Nawaiwaqt:
2025-11-07@00:23:05 GMT

مصنوعی میٹھے سے یادداشت اور توجہ کو لاحق پوشیدہ خطرات

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

مصنوعی میٹھے سے یادداشت اور توجہ کو لاحق پوشیدہ خطرات

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ڈائٹ مشروبات اور شوگر فری گم میں پائی جانے والی کم یا زیرو کیلوری مٹھاس کے زیادہ استعمال سے یادداشت اور ذہنی صلاحیتوں میں تیزی سے کمی ہو سکتی ہے، جس سے طویل مدت میں اس کے اثرات پر سوالات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔یہ تحقیق برازیل کی سائو پالو یونیورسٹی (Sao Paulo University)کے سائنسدانوں نے کی، جس میں آٹھ سال کے دوران 12 ہزار سے زائد بالغ افراد پر تحقیق کی گئی، یہ ایک وسیع تحقیقی منصوبہ ''برازیلی لمبی مدت بالغ صحت کا مطالعہ ''کے تحت ہوا، اور اسے علمی جریدے Neurology میں شائع کیا گیا۔

محققین نے تمام شرکاء، جو کم از کم 35 سال کے تھے، ان سے ان کی غذائی عادات کے بارے میں تفصیلی سوالات کیے اور ان کے سات مختلف قسم کے مصنوعی مٹھاس، جیسے اسپارٹیم (Aspartame)، سکیرین (Saccharin)، ایریٹھرٹول (Erythritol)، زائیلٹول (Xylitol) اور دیگر کے استعمال کی مقدار معلوم کی۔شرکاء کا روزانہ ان مصنوعی مٹھاس کا اوسط استعمال تقریباً 92 ملی گرام تھا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ 60 سال سے کم عمر افراد میں مصنوعی مٹھاس کے زیادہ استعمال سے دماغی افعال، خاص طور پر زبانی روانی اور عمومی ادراکی صلاحیتوں (یادداشت، توجہ اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت) میں تیزی سے کمی واقع ہوتی ہے۔جبکہ بڑی عمر کے افراد (60 سال اور اس سے زائد) میں، مصنوعی مٹھاس کے استعمال اور دماغی صلاحیتوں میں وقت کے ساتھ تبدیلی کے درمیان کوئی واضح تعلق ظاہر نہیں ہوا۔چاہے ذیابیطس کے مریض ہوں یا نہ ہوں، ایسا لگتا ہے کہ مصنوعی مٹھاس کے زیادہ استعمال سے یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت میں تیزی سے کمی ہوتی ہے۔سب سے زیادہ دماغی صلاحیتوں میں کمی کے ساتھ منسلک مصنوعی مٹھاس میں اسپارٹیم (Aspartame)، سکیرین (Saccharin)، ایسسلفیم کے (Acesulfame K)، ایریتھرٹول (Erythritol)، سوربٹول (Sorbitol) اور زائیلٹول (Xylitol) شامل ہیں، جو عام طور پر ڈائٹ سافٹ ڈرنکس، شوگر فری مٹھائی، گم، پروٹین بارز اور بعض ادویات میں استعمال ہوتے ہیں۔تحقیق میں شریک ڈاکٹر کلاڈیا کیمیا سُوئیموٹو (Dr Claudia Kemia Suemoto) نے بتایا کہ یہ متبادل عموماً اُن لوگوں کے لیے صحت مند آپشن کے طور پر فروخت کیے جاتے ہیں جو وزن یا خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، لیکن تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دماغ کی صحت پر غیر متوقع منفی اثرات بھی ڈال سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا: عام طور پر کم یا صفر کیلوری والی مٹھاس کو شکر کے صحت مند متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ وقت کے ساتھ کچھ مٹھاس کے دماغ کی صحت پر منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔تحقیق کی شریک محققہ نے کہا کہ یہ مطالعہ مشاہداتی نوعیت کا تھا، اس لیے یہ براہِ راست یہ ثابت نہیں کرتا کہ مصنوعی مٹھاس دماغی صلاحیتیں کم کرتی ہے، کیونکہ غذائی عادات، ورزش یا صحت جیسے دیگر عوامل بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔تاہم، وہ سمجھتی ہیں کہ نتائج مزید تحقیقات کے لیے کافی ہیں اور لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے بھی کہ وہ ان مصنوعی مٹھاس کی زیادہ مقدار استعمال کرنے میں احتیاط کریں، خاص طور پر نوجوانوں میں جو انہیں روزانہ اور کئی سال تک استعمال کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ، تحقیق سے نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ مصنوعی مٹھاس کے صحت پر اثرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش میں ایک نیا اضافہ ہے، جو نہ صرف وزن یا خون میں شوگر کی سطح پر بلکہ دماغ پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔جب تک واضح معلومات دستیاب نہیں ہو جاتیں، یہ سمجھداری ہوگی کہ ان مصنوعات کے استعمال کو محدود کیا جائے اور جہاں ممکن ہو قدرتی اور غیر مصنوعی غذا پر توجہ دی جائے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: مصنوعی مٹھاس کے سکتے ہیں

