سیاسی ومسلکی دراڑیں: مشترکہ قومی ایجنڈے کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
پاکستان کی قومی یکجہتی کے بحران کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اختلاف فطری ہے، مگر ہر اختلاف تقسیم نہیں ہوتا۔
معاشروں کو توڑنے والی قوت اختلاف نہیں بلکہ اختلاف کے آداب سے بے اعتنائی ہے۔ جب ہم اصول اور فروع کے فرق کو محو کر دیتے ہیں، جب ذاتی ترجیحات کو قومی مفاد پر مقدم رکھتے ہیں، اور جب رائے کے اختلاف کو وفاداری کے مقدمے میں بدل دیتے ہیں تو اختلاف نعمت سے نقمت بن جاتا ہے۔ یہی وہ گھاٹی ہے جس میں ہماری سیاست اور معاشرت بار بار اترتی ہے۔
پاکستانی سیاست کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں کہ پارٹیاں مختلف سوچ رکھتی ہیں؛ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بڑے قومی معاملات پر کم سے کم مشترکات کو بھی قائم نہیں رکھتیں۔ معیشت کی پائیداری، آئینی بالادستی، وفاقی اتحاد، دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی کے بنیادی خطوط وہ امور ہیں جن پر ریاستی سطح کی یکسوئی درکار ہوتی ہے۔
مگر انتخابی مفادات، بیانیہ سازی کی دوڑ اور شخصیاتی سیاست ان امور کو روزمرہ کے جھگڑوں کا ایندھن بنا دیتی ہے۔ یہ روش صفر جمع صفر کے کھیل کو تقویت دیتی ہے جس میں جیتنے والا بھی آخرکار ہار جاتا ہے، کیونکہ قومی اعتماد، پالیسی کا تسلسل اور ادارہ جاتی وقار سب کے سب مجروح ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان نے کبھی ملک چھوڑنے کی خواہش ظاہر نہیں کی، علی امین گنڈاپور کی وضاحت
آداب اختلاف کا تقاضا ہے کہ ہم اختلاف کو فروع تک محدود رکھیں اور اصول پر عہد ومیثاق کرلیں۔ اصول سے مراد وہ بنیادیں ہیں جو ریاست اور معاشرے کو قائم رکھتی ہیں: آئین کی حرمت، قانون کی عمل داری، جان ومال اور آبرو کا تحفظ، قومی وسائل کی امانت دارانہ تقسیم، اور انسانی وقار۔
ان پر نزاع پیدا کرنا سیاسی بالغ نظری کے خلاف ہے۔ فروع میں طریق کار، ترجیحات اور رفتار کے اختلافات آتے ہیں؛ ان میں وسیع گنجائش بھی ہے اور تجربہ کرنے کی آزادی بھی۔ لہذا پارٹیاں باہمی میثاق کے ذریعے کم از کم قومی ایجنڈا طے کریں: معیشت پر مجموعی رہنما اصول، ٹیکس اور سماجی تحفظ کی بنیادی سمت، تعلیم وصحت کے لازمی اہداف، عدالتی اصلاحات کی کم از کم حدود، اور خارجہ و داخلی سلامتی کے بنیادی اصول۔
اسی کے ساتھ ایک غیر مبہم اخلاقی ضابطہ لازم ہے جس میں سیاسی مخالف کو غدار یا مذہبی طور پر مشکوک ٹھہرانے کی ممانعت ہو، ریاستی اداروں کو بیانیہ جنگ میں گھسیٹنے پر قدغن ہو، اور اقتدار کی کشمکش میں آئینی خطوطِ تمیز پامال نہ کیے جائیں۔
سیاست کے ساتھ ایک بڑی دراڑ ہماری سماجی کایا میں مسالک کی بنیاد پر کھینچی گئی ہے۔ دین کا مقصد بندگی، تزکیہ اور عدل ہے، مگر ہم نے دین کو شناختی باڑوں میں بانٹ کر عبادت گاہوں کو خندقیں بنا دیا ہے۔ فروعی اختلافات کو اصولی نزاعات کا رنگ دیا جاتا ہے، اور یوں علمی مباحث انا کی لڑائیوں میں ڈھل جاتے ہیں۔
اس کا حل مذہبی وفکری دنیا میں بھی وہی ہے جو سیاست میں ہے: اصول پر میثاق اور فروع میں وسعت۔ اصول مسلمہ ہیں، ان پر نہ چھیڑ چھاڑ کی گنجائش ہے نہ بازارِ سیاست میں نیلام کی۔ فروع میں سخت گیری سے گریز، دوسروں کے مسلک میں مداخلت سے احتراز، اور زبان و منبر کی شائستگی وہ کم از کم خطوط ہیں جو سماجی امن کی ضمانت بنتے ہیں۔
مزید پڑھیں: عدالتوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے، چیف جسٹس پاکستان
باہمی احترام کے ساتھ اختلاف کو علمی اداروں اور بین المذاہب وبین المسالک مجالسِ مکالمہ تک محدود رکھا جائے، گلی کوچوں کے جلوسوں اور سوشل میڈیا کے ہجوموں کی دہکتے بھڑکتے لہجے سے نہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا اس کشمکش کے تکثیر کنندہ ہیں۔ توجہ کھینچنے کی چاہت انہیں سنجیدہ پالیسی مباحث کے بجائے جذباتی تصادم کی طرف دھکیلتی ہے۔ اس کا تریاق ایڈیٹوریل ضوابط، فیکٹ چیکنگ کی ثقافت، اور پروگرامنگ میں پالیسی مرکوز مباحث کی حوصلہ افزائی ہے۔ سیاسی و مذہبی قیادت اگر اپنی جماعتوں اور مدارس میں اختلاف کے اخلاقی اصول پڑھائے اور اپنے کارکنوں کی تربیت کرے کہ مخالف کی بات کو اس کے بہترین مفہوم کے ساتھ سمجھیں، شخص نہیں دلیل کو ہدف بنائیں، اور اجتماعی نفع کو ذاتی جیت پر ترجیح دیں تو اشتعال کی منڈی خود بخود سکڑنے لگے گی۔
تعلیم یہاں کلیدی ہے۔ قومی نصاب میں شہری اخلاق، آئینی شعور اور اختلاف کے آداب پڑھائے جائیں۔ مدارس وجامعات کے درمیان علمی تبادلے کے پل بنیں، مشترکہ مطالعہ و تحقیق کے منصوبے ہوں، اور اساتذہ کی تربیت میں تنازعات کے حساس انتظام کے ماڈیول شامل کیے جائیں۔
عبادت گاہیں سماجی مفاہمت کے مراکز بنیں جہاں فلاحی منصوبے، خون عطیہ کی مہمات اور آفات میں مشترکہ خدمت کے ذریعے ہم مکان اخلاق پروان چڑھے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے نفرت انگیز تقریر اور تشدد آمیز موبلائزیشن کے خلاف امتیاز کے بغیر کارروائی کریں، مگر اس آنچ کو اس قدر رکھیں کہ آزادی اظہار کا جائز دائرہ تنگ نہ ہو۔
سیاسی سطح پر پارلیمان ایک جامع ضابطہ اخلاق منظور کرے جو انتخابی عمل سے لے کر پارلیمانی رویے تک رہنمائی دے۔ انتخابی ادارہ اس پر یکساں عمل درآمد کرائے۔ جماعتیں ایک مشترکہ اقتصادی میثاق پر دستخط کریں تاکہ حکومتیں بدلیں تو سمت نہ بدلے۔
بین المسالک سطح پر علماء، ماہرین قانون اور شہری قیادت پر مشتمل ضلعی امن کمیٹیاں فعال کی جائیں جو حساس مواقع پر پیشگی مکالمے سے تناؤ کے اسباب کم کریں، اور منبروں سے باہمی احترام کا بیانیہ مشترکہ طور پر دیا جائے۔
مزید پڑھیں: افغانستان کے ساتھ حکومتی سطح پر مذاکرات جلد شروع کیے جائیں، پشاور اجلاس میں فیصلہ
آخر الامر قومی یکجہتی کا مطلب یکسانیت نہیں بلکہ نظم دی ہوئی کثرت ہے۔ ہمیں اختلاف کو باقی رکھ کر اس کی درجہ بندی درست کرنی ہے: سیاسی اختلافات فروع ہی رہیں، قومی اصول ہاتھ نہ لگیں؛ مسلکی ترجیحات نجی دائرے میں رہیں، شہری زندگی کا مشترک میدان آلودہ نہ ہو۔
جب ہم اصولی بنیادوں پر اجتماعی میثاق کر لیتے ہیں اور فروعی اختلافات میں وسعتِ قلبی اختیار کرتے ہیں تو معاشرہ قبیلہ گری اور گروہی تعصبات سے نکل کر شہری اقدار، آئینی شعور اور قانون کی بالادستی کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ یہی طرزِ فکر اختلاف کو انتشار نہیں بلکہ نظم دی ہوئی کثرت میں بدل دیتی ہے
اصلاح کی یہی راہ ہے اور اعتدال پسندی کی یہی روح کہ ہم اپنی انا سے بڑی کسی قدر پر متفق ہو سکیں؛ وہ قدر آئین کی حرمت، قانون کی بالادستی اور انسانی وقار کی حفاظت ہے۔ اس پر جمع ہونا ہی ہماری اجتماعی بقا کی ضامن لکیر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی سیاست سیاسی ومسلکی دراڑیں میڈیا اور سوشل میڈیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستانی سیاست میڈیا اور سوشل میڈیا اختلاف کو کے ساتھ
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کیلئے سیاست، تحریک کی سربراہی آسان نہیں ،راناثنا
اسلام آباد(آئی این پی )وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور راناثنااللہ نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کیلئے سیاست اور تحریک کی سربراہی آسان کام نہیں،میرے خیال میں عمران خان کے بیٹوں نے ویزہ نہیں مانگا، وہ مانگیں تو دے دینا چاہیے۔ ایک انٹرویو میں راناثنااللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے بیٹے پاکستان نہیں آئیں گے میں نے پہلے بھی کہا تھا بانی 4 سال وزیراعظم رہے تب بھی ان کے بیٹوں کو آنے نہیں دیا گیا اور بطور وزیراعظم حلف برداری تقریب پر بھی بیٹے نہیں آئے۔راناثنااللہ نے کہا کہ اب یہ بات بنتی نہیں ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے بیٹے ملاقات کیلئے آنا چاہتے ہیں اگر بیٹے ویزا مانگیں گے تو ان کو دے دیا جائے گا۔ عمران خان کے بیٹے سیاست اور ان حالات میں تحریک کی سربراہی کرنا چاہتے ہیں تو یہ آسان کام نہیں۔رانا ثنا اللہ نے کہنا کہ اتحادی حکومت سیاسی شعوررکھتی ہے اورہم اپنے فیصلوں سے مطمئن ہیں اگلے دو سے تین سال میں عوامی مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی 5 اگست کی کال پر لوگوں نے رسپانس نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ 14 اگست کو پوری قوم سڑکوں پر ہوگی اور پی ٹی آئی نقصان پہچانے کی کوشش کرے گی، یوم آزادی کے سلسلے میں انتظامیہ سخت حفاظتی اقدامات کرے گی۔