پاک، سعودی مشترکہ دفاع، ذمے داری بڑھ گئی ہے
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
پاکستان اور سعودی، عرب مشترکہ دفاعی معاہدے میں بندھ گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کے عالمی امور میں اب تک کے رویے کے تناظر میں یہ پیش رفت غیر متوقع ہے۔
اس سلسلے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگوں اور باہمی چپقلش کی تاریخ رکھنے والے عرب ممالک کی حکومتوں اور تھنک ٹینکس نے کبھی ایسی صورت حال پیدا ہو جانے کے امکان پر غور نہ کیا ہو گا کہ اگر اسرائیل نے فلسطین میں ظلم و ستم اور مارا ماری سے آگے بڑھتے ہوئے عرب ملکوں میں سے کسی ایک کو نشانہ بنایا تو ایسی صورت میں سرمایہ کاری اور عالمی امور میں عرب ممالک کا سب سے قریبی ساجھے دار امریکا کیا رویہ اختیار کرے گا؟ عالمی سیاست کے تناظر میں تمام ریاستیں ایسے امکانات کا بھی جائزہ لیتی ہیں جن کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہوتا۔ پ
اکستان کی نئی نسل میں کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو گی کہ ہمارے خطے میں برصغیر کی تقسیم کے بعد چین اور بھارت آپس میں نہایت قریب تھے۔ آزادی کے ابتدائی سالوں میں پنڈت نہرو کے دور میں یہاں ’ہند‘ چینی بھائی بھائی‘ کے نعرے سننے کو ملتے تھے۔
پاکستان کے پہلے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کو پاک بھارت مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی، جس کے جواب میں پنڈت نہرو نے پوچھا تھا۔ ’’ہمارا یہ عسکری اتحاد کس کے خلاف ہو گا؟ یوں یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ بعد میں جب پاکستان نے 1963میں شکسم ویلی ( Shaksgam Valley)کا وہ علاقہ چین کے حوالے کر دیا جس پر چین کا دعویٰ تھا تو صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ چین اس سمیت بہت بڑے علاقے پر دعویٰ کرتا ہے جس کا زیادہ تر حصہ بھارت کی چین سے مُتصل سرحد پر واقع ہے۔
اس کے بعد بھی ایسے ادوار آئے ہیں جب چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں وقتی سرد مہری پیدا ہوئی لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور چین کو عالمی سیاست میں اکٹھے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ریاستوں کے ریاستوں کے ساتھ تعلقات باہمی مفادات کے توازن کے ساتھ پنپتے اور ترقی کرتے ہیں۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہ امکان کبھی زیر غور آیا ہی نہیں ہو گا کہ فلسطین اسرائیل تصادم سے ہٹ کر اگر اسرائیل کا ٹکراؤ کسی عرب ملک کے ساتھ ہوا تو امریکا کس کا ساتھ دے گا۔ یقیناً اس کا جواب یہی ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو عربوں کے رحم و کرم پر نہ کبھی چھوڑا اور نہیں ہی کبھی چھوڑے گا۔
اب جب اسرائیل نے قطر کو نشانہ بنایا ہے تو ایک طرح سے یوں کہنا چاہیے کہ وہ نازک سا توازن درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے جسے عرب ممالک نے امریکا کو غیر معمولی سہولتیں اور فائدے پہنچا کر قائم کر رکھا تھا۔ وہ عرب اور افریقی ریاستیں جو کبھی اسرائیل کے خلاف متحد ہو کر جنگیں کرتی رہی ہیں، اب کھل کر فلسطین کی حمایت کرنے سے بھی ہاتھ کھینچ چکی تھیں۔ خلیجی ریاستیں امریکا میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکی ہیں جب کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک ان ملکوں کے سب سے بڑے تجارتی ساتھی ہیں۔
موجودہ صورت حال کے حوالے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ عرب ملکوں کو اپنے انتہائی فرمانبرداری پر مبنی رویے اور امریکی یقین دہانیوں کی بنیاد پر اس بات کا پختہ یقین تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اسرائیل عرب ملکوں کے خلاف کوئی عملی قدم کبھی نہیں اٹھائے گا، کیونکہ عرب ملک اسرائیلی بربریت کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں کو اسرائیل کی اجازت سے خوراک اور ادویات فراہم کرنے سے بڑھ کر کچھ کرنے سے پوری طرح سے ہاتھ اٹھا چکے تھے۔ لیکن نہ صرف یہ کہ یہ انہونی رونما ہو گئی بلکہ اسرائیل نے یہ بھی بتا دیا کہ قطر پر حملہ کی پیشگی اطلاع امریکا کو دے دی گئی تھی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح کی ناگوار صورت حال اور بدمزگی کا سامنا سعودی عرب کو قطر پر حالیہ ہوائی حملوں اور امریکی رویے کے حوالے سے کرنا پڑ رہا ہے اس سے ملتی جلتی صورت حال سے پاکستان کو بھی گزرنا پڑا ہے۔ پاکستان ماضی میں امریکا کے سب سے قریبی اتحادیوں میں شامل رہا ہے۔ پاکستان امریکی دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو کا حصہ رہا اور بعد میں افغان جہاد میں اسے امریکا کا سب سے قریبی Non Nato Ally (غیر نیٹو اتحادی) ہونے کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل رہا، لیکن اس ساری قربت کا نتیجہ کبھی پاکستان کے حق میں نہیں آیا۔
سرد جنگ کا تمام عرصہ پاکستان نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست میں کلیدی کردار ادا کیا، لیکن حاصل حصول کچھ نہیں، اُلٹا اس ساری سرگرمی نے پاکستان کو کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے۔ ادھر بالکل سعودی عرب سے متصل قطر پر اسرائیلی حملوں کے بعد سعودی عرب بھی اسی طرح کی ناگوار صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔
حالیہ امریکی رویے نے سعودی عرب کی آنکھیں کھول دیں کہ دفاع کے لیے امریکا پر انحصار کا مطلب اسرائیل سے تحفظ ہر گز نہیں، تو اگر تحفظ جامع نہیں تو پھر وہ کیا تحفظ ہے۔ امریکا کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں بلکہ اس کی تاریخ بہت پرانی اور مثالیں حیرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا پاکستان کو کوئی ’اسٹیٹ آف دی آرٹ‘ ہتھیار بیچتے ہوئے یہ پابندی لگا دے گا کہ اس کا استعمال بھارت کے خلاف نہیں کیا جائے گا۔
انڈیا کے ساتھ حالیہ برسوں میں ہونے والی فضائی جھڑپوں میں ایف16 طیاروں کے حوالے سے ایسی پابندیوں کے دعوے سننے میں آئے تھے۔ لہٰذا سعودی عرب نے یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی کہ اگر سعودی ریاست کو تحفظ صرف ان ملکوں سے فراہم کیا جائے گا جنھیں امریکا پسند نہیں کرتا تو پھر ایسے لولے لنگڑے تحفظ سے بہتر ہے کہ اس سے کم تر درجے کا مکمل تحفظ حاصل کرلیا جائے۔
اس حوالے سے چند اور باتیں بھی قابل غور ہیں۔ چین کے ساتھ انتہائی قریبی عسکری اور سیاسی تعلقات کے باوجود مشترکہ دفاع کا کوئی معاہدہ پاکستان اور چین کے درمیان موجود نہیں، حالانکہ خطے میں بھارت کی شکل میں ایک مشترکہ دشمن بھی موجود ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جو مختصر تصادم ہوا، اس کے نتائج نے بھی پاک سعودی معاہدے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
تاریخ انسانی میں یہ بات اپنی حقیقت کو منواتی رہی ہے کہ جب دنیا میں تبدیلی کی ہوا چلتی ہے تو واقعات اس تبدیلی کے حق میں کچھ اس انداز میں رونما ہونے لگتے ہیں جیسے کوئی برتر قوت ایک منصوبے کے تحت انھیں برپا کر رہی ہے، اور ہم مسلمان تو اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں رب تعالی کی حکمت کا مظہر ہوتی ہیں۔ پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی ناقابل یقین یک طرفہ شکست نے دنیا میں طاقت کے ایک نئے توازن کو جنم دے دیا ہے جس کے زیر اثر پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر تاثر بھی یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔
ریاستوں کے لیے پیدا ہونے والے مواقع محض مستقبل میں بہتر حالات کی نوید نہیں لاتے، یہ احساس ذمے داری میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ بوجھ بڑھ جاتا ہے، توقعات بڑھ جاتی ہیں، اور پھر لازم ہو جاتا ہے کہ اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلا جائے۔ پاکستان کے موجودہ اندرونی حالات پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ انھیں درست کرنے کی ضرورت جس قدر بھارت سے جنگ سے پہلے تھی، آج سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے کے بعد اس سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اپنے اندرونی معاملات کو درست کرنے کے لیے ایک لمحے کی بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مشترکہ دفاع پاکستان کے صورت حال کے حوالے حوالے سے یہ ہے کہ کے ساتھ کے خلاف کہ دفاع کے بعد
پڑھیں:
سعودی عرب سے دفاعی معاہدے کی خفیہ شرائط نہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اسٹریٹجک دفاعی معاہدے میں کوئی خفیہ یا ذیلی شق شامل نہیں، یہ ایک شفاف اور دوٹوک معاہدہ ہے جس کے تحت کسی ایک ملک پر بیرونی جارحیت کو دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہا کہ خطے کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں اس معاہدے کا دائرہ کار دوسرے خلیجی ممالک تک بھی پھیل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جی سی سی کے رکن ممالک میں سے کوئی ایسا اشارہ دیتا ہے تو پاکستان ان کو بھی معاہدے میں شامل کرنے پر غور کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ قدرتی امر ہے کہ خطے کے ممالک اپنی سیکیورٹی کے لیے میلوں دور کسی دوسرے ملک پر انحصار کرنے کے بجائے اُس خودمختار ملک کی طرف دیکھیں جس کے پاس ان کے تحفظ کی صلاحیت اور اہلیت موجود ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں سعودی عرب کے لیے بھی مددگار ہوں گی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس معاہدے کا مقصد جارحیت نہیں بلکہ باہمی دفاع ہے۔ “ہماری تاریخ میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال صرف ہیروشیما پر ہوا تھا، دنیا اُس سانحے کے بعد محفوظ رہی ہے اور اُمید ہے آئندہ بھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی،” وزیر دفاع نے کہا۔
مزید پڑھیں:
ایک اور انٹرویو میں جیو ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ یہ معاہدہ خطے میں جاری جنگوں اور کشیدگی کے تناظر میں مسلم ممالک کا بنیادی حق ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت کے لیے مل کر کھڑے ہوں۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعلقات پرانے ہیں، پاکستانی افواج سعودی افواج کی تربیت کرتی رہی ہیں، اور حالیہ معاہدہ ان تعلقات کو باضابطہ شکل دینے کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الجزیرہ خواجہ آصف دفاعی معاہدہ سعودی عرب وزیر دفاع