Jasarat News:
2025-11-05@01:32:29 GMT

امن اور انسانیت دشمن امریکا!

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ کے علاقے میں محصور، مجبور اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملے پوری شدت سے جاری ہیں۔ درندہ صفت صہیونی فوج نے تازہ حملوں میں غزہ کے 98 فلسطینی شہید کر دیے، 385 فلسطینی زخمی ہو گئے، مسجد شہید اور رہائشی عمارتیں تباہ کر دیں۔ عرب میڈیا کے مطابق صہیونی فوج نے الشفا اسپتال کے قریب بمباری کی جس میں 19 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، اسرائیلی فوج نے ال اہلی اسپتال کے قریب بھی بمباری کی جہاں 4 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا، غزہ شہر میں بمباری سے مسجد سمیت متعدد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ ایک روز میں 98 فلسطینی اسرائیلی فوج کی دہشت گردی کا نشانہ بنے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہداء کی مجموعی تعداد 65 ہزار کا ہندسہ عبور کر گئی۔ مقامی رہائشیوں اور عینی شاہدین کے مطابق درجنوں اسرائیلی ٹینک اور فوجی گاڑیاں غزہ شہر کے ایک بڑے رہائشی علاقے میں داخل ہو گئے ہیں، یہ اسرائیل کی زمینی کارروائی کے دوسرے دن کی پیش رفت ہے جس کا مقصد علاقے پر قبضہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ مزید چار افراد غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار گئے، جس کے بعد اگست کے آخر میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ادارے کی جانب سے غزہ شہر میں قحط کا اعلان کیے جانے کے بعد سے غذائی قلت سے ہونے والی اموات کی کل تعداد 154 ہو گئی ہے۔ غزہ شہر سے سامنے آنے والی ویڈیو فوٹیج میں ٹینک، بلڈوزر اور بکتر بند گاڑیاں شیخ رضوان کے علاقے کے کناروں پر حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ایسے میں مختلف اقدامات ایسے بھی کیے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے علاقے میں اسرائیلی فوج کی پیش قدمی کو چھپایا جا سکے۔ سیودی چلڈرن اور آکسفیم سمیت 20 سے زائد بڑی امدادی تنظیموں کے سربراہان نے خبر دار کیا ہے کہ غزہ کی صورت حال کی غیر انسانی نوعیت ناقابل برداشت ہے۔ دوسری جانب چین اور سعودی عرب نے اسرائیلی فوجی آپریشن میں توسیع کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ایک جانب یہ صورت حال ہے کہ انسانیت سسک رہی ہے اور پوری دنیا کے زندہ ضمیر لوگ اسرائیلی سفاکیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں مگر دوسری جانب امریکا کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرار داد ایک بار پھر ویٹو کر دی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکا نے جنگ کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنایا ہو بلکہ سلامی کونسل میں پیش کی جانے والی غزہ میں جنگ بندی کی یہ چھٹی قرار داد ہے جسے امریکا نے یک طرفہ طور پر ویٹو کیا ہے اور یہ ویٹو اس کیفیت میں کیا گیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ ارکان نے قرار داد کی حمایت میں ووٹ دیا اور قرارداد کی مخالفت میں واحد فیصلہ کن ویٹو ووٹ امریکا کا تھا۔ امریکی ویٹو کے باعث غیر موثر اور مسترد قرار پانے والی اس قرار داد میں غزہ میں فوری طور پر غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقے میں امدادی سامان کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں ختم کرے۔ یہ قرار داد سلامتی کونسل کے 15 میں سے 10 غیر مستقل رکن ممالک نے پیش کی تھی جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ امریکا کے اس اقدام پر کئی ممالک نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی مندوب مورگن اور ٹاگس نے کہا کہ امریکا اس ناقابل قبول قرار داد کو مسترد کرتا ہے اور حماس سے فوری یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ امریکی نمائندے نے نہایت شرمناک طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکا اپنے شراکت داروں سے مل کر اس خونریز تنازعے کے خاتمے کے لیے کام جاری رکھے گا۔ معلوم نہیں سفاک اور درندہ صفت اسرائیل کے علاوہ کون سے شراکت دار ہیں جن سے مل کر امریکا خونریز تنازعے کے خاتمے کا دعویدار ہے جب کہ سامنے کی حقیقت تو یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور دس غیرمستقل ارکان میں سے چودہ نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا اور صرف امریکا نے اس کی مخالفت کی گویا ساری دنیا ایک طرف ہے اور صرف امریکا پوری دنیا کے مقابل کھڑا اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس ساری صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے غزہ میں جنگ بندی کا راستہ روکنے والے امریکا کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے دیگر خطوں میں جنگیں بند کروانے کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتا اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح صدر ٹرمپ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کروانے کا بھی دعوے دار ہے۔ وہ یوکرین اور روس میں جاری جنگ رکوانے کے لیے کوششوں کا کریڈٹ لینے کا بھی شدت سے خواہاں ہے یہی نہیں وہ اپنی اس امن پسندی کے صلہ کا بھی دنیا سے ’’نوبل امن انعام‘‘ کی صورت میں طلب گار ہے اور پاکستان جیسے بعض ممالک معلوم نہیں کن دلائل کی بنیاد پر اس کی غزہ میں مسلمانوں کی خونریزی اور نسل کشی کی سرپرستی جیسے سفاکانہ اور امن دشمن اقدامات کو نظر انداز کر کے اسے ’’نوبل امن انعام‘‘ دیے جانے کی تائید و حمایت پر کمر بستہ ہیں! دریں اثنا اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی کے شکار اہل فلسطین خصوصاً بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’کراچی چلڈرن غزہ مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا مارچ میں شہر بھر سے نجی و سرکاری اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی اور لبیک یا اقصیٰ کے نعرے لگا کر غزہ کے نہتے مظلوم بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، لبیک لبیک اللھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونجتی رہی ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی و جارحیت سے 97 فی صد اسکول اور 90 فی صد اسپتال تباہ کیے جا چکے ہیں، صحافیوں اور نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد پر بمباری کی گئی۔ اقوام متحدہ پوری دنیا میں عضو معطل بن چکی ہے ، اس کی قرار دادوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اسرائیل کو امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جب کہ مسلم دنیا کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں، اب تک 22 ہزار سے زائد بچے شہید اور 42 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، انسانی حقوق کی بات کرنے والا امریکا فلسطین میں انسانیت کے قتل عام کی سرپرستی اور پشت پناہی کر رہا ہے امیر جماعت اسلامی نے چلڈرن مارچ سے خطاب میں بجا طور پر اقوام متحدہ کی بے عملی اور امریکا کی دو عملی کی جانب عالمی ضمیر کو متوجہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ایک جانب عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے مسلسل مختلف سطحوں پر احتجاج منظم کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطین کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں کی عملی مدد کے لیے بھی ’الخدمت‘‘ کے ذریعے ہمہ تن مصروف عمل ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی مسلمانوں کی مدد صرف جماعت اسلامی کی ذمے داری ہے دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں اس معاملہ میں بری الذمہ ہیں؟ کیا غزہ کا جہاد فرض کفایہ ہے کہ صرف جماعت اسلامی کے متحرک ہونے سے دیگر پوری قوم سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا؟؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیلی فوج جماعت اسلامی علاقے میں کرتے ہوئے دنیا کے نے والی ہے اور کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

