین چار ماہ میں افغانستان سے دراندازی کے دوران دہشتگردوں کو مارا گیا، مارے گئے ان دہشتگردوں میں 60 فیصد افغان باشندے شامل تھے، ان کارروائیوں میں افغان فوج کے سپاہی بھی مارے گئے، خارجی اپنے ٹھکانے سرحدی علاقوں سے رہائشی علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا: ڈی جی آئی ایس پی آر ایک فرد کے پی میں دہشتگردی لایا، عوام کو ایسے شخص پر نہیں چھوڑ سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر ڈی جی آئی ایس پی آر نے خارجیوں کے سہولت کاروں کو تین آپشن دے دیےلیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ دوحہ میں طے ہوا تھا کہ لویا جرگے کا انعقاد کیا جائے گا، افغان طالبان کے ساتھ ہم اب بھی مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، ہم امن چاہتے ہیں، مذاکرات سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوحہ اور استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوئی، افغانستان سے سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ مذاکرات کا ایجنڈا تھا، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے 6200 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیےگئے، آپریشنز کے دوران 1667 خارجی دہشت گرد مارے گئے، ہلاک دہشت گردوں میں 128 افغان باشندے بھی تھے۔
خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کا نارکو اکنامی سے تعلقڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کا نارکو اکنامی سے تعلق ہے، تیراہ میں آپریشن سے یہاں افیون کی فصل تباہ کی گئی، وادی تیراہ میں ڈرونز، اے این ایف اور ایف سی کے ذریعے پوست تلف کی گئی۔
خیبر پختونخوا میں 12 ہزار ایکڑ پر پوست کاشت کی گئی ہے، فی ایکڑ پوست پر منافع 18 لاکھ سے 32 لاکھ روپے بتایا جاتا ہے، مقامی سیاستدان اور لوگ بھی پوست کی کاشت میں ملوث ہیں، افغان طالبان اس لیے ان کو تحفظ دیتے ہیں کہ یہ پوست افغانستان جاتی ہے، افغانستان میں پھر اس پوست سے آئس اور دیگر منیشات بنائی جاتی ہیں، ایران سے ڈیزل کی اسمگلنگ کو تقریباً ختم کردیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ کے پی سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا جوابوزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں پبلک سرونٹ ہوں کسی پر الزام نہیں لگا سکتا، سہیل آفریدی خیبر پختونخوا کے چیف منسٹر ہیں، بس اتنا ہی کہوں گا۔
امریکی ڈرونز کے ذریعے پاکستان سے افغانستان میں حملے کا الزام مستردڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کو افغانستان پر حملے کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دی، امریکی ڈرونز کے ذریعے پاکستان سے افغانستان میں حملے کا الزام جھوٹا ہے، نہ ہمارا امریکا کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ ہے کہ امریکا پاکستان سے ڈرون کے ذریعے افغانستان میں کارروائی کرے۔