WE News:
2025-09-19@01:11:53 GMT

عظیم کامیڈین ’لہری‘ جو آج بھی دلوں میں زندہ ہیں

اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT

عظیم کامیڈین ’لہری‘ جو آج بھی دلوں میں زندہ ہیں

ہنسی انسان کے غموں کا سب سے سچا علاج ہے۔ وہ آواز جو دل کے اندھیروں کو اجالا دے، جو تھکے ہوئے وجود کو پل بھر میں زندگی کا احساس دلا دے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ خوشبو، یہ روشنی اور یہ جادو جس شخصیت کے نام رہا، وہ ہیں لہری، یعنی سفیر اللہ صدیقی۔

آڈیشن کا لمحہ: خاموشی کا طوفان

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ اپنا سب سے قیمتی ہنر پیش کریں، اور جواب میں صرف سناٹا ملے؟ یہی ہوا لہری کے ساتھ، ایک نوجوان، خوابوں اور امیدوں سے بھرا ہوا، پہلی بار فلمی آڈیشن کے لیے کیمروں کے سامنے آیا۔ اس نے اپنے مشہور لطیفے ’مریضِ عشق‘ سے آغاز کیا۔ مگر ہوا یہ کہ پورا آڈیٹوریم خاموشی میں ڈوبا رہا۔ نہ کوئی مسکراہٹ، نہ کوئی قہقہہ۔ ہدایتکار اور کیمرا مین کے چہرے سپاٹ تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جو کسی بھی فنکار کو توڑ سکتا ہے۔ لیکن شاید اسی لمحے تقدیر نے فیصلہ کیا کہ یہ فنکار دنیا کو صرف قہقہے ہی نہیں، بلکہ صبر، استقامت اور حوصلے کا سبق بھی دے گا۔

اسٹیج کا شہزادہ

پچاس کی دہائی کے کراچی میں جب تھیٹر اپنے عروج پر تھا، ایک نام ہر ڈرامے کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اور وہ تھا لہری۔ وہ ایک جملے سے پورے ہال کو ہنسا دیتے۔ ان کے مکالموں میں کبھی شور شرابہ نہیں ہوتا، کبھی پھکڑ پن نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی سادگی ہی ان کا جادو تھی۔ ہر شو کے بدلے ملنے والے 30 روپے ان کے لیے بہت تھے۔ مگر شادی کے بعد ذمہ داریوں نے دروازے کھٹکھٹائے۔ وہ سمجھ گئے کہ وقت نے انہیں ایک بڑی دنیا کی طرف دھکیل دیا ہے۔

فلمی دروازے کی دستک

آرٹسٹ ابو شاد نے انہیں فلمی دنیا کا راستہ دکھایا۔ فلم کے ہدایتکار او پی دتہ بھارت سے آئے تھے اور ہیروئن کا نام شیلا رمانی تھا۔ یہ موقع کسی خواب سے کم نہ تھا۔ لہری نے ابتدا میں انکار کیا، لیکن ابو شاد کی ضد کے آگے جھکنا پڑا۔ یوں وہ فلم کی دہلیز پر پہنچ گئے۔

ڈائریکٹر کا سوال، برجستہ جواب

اسٹوڈیو کا پہلا دن، دل میں ہزاروں امیدیں۔ مگر ڈائریکٹر کا پہلا سوال گویا بجلی بن کر گرا۔

’کیا بیچتے ہو؟‘

لہری نے لمحہ ضائع کیے بغیر کہا:

’میں کچھ نہیں بیچتا، عجیب لگے گا کہ آپ کھانا کھا رہے ہوں اور میں کچھ بیچوں۔‘

یہ جملہ قہقہہ مانگ رہا تھا، مگر کمرے میں اب بھی خاموشی چھائی رہی۔ لہری سمجھ گئے کہ شاید یہ سفر یہیں ختم ہو جائے گا۔

قسمت کی مسکراہٹ

لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ تین دن بعد ایک شخص خوشخبری لے کر آیا لہری کا انتخاب ہو چکا تھا۔ انہیں 3 ہزار روپے کی پیشکش ملی۔ یہ رقم اسٹیج کے برسوں کی کمائی سے کہیں بڑھ کر تھی۔ لہری نے اسٹیج کو الوداع کہا اور فلمی دنیا کو اپنا نیا گھر بنا لیا۔

انوکھی: پہلا امتحان

پہلی فلم کا نام تھا “انوکھی” اداکارہ شیلا رمانی اس فلم میں دہرے کردار نبھا رہی تھیں۔ فلم ناکام رہی، مگر لہری کے مختصر کردار نے سب کو حیران کر دیا۔ ان کی بے ساختہ اداکاری نے یہ ثابت کردیا کہ وہ پردے پر بھی وہی جادو بکھیر سکتے ہیں جو اسٹیج پر کرتے تھے۔

کامیابی کی سنہری راہیں

یہ فلم لہری کی اصل کامیابی کی شروعات تھی۔ ’رات کی راہی‘ اس کے بعد کی فلم تھی۔ ان کی شوخی، ان کی معصوم جملہ بازی، اور ان کی شائستگی نے انہیں ہر دل عزیز بنا دیا۔ پھر ایک ایسا سفر شروع ہوا جو پاکستان کی فلمی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ 200 سے زیادہ فلمیں، ہر کردار میں نیا رنگ، اور کامیڈی کی ایک ایسی دنیا جس میں کبھی بازاری پن نہ آیا۔

لہری کو 12 مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایک ایسا ریکارڈ جو آج بھی ان کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ ’دامن‘، ’پیغام‘، ’کنیز‘، ’صاعقہ‘، ’لیلیٰ مجنوں‘، ’انجمن‘، ’دل لگی‘ اور ’نیا انداز‘ جیسے شاہکار انہی کی وجہ سے چمک اٹھے۔

بیماری کا سایہ

لیکن زندگی ہمیشہ قہقہوں کی طرح روشن نہیں رہتی۔ 1983 میں سری لنکا میں شوٹنگ کے دوران پہلا فالج کا حملہ ہوا۔ پھر بیماریوں نے گھیر لیا، جسم کمزور ہو گیا مگر یادوں اور فن کی طاقت کبھی مدھم نہ ہوئی۔ اور پھر 13 ستمبر 2012 کو وہ خاموشی سے رخصت ہو گئے، مگر اپنے پیچھے مسکراہٹوں کا خزانہ چھوڑ گئے۔ ان کی معصوم مسکراہٹیں، ان کے دلنشین لطیفے آج بھی زندہ ہیں۔ لہری ہمیں یہ سبق دے گئے کہ فن کا مقصد صرف ہنسانا نہیں بلکہ تہذیب کو جِلا دینا ہے۔ قہقہہ وہی ہے جو دل کو سکون دے اور دکھ کو بھلا دے۔ ان کی زندگی ایک چراغ ہے جو یہ سکھاتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو اور جذبہ سچا ہو تو سناٹا بھی قہقہوں میں بدل سکتا ہے۔ وہ چلے گئے مگر اپنے پیچھے ہنسی کی ایسی وراثت چھوڑ گئے جو وقت کی دھول سے کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ وہ ہمارے دلوں کے ہمیشہ کے مکین ہیں، ایک ایسی یاد جو جتنا پرانی ہو اتنی ہی حسین لگتی ہے۔ لہری صرف ایک فنکار نہیں تھے، وہ پاکستان کی ہنسی کی تاریخ ہیں۔ ان کے قہقہے آج بھی دلوں کو مسکراتے ہیں اور رہتی دنیا تک مسکراتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

wenews آڈیشن دلوں میں زندہ عظیم کامیڈین لہری وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ڈیشن دلوں میں زندہ عظیم کامیڈین لہری وی نیوز

پڑھیں:

فرانسس بیکن،آف ٹروتھ

فرانسس بیکن انگلستان کے نشاۃ ثانیہ دور کے ایک عظیم مفکر،مضمون نگار،فلسفی،ممبر پارلیمنٹ اور سائنس دان تھے۔انھیں انگریزی ادب میں مضمون نگاری کا بانیFather of English Essay کہا جاتا ہے۔

ان کی علمی و ادبی خدمات نے نہ صرف انگلستان بلکہ پورے یورپ کے فکری افق پر گہری چھاپ چھوڑی۔بیکن کی شخصیت علم،تجربے اور حقیقت پسندی کا حسین امتزاج تھی۔بیکن کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں مضمون Essayنگاری کو ایک باضابطہ اور معتبر صنف کی شکل دی۔اس سے قبل انگریزی ادب میں مضمون نگاری ابتدائی اور غیر پختہ صورت میں موجود تو تھی مگر بیکن نے اسے علمی وقار اور ادبی شان سے نوازا۔ان کے مضامین مختصر،جامع،حقیقت سے قریب تر اور پر اثر ہیں۔ مضامین کی سب سے نمایاں خصوصیت معنویت اور Aphoristicانداز ہے۔ہر جملہ ایک قولِ زریں کی حیثیت رکھتا ہے جو مختصر مگر معنی خیز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے مضامین محض ادب نہیں بلکہ حکمت و دانائی کا خزانہ ہیں۔