صدر ٹرمپ پاکستان کو کیا سمجھتے ہیں؟ دوست یا دشمن؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-6
وجیہ احمد صدیقی
جیسا کہ خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ اچانک یوٹرن لے لیں گے اور یہی ہوا پہلے تو وہ پاکستان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب صدر ٹرمپ کے حالیہ سی بی ایس ’’60 منٹس‘‘ انٹرویو میں پاکستان پر جوہری ہتھیاروں کے خفیہ زیر زمین تجربات کے الزامات عالمی منظرنامے پر پاکستان کی جوہری پالیسی اور اس کے عالمی تعلقات کو ایک نئی بحث کے دائرے میں لے آئے ہیں۔ اس تجزیے میں صدر ٹرمپ کے رویے کی تبدیلی کی وجوہات، امریکی بھارت یکجہتی کے امکانات، پاکستان کے جوہری پروگرام کی دفاعی نوعیت، اور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی حکمت عملی پر روشنی ڈالی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کا رویہ اور اس کی ممکنہ وجوہات صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے جوہری پروگرام پر الزامات اور ان کا امریکا کے 33 سالہ جوہری تجربات کی پابندی کو ختم کرنے کے حق میں بیانیہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں ان کی بھارت کے قریب ہونے کی صورت حال نے ایک قسم کی امریکی کے بھارت کی طرف جھکاؤ کی نشاندہی کی ہے۔ بھارت اور امریکا کے تعلقات حالیہ برسوں میں مضبوط ہوئے، خاص طور پر تجارتی، دفاعی اور سیکورٹی تعاون میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے خلاف امریکا کی جانب سے سخت بیانات سامنے آتے ہیں۔ جیو پولیٹیکل تبدیلیاں، کچھ اس طرح سے سامنے آئی ہیں کہ مصنوعی طور پر بھارت کو خطے کی ایک علاقائی طاقت ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اسے چین کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکے۔ جبکہ معاشی طور پر بھارت کی ایک ارب آبادی میں 85 کروڑ افراد ایسے ہیں جن کو بھارتی حکومت ماہانہ پانچ کلو راشن دیتی ہے۔ بھارت پاکستان اور چین سے مقابلے کے لیے ان 85 کروڑ افراد کا پیٹ کاٹ کر خطے کی طاقت بننے کی کوشش میں مصروف ہے اور امریکا صرف چین کے ساتھ مخاصمت میں بھارت کی سرپرستی کر رہا ہے بھارت میں مسلسل کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے اس کے اپنے اندر کئی ریاستیں اس سے آزاد ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ امریکا کو ان ریاستوں کی آزادی کے لیے کوشش کرنا چاہیے نہ کہ بھارت کو مصنوعی طور پر چین کے سامنے کھڑا کرنے کی۔ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن میں امریکا کی حکمت عملی کا مرکزی کردار ہونے کے باعث ٹرمپ کا یہ موقف ایسی پیچیدگیوں کا مظہر ہے۔ علاوہ ازیں، امریکی اندرونی سیاسی کلچر بھی بعض اوقات سخت قومی سلامتی کے بیانات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے، جس سے اس قسم کے بیانات کا نظریہ مزید تقویت پاتا ہے۔