پڑھیں:

خون میں چربی کی زیادتی (ڈس لپیڈی میا) پر تحقیقی جائزہ

اسلام ٹائمز: اگر قدیم اخلاطی نظریہ اور جدید بایومیڈیکل شواہد کو ایک ساتھ سمجھا جائے تو قلبی اور میٹابولک بیماریوں کی روک تھام کیلئے زیادہ جامع حکمتِ عملی تیار کی جا سکتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر عابد رضا
حافط محمد الیاس انسٹیٹیویٹ آف فارماکولوجی اینڈ ہربل سائنسز، جامعہ ہمدرد کراچی

خون میں چربی کی زیادتی، جسے طبی اصطلاح میں ڈِس لپیڈی میا (Dyslipidemia) کہا جاتا ہے، عالمی سطح پر قلبی اور میٹابولک بیماریوں کے اہم عوامل میں شامل ہے۔ جدید حیاتیاتی اور کلینیکل تحقیق سے واضح ہوا ہے کہ خون میں لیپڈ پروفائل میں غیر متوازن سطحیں، جیسے کولیسٹرول اور ٹرائیگلیسرائیڈز کی بڑھتی ہوئی مقدار، شریانوں کی سختی، ایتھیروسکلروسیس، اور دل کے عارضہ جات کے خطرات میں خاطر خواہ اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امراضِ قلب، شریانوں کی تنگی، اور دیگر میٹابولک پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، جو عالمی صحت کیلئے سنگین چیلنج ہیں۔ 

قدیم یونانی اطباء، جیسے ابنِ سینا، علی بن عباس المجوسی، اور چغمنی نے انسانی صحت اور بیماریوں کے مطالعے میں اخلاطی نظریہ (Humoral Theory) کو بنیاد بنایا۔ ان کے مطابق جسم میں چار بنیادی اخلاط موجود ہیں: خون، بلغم، صفرا اور سودا، اور ان کا توازن صحت کیلئے لازمی ہے۔ خون میں موجود روغنی مواد (Lipids) نہ صرف توانائی اور حرارت کا ذریعہ تھا، بلکہ اعضاء کی فعالیت اور مجموعی مزاج کیلئے بھی ضروری تھا۔ قدیم اطباء نے واضح کیا کہ خون میں چربی کی زیادتی یا کمی جسمانی توازن میں خلل پیدا کرتی ہے، جس سے دل، جگر اور دیگر اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے نظریات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ غذا، مزاج، اور ماحولیات اخلاط کی مقدار اور معیار کو متاثر کرتے ہیں اور مناسب توازن کو برقرار رکھنا بیماریوں کی روک تھام کیلئے ضروری ہے۔ یہ فکری بصیرت آج کے جدید حیاتیاتی اور کلینیکل علم کے ساتھ قابلِ تطبیق ہے اور انسانی جسم کے پیچیدہ نظامات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

