پاک افغان تعلقات کا نیا چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان افغانستان تعلقات میں ایک بڑی بداعتمادی کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو پس پردہ بات بھی چل رہی تھی اس کے ابھی تک مثبت نتائج دیکھنے کو نہیں مل سکے ہیں۔ دونوں اطراف سے بداعتمادی کی حالت یہ ہے کہ حالات کے بگاڑ کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ابھی تک افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہی ہے اور ٹی ٹی پی کو بدستور افغان حکومت کی حمایت اور سہولت کاری حاصل ہے۔ پاکستان کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ بھارت افغانستان کی مدد اور حمایت کے ساتھ پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں پاکستان مخالفت پراکسی جنگ لڑ کر ہمیں سیاسی، معاشی اور سیکورٹی کے تناظر میں عدم استحکام سے دوچار کررہا ہے۔ پاکستان کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ موجودہ افغان حکومت پاکستان کے تمام تر تحفظات کے باوجود تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی عملی ایکشن یا اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے تیار نہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہورہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی جانب سے جو حملے پاکستان میں ہوئے ہیں ان میں 70 فی صد افغان شہری شامل ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو مستقبل میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات مزید خرابی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ماضی کے مقابلے میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جو ہماری داخلی سیکورٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت پاکستان کا موقف ماننے کے لیے تیار نہیں اور ان کے بقول پاکستان اپنی سیکورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کا ملبہ ڈال کر نہ صرف خود کو بچانے کی کوشش کررہا ہے بلکہ ان تمام تر واقعات کی ذمے داری ہم پر ڈال کر خود دو طرفہ تعلقات میں خرابی پیدا کررہا ہے۔ افغان حکومت کا موقف ہے کہ اگر پاکستان کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ دہشت گرد پاکستان میں افغانستان سے آتے ہیں تو پھر سوال یہ بھی بنتا ہے کہ پاکستان کے سیکورٹی ادارے ان لوگوں کی پاکستان آمد پر بروقت کارروائی کیونکر نہیں کرتے۔ افغان حکومت کے بقول پاکستان کا لب و لہجہ دھمکی آمیز ہے اور اس لہجے میں تعلقات کو بہتر بنانا مشکل ہوگا۔ جب کہ ہمارا موقف ہے کہ مسائل کا حل دو طرفہ بات چیت کی مدد ہی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کو کہ افغان اور افغان حکومت پاکستان کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں اس پر افغان حکومت کا سخت ردعمل آیا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وزیر دفاع کا افغانستان کو دشمن کہنے کا بیان ان کا ذاتی بیان ہے یا اس کو حکومت کا بیان سمجھا جائے۔ لیکن ایک ایسے موقع پر جب وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بقول ہم پس پردہ افغان حکومت سے بات چیت کررہے ہیں اور اس بات چیت کا مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے تو ایسے موقع پر وزیر دفاع کا بیان کیا حالات کو خراب نہیں کرے گا؟ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ہم چین کی مدد سے افغان حکومت کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں اور اگر یہ سچ ہے تو پھر وزیر دفاع کی جانب سے اس طرز کے سخت بیان کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس وقت مجموعی طور پر افغان حکومت کا جھکائو بھارت اور چین کی طرف بہت زیادہ ہی نظر آتا ہے۔ بالخصوص پاکستان میں افغان حکومت اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر تشویش پائی جاتی ہے اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ان تعلقات کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سیاسی و عسکری قیادت نے افغان حکومت کو دو ٹوک اور واضح پیغام دیا ہے کہ وہ خوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے اور ہم پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کوئی سمجھوتا نہیں کریں۔ اس وقت بھی ریاست اور حکومت کی جانب سے کے پی کے اور بلوچستان میں ٹارگٹڈ آپریشن ہورہا ہے اور ہم دہشت گردوں کو نشانہ بھی بنارہے ہیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں ہمارے سیکورٹی یا فوج کے جوان بھی شہید ہورہے ہیں اور تواتر کے ساتھ دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان سے بہتر تعلقات کے تناظر میں خود افغان قیادت میں بھی تقسیم پائی جاتی ہے اور ایک گروپ پاکستان پر انحصار کرنے کو تیار نہیں تو دوسری رائے ہے کہ ہمیں ہر صورت پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی اور ٹی ٹی پی پر پاکستان کے تحفظات کو نہ صرف سنجیدہ لیا جائے بلکہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور جو ایسا کرتا ہے وہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ افغان حکومت اور عوام کا بھی دشمن ہے۔ پاکستان کے لیے افغانستان سے تعلقات کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے کیونکہ مسئلہ محض پاک افغان تعلقات کی بہتری کا ہی نہیں بلکہ اس خطہ کا بھی ہے اور پاکستان دہشت گردی سے اسی صورت میں نمٹ سکتا ہے جب افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں۔ لیکن اس کے برعکس اگر افغانستان بھارت کی سرپرستی میں پاکستان مخالف پراکسی جنگ کرتا ہے یا اس کا حصہ بنتا ہے تو اس سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری پیدا نہیں ہوسکے گی۔ حالانکہ پاکستان نے افغانستان کی بہتری کے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے اور پاکستان کے کردار کے بغیر افغانستان میں امن ممکن ہی نہیں تھا۔ لیکن افغان حکومت اس احسان کے بدلے ہمیں زیادہ کمزور کیا ہے اور وہ پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کررہا ہے جو پاکستان کو یقینی طور پر قبول نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکا نے افغانستان سے بگرام ائربیس مانگا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر افغانستان نے امریکا کی بات کو تسلیم نہ کیا تو اس کو سنگین طرز کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ طالبان حکومت نے فوری طور پر امریکا کے مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے لیکن سیاسی سطح پر پنڈتوں کے بقول افغان حکومت امریکا سے سیاسی اور مالی بارگینگ کرکے ائربیس دے سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکا افغان حکومت سے ائر بیس لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں امریکا کی افغانستان میں دوبارہ موجودگی کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو تعلقات کی سرد مہری یا بداعتمادی کا ماحول ہے اس میں کیا امریکا اور چین کوئی بڑی ثالثی کا پاکستان حمایت میں کرسکتا ہے۔ امریکا کا افغانستان میں ائر بیس لینے کے پیچھے کیا سیاسی مقاصد ہیں اور کیا وہ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے دوبارہ اس خطے میں اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتا ہے۔ چین اور امریکا جو کچھ افغانستان میں چاہتے ہیں اس میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا اور ہم چین اور امریکا کے تناظر میں کہاں کھڑے ہوں گے۔ اسی طرح جو کچھ بھارت افغانستان کے ساتھ مل کر پاکستان میں پراکسی جنگ لڑرہا ہے اس کو روکنے میں چین اور امریکا بھارت پر کوئی بڑا دبائو ڈال سکیں گے اور کیا یہ تعلقات افغان حکومت کو بھی مجبور یا ان پر دبائو کو بڑھا سکیں گے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو بنیاد بنا کر پاکستان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر افغانستان میں میں پاکستان افغان حکومت پاکستان میں کہ پاکستان پاکستان کا پاکستان کے ان تعلقات وزیر دفاع کے درمیان کررہا ہے حکومت کا ٹی ٹی پی ہیں اور کے بقول کے ساتھ کے خلاف ہے اور اور ہم کے لیے یہ بھی
پڑھیں:
علی امین گنڈا پور کا دعویٰ: افغانستان کے ساتھ مذاکرات جلد متوقع
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے مثبت پیغام موصول ہوا ہے اور جلد ہی صوبائی حکومت کی جانب سے ایک وفد مذاکرات کے لیے افغانستان روانہ کیا جائے گا۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت ہوگی. تاکہ دونوں طرف کے مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔انہوں نے افغانستان سے متعلق وفاقی وزیر دفاع کے حالیہ بیان کو ‘انتہائی افسوسناک’ قرار دیا اور کہا کہ ایسے بیانات حالات کی سنگینی کو نظر انداز کرتے ہیں۔علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ مسائل کا پرامن حل نکلے اور ہمیں ان کی طرف سے ایک مثبت پیغام موصول ہوا ہے۔ ہم مذاکراتی عمل کو آگے بڑھائیں گے. تاکہ دونوں ممالک کے عوام کو امن اور استحکام مل سکے۔وزیراعلیٰ کے پی نے گفتگو کے دوران اپنے خلاف مقدمات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ آزادی کے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر اس وقت شدید لا قانونیت ہے۔ ہم عوام کی حقیقی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم جلسے کرکے یہ ثابت کریں گے کہ قوم آج بھی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے۔ایشیا کپ 2025 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بھارت کے ساتھ میچ صرف کھیل نہیں، جذبات کا معاملہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ بار بار ہار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ میچ ایک عام میچ نہیں ہوتا. پوری قوم اس میں جیت کی امید رکھتی ہے۔وزیراعلیٰ کے مطابق کرکٹ میں فتح و شکست کا عمل چلتا رہتا ہے.لیکن کارکردگی میں تسلسل اور عزم کی ضرورت ہے .تاکہ پاکستانی ٹیم عوام کی امیدوں پر پورا اتر سکے۔