Jasarat News:
2025-11-05@02:14:39 GMT

امریکا کی غلامی سے نجات کا سنہری موقع

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بظاہر یہ خبر پریشان کن ہے مگر حقیقت میں پاکستان کے لیے خوشخبری ہے۔ دیکھنے میں سونے جیسی چمک مگر اندر سے کھوکھلا کوئلہ ہے۔ یہ اس ڈھول کی مانند ہے جو دور سے خوش نْما سنائی دیتا ہے مگر قریب جا کر کان پھاڑ دیتا ہے۔ یہ خبر دراصل پاکستان کی امریکا کی غلامی سے آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے اور شاید امریکی استعمار کے تابوت میں آخری کیل بھی۔ خبر یہ ہے کہ بھارت اور امریکا نے ایک پرانے دفاعی معاہدے کی تجدید کر دی ہے۔ بظاہر یہ قدم پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا جا رہا ہے مگر دراصل یہ خبر پاکستان کے حق میں ہے۔ اس لیے کہ اب ہمارے حکمرانوں کے لیے یہ عذر باقی نہیں رہا کہ امریکا ہمارا دوست ہے۔31 اکتوبر 2025 کو امریکا اور بھارت کے درمیان دس سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بظاہر یہ پرانے معاہدے کی تجدید ہے مگر حقیقتاً اس میں کئی نئی اور خطرناک شقیں شامل کی گئی ہیں جن کا مقصد امریکا کے اْس پرانے خواب کو حقیقت میں بدلنا ہے کہ بھارت کو خطے کا علاقائی طاقت کا مرکز بنایا جائے اور چین کے مقابل اسے آگے رکھا جائے۔ امریکا کا مقصد واضح ہے۔ وہ طاقت کے توازن کو بھارت کے حق میں جھکانا چاہتا ہے۔ ایک طرف وہ جمہوریت اور امن کے نعرے لگاتا ہے اور دوسری طرف اسلحے کی تجارت، تزویراتی قبضہ اور مفاد پرستی کی سیاست کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان نئے سرے سے کرے کیونکہ جب دوستی دھوکے میں بدلے تو غلامی کا رشتہ خود بخود ٹوٹ جاتا ہے۔

یہ معاہدہ سب سے پہلے 2005 میں طے پایا تھا جب امریکا نے بھارت کو قدرتی اتحادی قرار دیا۔ 2015 میں اس کی تجدید ہوئی اور اب 2025 میں اسے مزید وسعت دے کر دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بھارت اور امریکا کے درمیان کئی ذیلی معاہدے طے پائے جن میں لیموآ (LEMOA)، کامکاسا (COMCASA) اور بیکا (BECA) شامل ہیں۔ لیموآ کے تحت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے فوجی اڈوں اور رسد تک رسائی حاصل ہے۔ کامکاسا محفوظ مواصلاتی نظام کے ذریعے خفیہ معلومات کے تبادلے کی اجازت دیتا ہے۔ بیکا کے ذریعے جغرافیائی معلومات اور سیٹلائٹ ڈیٹا کے اشتراک کو ممکن بنایا گیا۔ اب 2025 کی اس تجدید میں مزید چند حساس اور خطرناک شقیں شامل کی گئی ہیں۔

خلائی اور سائبر دفاع میں تعاون کو بڑھایا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور ڈرون جنگ کے منصوبے شامل کیے گئے ہیں۔ بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے علاقے میں ایک بحری نگرانی کا مشترکہ نیٹ ورک قائم کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے بھارت کو سمندری نگرانی اور معلوماتی برتری حاصل ہوگی۔ معلومات کے تبادلے کو براہِ راست نظام تک وسعت دی گئی ہے اور ہم خیال ممالک یعنی سری لنکا، بنگلا دیش اور مالدیپ میں دفاعی تربیت اور امداد کے منصوبے بھارت کے ذریعے چلانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ تمام اقدامات اس بات کا اعلان ہیں کہ امریکا نے بھارت کو خطے میں اپنا سیکورٹی منیجر بنا دیا ہے۔ گویا واشنگٹن نے اپنی پالیسی کو بدلنے کے بجائے صرف کردار بدل دیے ہیں۔ پہلے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنا کر استعمال کیا گیا، اب بھارت کو علاقائی نگہبان کا لقب دے دیا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے اس معاہدے کے کئی منفی اثرات ہوں گے۔ بھارت کو معلوماتی برتری حاصل ہو جائے گی اور وہ امریکی سیٹلائٹ، خفیہ نظام اور ڈیٹا کے تبادلے کے ذریعے پاکستان کی عسکری اور بحری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھ سکے گا۔ سائبر اور الیکٹرونک جنگ کے میدان میں بھارت کی بڑھتی مہارت مستقبل میں پاکستان کے دفاعی نظام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ مگر اس خبر کا ایک پہلو خوش آئند بھی ہے۔ یہ معاہدہ پاکستانی عوام کو یہ باور کرائے گا کہ اب امریکی غلامی کا وقت گزر چکا ہے۔ قوم کے جذبات اب کسی مغربی طاقت کی خوشنودی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہر سروے بتا رہا ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی پالیسیوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ان کے دلوں پر 1971 کی جنگ کا زخم ابھی تازہ ہے جب کہا گیا تھا کہ امریکی ساتواں بحری بیڑا پہنچنے والا ہے مگر وہ بیڑا کبھی نہ آیا۔

