عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں، پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے اراکین کی نااہلی پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ورکرز پر سزاؤں کی بارش کرنے کے لیے عدالتوں کا استعمال کیا گیا، جھوٹے مقدموں میں سزائیں سنائی گئیں اور فیصلوں کے بعد فوراً الیکشن کمیشن نے اراکین کو نا اہل کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈرز کو نااہل کیا گیا، آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر نااہلی نہیں ہوسکتی، حتمی فیصلے کے بعد ہی نااہلی ہوسکتی ہے۔
نااہلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلہ ابھی ہوا ہی نہیں تھا کہ نااہل کردیا گیا، الیکشن کمیشن آزاد نہیں جانب دار ہے، کون سی ایمرجنسی تھی جس پر فوری نااہل کیا گیا؟ فئیر ٹرائل کہاں گیا؟ سیاسی جلد بازی میں نااہلی کا مقصد یہ تھا کہ اچھے بولنے والوں کو بند کردو، کارروائی کا مقصد سچ بولنے والوں کو روکنا تھا، حکومت کو عوام کی آواز سے ڈر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت ہمارے سوالات اور گفتگو سے ڈرتی ہے، یہ معاملہ ان ممبران کا نہیں اپوزیشن کا ہے، یہ ایوان اب پورس کی شکل بن چکا ہے جہاں اپوزیشن لیڈر نہیں، اپوزیشن حکومت کی دشمن نہیں ہوتی کیونکہ حکومت اور اپوزیشن مل کر عوام کی خدمت کرتے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں؟ ہم یہاں حادثاتی نہیں عوامی ووٹوں سے آئے ہیں، جلدی بازی میں غیر قانونی سزائیں دے کر ووٹرز کو سزا دے رہے ہیں، یہ معاملہ شبلی فراز وغیرہ کا نہیں ہم سب کا معاملہ ہے کل آپ کی بھی باری آسکتی ہے، سزاؤں کی جو بارش ہمارے اوپر ہورہی ہے کل آپ پر بھی ہوگی۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ایک آدمی کو عہدے سے تو ہٹایا جاسکتا ہے اس کے خیالات سے نہیں ہٹا نہیں سکتے، آپ نے تینوں جگہوں سے ہمارے اپوزیشن لیڈر تو ہٹا دیے لیکن آپ لوگوں کے دلوں سے ہمیں نہیں ہٹاسکتے، ہم سڑکوں اور ایوانوں میں بولیں گے، احتجاج کریں گے، آپ سیٹ تو چھین سکتے ہیں قوم کی آواز نہیں چھین سکتے، آپ جو کررہے ہیں کل آپ کے ساتھ بھی وہی ہوگا۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ناصر بٹ نے کہا کہ آپ نے بھی کل کیا تھا جو آپ کے ساتھ ہورہا ہے، انہوں نے جو کیا ہے وہ کاٹ رہے ہیں، آپ لوگ اپنے گریبان میں جھانکیں۔
اس بات پر ایوان میں شور شرابہ ہوگیا، ناصر بٹ اور پی ٹی آئی اراکین میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کا مطلب ہے میری باتیں آپ کو چبھی ہیں، میں نے آپ کو آپ کا ماضی دکھایا ہے آپ کو آپ کا چہرہ دکھایا ہے۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سینیٹر علی ظفر نے ابھی بیان دیا کہ ڈس کوالیفکیشن آخری آرڈر کے بعد ہوتی ہے، میرا خیال ہے جب سزا ہوجاتی ہے تو جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا یا معطل نہیں کیا جاتا ڈس کوالیفکیشن ہوتی ہے، حتیٰ کہ سزا ہوجانے کے بعد اگر ضمانت ہو بھی جائے تو بھی ڈس کوالیفکیشن ہوجاتی ہے، جس لمحے کسی شخص کو سزا ہوجاتی اسی وقت وہ ڈس کوالیفائی ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حنیف عباسی کو لائسنس کوٹا کے باوجود عمرقید کی سزا دے دی گئی، چیئرمین سینیٹ کے بیٹے کو ضمانت کے باوجود سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلیا گیا، حمزہ شہباز کو دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ علی ظفر نے پی ٹی آئی رہے ہیں کے بعد