جدید تحقیق نے ڈِس لپیڈی میا کے بایومیڈیکل میکانزم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ خون میں موجود LDL کولیسٹرول، جسے عموماً "خراب کولیسٹرول" کہا جاتا ہے، شریانوں میں جمع ہو کر ان کی سختی اور ایتھیروسکلروسیس کا سبب بنتا ہے۔ اس کے برعکس HDL کولیسٹرول، جسے "اچھا کولیسٹرول" کہا جاتا ہے، اضافی چربی کو شریانوں سے دور لے کر دل اور دیگر اعضاء کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے۔ متعدد مطالعات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خون میں چربی کی غیرمتوازن سطحیں قلبی امراض، ذیابیطس اور دیگر میٹابولک عوارض کے خطرے میں اضافہ کرتی ہیں،
یہ تحقیقی جائزہ یونانی طب کے کلاسیکی نظریات اور جدید حیاتیاتی سائنس کے اصولوں کو جوڑنے کی ایک کامیاب کاوش ہے۔ تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ ڈِس لپیڈی میا یعنی خون میں چربی کی زیادتی یا کمی، آج کے دور میں قلبی امراض، شریانوں کی تنگی، اور دیگر میٹابولک پیچیدگیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔

قدیم یونانی اطباء صدیوں قبل ہی جسم میں چربی کے توازن، حرارت اور مزاج کے تعلق کو بیان کر چکے تھے۔ ان کے مطابق اعضاء میں چربی کا جمع ہونا جسم کی سرد مزاجی کی علامت ہے اور خون میں موجود چربی توانائی اور حرارت کا ذریعہ ہے، بالکل اسی طرح جیسے چراغ کو جلانے کیلئے تیل ایندھن کا کام کرتا ہے۔ اس طرح، قدیم یونانی معالجین نے خون میں موجود روغنی مادّے (Lipids) کو انسانی غذا، توانائی اور جسمانی ساخت کیلئے بنیادی حیثیت دی، اور ان کا عدم توازن وہی اثرات پیدا کرتا ہے، جنہیں آج ہم ڈِس لپیڈی میا کہتے ہیں۔ یہ تحقیق نہ صرف یونانی طب کے علمی و نظریاتی ورثے کی توثیق کرتی ہے بلکہ جدید حیاتیاتی تحقیق کیلئے ایک نیا فکری پل بھی فراہم کرتی ہے۔

اس جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر قدیم اخلاطی نظریہ اور جدید بایومیڈیکل شواہد کو ایک ساتھ سمجھا جائے تو قلبی اور میٹابولک بیماریوں کی روک تھام کیلئے زیادہ جامع حکمتِ عملی تیار کی جا سکتی ہے۔ ڈِس لپیڈی میا کے مطالعے سے بیماری کے پیدا ہونے اور ظاہر ہونے کے عمل کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور قدیم نظریاتی فریم ورک اور جدید سائنسی شواہد کا امتزاج بروقت تشخیص اور مؤثر علاج کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق عالمی سائنسی کمیونٹی کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ یہ تاریخی طبی حکمت کو جدید سائنسی طریقوں کے ساتھ یکجا کرتی ہے اور مستقبل کی تحقیق اور طبی عمل میں مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خون میں چربی کی زیادتی (ڈس لپیڈی میا) پر تحقیقی جائزہ
  • آریان خان کی مبینہ گرل فرینڈ لاریسا بونسی سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بن گئیں، مگر کیوں؟
  • دنیا بھر میں پائی جانے والی افیون کا کتنا فیصد افغانستان میں اگ رہا ہے؟
  • چین میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کمالات: بزرگوں کی خدمت گار، نابیناؤں کی ’آنکھ‘، اور بہت کچھ!
  • کینیڈا کا 141 ارب ڈالر کا بجٹ پیش، امریکی ٹیکسوں کے اثرات سے نمٹنے پر توجہ
  • دھوکہ دہی سے بچانے میں ’اینڈرائیڈ‘ آئی فون سے بہتر ہے: تحقیق
  • گمراہ کُن خبروں کی آگ اور مصنوعی ذہانت کا ایندھن
  • قومی اسمبلی کا اہم اجلاس آج، کیا 27ویں آئینی ترمیم پیش کی جائے گی؟
  • جنوبی کوریا کا 728 کھرب کا بجٹ، خودمختار دفاع اور مصنوعی ذہانت میں انقلاب کا اعلان
  • ورجینیا میں نائب گورنر کا الیکشن، غزالہ ہاشمی توجہ کا مرکز