دوحا کانفرنس، غزہ کی بھوک اور فلسطینی بحران
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عرب اور اسلامی رہنما 15 ستمبر کو ہنگامی کانفرنس کے لیے دوحا میں جمع ہوئے۔ مسلم دنیا کے لاکھوں لوگوں کے لیے یہ ملاقات تاریخی اہمیت رکھتی تھی۔ غزہ کی بھوک اور فلسطینی بحران شدید تھا، قحط کا اعلان ہو چکا تھا، اور اسرائیل کے 9 ستمبر کے دوحا پر حملے— جس میں ایک قطری شہری اور حماس کے مذاکرات کار ہلاک ہوئے نے حالات کو مزید سنگین کر دیا تھا۔ آخر کار، بہت سے لوگوں نے امید کی کہ عرب اور اسلامی دنیا قتل و غارت گری اور غزہ میں قحط کو روکنے کے لیے مؤثر منصوبہ پیش کرے گی۔ لیکن اس کے بجائے، کانفرنس میں جو الفاظ دیے گئے وہ بموں کی گرج کے سامنے کھوکھلے لگے۔ 50 سے زائد رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت کی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، ترک صدر رجب طیب اردوان، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف، ملیشیا کے انور ابراہیم اور دیگر شریک تھے۔ اعلامیہ میں 25 نکات شامل تھے۔ اس میں اسرائیل کی ’’بزدلانہ جارحیت‘‘ کی مذمت کی گئی، مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کی حمایت کی گئی، اور رکن ممالک سے تعلقات کا جائزہ لینے کا کہا گیا۔ لیکن اس میں کوئی نفاذ و عملی طریقہ کار، کوئی وقت کی حد، یا فلسطینی بچوں کی امداد کی ضمانت شامل نہیں تھی۔ یہ پابندیوں، تیل کے اثر رسوخ، یا سفارت کاروں کے یکساں انخلا کا وعدہ بھی نہیں کرتا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے اسے ’’بیانیہ مظاہرہ‘‘ قرار دیا۔ تہران ٹائمز نے کہا کہ یہ ’’خالی تماشا‘‘ ہے۔
ایکس پر عام شہریوں کی آوازیں مایوسی کو زیادہ واضح انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ایک پوسٹ چند گھنٹوں میں وائرل ہوئی: ’’سمٹ ختم، اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے، 48 شہری ہلاک، یہ سب کس کام کا؟‘‘ دوحا میں ناکامی صرف پالیسی کا مسئلہ نہیں؛ یہ نفسیات کا مسئلہ بھی ہے۔ دہائیوں سے فلسطینی اور ان کے حامی عرب اور اسلامی بلاک سے اتحاد کی امید رکھتے آئے ہیں۔ لیکن تقسیم گہری ہے۔ خلیج کے ممالک کی اسرائیل کے ساتھ معمولات، امریکی دبائو، اور مصر کی رفاہ مکمل طور پر نہ کھولنے کی ہچکچاہٹ نے اجتماعی عزم کو توڑ دیا ہے۔ نتیجہ ہے جمود، بالکل اْس لمحے جب فیصلہ کن اتحاد کی ضرورت تھی۔
یہ جمود نتائج رکھتا ہے۔ غزہ کی بھوک محض اعداد و شمار نہیں، یہ ایک جان بوجھ کر اپنائی گئی حکمت عملی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں قحط ہے، جہاں 25 لاکھ لوگ شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے 425 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 130 بچے شامل ہیں۔ شدید غذائی قلت 14 ہزار بچوں کو متاثر کر رہی ہے، جبکہ مزید 70 ہزار خطرے میں ہیں۔
ماں باپ نفسیاتی اثرات بیان کرتے ہیں۔ ام وسام نے الجزیرہ کو بتایا: ’’میرا بیٹا رات کو بھوک سے چیختا ہے، اور میں جھوٹ بول کر کہتی ہوں کہ کل کھانا آئے گا۔ میرا دل ٹوٹ جاتا ہے‘‘۔ یہ روزانہ کی جھوٹی تسلی بقا کا ذریعہ بن گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ کے 90 فی صد بچے اضطراب، بے خوابی، اور مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کے مستقبل پہلے ہی متاثر ہو چکے ہیں۔
رفاہ میں غزہ کا رگِ زندگی ہے، امدادی قافلے 44 کلومیٹر کی قطار میں کھڑے ہیں، جن میں آٹا، چاول اور دوا موجود ہے۔ روزانہ صرف 50 سے 150 ٹرک داخل ہو پاتے ہیں۔ جو 800 کی ضرورت سے بہت کم ہے۔ باقی ٹرک غزہ بلاک میں اسرائیل کے سخت قبضے میں پھنسے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے تین بار بلا روک ٹوک امداد کی ہدایت دی، جسے اسرائیل نے نظر انداز کیا۔ استنبول یونیورسٹی کی وکیل دنیز باران نے اس ناکہ بندی کو ’’جنیوا کنونشن کے تحت جنگی جرم‘‘ قرار دیا۔ پھر بھی دوحا کانفرنس امدادی قافلوں کی حفاظت کی ضمانت دینے میں ناکام رہا۔
قیادت کی غیر موجودگی میں، عام شہری خود اقدام کر رہے ہیں۔ گلوبل صمود فلوٹیلا 50 سے زائد جہازوں کا بیڑا، جس میں 44 ممالک کے سرگرم کارکن شامل ہیں، مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔ اس کا نام ’’صمود‘‘ عربی میں ثابت قدمی کے معنی رکھتا ہے، جو فلسطینی استقامت کی روح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جہاز اگست میں بارسلونا سے روانہ ہوئے، 3 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا، تیونس میں ڈرون حملوں کے اور آگ میں جھلسنے کے باوجود اپنے مشن پر قائم رہے۔ کارکنوں نے اعلان کیا: ’’ہماری عزم نہیں جلے گا‘‘۔ اسرائیل نے اسے ’’حماس کا محاذ‘‘ قرار دیا، لیکن اقوام متحدہ کے ماہرین اور عالمی انسانی حقوق گروپوں نے اسے قانونی انسانی ہمدردانہ عمل قرار دیا۔ گریٹا تھنبرگ، سابق بارسلونا کی میئر ادا کولاؤ، اور آئرش اداکار لیام کننگھم، پاکستان سے سینیٹر مشتاق احمد خان جیسے افراد نے اس مشن میں شرکت کر کے عالمی توجہ حاصل کی۔ 16 ستمبر کو قافلے کو بحری ناکہ بندی کے خلاف چلنے کی اجازت ملی، جبکہ دوسرا قافلہ 24 ستمبر کو کاتانیا سے روانہ ہوگا۔