پاکستان کا جوہری پروگرام بنیادی طور پر دفاعی اور مزاحمت کی حکمت عملی پر مبنی ہے۔ 1974 میں بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد سے پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو گہری سنجیدگی سے لیا ہے۔ پاکستان نے کئی بار عالمی اداروں کو قائل کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ یہ پروگرام ایک جامع قانونی اور ادارہ جاتی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے، جس میں جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور استعمال کی سخت ترین شرائط شامل ہیں۔ پاکستان نے اپنے دفاعی اسلحہ کی حفاظت کے لیے جدید ترین سیکورٹی میکانزم نافذ کیے ہوئے ہیں، تاکہ جوہری ہتھیاروں کا غلط استعمال یا دہشت گردوں کے ہاتھ لگنا ممکن نہ ہو۔ اس حوالے سے پاکستان کی شفافیت اور ذمے داری کی عالمی سطح پر بھی تعریف کی جاتی ہے۔ عالمی تناظر اور پاکستان کی سفارتی حکمت عملی پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی پاسداری کو اہمیت دی ہے اور اپنی جوہری صلاحیتوں کو صرف دفاعی موقف کے طور پر پیش کیا ہے۔ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششیں قابل قدر ہیں، جس میں مسلسل بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی یہ حکمت عملی خطے میں طاقت کے نازک توازن کو برقرار رکھنے میں معاون ہے۔ عالمی سطح پر امریکی موقف کے برخلاف پاکستان نے اپنی جوہری صلاحیت کو مسلم دنیا کے دفاع اور علاقائی سلامتی کے لیے ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر دیکھا ہے۔ وزیر خارجہ اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی طرف سے بھی یہ واضح کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی ہے۔ پاکستان نے کئی مواقع پر مشترکہ مسلم عالمی سیکورٹی فورس کے قیام کا اصولی اظہار کیا ہے، جو امن کی خاطر کام کر سکے۔ پاکستان کے اگلے اقدامات اس پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے حق کو مضبوطی سے بیان کرے۔ اس کے لیے چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:

شفافیت اور اعتماد سازی: پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھائے اور اپنی جوہری صلاحیتوں پر شفافیت کا مظاہرہ کرے تاکہ عالمی برادری کا اعتماد حاصل ہو۔ دفاعی تعلقات کو مستحکم کرنا: پاکستان کو اپنے دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کرتے ہوئے سیاسی و سفارتی محاذ پر اپنے موقف کی حمایت کرنی چاہیے۔ عالمی سفارتی مہم: منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو مؤثر سفارتی اور میڈیا مہمات چلانی ہوں گی تاکہ اپنی پالیسیوں اور دفاعی پوزیشن کی وضاحت ہو سکے۔

بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری تو پاکستان چاہتا ہے؛ خطے میں دیرپا امن کے لیے پاکستان کو بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات کی بھی ضرورت ہے لیکن یہ تنہا صرف پاکستان کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ بھارت کو بھی غیر سنجیدہ رویہ چھوڑ کر سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینی ہوگی وہ پاکستان پر مسلسل دہشت گردی کا الزام لگا کر اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھارت کی نااہلی کا بھی جائزہ لینا ہوگا مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے بھارت لے کر آیا تھا۔ لیکن ایک طویل عرصہ گزر نے کے بعد بھی بھارت کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادی دینے کو تیار نہیں۔ دنیا گواہ ہے کہ بھارت پاکستان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگاتا رہا ہے یہ اس کا غیر سنجیدہ رویہ ہے ایسی صورتحال میں بھارت سے مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں جب اس کا رویہ ہی جارحانہ اور جاہلانہ ہے۔ لہٰذا خطے میں امن قائم کرنے کی تنہا ذمے داری پاکستان پر نہیں ہے بلکہ اس کی 100 فی صد ذمے داری بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے۔

صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ایک نیا چیلنج پیدا کیا ہے، جو نہ صرف دو طرفہ تعلقات بلکہ جنوبی ایشیا کے استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔ امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ خطے میں امن کا باعث نہیں بنے گا اور نہیں امریکا کے مفاد میں بھی ہے کہ وہ اس خطے میں جانبدارانہ رویہ اختیار کرے۔ پاکستان نے دفاعی طور پر امریکی امداد پر انحصار کم سے کم کر دیا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ یہ رویہ اختیار کریں گے تو پاکستان ایک آزاد ملک ہے وہ اپنی خارجہ پالیسی بنانے میں بھی آزاد ہے۔ پھر وہ اپنے مفاد میں جو فیصلہ کرے بہتر ہوگا لیکن وہ فیصلہ ضروری نہیں کہ امریکی مفادات کے حق میں بھی ہو۔ دوسری جانب پاکستان کے عالمی جیوپولیٹیکل مفادات کی روشنی میں پاکستان کو اپنے دفاعی نظام کی مضبوطی اور سفارتی حکمت عملی پر کام بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام بنیادی طور پر دفاعی ہے اور اس کا مقصد خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ جارحیت۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ اعتماد قائم کرے اور اپنے دفاع کی پالیسی کو موثر طریقے سے پیش کرے تاکہ کسی قسم کے غلط فہمی یا الزام تراشی کا خاتمہ ہو سکے۔ یہ مضمون پاکستان کے موقف کی وضاحت اور عالمی اسٹیج پر اس کی دفاعی حکمت عملی کی تشہیر کے لیے ایک مضبوط اور منطقی دستاویز کا کردار ادا کرے گا، جو خطے میں امن اور استحکام کے لیے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ پاکستان کو کیا سمجھتے ہیں؟ دوست یا دشمن؟
  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
  • امریکا جب تک اسرائیل کی پشت پناہی نہیں چھوڑتا، تعاون ممکن نہیں: خامنہ ای
  • اسرائیل کی حمایت بند کرنے تک امریکا سے مذاکرات نہیںہونگے، ایران
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • ہم ہر قسم کے جواب کے لیے تیار ہیں، ایرانی مسلح افواج کی دشمن کو وارننگ