عظیم کامیڈین ’لہری‘ جو آج بھی دلوں میں زندہ ہیں
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
ہنسی انسان کے غموں کا سب سے سچا علاج ہے۔ وہ آواز جو دل کے اندھیروں کو اجالا دے، جو تھکے ہوئے وجود کو پل بھر میں زندگی کا احساس دلا دے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ خوشبو، یہ روشنی اور یہ جادو جس شخصیت کے نام رہا، وہ ہیں لہری، یعنی سفیر اللہ صدیقی۔
آڈیشن کا لمحہ: خاموشی کا طوفان
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ اپنا سب سے قیمتی ہنر پیش کریں، اور جواب میں صرف سناٹا ملے؟ یہی ہوا لہری کے ساتھ، ایک نوجوان، خوابوں اور امیدوں سے بھرا ہوا، پہلی بار فلمی آڈیشن کے لیے کیمروں کے سامنے آیا۔ اس نے اپنے مشہور لطیفے ’مریضِ عشق‘ سے آغاز کیا۔ مگر ہوا یہ کہ پورا آڈیٹوریم خاموشی میں ڈوبا رہا۔ نہ کوئی مسکراہٹ، نہ کوئی قہقہہ۔ ہدایتکار اور کیمرا مین کے چہرے سپاٹ تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جو کسی بھی فنکار کو توڑ سکتا ہے۔ لیکن شاید اسی لمحے تقدیر نے فیصلہ کیا کہ یہ فنکار دنیا کو صرف قہقہے ہی نہیں، بلکہ صبر، استقامت اور حوصلے کا سبق بھی دے گا۔
اسٹیج کا شہزادہ
پچاس کی دہائی کے کراچی میں جب تھیٹر اپنے عروج پر تھا، ایک نام ہر ڈرامے کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اور وہ تھا لہری۔ وہ ایک جملے سے پورے ہال کو ہنسا دیتے۔ ان کے مکالموں میں کبھی شور شرابہ نہیں ہوتا، کبھی پھکڑ پن نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی سادگی ہی ان کا جادو تھی۔ ہر شو کے بدلے ملنے والے 30 روپے ان کے لیے بہت تھے۔ مگر شادی کے بعد ذمہ داریوں نے دروازے کھٹکھٹائے۔ وہ سمجھ گئے کہ وقت نے انہیں ایک بڑی دنیا کی طرف دھکیل دیا ہے۔
فلمی دروازے کی دستک
آرٹسٹ ابو شاد نے انہیں فلمی دنیا کا راستہ دکھایا۔ فلم کے ہدایتکار او پی دتہ بھارت سے آئے تھے اور ہیروئن کا نام شیلا رمانی تھا۔ یہ موقع کسی خواب سے کم نہ تھا۔ لہری نے ابتدا میں انکار کیا، لیکن ابو شاد کی ضد کے آگے جھکنا پڑا۔ یوں وہ فلم کی دہلیز پر پہنچ گئے۔
ڈائریکٹر کا سوال، برجستہ جواب
اسٹوڈیو کا پہلا دن، دل میں ہزاروں امیدیں۔ مگر ڈائریکٹر کا پہلا سوال گویا بجلی بن کر گرا۔
’کیا بیچتے ہو؟‘
لہری نے لمحہ ضائع کیے بغیر کہا:
’میں کچھ نہیں بیچتا، عجیب لگے گا کہ آپ کھانا کھا رہے ہوں اور میں کچھ بیچوں۔‘
یہ جملہ قہقہہ مانگ رہا تھا، مگر کمرے میں اب بھی خاموشی چھائی رہی۔ لہری سمجھ گئے کہ شاید یہ سفر یہیں ختم ہو جائے گا۔
قسمت کی مسکراہٹ
لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ تین دن بعد ایک شخص خوشخبری لے کر آیا لہری کا انتخاب ہو چکا تھا۔ انہیں 3 ہزار روپے کی پیشکش ملی۔ یہ رقم اسٹیج کے برسوں کی کمائی سے کہیں بڑھ کر تھی۔ لہری نے اسٹیج کو الوداع کہا اور فلمی دنیا کو اپنا نیا گھر بنا لیا۔
انوکھی: پہلا امتحان
پہلی فلم کا نام تھا “انوکھی” اداکارہ شیلا رمانی اس فلم میں دہرے کردار نبھا رہی تھیں۔ فلم ناکام رہی، مگر لہری کے مختصر کردار نے سب کو حیران کر دیا۔ ان کی بے ساختہ اداکاری نے یہ ثابت کردیا کہ وہ پردے پر بھی وہی جادو بکھیر سکتے ہیں جو اسٹیج پر کرتے تھے۔
کامیابی کی سنہری راہیں
یہ فلم لہری کی اصل کامیابی کی شروعات تھی۔ ’رات کی راہی‘ اس کے بعد کی فلم تھی۔ ان کی شوخی، ان کی معصوم جملہ بازی، اور ان کی شائستگی نے انہیں ہر دل عزیز بنا دیا۔ پھر ایک ایسا سفر شروع ہوا جو پاکستان کی فلمی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ 200 سے زیادہ فلمیں، ہر کردار میں نیا رنگ، اور کامیڈی کی ایک ایسی دنیا جس میں کبھی بازاری پن نہ آیا۔
