اسلام آباد ہائیکورٹ نے لطیف کھوسہ کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 جنوری ۔2025 )اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون دان لطیف کھوسہ کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے جسٹس محسن اخترکیانی نے لطیف کھوسہ کا ای سی ایل سے نام نکلوانے کی درخواست پر سماعت کی. سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے سرکاری وکیل نے کہا کہ نام ای سی ایل میں ہے اور ایک مقدمہ درج ہے عدالت نے استفسار کیا کہ چالان جمع کروا دیا گیا ہے کیا؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ ابھی چالان جمع نہیں کروایا گیا.
(جاری ہے)
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ یہ 188 کے کتنے پرچے دیے اب تک، ہزاروں میں ہوں گے، سب کا نام ای سی ایل میں ڈالا کیا، کوئی ایک بات سمجھا دیں تاکہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، کیا یہ بھاگ جائیں گے اور واپس نہیں آئیں گے.
سرکاری وکیل سے استفسار کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کیوں روکے گی ان سوالوں کے جواب دے دیں لطیف کھوسہ نے کہا کہ پانچ کو فلائٹ تھی لیکن نہیں جانے دیا، اب کل کینیڈا جانا ہے. عدالت نے لطیف کھوسہ کو ہدایت کی کہ آپ ٹرائل کورٹ میں بیان حلفی دیں کہ جب عدالت بلائے پیش ہوں گے ہائیکورٹ نے لطیف کھوسہ کو بیرون جانے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایات کے ساتھ سماعت ملتوی کر دی واضح رہے کہ لطیف کھوسہ کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کا مقدمہ درج ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: عدالت نے
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