بیکن نے محض ادب میں ہی نہیں بلکہ فلسفہ اور سائنس پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔اس نے تجربیت کی بنیاد رکھی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ حقیقی علم وہی ہے جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔اس نے قدیم یونانی فلسفے کی مجرد اور قیاسی طرزِ فکر کو رد کرتے ہوئے علمی تحقیق اور مشاہداتی علم پر زور دیا۔

اس کی تصنیف Novum Organum نے جدید تحقیق کے دروازے کھولے۔یوں وہ ادب کے ساتھ سائنس اور فلسفے کا بھی ایک عظیم پیش رو تھا ۔ بیکن کی تحریروں نے نہ صرف انگریزی ادب کو نیا رخ دیا بلکہ فلسفہ،سائنس اور تحقیق کے میدان کو بھی بدل ڈالا۔اس کے افکار نے بعد کے بڑے سائنس دانوں جیسے کہ ڈیکارٹ اور نیوٹن کو متاثر کیا۔فرانسس بیکن کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی۔

فرانسس بیکن 22جنوری1561کو یارک ہاؤس لندن میں پیدا ہوا۔اس کے والد نکولس بیکن ملکہ الزبتھ اول کے لارڈ کیپر آف گریٹ سیلLord keeper of Great Sealتھے۔اس کی والدہ لیڈی این کک بہت پڑھی لکھی خاتون ، یونانی اور لاطینی زبان جاننے والی تھی۔فرانسس بیکن ابتدا سے ہی انتہائی ذہین بچہ تھا۔ اس کے اندر چیزوں کی حقیقت جاننے کی بے پناہ جستجو پائی جاتی تھی۔وہ1573میں ٹرینیٹی کالج کیمرج میں داخل ہوا جہاں وہ 1575تک زیرِ تعلیم رہا۔یہاں وہ ارسطو کی فلاسفی کا ناقد بنا۔اس نے محسوس کیا کہ ارسطو کی فلاسفی محض لفاظی پر مبنی ہے اور اس میں علم و آگہی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

کیمرج کے بعد اس نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیےGray s Innمیں داخلہ لیا یہاں سے اس کو زندگی بھر کے لیے سیاست اور Intellectual pursuitsمیں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ 1576میں وہ فرانس کے سفر پر نکل گیا جہاں اس نے یورپی سیاست،سفارت کاری اور سوسائٹی کا جائزہ لیا۔فرانسس بیکن 1579میں انگلینڈ واپس آیا اور 1582میں بیرسٹر بن گیا۔وہ 1584میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کا ممبر بنا۔پارلیمنٹ میں اس کی تقاریر شاندار اور انتہائی خوبصورت خطابت کا ایک نمونہ تھیں جن میں قومی اصلاح جھلکتی تھی۔

ملکہ الزبتھ اول کے دور میںفرانسس بیکن کسی اعلیٰ عہدے کے لیے کوشاں ہی رہا لیکن جب جیمز 1 تخت نشین ہوا تو اس کی صلاحیتوں کو ماننے کا زمانہ شروع ہوا۔کنگ جیمز اول نے فرانسس بیکن کے علم،ذہانت اور وفاداری کو خوب سراہا اور اسے 1603میں نائٹ ہوڈ عطا کی۔1607میں فرانسس بیکن کو سولسٹر جنرل جب کہ 1613میں اٹارنی جنرل بنا دیا گیا۔تیزی سے ترقی کرتے ہوئے وہ 1617میں لارڈ کیپر بنا اور تھوڑے ہی عرصے یعنی ایک سال کے بعد ہی فرانسس بیکن کو لارڈ چانسلر تعینات کر دیا گیا۔قانون کی فیلڈ میں یہ برطانوی سلطنت کے اندر سب سے بڑا عہدہ تھا۔اس کے ساتھ ہی بیکن کو Baron بنا دیا گیا۔ اس کو مزید نوازا گیا اور 1621میں وہ Viscountبن گیا۔

وسکاؤنٹ بننے کے کچھ عرصے بعد بیکن مشکلات میں گھرنے لگا۔پارلیمنٹ میں اس پر الزام لگا کہ لارڈ چانسلر کے طور پر فیصلے کرتے ہوئے وہ رشوت میں تحائف وصول کرتا رہا۔یہ تحائف اس کا حق نہیں تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بیکن کے اوپر یہ الزام دھرا گیا حالانکہ اس وقت برطانوی سلطنت میں یہ ایک معمول تھا۔فرانسس بیکن نے اقرار کیا کہ اس نے تحائف وصول کیے اور وہ غیر ذمے داری کا مرتکب ہوا لیکن یہ کہ وہ ہمیشہ دونوں فریقوں سے برابر لیتا تھا اور یہ تحائف اس کے فیصلوں پر ہر گز اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔

اس نے مزید بتایا کہ وہ ان تحائف کی رقم کو سائنسی تجربات کے لیے وسائل مہیا کرنے پر لگاتا تھا۔ اس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے آگے سرنڈر کر دیا۔اس کو ٹاور آف لندن میں قید رکھاگیا لیکن تھوڑی سی قید کے بعد اسے ٹاور سے رہا کر دیا گیا۔رہائی کے بعد اس نے اپنی بقیہ زندگی لکھنے پڑھنے، علم و آگہی کی ترویج اور سائنسی فکر کی آبیاری کے لیے وقف کر دی۔ 1626مارچ میں اس کی موت بھی فریج کی ایجاد کے لیے تجربات کرتے ہوئے نمونیہ سے ہوئی۔ فرانسس بیکن کے لکھے ESSAYS علم و حکمت اور دانائی کا نادر ترین نمونہ ہیں۔ اس کے Essays میں سےOF TRUTHکا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔

سچائی کے بارے میں سب سے پہلا سوال وہ ہے جو پونٹس پائیلیٹ نے کیا تھا، جب اس نے پوچھا، سچائی کیا ہے۔لیکن اس نے اتنا توقف بھی نہ کیا کہ جواب سنے۔یہ آج کے زمانے کے ایسے لوگوں کی مثال ہے جو یہ سوال تو کر لیتے ہیں مگر جواب سننے یا اسے قبول و رد کرنے کے روادار نہیں ٹھہرتے۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ بولنے کو محض برائی یا نقصان سے نہیں بلکہ لطف اندوز اور مزے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔یہ ایک طرح کی ایسی فطری برائی ہے کہ وہ بغیر فائدے کے بھی جھوٹ بولنے پر آمادہ رہتے ہیں۔گویا ان کی روح جھوٹ سے ہی غذا پاتی ہے۔

انسانوں کو یہ پوچھنا چاہیے کہ آج سچائی میں رکاوٹ کیوں ہے۔ایک وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ اور خواہش میں آزادی پسند ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اس کے خیالات اور اعتقادات زنجیر میں جکڑے ہوئے نہ ہوں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جھوٹ میں ایک طرح کا دلفریب حُسن ہے۔جس طرح کوئی تصویر حقیقت سے زیادہ خوش نما دکھائی دے سکتی ہے ایسے ہی جھوٹ کبھی کبھی حقیقت سے زیادہ دلکش محسوس ہوتا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو سچائی انسانی روح کے لیے سب سے بڑی بھلائی ہے۔یہ وہ روشنی ہے جسے خدا نے انسان کے دل میں رکھا ہے تا کہ وہ راہِ ہدایت پر قائم رہے۔اگر انسانوں کے درمیان معاملات کو دیکھا جائے تو سچائی سے بڑھ کر کوئی چیز بھروسے کے قابل نہیں۔ایک قوم یا معاشرہ اسی وقت ترقی کرتا ہے جب اس کی بنیاد سچائی پر رکھی گئی ہو۔

جھوٹ وقتی طور پر کسی کو فائدہ دے سکتا ہے مگر طویل عرصے میں یہ تباہی کا سبب بنتا ہے۔سچائی انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے کیونکہ خدا خود سچائی ہے۔جھوٹ شیطان کی صفت ہے کیونکہ وہ ابتدا ہی سے جھوٹا اور دھوکادینے والا فریب کار رہا ہے۔پس سچائی کو ماننا اور اس پر قائم رہنا انسان کی فطرت کو بلند کرتا ہے۔سچائی روح کے لیے نور ہے۔ معاشرے کے لیے امن اور مذہب کے لیے تقویٰ ہے ،جو انسان سچائی کو اختیار کرتا ہے وہ گویا صاف روشنی میں چل رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • توجہ کا اندھا پن
  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • 22ستمبر: عظیم اسلامی مفکر، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا 46واں یوم وفات
  • ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع
  • چین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ
  • فلم “731” لوگوں کو کیا بتاتی ہے؟
  • شہید ارتضیٰ عباس کو خراجِ عقیدت؛ معرکۂ حق میں عظیم قربانی کی داستان
  • مظفرآباد، مرکزی جامع مسجد میں عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور