امریکا پاکستان تعلقات کی تشکیل نو
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
مئی 2022 میں پاکستان میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے سفیر کی حیثیت سے میری آمد کے ساتھ ہی، میری توجہ امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی مضبوطی اور اْن کی ازسر نو تشکیل پر مرکوز رہی ، جن کی بنیاد باہمی دلچسپی کے حامل شعبوں اور مشترکہ بین الاقوامی مشکلات کے سلسلہ میں تعاون پر قائم رہی۔
یہ وہ دور تھا جب ہمارے باہمی تعلقات کو افغانستان، پاکستان یا بھارت اور پاکستان کے زاویوں کے بجائے امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک گہری اور دیرپا شراکت داری کے طور پر دوبارہ تشکیل دیا جانا تھا۔ اب دیکھا جائے تو گزشتہ ڈھائی برسوں میں ہم نے اْس شراکت داری کو وسیع اور مزید گہرا کیا ہے اور پاکستانیوں کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل شعبوں یعنی روزگار، سستی توانائی، صاف پانی، صحت اور تعلیم کی بہتری میں اہم پیشرفت کو یقینی بنایا ہے۔
تاہم یہ سب کچھ ہمیشہ اتنا آسان نہیں رہا۔ امریکا اور پاکستان نے باہمی طور پر بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے ، جیسا کہ تباہ کْن سیلاب، بین الاقوامی وبا، معاشی غیر یقینی کی صورتحال اور جنگ کے بعد کے دیرپا اثرات۔ لیکن ہم میں سے جن افراد نے امریکا اور پاکستان کے مابین تعلقات کی مضبوطی پر مِل جْل کر کام کیا ہے وہ اس بنیادی امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ ایک طویل سفر ہے اور اس کی سمت میں اْٹھایا جانے والا ہر قدم ، تعاون کی ہر کاوش، ہمیں ہماری دونوں قوموں کی مشترکہ خوشحالی اور سلامتی کے مستقبل کے قریب لے جاتا ہے۔
امریکا اور پاکستان کے درمیان تعاون کی تاریخ کا آغاز پاکستان کے حْصولِ آزادی سے ہی ہوچْکا تھا۔ حالیہ برسوں میں ہم نے تعلقات کی تعمیر اْسی میراث کی بنیاد پر کی ہے۔ 2022 میں آنے والے تباہ کْن سیلاب کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکا نے صرف انفرادی طور پر ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہم نے بین الاقوامی برادری کو لاکھوں پاکستانیوں کی بحالی اور تعمیر نو میں معاونت کی خاطر متحرک بھی کیا۔
ہم نے زندگیاں بچانے کے لیے امداد فراہم کی اور صحت کی سہولیات، پانی کی فراہمی کے نظام اور اسکولوں کی تعمیر نو میں بھرپور کردار ادا کیا۔ امریکا کی فراہم کردہ 216ملین ڈالرز کی امداد سیلاب سے تباہ حال پاکستانی برادریوں کے لیے دوبارہ اْبھرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ لیکن ہم نے اپنا تعاون وہیں تک محدود نہیں کیا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ متاثرین کی بحالی کی خاطر ہماری وہ کاوشیں مستقبل کی ترقی کا سنگ بنیاد ثابت ہوں۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کئی دہائیوں سے پاکستان اور اْس کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرتا آ رہا ہے۔ گزشتہ ڈھائی سالوں کے عرصہ کے دوران ہم نے اْ س سرمایہ کاری کی بنیاد پر مزید تعاون بھی جاری رکھا۔ امریکا نے صرف منگلا، تربیلا، اور دیگر آبی ذخائر کی تعمیر میں معاونت نہیں کی تھی،جو لاکھوں پاکستانیوں کو صاف توانائی کی فراہمی کا وسیلہ ہیں، بلکہ اْن کی بہتری کے لیے امریکی اعانت سے حالیہ کوششیں بشمول جی ای کی نئی ٹربائنز، مزید لاکھوں پاکستانیوں کے لیے قابل بھروسہ اور سستی بجلی کی فراہمی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اس سے آنے والی نسلیں بھی مستفید ہو سکیں گی۔
ریاستہائے متحدہ امریکا نے 2005سے لے کر اب تک پاکستان کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر میں لگ بھگ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور متعدد سڑکیں، پْل، اسکول ، یونیورسٹیاں، حفظانِ صحت کی سہولیات، اسپتال، شمسی، ہوائی، اور آبی توانائی کے استعمال کے وسائل،بجلی کی ترسیل کی لائنیں اور آبپاشی سے متعلق سہولیات فراہم کی ہیں۔
امریکی سرمایہ کاری پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع کی دستیابی ، تربیت، ٹیکنالوجی کی فراہمی، مہارتوں میں بہتری، مقامی برادریوں کی ترقی کی غماز بنی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکی سرمایہ کاری، درحقیقت گرانٹ اور اعانت پر مبنی ہوتی ہے قرض پر نہیں جس کو واپس کرنے کی ضرورت ہو۔ یہی وہ اشتراک کار ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔
معیشت کی ترقی ہمارے تعلقات کا ایک بنیادی سْتون رہی ہے۔ بطور سفیر میری تعیناتی کے عرصہ کے دوران ہم نے اقتصادی اصلاحات ،امریکی تجارت اور سرمایہ کاری میں توسیع کو اپنی اولین ترجیحات میں رکھا ہے۔ کیونکہ ہم پاکستان کو محفوظ، مضبوط اور سلامت دیکھنا چاہتے ہیں، ایک ایسا پاکستان جو معاشی طور پر خود مختار ہو، جو عالمی معیشت میں واقع ہونے والی تبدیلیوں سے مستفید ہو نے کا اہل ہو اور آزاد، کْھلی، منصفانہ اور مسابقتی منڈیوں سے مستفید بھی ہوسکے۔
حالیہ برسوں میں ہم نے امریکا کے لیے پاکستان کی برآمدات میں مسلسل اضافہ دیکھا ہے ، جو کہ 2023 کے پہلے دس ماہ میں چھ ارب ڈالر سے زیادہ ہوگئی ہیں۔جب کہ امریکی کمپنیاں یہاں پر اپنا کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔2023میں، امریکی کمپنیوں نے ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو ملازمتیں فراہم کیں اور اْن کے وسیع تر اقتصادی ثمرات سے دس لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو روزگار مِلا۔ پاکستان مزید تجارت اور سرمایہ کاری، خاص طور پر امریکی سرمایہ کاری، کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے اور قرضوں اور بین الاقوامی مالیاتی امداد کے شیطانی چکر سے نکل سکتا ہے اگر وہ معاشی اصلاحات کے عزم پر مستقل طور پر کاربند رہے، سرمایہ کاروں کے لیے یقینی اور قابل بھروسہ ماحول پیدا کرے اور جامع، مضبوط اور پائیدار ترقی کی کوششوں کو جرات مندی سے آگے بڑھائے۔ مذکورہ اقدامات معیشت کے استحکام اور پاکستانی عوام کے لیے اعلیٰ معیار زندگی کی فراہمی کے ضامن ہوں گے۔
معیاری تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات تک رسائی کو بہتر بنانا بھی ہمارے تعاون کا مرکزی حصہ رہا ہے۔ ہم نے اسکولوں، وظائف اور یونیورسٹیوں کی شراکت داری میں سرمایہ کاری کی ہے۔گزشتہ دہائی کے دوران امریکا نے پاکستانی بچوں کے لیے سیکڑوں نئے اسکول تعمیر کیے جب کہ دیگر ہزاروں کی بحالی بھی سرانجام دی۔ ہر سال، ہم سیکڑوں پاکستانی طلباء کو ثقافتی اور تعلیمی تبادلوں پر امریکا میں خوش آمدید کہتے ہیں، اور امید رکھتے ہیں کہ وہ یہاں پاکستان میں واپس آکر اپنے وطن کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبہ میں ہماری شراکت داری، پولیو اور تپ دق کے خاتمہ کی کوششوں سے لے کر غذائی قلت کی وجہ سے موت کے خطرات سے دوچار خواتین اور بچوں کی زندگیاں بچانے تک، پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔
مذکورہ تمام شعبوں میں ہم نے پائیدار تعمیر کی ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان جاری شراکت داری ثابت کرتی ہے کہ ہم اپنے مشترکہ مقصد کے حْصول کے لیے مِل جْل کر کام کریں تو ایسے بہترین نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
گوادر سے گلگت تک اور درمیان میں آنے والی ہر جگہ پر، پاکستان بھر میں سفر کرتے ہوئے میں اِس مْلک کی خوبصورتی، تنوع اور شاندار ثقافت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں نے ہمالیہ کے دامن میں پیدل سفر کیا، چائے کی پیالی پر لوگوں سے تبادلہ خیال کیا ، قوالیوں سے لطف اندوز ہوا اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے پْر جوش لمحات کو محسوس کیا۔ میں نے پنجاب میں دیکھا کہ امریکی ٹیکنالوجی اور جدت کیسے پاکستان کی زراعت کا دل قرار دیے جانے والے اس صوبہ کو مضبوط کر رہی ہے۔
میں نے کراچی میں ملک کے معاشی مستقبل کی تشکیل میں مصروفِ عمل انٹرپرینیورز سے ملاقات کی۔ خیبر پختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والی پاکستانی برادریوں کی مہمان نوازی، سخاوت اور فراخدلی کا مشاہدہ کیا۔ میں جہاں بھی گیا وہاں نوجوان قائدین سے ملاقاتیں کیں اور اْن کو چمکتا دمکتا،عزم سے سرشار اور اپنے وطن کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار پایا۔ یہ رابطوں کے لمحات مجھے یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی وہ پالیسیاں جو ہم اختیار کرتے ہیں۔
پاکستان میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینا میرے لیے باعث اعزاز رہا ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے جو ہم نے تعمیر کیا ہے اور جو کچھ ہم نے مل کر حاصل کیا ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ ہماری مشترکہ تاریخ میں صرف ایک قدم ہے۔ جیسے جیسے ہماری شراکت داری میں وسعت پیدا ہوگی، ہم ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کر سکیں گے جس کو پیش آنے والی مشکلات سے نہیں بلکہ مِل کر پیدا کیے گئے مواقع اور خوشحالی سے تعبیر کیا جائے گا۔
ہمارا یہ سفر جاری ہے اور میں پْراعتماد ہوں کہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے ہماری دونوں قوموں کے درمیان تعلقات آنے والے برسوں میں مضبوط ہوتے جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تعلقات کی امریکا نے کی فراہمی سے زیادہ کی فراہم کی تعمیر کی ترقی کے لیے ہے اور صحت کی کیا ہے
پڑھیں:
مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے
اسلام ٹائمز: آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تحریر: ضرار کھوڑو
کچھ روز قبل 26 مئی کو اسرائیل نے یومِ یروشلم منایا۔ یہ وہ دن ہے جب اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا۔ اس دن کی تقریبات میں انتہائی دائیں بازو کے ہزاروں اسرائیلیوں کو سڑکوں پر نکل کر عربوں کو ہراساں کرنے کی قومی تفریح میں مشغول دیکھا گیا۔ اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتامار بین گویر کی موجودگی اور ان کی حمایت سے ہجوم نے مسلم کوارٹر کی جانب مارچ کیا جہاں انہوں نے ’عربوں کو موت دو‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے غزہ کے باشندوں کی حالت زار کا مذاق اڑایا جبکہ اسلام اور اس کی معزز شخصیات کے خلاف گستاخانہ نعرے بلند کیے۔ یہ تمام سرگرمیاں اسرائیلی پولیس کے حفاظتی حصار میں کی گئی۔
ماضی کی روایات کے مطابق ان اسرائیلیوں نے الاقصیٰ کے احاطے پر بھی دھاوا بولا جہاں انہوں نے گانا گایا، رقص کیا اور تلمودی رسومات ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر نئے نکبہ اور فلسطینیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ غزہ نسل کشی کی حمایت کرنے والے ایک اہم نام اور صہیونی حکومت کے وزیرِ خزانہ بیزالیل اسموترخ نے بھی اس موقع پر تقریر کی اور ’فتح‘، قبضے’ اور ’آبادکاری‘ کو اپنے سب سے قیمتی مقاصد کے طور پر بیان کیا۔ ان کا ایک اور بیان جو ان کے سامعین کے کانوں میں شہد گھول گیا وہ ان کی جانب سے اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد الاقصیٰ کے مقام پر ’ٹیمپل‘ کی تعمیرِ نو کا مطالبہ تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بھی مسجد اقصیٰ کے زیرِزمین بڑی سرنگ پر ٹہلتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ سرنگیں آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے لیے بنائی ہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ زیرِزمین کھدائی کا مقصد مسجد الاقصیٰ کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے اور ایسا کوئی آثارِ قدیمہ کا ثبوت تلاش کرنا ہے جو انہیں ٹیمپل ماؤنٹ (جسے عرب حرم الشریف کہتے ہیں) پر اپنے مکمل قبضے کا جواز فراہم کرسکے۔ یوں وہ آخرکار نام نہاد تھرڈ ٹیمپل (ہیکلِ سلیمانی) کی تعمیر کرسکیں۔
اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل کیا تھے؟ تو پہلا ہیکل تقریباً 957 قبلِ مسیح میں تعمیر ہوا تھا جسے چند صدیوں بعد یروشلم کے محاصرے کے دوران سلطنت بابل نے تباہ کر دیا تھا۔ دوسرا ہیکل 538 قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن اسے بھی 70ء میں سلطنت روم کے خلاف یہودیوں کی خونریز اور بدقسمت بغاوت کے نتیجے میں رومی حکمرانوں نے تباہ کردیا تھا۔ دوسرے ہیکل کی باقیات میں سے صرف اس کی مغربی دیوار باقی رہ گئی ہے جو آج ’ویلنگ وال‘ کہلاتی ہے جہاں تقریباً ہر امریکی سیاستدان کو جانا پڑتا ہے اور یہاں ان کے لیے اسرائیل کے جھنڈے کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی طرح طاقتور اسرائیلی لابیز کے فنڈز اور حمایت کے دروازے ان کے لیے کھلتے ہیں۔
تو نئے ہیکل کی تعمیر کیوں؟ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کیوں ضروری ہے؟ بعض یہود مذہبی دھڑوں میں یہ غالب سوچ پائی جاتی ہے کہ مسیحا کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کیا جانا چاہیے۔ یہ مسیحا ممکنہ طور پر یہودی بالادستی کے ایک نہ ختم ہونے والے سنہری دور کا آغاز کرے گا جس میں دیگر تمام قومیں ان کی مرضی کی تابع ہوجائیں گی لیکن اس کے لیے پہلے مسجد الاقصیٰ کو منہدم کرنا ہوگا۔ اس کے حق میں سب سے پہلی حقیقی آواز شلومو گورین نے اٹھائی جو اسرائیلی ’دفاعی‘ افواج کے سابق چیف ربی تھے۔ 1967ء میں وہ 50 یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں دعاؤں کی غرض سے لے گئے اور وہاں ہیکل کی تعمیرِنو کا مطالبہ کیا۔
یہ وہ دور تھا جب اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں عرب آبادی کو قطعی طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا یا یہ کہہ لیں کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں شاندار فتح کے باوجود اپنے عرب ہمسایوں کو ایک اور جنگ کا جواز فراہم کرنے کے معاملے میں کسی حد تک احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ اسی اثنا میں ربی شلومو گورین کی مذمت کی گئی اور اسرائیل کے چیف ربیوں نے حکم دیا کہ یہودیوں کے لیے رسمی ناپاکی کی وجوہات کی بنا پر ماؤنٹ ٹیمپل میں داخل ہونا ممنوع ہے۔ ان رسمی ناپاکی کی وجوہات کو اس کالم میں بتانا انتہائی مشکل ہے۔
سرکاری حکم نامے کے باوجود زیرِزمین کھدائی (اسرائیل کی مذہبی وزارت کے زیرِاہتمام) کا کام اسی سال شروع ہوا اور مسلم کوارٹر کی کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد بھی یہ کام جاری ہے۔ لیکن 2025ء کا اسرائیل 1967ء کے اسرائیل سے انتہائی مختلف ہے کیونکہ یہ ایک قابض بالادست طاقت بن چکی ہے جو فلسطینیوں کی قومیت کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ وہ اس وقت تو انتہائی مذہبی منافرت اور تشدد سے متاثر نہیں ہوا تھا لیکن اب وہ اس کے رنگ میں ڈوبا نظر آتا ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں بھی اسرائیل ایسا ہی کرتا رہے گا۔
آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگرچہ انجیلی مسیحیوں کے مطابق وہ یہودیوں سمیت پوری دنیا کو تبدیل کردیں گے (پھر چاہے وہ تبدیلی آگ اور تلوار سے ہی کیوں نہ لائی جائے) لیکن فی الحال دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ البتہ وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔
اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914867/the-third-temple