Express News:
2025-09-21@23:42:53 GMT

سرکاری مراعات یافتہ طبقات کو مزید کتنی مراعات چاہئیں؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

پاکستان مفلس ہی نہیں بلکہ مفلس ترین ملک ہے۔ حالیہ سیلابوں نے پاکستانیوں کو مزید غریب کر دیا ہے۔پاکستان کے سر 100ارب ڈالر سے زائد غیرملکی قرضے بھاری ترین بوجھ ہیں ۔ہر سال پاکستان کے مراعات یافتہ حکمرانوں کو اپنے اور اپنے اداروں کے بھاری اخراجات اور اعلیٰ مراعات پوری کرنے کے لیے مزید غیر ملکی قرضے لینا پڑتے ہیں ۔ سرکاری مراعات یافتہ طبقات مگر اپنی مراعات میں کمی کرنے کے بجائے مزید مراعات لینے کے مطالبات کررہے ہیں۔

سرکاری مراعات یافتہ طبقات کی لامتناہی خواہشات و مراعات کی تکمیل کا بار اُٹھاتے اُٹھاتے پاکستانیوں کی کمر خمیدہ ہو چکی ہے ۔یہ غریب ریاست اِس ملک کی اشرافیہ کے مزید نازاُٹھانے کے قابل نہیں رہی ۔ یہ سلسلہ اب کہیں رکنا چاہیے۔میڈیا بھی سیاستدانوں ہی کا حساب کرتا ہے ۔ریٹائرڈ ججز کی پنشن اور سیکیورٹی پر کتنے اخراجات ہوتے ہیں اور دیگر سرکاری حکام کتنے میں پڑتے ہیں‘ اس پر میڈیا بہت کم لکھتا اور بولتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے جملہ مقتدر سیاستدانوںکی اعلیٰ اور ہوشربا سرکاری مراعات کسی دوسرے اعلیٰ سرکاری مراعات یافتہ طبقے سے کم نہیں ہیں ۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ سرکاری مراعات پانے والے یہ طبقات کسی قناعت کے نام سے واقف ہی نہیں ۔ اُن کی ہل من مزید جاری ہے۔

غریب پاکستانیوں کی مہنگی ترین بجلی میں تخفیف کی بات چل نکلے تو مقتدر ، حکمران اور اعلیٰ سرکاری مراعات یافتہ طبقات آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کی دہائی دینا شروع کر دیتے ہیں ، مگر اپنی مراعات میں تسلسل اور مزید اضافے کی باری آئے تو از خود فیصلے کرکے اپنی مراعات میں کمی نہیں آنے دیتے ۔ پھر کسی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی مبینہ شرائط کسی کو یاد ہی نہیں رہتیں ۔

 قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان(اور سینئر بیوروکریسی) اپنی تنخواہوں ، مراعات اورسہولیات میں خود ہی اضافہ کرلیتے ہیں ۔ یہ کون لوگ ہیں جنھوں نے پچھلے دنوں اپنی تنخواہوں میں500فیصد اور280فیصد اضافہ کیا اور غریب عوام کی آہ و بکا تک نہ سُنی؟ ہم غریب اور لاچار طبقات تو مہنگی بجلی کے ہاتھوں ہلاک کیے جارہے ہیں، مگر پاکستان میں یہ کونسے سرکاری مراعات یافتہ طبقات ہیں جنھیں فی فرد ہزاروں یونٹ بجلی مفت فراہم کی جارہی ہے؟ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اِن طبقات کو مفت کی یہ سہولیات جاری رہتی ہیں۔

اور یہ کونسے مراعات یافتہ طبقات ہیں جن کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب ملکی عدالتوں میںمبینہ طور پر20لاکھ سے زائد افرادانصاف کے منتظر ہیں؟ ملک بھر میں آٹے ، روٹی ، نان اور چینی کی قیمتوں میں ایک بار پھر بے تحاشہ اضافہ کر دیا گیا ہے ، مگر سرکاری مراعات یافتہ طبقات اپنی سہل انگاریوں اور مراعات میں کمی کرنے پر تیار نہیں۔ 11ستمبر2025 کو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ نے پاکستان کے مرکزی بینک ( اسٹیٹ بینک آف پاکستان)کے سربراہ کی ماہانہ تنخواہ کے بارے میں بتایا ہے جب کہ سرکاری مراعات، ملازمین اور سیکیورٹی کی سہولیات اِس کے علاوہ ہے۔‘‘ خبر کے مطابق، وزارتِ خزانہ نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس میں تنخواہ بارے یہ تفصیلات پیش کی ہیں۔ اب سیلاب زدگان کے جانی و مالی نقصانات کی کسی قدر تلافی کیے جانے کی بات سامنے آتی ہے تو مراعات یافتہ سرکاری طبقات دائیں بائیں دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔

مزید مراعات اور سیکیورٹی کا مطالبہ کرنے والے ریٹائرڈ حضرات ایسے موقع پر اپنی زندگیوں کو مزید سہل اور سہولیات یافتہ بنانا چاہتے ہیں جب 13ستمبر2025کو یہ اندوہناک اور دل دہلا دینے والی خبر آئی کہ خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی ( اور افغانستان کے ملا حکمران طالبان اور بھارت کے حمائیت یافتہ خوارج و فتنہ الہندوستان) اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے درمیان تصادم میں 19پاکستانی جوان شہید ہو گئے اور 45خارجی جہنم واصل کیے گئے۔

لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے پہلے سے مراعات یافتہ طبقات مزید مراعات کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ حال ہی میں پہلے بنگلہ دیش اور پھر نیپال میں باجبروت مراعات یافتہ سرکاری طبقات اوراُن کی اولادوں کی عیاشیوں سے تنگ آکر وہاں کے طلبا اور نوجوان طبقات نے جو شدید اور تاریخ ساز ردِ عمل دیا ہے ، کیا اِس کی بازگشت ہمارے سرکاری مراعات یافتہ طبقات کے کانوں تک نہیں پہنچی؟ کیا ہمارے اعلیٰ سرکاری مراعات یافتہ طبقات کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے کسی صورِ اسرافیل کی ضرورت ہے ؟

ملک بھر میں لاکھوں کروڑوں سیلاب زدگان کی زندگیاں اجیرن ہو گئی ہیں ۔ لاکھوں سیلاب زدگان عمر بھر کی جمع پونجی اور جائیدادوں سے محروم ہو گئے ہیں ۔ ان کے سر پر چھت رہی ہے نہ کوئی بچھونا۔ مگر حاضر سروس اور ریٹائرڈ مراعات یافتہ طبقات سیلاب زدگان کی مصیبتوں اور محرومیوں سے قطعی لاپروا ہو کر صرف اپنی مراعات کے مسلسل اجرا اور ان میں مزید اضافے کے لیے مُصر ہیں۔

اِن سطور کے لکھتے وقت مجھے بہ امرِ مجبوری ضلع نارووال جانا پڑا ۔ راقم نے اپنی آنکھوں سے ضلع نارووال اور ضلع سیالکوٹ کے تباہ حال سیلاب زدگان کو دیکھا ہے اور لرز کر رہ گیا ہُوں۔ 14ستمبر 2025کو پنجاب کے PDMA نے ضلع نارووال میں زیر آب آنے والوں کے حالات بارے اپنی سرکاری رپورٹ جاری کرتے ہُوئے بتایا ہے :’’ضلع نارووال کے 908 دیہات سیلاب اور شدیدبارشوں نے برباد کر ڈالے ہیں۔

اِس ضلع کے ایک لاکھ80ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہو کر بے گھر ہو گئے ہیں ۔‘‘ مجھے کئی سیلاب زدگان ملے اور انھوں نے بتایا ہے کہ سال بھر کے لیے ہم نے گھروں میں گندم اسٹور کررکھی تھی ، سیلابی پانیوں نے سب برباد کر دی ہے۔ اب مہنگی گندم متاثرین کو کون ، کب تک خرید کر دیتا رہے گا؟ ایسے میں جب ہم یہ ’’حکم‘‘ سنتے ہیں کہ ریٹائرڈ ججوں کو مزید سیکیورٹی فراہم کی جائے تو دِل سے ایک ہوک ہی اُٹھتی ہے۔ کیا مزید مراعات کے مطالبات کرنیوالے سیلاب زدگان کی مصیبتوں اور آلام سے ناآشنائے محض ہیں ؟