غزہ کے بچوں کے لیے، فلوٹیلا صرف امداد نہیں لے کر آتا۔ یہ امید بھی لے کر آتا ہے۔ ایک بچے نے سیدھی بات کہی: ’’جہاز سمندر سے آ رہے ہیں، شاید اب ہمیں کھانا ملے‘‘۔ یہ ایک جملہ دوحا کانفرنس کے 25 نکات سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔ فرق واضح ہے۔ دوحا میں صدور اور شہزادے محتاط الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ سمندر میں، رضاکار اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ سمٹ نے ریاستی طاقت کی حدود کو اجاگر کیا، جبکہ فلوٹیلا نے یکجہتی کی لامحدود صلاحیت کو دکھایا، چاہے وہ نازک ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن یکجہتی اکیلے غزہ کی بھوک یا بمباری کو ختم نہیں کر سکتی۔ شہری بہادری حوصلہ دے سکتی ہے، لیکن ریاستی کارروائی کا متبادل نہیں ہے۔ اگر عرب اور اسلامی رہنما واقعی غزہ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ تیل کا مشترکہ اثر رسوخ، معمولات معاہدوں کو معطل کرنا، بین الاقوامی فوجداری عدالت میں قانونی کارروائی، اور اقوام متحدہ کی ایجنسی UNRWA اور فلسطینی بچوں کی امداد کے لیے پابند وعدے۔ یہ سب دوحا کانفرنس کے حتمی دستاویز میں شامل نہیں تھے۔
تاریخ دوحا کانفرنس کو اس کی شاندار تقریروں سے نہیں یاد رکھے گی۔ یہ اس خاموشی کو یاد رکھے گی جو بعد میں چھا گئی۔ یہ یاد رکھے گی کہ جب رہنما عیش و عشرت کے ہال میں ملاقات کر رہے تھے، بچے بھوک سے مر رہے تھے، والدین انہیں تسلی دیتے جھوٹ بول رہے تھے، اور ٹرک سرحدوں پر بے حرکت پڑے تھے۔ یہ بھی یاد رکھے گی کہ سمندر میں عام لوگوں نے اپنی بہادری ریاستوں سے زیادہ دکھائی۔ مایوسی اور امید کے درمیان، غزہ انتظار کر رہا ہے۔ دوحا کانفرنس ایک موڑ ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ ایک اور ضائع شدہ موقع بن گیا، ایک اور دراڑ اس علاقے کی نفسیات میں جہاں پہلے ہی ٹوٹے ہوئے وعدوں کا سایہ ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ کی بھوک کا حل نہیں ہے۔ لیکن یہ یاد دلاتا ہے کہ انسانیت نے ہار نہیں مانی۔ خالی الفاظ کے سامنے، یہ آگے بڑھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا رہنما صرف بیانیہ میں پھنسے رہیں گے؟ یا آخرکار اقدام کریں گے، قبل اس کے کہ قحط اور مایوسی ایک پوری نسل کو نگل جائیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عرب اور اسلامی دوحا کانفرنس یاد رکھے گی غزہ کی بھوک قرار دیا کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں اسرائیلی حملے، 33 فلسطینی شہید، اسرائیل نے انخلا کے لیے عارضی راستہ کھول دیا
غزہ میں آج صبح سے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 33 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
شہداء میں ایک بچہ اور اس کی ماں بھی شامل ہیں جو الشاطی کیمپ میں فضائی حملے کے دوران جاں بحق ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق بمباری میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے، درجنوں گھر تباہ ہوچکے ہیں اور بحری جہاز بھی اس بڑے حملے میں شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں اسرائیل کو فلسطینی عوام پر نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ اکتوبر 2023 سے اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 65 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
چین اور قطر نے بھی غزہ پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، جب کہ قطر نے کہا کہ یہ فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی جنگ کا تسلسل ہے۔
اسرائیل نے غزہ سٹی کے رہائشیوں کے انخلا کے لیے صلاح الدین اسٹریٹ کے ذریعے 48 گھنٹوں کے لیے عارضی روٹ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ سٹی میں زمینی آپریشن مکمل کرنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
امدادی تنظیموں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے حملے روکنے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کرے، کیونکہ محض بیانات سے انسانی المیہ نہیں رکے گا۔