کیا بتائیں صرف یہی بتاسکتے ہیں کہ دل ہی تو ہے کہ آج کل ایک محترمہ کی تصویر دلپذیر نے اپنا اسیر کیا ہے، جی ہاں صرف ’’تصویر‘‘ نے۔ ان کو براہ راست مجسم ،لائیو دیکھیں ،اتنا ہمارا نصیبہ کہاں؟
برسماع راست برکسی چیرنیست
طلمہ بر مرغکے انجیرنیست
اورجب تصویر نے ہمارا یہ حال کررکھا ہے تو براہ راست دیکھنے پر تو شاید ہمارا دم ہی نکل جائے اورہمیںیہ بھی کہنے کاموقع نہیں ملے گا۔
میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھ دے
ترے آنے کی خوشی میں میرا دم نکل نہ جائے
تو اس محترمہ کی تصویر نے ہمیں حیران ، پریشان ہرگز نہیں بلکہ شاداں وفرحاں کیا ہوا ہے جو کبھی اخباروں کی زینت بن کر ہمیں اور زیادہ حیران کررہی ہے ، نام ہم ان کا بتاسکتے ہیں لیکن بتائیں گے ہرگز نہیں ، اگرچہ اس کا بہت میٹھا میٹھا اورمیٹھا نام ہے
نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے
تو تسلی ہے، دلاسہ ہے ،دعا ہے کیا ہے؟
بلکہ تو لڈوہے ،رس گلہ یا قلاقند ہے بلکہ ان سب شیرینیوں کے ساتھ حلوائی کی پوری دکان اورشہد مصفا بھی شامل کردیجیے تو بتائیے کہ ہم اس مٹھاس کو کسی اورکے ساتھ کیسے شیئر کرسکتے ہیں کہ جس کے بارے میں بہت پہلے سے مرشد نے بھی کہا ہے
کتنے شیریں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
بلکہ حافظ نے بھی ایسی کسی شیریں کے بارے میں فرمایا ہے کہ
بدم گفتنی وخور سندم عفاک الیہ نکو گفتنی
جواب تلخ می زپیدلب لعل شکرخارا
اس لیے ہم بھی اس کے تلخ بیانات کو بھی نظر انداز کرکے اس کے ہونٹوں کو دیکھتے ہیں جس سے زہریلا ہلاہل بھی ٹپکے تو امرت بن جاتا ہے ،ہم حیران (پریشان نہیں) اورفرحاں و شاداں ہیں کہ اس حسن کی رعنائیاں روزبروز بڑھتی جارہی ہیں نہ جانے کونسی چکی یا فلورمل کا پیسا کھاتی ہے کہ ہرچڑھتے دن کے ساتھ اس کے نکھار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ؎
دن بدن بڑھتی رہیں اس حسن کی رعنائیاں
پہلے جاں بھرجان جاں پھر جان جانان ہوگئے
پہلے گل پھر گل بدن پھر گل بداماں ہوگئے
ایسا لگتا ہے کہ اس نے کوئی ایسا نسخہ کہیں سے پالیا ہے جس سے عمر کو ریورس گئیر میں ڈالاجاسکتا ہے، ایسے نسخے تو اورخواتین بھی استعمال کرتی ہیں لیکن اس نے تو شاید یہ نسخہ اپنی تصویر پر بھی استعمال کیا کہ اخبارات کے دفتر میں پڑے پڑے وہ بھی اپ ٹوڈیٹ ہورہی ہے ، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آج کل اخبارات میں بیانات کے ساتھ جو تھوپڑے چھپ رہے ہیں وہ انتہائی ناقابل دید بلکہ ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔
ان کو دیکھ کر طبیعت اتنی اتنی خراب ہوجاتی ہے کہ اگر فوراً کچھ اچھا نہ دیکھاجائے تو ابکائیاں آنے لگتی ہیں اورہم اکثر یہی کرتے ہیں کہ صفحہ پلٹ کر اسی کی تصویر دلپذیر پر اپنی طبیعت بحال کرلیتے ہیں ، شاداب کرلیتے ہیں، آج کل نہ جانے زمانے کو کیا ہوگیا ہے کہ اچھے چہرے جیسے دنیا میں ختم ہوگئے ہیں اورخاص طور پر بیانات کے ساتھ جو چہرے نتھی ہوتے ہیں وہ تو جیسے بچوں کو ڈرانے اور بوڑھوں کو عبرت پکڑانے کے لیے بنے ہیں یا شاید اخبار کو چشم بد سے بچانے کے لیے چنے جاتے ہیں ۔
وہ بھی کیا زمانے تھے کہ اخبار اٹھا کر ایسا لگتا تھا جیسے بت کدے کادرکھلا، شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کامنظر کھلا ،ادھر سشما ،ادھر گوگی ،ادھر بہت سارے خوش نما چہرے ، سارا اخبار گل وگل زار اورباغ وبہار ۔اگر ناشتے میں پائے بھی ہوتے توبالائی مکھن اورکیک پیسٹری ہوجاتے تھے ، طبیعت سارادن بحال رہتی تھی اوراب تو ایسا لگ رہا ہے جسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہے ہیں ۔