مجھے یہاں معروفِ عالم رُوسی ناولسٹ، فلسفی اور افسانہ نگار، لیو ٹالسٹائی ، کا لکھا گیا ایک طویل افسانہ ( بعنوان: زندہ رہنے کے لیے ایک آدمی کو کتنی زمین چاہیے؟)یاد آ رہا ہے ۔

اِس یادگار افسانے میں ٹالسٹائی نے انسانی نفسیات میں چھپے لالچ کا تجزیہ اور تشہیر کی ہے اور بتایا ہے کہ لالچی انسانوں کی ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔ یہ مرجاتے ہیں مگر اپنے لالچ ، ہوس اور دستیاب سرکاری مراعات سے دستکش ہونے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ۔ اِسی بارے ہمارے بزرگوں نے یوں بھی کہا ہے:’’ لالچی انسان کا منہ صرف قبر کی مٹّی ہی بھر سکتی ہے ۔‘‘

بھاری بھر کم سرکاری مراعات سے لطف اندوز ہونے والے ہمارے بیوروکریٹس اور ہمہ قسم کے حکمرانوں کی مراعات اور لالچوں کا راستہ بھی صرف قبر کی مٹّی ہی مسدود کر سکتی ہے ۔ اور اب تو یہ ہوشربا خبر بھی آگئی ہے کہ اسلام آباد میں بروئے کار دو اداروں کے پانچ سینئر افسران مبینہ طور پر بونس کے نام پر74کروڑ روپے لے اُڑے ہیں ۔ایسے میں جب سیلاب کے مارے تباہ حال کسانوں کی دستگیری کی بات سامنے آتی ہے تو سرکار دربار سے آوازیں اُٹھتی ہیں: ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہیں ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرکاری مراعات یافتہ طبقات اپنی مراعات مزید مراعات سیلاب زدگان ضلع نارووال مراعات میں پاکستان کے بتایا ہے کو مزید ہی نہیں کی بات کے لیے

پڑھیں:

دریائے سندھ، کوٹری بیراج پر پانی کی آمد میں مزید اضافہ

فائل فوٹو

دریائے سندھ میں کوٹری بیراج پر پانی کی آمد میں مزید اضافے کے بعد درمیانے درجے کا سیلاب ہے مگر بہاؤ بڑھ کر 3 لاکھ 52 ہزار کیوسک ہوگیا۔

 فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن لاہور کے مطابق گڈو اور سکھر بیراج پر بہاؤ میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ گڈو کے بعد سکھر بیراج پر بھی سیلاب نچلے درجے میں تبدیل ہوگیا۔

گڈو بیراج پر اس وقت بہاؤ 2 لاکھ 83 ہزار اور سکھر پر 3 لاکھ 98 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا پر بدستور درمیانے درجے کا سیلاب ہے، ہیڈ اسلام اور ہیڈ سلیمانکی پر نچلے درجے کے سیلاب ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دریائے سندھ: کوٹری بیراج پر پانی کی آمد میں مزید اضافہ
  • کیا پاکستان کے نئے صوبے بننے چاہئیں؟
  • سیلاب کے باعث موٹروے ایم 5کئی مقامات سے متاثر، مزید 5پوائنٹس متاثر ہونیکا خدشہ
  • سیلاب متاثر ین کیلئےامدادی آپریشن ،این ڈی ایم اے نے مزید امدادی سامان روانہ کر دیا
  • سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی آپریشن جاری، مزید سامان روانہ
  • پاکستان سرمایہ کاری کیلئے موزوں‘ حکومت نے بہت مراعات دی ہیں: گورنر
  • دریائے سندھ، کوٹری بیراج پر پانی کی آمد میں مزید اضافہ
  • متاثرین کیلئے مزید خیموں اورچیزوں کی فراہمی یقینی بنارہے ہیں: قائم مقام صدر
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بڑی چیز ہے،پاکستان پر خطرات تو ہمیشہ سے رہے مگر اب مزید بڑھ گئے ہیں،اسد عمر