لہری کو 12 مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایک ایسا ریکارڈ جو آج بھی ان کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ ’دامن‘، ’پیغام‘، ’کنیز‘، ’صاعقہ‘، ’لیلیٰ مجنوں‘، ’انجمن‘، ’دل لگی‘ اور ’نیا انداز‘ جیسے شاہکار انہی کی وجہ سے چمک اٹھے۔
بیماری کا سایہ
لیکن زندگی ہمیشہ قہقہوں کی طرح روشن نہیں رہتی۔ 1983 میں سری لنکا میں شوٹنگ کے دوران پہلا فالج کا حملہ ہوا۔ پھر بیماریوں نے گھیر لیا، جسم کمزور ہو گیا مگر یادوں اور فن کی طاقت کبھی مدھم نہ ہوئی۔ اور پھر 13 ستمبر 2012 کو وہ خاموشی سے رخصت ہو گئے، مگر اپنے پیچھے مسکراہٹوں کا خزانہ چھوڑ گئے۔ ان کی معصوم مسکراہٹیں، ان کے دلنشین لطیفے آج بھی زندہ ہیں۔ لہری ہمیں یہ سبق دے گئے کہ فن کا مقصد صرف ہنسانا نہیں بلکہ تہذیب کو جِلا دینا ہے۔ قہقہہ وہی ہے جو دل کو سکون دے اور دکھ کو بھلا دے۔ ان کی زندگی ایک چراغ ہے جو یہ سکھاتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو اور جذبہ سچا ہو تو سناٹا بھی قہقہوں میں بدل سکتا ہے۔ وہ چلے گئے مگر اپنے پیچھے ہنسی کی ایسی وراثت چھوڑ گئے جو وقت کی دھول سے کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ وہ ہمارے دلوں کے ہمیشہ کے مکین ہیں، ایک ایسی یاد جو جتنا پرانی ہو اتنی ہی حسین لگتی ہے۔ لہری صرف ایک فنکار نہیں تھے، وہ پاکستان کی ہنسی کی تاریخ ہیں۔ ان کے قہقہے آج بھی دلوں کو مسکراتے ہیں اور رہتی دنیا تک مسکراتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
wenews آڈیشن دلوں میں زندہ عظیم کامیڈین لہری وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ڈیشن دلوں میں زندہ عظیم کامیڈین لہری وی نیوز
پڑھیں:
کبھی کبھار…
’’ نہیں مامون… ایسا نہیں ہے، آپ سے زیادہ کون پیارا ہو سکتا ہے مجھے؟‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی کان پوری طرح اس طرف مرکوز ہو گئے جہاں وہ خوبصورت سی نوجوان لڑکی، اس آدمی کو اپنے پیار کا یقین دلا رہی تھی۔’’ مجھے کوئی شک نہیں ہے تمہارے پیار میں اور تم بھی جانتی ہو میری پیاری کہ میں تمہیں دنیا میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں ۔‘‘ جواب میں بھی ایسی ہی چاہت کا اظہار کیا گیا۔ اگر ایسا تھا تو پھر مسئلہ کیا تھا، دونوں کے لہجے چغلی کھا رہے تھے کہ ان کے بیچ کوئی مسئلہ ہوا ہے اور انھیں اس محبت پر شک ہو گیا ہے جس کا وہ ایک دوسرے کو یقین دلا رہے تھے۔ اپنی توجہ اپنے کھانے پر مرکوز کی، بصد کوشش۔
’’ ہر گز نہیں… ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ اس آدمی نے سختی سے کہا، ’’عینی، تم ہر گز بل نہیں دو گی۔‘‘
’’ نہیں مامون، پلیز… اس بار مجھے بل ادا کرنے دیں۔‘‘ اس نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
’’ تم سمجھتی ہو کہ تمہارے پاس ڈالر ہیں اس لیے تم مجھ سے زیادہ امیر ہو، رہنے دو اپنی دولت کا رعب۔‘‘ اس نے اس کے ہاتھ سے اس کا کارڈ لے لیا، ’’ چلو اس کے بعد کہیں سے اچھی سی آئس کریم کھاتے ہیں، اس کا بل تم دے دینا۔‘‘ اس کے کہنے پر لڑکی نے اصرار کرنا چھوڑ دیا اور بل کی ادائیگی کا انتظار کرنے لگی۔ بل ادا کر کے وہ دونوں آگے پیچھے باہر نکل گئے اور ہم پھر اپنا کھانا کھانے لگے۔’’کتنا اچھا لگتا ہے نہ کبھی کبھار میاں بیوی کا یوں آپسیں محبت کا اقرار کرنا،یہ بھی ایک ٹانک ہے‘‘ ۔ ایک سہیلی نے کہا، ’’ نہ صرف یہ بلکہ یوں اس طرح کے ماحول میں، گھر سے باہراچھی جگہ پر کھانا کھاتے ہوئے۔‘‘
’’ ذرا اوچھا سا لگا مجھے…ٹانک کے بجائے ناٹک کہو تو زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘ دوسری رائے آئی، ’’ اگر ناراض تھے تو پہلے گھر پر صلح کر کے پھر کھانا کھانے آتے نا۔‘‘
’’ بھئی ہماری اور ان کی عمروں کا فرق ہے، نیا زمانہ ہے اورنئے طور طریقے۔‘‘ ایک اور رائے۔
’’ میں تو یوں میاں سے ناراض ہوتی تو اس کے ساتھ باہر کھانا کھانے آتی ہی نا۔‘‘ پہلے والی کی دوسری رائے۔
’’ ہاں، سو تو ہے۔ پہلے گھر پر میاں منا لے تو ہی بندہ گھر سے نکلے نا کہ کہیں دوبارہ باہر لڑائی ہو جائے، بات بڑھ جائے تو سارا کھانا تو گیا بھاڑ میں۔ پبلک میں کوئی نیا سین ہو جائے… بات ادھوری ہی رہ گئی ، وہ واپس آ رہی تھی جسے مامون نے تھوڑی دیر پہلے عینی کہا تھا۔ لگا کہ وہ ہمارے پاس ہی آ رہی تھی کیونکہ وہ ہمارے ساتھ والی میزپر ہی تو بیٹھے تھے۔ لگتا ہے کہ باہر نکل کر پھر لڑائی ہوگئی ہے، میںنے دل میں سوچا تھا۔ آئس کریم بھی نہیں کھائی ہو گی۔
’’ السلام علیکم!‘‘ اس نے ہماری میز کے قریب آ کر کہا، ہم سب نے سلام کا جواب دیا تھا۔ اس میز کی طرف گئی جہاں انھوں نے کھانا کھایا تھا۔ وہ کچھ ڈھونڈ رہی تھی، نہ ملا تو وہ کاؤنٹر کی طرف گئی، وہاں سے بھی مایوس ہو کر آئی اور ہماری میز کے نیچے جھانکنے لگی۔’’ کچھ ڈھونڈ رہی ہیں بیٹا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ ’’ وہ میرے ماموں کا بٹوہ کہیں گر گیا ہے… ‘‘ اس نے پریشانی سے کہا، ’’ انھوںنے بل ادا کرنے کے لیے نکالا تھا اور اسی دوران وہ گر گیا، کارڈ لے کر وہ نکل گئے اور بٹوہ یہیں رہ گیا۔’’ کس کا بٹوہ بیٹا؟‘‘ ہم نے جو سنا تھا اس کی تصدیق کے لیے ایک نے پوچھا تھا۔
’’ میں اور میرے ماموں ، ہم تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں پر کھانا کھا رہے تھے…‘‘ اس کی بات ہو ہی رہی تھی کہ ایک ویٹر بھاگتا ہوا آیا اور اس کے ماموں کا بٹوہ اس کے حوالے کیا۔ بٹوہ اس ٹرے میں گر گیا تھا جو ویٹر اٹھا کر لے گیا تھا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور اس نے بٹوہ کھول کر ہزار روپے کا ایک نوٹ نکالا کہ ویٹر کو دے مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ ’’ بہت شکریہ بھائی!‘‘ اس نے مسکرا کر کہا اور ہم سب کو خدا حافظ کہہ کر ہمارے منہ کھلے ہوئے چھوڑ کر چلی گئی۔ ماموں یقینا گاڑی میں اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔
’’ واؤ!!‘‘ ایک آواز نکلی تو ہمارے منہ بند ہو گئے، ’’ ماموں !!‘‘ جسے ہم مامون سمجھ رہے تھے وہ ماموں نکلے تھے۔ ہم کہاں سوچتے ہیں کہ ایک ہوٹل میں بیٹھے دو لوگ جو کھانا کھا رہے ہوں، وہ میاں بیوی کے علاوہ کوئی اور بھی ہو سکتے ہیں۔عورتیں بھی اپنے شوہروں کے علاوہ اپنے باپ، ماموں، چچا اور تایا، بھائی ، بیٹے ، داماد، بھانجے یا بھتیجے کے ساتھ باہر کھانے پر چلی جائیں ، کبھی کسی پکنک پر، کسی پارک میں، کبھی فلم دیکھنے۔ یہ کوئی ایسی معیوب بات ہے نہ مشکل کہ ممکن نہ ہو۔ اس چھوٹے سے واقعے نے ہم سب کے ذہنوں پر ایک نیا در وا کیا تھا اور ہم نے سوچا تھا کہ اپنے شوہروں کو بتائیں گی کہ ایسا ہونا کتنا مختلف اور اچھا ہے۔ صرف اس طرح کی ملاقاتوں اور تفریح میں خیال رکھیں کہ آپ کسی نامحرم کے ساتھ کہیں تنہا نہ جائیں۔