وہ فوٹوگرافربھی شاید ریٹائرہوگئے ہیں جو کہیں نہ کہیں سے انہماک والی خواتین کی تصاویر چن چن کر لاتے تھے اوراخبار کی زینت بناتے ، خاتون انہماک سے تقریرسن رہی ہے ،خاتون انہماک سے چوڑیاں پسند کررہی ہے، خاتون انہماک سے شاپنگ کررہی ہے ،خاتون انہماک سے آئس کریم کھارہی ہے، خاتون انہماک سے دھرنے میں ناچ رہی ہے ،خاتون انہماک سے تقریب میں بیٹھی ہے ۔ بلکہ اخبارات سے صفحے بھی غائب ہوچکے ہیں جن میں پڑوسی ملک بمقام گالی وڈ کی حسیناؤں کے جلوے دکھاتے تھے اور وہ انجلیناجولیاں، میڈونا ، لیڈی گاگائیں ، سکھیرائیں وغیرہ وغیرہ
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کو آنکھیں ترستیاں ہیں
اورجب سے ’’بانی‘‘ کا وژن شروع ہوا ہے اورساتھ ہی یہ مشیروں اورمعاونوں کی ایک خاص مخلوق پیداہوئی ہے ،تب سے تو بیانات اورتصویرات میں اور بھی بھیانک چہرے آنے لگے ہیں، اخبارات اب ریگستان ہوتے جارہے ہیں ، ریت ہی ریت کانٹے ہی کانٹے اوربگولے ہی بگولے اڑتے جارہے ہیں
بہ قول ایک پشتو کہاوت کہ ۔۔وہ تیرا باپ کیاکم تھا کہ تم نے ’’وفادار‘‘ بھی پال لیا…ہرن کیا کم تھا کہ اس نے گھنگروں بھی پہن لیے
وزیر کیاکم بیانات دیتے تھے کہ یہ معاون ومشیر بیانات کی برسات لے آئے ہیں ، وزیر لوگ تو کریں گے ، ہوگا، کیاجائے گا، کرتے تھے اوریہ نئی مخلوق ، ہوگیا ہے ،کرلیا ہے، کرچکے ہیں، کی راگ الاپ رہے ہیں ۔ہماری حکومت کا ایک اورکارنامہ ،ایک اورسنگ میل ایک اورسہولت وغیرہ۔ ایسے میں اس تصویر کے ہم مدح سرا کیوں نہ ہو، جو اس لق ودق بیابان میں ٹھنڈے اورمیٹھے پانی کا سرچشمہ ہے، چشمہ شیریں وحیات افزا۔۔
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایا
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خاتون انہماک سے کے ساتھ ہے کہ ا ہیں کہ
پڑھیں:
27ویں ترمیم کی منظوری: حکومت کو کتنے ارکان کی حمایت درکار؟
اسلام آباد:(نیوزڈیسک) 27 ویں آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کے مشن میں قومی اسمبلی کا ایوان 336اراکین پر مشتمل ہے۔
ایوان میں 10 نشستیں خالی ہونے کے سبب اراکین کی تعداد 326 ہے، آئینی ترمیم کے لئے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے ، حکومتی اتحاد کوپیپلز پارٹی سمیت اس وقت 237 اراکین کی حمایت حاصل ہے ۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی نے کل ہونے والے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں حتمی فیصلہ کرنا ہے، مسلم لیگ ن 125اراکین کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، پیپلز پارٹی کے 74 اراکین ہیں جب کہ ایم کیو ایم کے 22، ق لیگ کے 5، آئی پی پی کے 4اراکین ہیں۔
اِسی طرح مسلم لیگ ضیاء،بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن کے علاوہ 4آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے ، قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 89 ہے ،اپوزیشن بینچوں پر 75 آزاد اور جے یو آئی ف کے 10 اراکین ہیں ۔
علاوہ ازیں سنی اتحاد کونسل ،مجلس وحدت المسلمین ،بی این پی مینگل اورپختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن بھی اپوزیشن بینچوں پر موجود ہے۔