پڑھیں:
جماعت اسلامی ہمیں کام کرنے نہیں دیتی، مرتضیٰ وہاب کا الزام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے صدر دفتر بلدیہ عظمیٰ کراچی میں پریس کانفر نس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم سوچیں اور فیصلہ کریں کہ آیا ہم سیاسی و انتظامی معاملات آپس میں حل کریں یا اس کے لیے عدالت جانا ہے،پہلے ہی عدالتوں میں بہت مقدمات التوا کا شکار ہیں،ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مخالفین رکاوٹیں ڈالیں یا مقدمے کریں مگر کراچی میں ترقی اور بہتری کے عمل کو روکا نہیں جاسکتاکیونکہ عوامی خدمت ہی اصل سیاست ہے، ایم یوسی ٹی کے معاملے پر مخالفین عدالت گئے اسٹے آرڈر لے لیا تھا،سندھ ہائیکورٹ نے اسٹے کو ہٹایا اور اعتراف کیا کونسل کا اختیار ہے ٹیکس وصول کرے، ایم یو سی ٹی ٹیکس کی وصولی سے ہمارے معاملات اچھے ہوئے،قانونی اعتبار سے ہائیکورٹ اجازت دے چکا ہے، سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو ختم نہیں کیامگرجماعت اسلامی کے سیف الدین صاحب نے ایک مرتبہ پھر پارلیمانی سیاست کے بجائے اس اعتراض کی بنیاد پر ایم یو سی ٹی کے معاملے کو عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا کہ ہم نے ٹیکس بڑھانے میں اجازت نہیں لی جبکہ بجٹ اجلاس میں ان کے سامنے ٹیکس بڑھانے کی منظوری لی گئی تھی، ہم نے مارچ اپریل میں ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا تاہم اپوزیشن کی درخواست پر اس اضافے کو بجٹ تک مؤخر کیے رکھااوراب یہ کے ایم سی کے رواں مالی سال کے بجٹ کا حصہ بن چکا ہے۔اس معاملے پر ہم تین نومبر کو کیس کی پیروی کے لیے جائیں گے۔میں لوگوں کو حقائق بتانا چاہتا ہوں، ہم نے 27 ارب جماعت اسلامی کے 9 ٹاؤن کو دیے ،14 ارب روپے ٹاؤن نے روڈ کٹنگ کی مد میں لیے مگرایک سال ہوگیا ان پیسوں سے سڑکوں کی مرمت شروع نہ ہو سکی،سندھ حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی کو 5.7 ارب روپے دیے ہیں 45 اسکیموں کے لیے مگرکوئی کام شروع نہیں ہوا،وقت آگیا ان کا احتساب کیا جائے گااور ان کی نااہلی سے لیاقت آباد، ناظم آباد اور نیو کراچی والوں کو آزاد کروائیں گے،ان کے چندے اور انہیں ملنے والے پیسے کا حساب ہونا چاہیے، انہیں یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ عدالت میں جاکر اپنی معصومیت اور مظلومیت کا کارڈ پیش کرتے رہیں۔ میئر کراچی نے کہاکہ کراچی شہر میں وفاقی حکومت چاہتی ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بند ہو جائے،حافظ صاحب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے متعلق آپ کو ایک بار پھر نظر ثانی کرنی چاہیے،مرتضیٰ وہاب اور سلمان عبداللہ مراد کا گھر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نہیں چلتا،خدارا اپنے اس بغض سے غریبوں کا بھلا ہونے سے نہ روکیں، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں ایسے فلاحی پروگراموں کو ہدف بنائیں گے تو اس کانقصان کراچی کے عوام کو ہوگا