کارگل کے موقع پر امریکا نے پاکستان کو تحمل کا درس دیا مگر بھارت کا ساتھ دیا۔ ایٹمی دھماکوں کے وقت پاکستان کو پابندیوں کی دھمکیاں دیں اور بھارت کے لیے خاموش اجازت دی۔ کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ مذاکرات کا مشورہ دیا مگر بھارتی مظالم پر آنکھیں بند رکھیں۔ غزہ کے معصوم بچوں پر بم برس رہے ہیں اور امریکا آج بھی اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ یہ تمام واقعات ایک ہی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکا کبھی کسی قوم کا دوست نہیں رہا بلکہ صرف اپنے مفاد کا غلام ہے۔ پاکستان کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حقیقی قوت خود انحصاری، خودداری اور باوقار خارجہ پالیسی میں ہے نہ کہ واشنگٹن کے احکامات میں۔

امریکا اور بھارت کا یہ دفاعی فریم ورک بظاہر تعاون کا اعلان ہے مگر درحقیقت ایک نیا استعماری جال ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ بھارت پولیس مین بنے اور باقی خطہ اس کے زیر ِ سایہ رہے۔ پاکستان کے لیے اب یہی لمحہ فیصلہ کن ہے کہ وہ اس غلامی کے دائرے سے نکل کر خود مختاری کے نئے سفر کا آغاز کرے۔ قوم جاگ چکی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران بھی جاگنے کو تیار ہیں۔

عبید مغل سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے پاکستان کو امریکا نے بھارت کے بھارت کو کے ذریعے دیتا ہے ہے مگر گیا ہے

پڑھیں:

پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز

 لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ مریم نواز سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تْرک نَخباؤر نے ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تْرک نَخباؤر کا پرتپاک و پر خلوص خیرمقدم کیا۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، پارلیمانی تعاون، وویمن ایمپاورمنٹ، تعلیم، یوتھ ایکسچینج پروگرام، ماحولیات اور کلین انرجی کے منصوبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے جرمنی کی جانب سے حالیہ سیلاب کے دوران اظہارِ یکجہتی پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہا کہ پنجاب کے تاریخی اور ثقافتی دل لاہور میں جرمنی کے معزز مہمانوں کا خیرمقدم کرنا میرے لیے باعث اعزاز ہے۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے جرمنی کی فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کی 100 ویں سالگرہ پر مبارکباد دی اور پاکستان میں 35 سالہ خدمات کو سراہا۔ وزیراعلی مریم نواز شریف نے کہا کہ فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن نے پاکستان اور جرمنی میں جمہوریت، سماجی انصاف اور باہمی مکالمے کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ فلڈ کے دوران اظہار ہمدردی و یکجہتی پاک جرمن دیرینہ دوستی کی عکاسی ہے۔ پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرز حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں جو ترقی و امن کی بنیاد ہیں۔ جرمن پارلیمانی رکن دِریا تْرک نَخباؤر سے ملاقات باعث مسرت ہے۔ وزیراعلی مریم نواز نے کہا کہ جرمن پارلیمانی رکن دِریا تْرک نَخباؤر کا کام شمولیتی پالیسی سازی، صنفی مساوات اور انسانی حقوق کے فروغ کی شاندار مثال ہے۔ فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کی جمہوری گورننس کے تحت قانون سازوں، نوجوان رہنماؤں اور خواتین ارکانِ اسمبلی کے لیے تربیتی ورکشاپس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ پنجاب اور جرمن پارلیمان کے تبادلوں سے وفاقی تعاون اور مقامی خودمختاری کے جرمن ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ پارلیمانی تعاون عوامی اعتماد اور باہمی تفہیم کا پْل ہے جو پاک جرمن تعلقات کو مضبوط بناتا ہے۔ جرمنی 1951 سے پاکستان کا قابل اعتماد ترقیاتی شراکت دار رہا ہے۔ جرمن تعاون نے پنجاب میں ماحولیات، ٹریننگ، توانائی، صحت اور خواتین کے معاشی کردار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے نوجوانوں کی روزگاری صلاحیت میں اضافے کے لیے جرمنی کے ڈوال ووکشینل ٹریننگ ماڈل کو اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان اور جرمنی کے درمیان تجارت 2024 میں 3.6 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنا خوش آئند ہے۔ پنجاب جرمنی کی ری نیو ایبل انرجی، زرعی ٹیکنالوجی، آئی ٹی سروسز اور کاین مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتا ہے۔ تعلیم حکومت پنجاب کے اصلاحاتی ایجنڈے کا بنیادی ستون ہے۔ پنجاب نصاب کی جدت، ڈیجیٹل لرننگ اور عالمی تحقیقی روابط کے فروغ پر کام کر رہا ہے۔ دس ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ جرمن جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔ خواتین کی بااختیاری پنجاب کی سماجی پالیسی کا مرکزی جزو ہے۔ ای بائیک سکیم، ہونہار سکالرشپ پروگرام اور ویمن اینکلیوز خواتین کی محفوظ اور باعزت معاشی شرکت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ پنجاب کے تاریخی ورثے بادشاہی مسجد، لاہور قلعہ، شالامار گارڈن اور داتا دربار مشترکہ تہذیبی سرمائے کی علامت ہیں۔ ثقافتی تعاون مؤثر سفارتکاری ہے، جرمن اداروں کے ساتھ مشترکہ فن و ثقافت منصوبوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ پاکستان اور جرمنی امن، ترقی اور  انسانی وقار کی مشترکہ اقدار کے حامل ہیں۔ پارلیمانی روابط، پائیدار ترقی اور تعاون کے ذریعے پاک جرمن دوستی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ جبکہ صوبہ بھر میں وال چاکنگ پر سختی سے پابندی پر عملدرآمد یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بے ہنگم تجاوزات کو خوبصورتی میں ڈھالنے اور وال چاکنگ ختم کرکے دیواریں صاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے پراجیکٹ کی منظوری دے دی۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تاریخ میں پہلی مرتبہ ہر شہر میں بیوٹیفکیشن کا شاندار اور منفرد پلان مرتب کیا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں سرکاری اور نجی عمارتوں پر وال چاکنگ ختم کرکے دیواریں صاف کردی جائیں گی۔ پنجاب کے 39اضلاع میں ساڑھے16ارب روپے کی لاگت سے 132بیوٹیفکیشن سکیمیں مکمل کی جائیں گی۔ بیوٹیفکیشن کی 122سکیموں پر کام شروع کردیا گیا۔ لاہور، بہاولپور، ڈی جی خان، سرگودھا، گجرات، فیصل آباد اور راولپنڈی میں بیوٹیفکیشن سکیمیں اگلے جون تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے۔ ملتان میں نومبر، گوجرانوالہ میں دسمبر کے آخر تک سکیمیں مکمل کرنے کی مدت مقررکی گئی ہے۔ ساہیوال میں بیوٹیفکیشن کی 24سکیمیں اگلے مارچ تک مکمل کر لی جائیں گی۔ ہر شہر میں سڑکوں اور بازاروں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ ٹف ٹائل بھی لگائی جائیں گی۔ مرکزی بازاروں کو خوش نما اور جاذب نظر بنانے کے لئے اپ لفٹنگ اور بیوٹیفکیشن کی جائے گی۔ مختلف شہر وں میں قدیمی دروازوں، روایتی بازاروں کو ری ماڈلنگ کے ذریعے خوبصورت شکل دی جائے گی۔ وزیراعلی مریم نواز نے گلگت بلتستان کے یوم الحاق پاکستان پر مبارکباد کا پیغام دیا اور گلگت بلتستان کے عوام کو ڈوگرہ راج سے آزادی کے یوم پر مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ گلگت بلتستان پاکستان کی خوبصورت اور شاندار تصویر پیش کرتا ہے۔ گلگت بلتستان کے بہادر عوام ملک و قوم کا فخر ہیں۔ گلگت بلتستان کی بے مثال روایات اور شاندار ثقافت سیاحوں کو مسحور کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسٹیبلشمنٹ سے بات نہیں ہوگی، آزادی یا موت ، غلامی قبول نہیں ،عمران خان
  • بابراعظم کے پاس ون ڈے کرکٹ میں نیا ریکارڈ بنانے کا سنہری موقع
  • تعریفیں اور معاہدے
  • امت مسلمہ کی نجات کا واحد راستہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • بابر اعظم کے پاس ون ڈے کرکٹ میں نیا ریکارڈ بنانے کا سنہری موقع
  • بابر اعظم کے پاس ون ڈے میں نیا ریکارڈ بنانے، کئی لیجنڈز سے آگے نکلنے کا سنہری موقع
  • امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟
  • امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
  • پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز