عالمی یکجہتی پائیدار ترقی کی ضمانت
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان سماجی انصاف، جامع ترقی اور عالمی یکجہتی کے لیے پرعزم ہے، قطر کے شہر دوحہ میں دوسری عالمی سماجی ترقی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات چوبیس کروڑ پاکستانیوں کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا حالیہ خطاب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والی سماجی ترقی کے لیے دوسری عالمی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی قومی پالیسی، علاقائی خدشات اور عالمی تعلقات کے حوالے سے ایک جامع اور بامعنی اظہارِ خیال کیا۔ یہ خطاب محض ایک سفارتی تقریر نہیں بلکہ پاکستان کے اجتماعی شعور، خطے کی حساس صورتحال اور عالمی برادری کے ساتھ ہمارے تعلقات کے نئے رخ کی عکاسی کرتا ہے۔
صدر مملکت نے جہاں سماجی انصاف، پائیدار ترقی اور جامعیت کے اصولوں پر بات کی، وہیں انھوں نے ایک نہایت اہم اور تشویش ناک مسئلے کی نشاندہی بھی کی اور وہ ہے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا خطرہ۔ ان کا یہ انتباہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی معیشت، ثقافت اور طرزِ زندگی سب دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ، جو 1960میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی ضامنوں کی نگرانی میں طے پایا تھا، اسی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ پانی کسی بھی صورت میں جنگ یا سیاسی دباؤ کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
تاہم گزشتہ چند برسوں میں بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزیاں اور دریاؤں کے بہاؤ میں غیر فطری تبدیلیاں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ صدر مملکت نے جب دوحہ کے عالمی فورم پر اس خطرے کو اجاگر کیا تو درحقیقت انھوں نے دنیا کو متنبہ کیا کہ اگر پانی کے مسئلے پر سنجیدگی نہ برتی گئی تو مستقبل کی جنگیں تیل یا زمین کے بجائے پانی پر لڑی جائیں گی۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ پاکستان کے پاس پہلے ہی پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ خوراک کے مطابق، پاکستان پانی کی قلت والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ ایک طرف گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، دوسری جانب دریاؤں کا قدرتی بہاؤ متاثر ہو رہا ہے، ایسے میں اگر سرحد پار سے پانی کو بطور سیاسی دباؤ استعمال کیا جائے تو یہ پاکستان کی زراعت، صنعت، توانائی اور انسانی بقا کے لیے شدید خطرہ بن سکتا ہے۔ صدر زرداری نے اس مسئلے کو چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے سنگین خطرہ قرار دے کر نہ صرف ایک قومی موقف پیش کیا بلکہ عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ پانی کے مسئلے کو انسانیت کے مشترکہ چیلنج کے طور پر دیکھے۔
صدر مملکت کا یہ بیان محض انتباہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی قانونی اور اخلاقی سوال بھی اٹھاتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور بھارت اس کا فریق ہے، اگر ایک فریق اپنی ذمے داریوں سے انحراف کرتا ہے تو اس کے اثرات صرف ایک ملک پر نہیں بلکہ پورے خطے کے امن پر پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اس مؤقف کو عالمی فورمز پر بار بار پیش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
صدر زرداری کا یہ اقدام سفارتی سطح پر ایک درست اور بروقت کوشش ہے، جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک اخلاقی جواز فراہم کرتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں صرف خطرات پر بات نہیں کی بلکہ حل کی راہ بھی دکھائی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان سماجی انصاف، جامع ترقی اور عالمی یکجہتی کے اصولوں پر کاربند ہے۔ انھوں نے دوحہ سیاسی اعلامیے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا وژن اس اعلامیے کی روح سے ہم آہنگ ہے۔
یہ بات اس لیے اہم ہے کہ دنیا اس وقت ایک غیر متوازن ترقی کے دور سے گزر رہی ہے۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی ڈھانچہ ایسے نظام پر کھڑا ہے جس میں طاقتور ممالک کو زیادہ اور کمزور ممالک کو کم مواقع ملتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی سطح پر ان اصولوں کی حمایت کرے جو برابری، انصاف اور مشترکہ ترقی پر مبنی ہوں۔
صدر آصف علی زرداری نے دوحہ کانفرنس میں ایک اور اہم نکتہ اٹھایا، تعلیم اور خواندگی۔ انھوں نے کہا کہ آیندہ پانچ سالوں میں پاکستان میں خواندگی کی شرح 90 فیصد تک بڑھانے اور ہر بچے کے اسکول جانے کو یقینی بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ ایک بلند ہدف ہے، مگر قابلِ تعریف بھی۔ پاکستان میں اس وقت دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جو ایک قومی المیہ ہے، اگر واقعی حکومت اس سمت میں مؤثر پالیسی اپناتی ہے تو یہ صرف تعلیمی میدان میں کامیابی نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب ہوگا۔ تعلیم وہ بنیاد ہے جس پر پائیدار ترقی کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔
صدر مملکت کے خطاب میں بار بار ’’ جامعیت‘‘ اور ’’ پائیداری‘‘ کے الفاظ دہرائے گئے، جو ان کے وژن کی کلید ہیں۔ جامع ترقی کا مطلب ہے کہ ترقی کے ثمرات صرف چند طبقوں تک محدود نہ رہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد تک پہنچیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اکثر ترقی پذیر ممالک میں نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ اگر ترقی صرف GDP یا معیشت کے اعداد و شمار تک محدود رہے اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہ آئے، تو ایسی ترقی کھوکھلی ہے۔ صدر زرداری نے اس تضاد کی طرف بالواسطہ توجہ دلائی کہ اصل ترقی وہ ہے جو عام شہری کی زندگی کو بہتر بنائے، غربت کم کرے، تعلیم عام کرے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔
ان کا دوحہ میں دیا گیا پیغام بین الاقوامی سیاست کے موجودہ تناظر میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا اس وقت کئی بحرانوں سے گزر رہی ہے، ماحولیاتی تبدیلی، علاقائی تنازعات، معاشی دباؤ، مہنگائی اور پناہ گزینوں کے بڑھتے مسائل۔ ایسے وقت میں پاکستان کا مؤقف کہ ’’ عالمی یکجہتی ہی پائیدار ترقی کی ضمانت ہے‘‘ ایک متوازن اور دانشمندانہ سوچ کی علامت ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے عالمی برادری میں ایک ذمے دار ملک کے طور پر ابھرا ہے، جس نے امن، تعاون اور انسانیت کے اصولوں کی حمایت کی ہے۔اگر صدر زرداری کے خطاب کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ پاکستان تصادم نہیں بلکہ تعاون کی راہ پر یقین رکھتا ہے۔
پاکستان کا جغرافیہ اسے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک قدرتی پل بناتا ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو علاقائی ہم آہنگی اور اقتصادی روابط کے فروغ کے لیے استعمال کرے۔ پانی کے مسئلے پر آواز اٹھانا، دراصل امن کے حق میں آواز بلند کرنا ہے۔پاکستان کو اپنے داخلی چیلنجز پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا مؤقف مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا۔ پانی کا مسئلہ صرف ایک ماحولیاتی معاملہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔
پاکستان کو اپنے آبی ذخائر میں بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ نئے ڈیموں کی تعمیر، پانی کے ضیاع کو روکنے، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، اور عوامی شعور بیدار کرنے کی مہمات شروع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم صرف دوسروں پر الزام لگا کر بیٹھ جائیں تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پانی کے تحفظ کو قومی ایجنڈے میں اولین ترجیح دینا ہوگی۔تاہم اس وژن کو حقیقت بنانے کے لیے صرف بیانات کافی نہیں۔ حکومت کو مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ، شفاف نظام، اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہوگا۔
صدر زرداری کا یہ خطاب پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک مثبت تاثر پیدا کرتا ہے کہ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں بلکہ عالمی ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ تاہم، ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بیانات سے زیادہ اہم عمل ہے۔ دنیا اُن ممالک کی بات سنتی ہے جو اپنے داخلی معاملات کو سنبھال کر عالمی سطح پر فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو تسلسل دے، سیاسی استحکام کو ترجیح دے، اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو ذاتی یا جماعتی سیاست سے بالاتر رکھے۔
صدر آصف علی زرداری کا دوحہ میں خطاب اس لحاظ سے تاریخی بھی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پاکستان کی ترقیاتی پالیسیوں کو عالمی فریم ورک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے پاکستان ایک ذمے دار، پرعزم اور ترقی پسند ریاست کے طور پر عالمی برادری میں اپنی شناخت مزید مستحکم کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان الفاظ کو عملی اقدامات سے تقویت دی جائے، تاکہ دنیا یہ دیکھ سکے کہ پاکستان صرف وعدے نہیں کرتا بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا صف علی زرداری ہے کہ پاکستان عالمی یکجہتی عالمی برادری پائیدار ترقی بین الاقوامی میں پاکستان پاکستان کے پاکستان کی نہیں بلکہ زرداری کا صدر مملکت اور عالمی کے طور پر انھوں نے کرتا ہے پانی کے کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
گورنر کے پی کا فیوچر سمٹ سے خظاب خیبر پختونخوا کے قدرتی وسائل میں سرمایہ کاری کی دعوت
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کراچی میں فیوچر سمیٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جسے درست سمت میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا میں قدرتی وسائل کی بہتات ہے، میں تمام سرمایہ کاروں کو خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتا ہوں۔ ہماری ترجیح ایسا ایکو سسٹم بنانا ہے جو سرمایہ کاری کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ درست سمت کا تعین اور ’کورس کریکشن‘ ہی ہمیں پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ترقی کے لیے تعاون، اعتماد اور طویل المدتی وژن ناگزیر ہیں۔
ہمیں کو ازسرِ نو متعین کرنا ہوگا، وزیر اعلیٰ سندھوزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں جدت اور پائیدار ترقی کی سمت میں اپنی راہِ عمل کو ازسرِ نو متعین کرنا ہوگا۔ سندھ متعدد شعبوں میں جدت کی جانب بڑھ رہا ہے، تاہم ٹیکنالوجی پارکس کے قیام کے لیے وفاقی حکومت کی اجازت درکار ہے۔
ہم نوجوانوں کو جدید تعلیم اور مہارتوں سے آراستہ کرکے ان کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ عوامی شعبہ نجی شعبے کو جدت اور ترقی کے قابل بنانے کے لیے انفراسٹرکچر فراہم کرے گا۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور ترقی کا عزممراد علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا ڈھانچہ سندھ میں سب سے بہتر ہے اور متعدد کامیاب منصوبے جاری ہیں۔ مستقبل اُنہی کا ہے جو تیزی سے تبدیلی کو قبول کرتے ہیں۔ ہم ترقی میں تیزی لانے کے پُرعزم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کورس کریکشن‘ کا موضوع وقت کی اہم ضرورت ہے، ہمیں اپنی سمت کو ازسرِ نو متعین کرکے جدت اور پائیدار ترقی کی جانب بڑھنا ہوگا۔ عوامی شعبہ نجی شعبے کو جدت اور ترقی کے قابل بنانے کے لیے انفراسٹرکچر فراہم کرے گا۔
وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک کا خطابوفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں پتہ ہو کہ کہاں جانا ہے تو ہم اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ نوجوانوں سے ان کی منزل کا پوچھا تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی منزل بہت آسان ہے، ان کی خواہشات بہت سادہ ہیں۔ انہیں نوکری کی ضرورت ہے، اچھا پڑوسی ہو، بچے اچھے اسکول میں پڑھیں اور ماں باپ کا اچھے اسپتال میں علاج ہوسکے۔
صحت، ماحول اور پائیدار ترقی پر زوران کا مزید کہنا تھا کہ اسموگ کی وجہ سے زندگی کے 7 سے 8 سال کم ہوجاتے ہیں، جس کا پنجاب کے رہنے والوں کو سامنا ہوتا ہے۔ مضبوط اور صحت مند معاشرے کے لیے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔ نجی شعبے کی تیز رفتار اور وسیع توسیع کے ذریعے پائیدار ترقی، روزگار اور معیشت کے فروغ کا ذریعہ بنے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں