گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اگرچہ معاہدہ 60 سال کے لیے کیا گیا تھا، لیکن یہ 1947 میں برطانوی حکومت کے ہندوستان سے انخلا کے ساتھ ہی ختم ہو گیا برطانوی انخلا کے بعد1947 میں برطانیہ نے گلگت ایجنسی کا کنٹرول واپس مہاراجہ ہری سنگھ کو دے دیا، کیونکہ معاہدہ ختم ہو چکا تھا۔ گلگت کے عوام اور سکاوٹس نے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر کے انہیں نکال دیااور 1 نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کو آزاد کرادیا آزادی کے بعد یہ پاکستان کے زیر انتظام آ گیا۔جو پاکستان کی قدرتی طور پر ایک بڑی کامیابی تھی۔
برطانوی حکومت نےخطے کی اسٹریٹجک اہمیت کو دیکھتے ہوئے 1889 میں گلگت ایجنسی قائم کی جس کا مقصد روس کے ممکنہ اثر و رسوخ کو روکنا تھا۔
1947 میں پاکستان اور بھارت کے قیام کے بعد، گلگت بلتستان کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ مقامی لوگوں نے بغاوت کر کے ڈوگرہ حکمرانوں کو نکال دیا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ گلگت بلتستان مختلف ثقافتوں، زبانوں اور مذاہب کا سنگم رہا ہے۔ یہاں کے مشہور قلعے، جیسے التت، بلتت قلعہ اور شگر قلعہ، اس کی قدیم تاریخ کے گواہ ہیں۔ خطے کی بلند و بالاچوٹیاں، جیسے کے ٹو، اور قدرتی حسن، تاریخی اہمیت کے ساتھ ساتھ سیاحت کے لیے بھی مشہور ہیں۔ گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت اسےنہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔
معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کوحکومتِ پاکستان، آزاد کشمیر کی حکومت، اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے درمیان طےپایا تھا۔ اس معاہدے کےتحت گلگت بلتستان (اس وقت اسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا ) کا انتظام عارضی طور پر حکومتِ پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔
معاہدہ کی تفصیلات:
1.
حکومتِ پاکستان
آزاد کشمیر کی حکومت
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس(آزاد کشمیر کے سیاسی نمائندے)
2. مقاصد:
معاہدے کا مقصد گلگت بلتستان کے انتظامی امور کو سنبھالنے اور ریاست جموں و کشمیر کے تنازعے کےحل تک اس علاقے کی دیکھ بھال کرنا تھا۔
3. اختیارات کی منتقلی:
آزاد کشمیر کی حکومت نے گلگت بلتستان کے انتظامی اختیارات حکومتِ پاکستان کو سونپ دیے، تاہم یہ انتظام عارضی تھا کیونکہ یہ خطہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا مستقبل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عوامی رائے شماری سے طے ہونا تھا۔
4. اختلافات:
اس معاہدے پر وقتا فوقتا تنقید کی گئی، خاص طور پر گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے، کیونکہ اس معاہدے میں انہیں شامل نہیں کیا گیاتھا۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو یہ حق حاصل تھا یا نہیں کہ وہ اس علاقے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے لیڈروں نے گلگت بلتستان کے لوگوں کی محرومیوں پر کبھی کوئی آواز نہیں آٹھائی آزاد کشمیر کے لیڈروں کو یا تو گلگت بلتستان جانے ہی نہیں دیا گیا یا وہ سرے سے جانا ہی نہیں چاہتے تھےالبتہ مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر عبدالرشید ترابی،جے کے ایل ایف کے چیئرمین امان اللہ خان اور دیگر نے اس وقت شور مچانا شروع کیا جب پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ بنانے کا 2009 میں اعلان کیا بلکہ بعض نے پھر گلگت بلتستان کے دورے بھی شروع کردئیے۔ پیپلزپارٹی کے قمر زمان کائرہ نے پہلا گورنر گلگت بلتستان تعینات ہونے کے لئے شیروانی بھی پہن لی تھی بعد میں معاملات وہیں ٹھپ ہوکر رہ گئے۔2009 سے پہلے تو اس علاقے میں چوتھے روز ڈیلی اخبارات وہاں پہنچتے تھے ۔
مسلم کانفرنس اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیرِ انتظام لانے کی بنیاد بنا، حالانکہ قانونی طور پر یہ خطہ جموں و کشمیر کے تنازعے سے جڑا ہوا ہے۔ معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کےانتظامات پاکستان کےکنٹرول میں آئے، لیکن یہ مسئلہ آج بھی سیاسی اور قانونی طور پر متنازعہ ہے۔
یہ معاہدہ پاکستان اور جموں و کشمیر کے تنازعے کی تاریخ میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے، جس پر مختلف آرا اور مباحثے جاری رہتے ہیں۔ اس خطے کی اہمیت کئی اعتبار سے بہت زیادہ ہے،میری پاکستان کے طاقتور حکمرانوں سےدست بدستہ گزارش ہے اس خطے کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیں اگر اس علاقے کے لوگ وفاق کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تو یہ نیک شگون ہے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے حساس معاملہ ہے خالد خورشید ہو، مہدی شاہ ہویاحافظ حفیظ الرحمان ہوں ان کو کھل کر سیاست کرنے کی اجازت دی جائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: آزاد کشمیر کی حکومت مسلم کانفرنس پاکستان کے اس علاقے کشمیر کے نے گلگت کے ساتھ
پڑھیں:
کلاؤڈ برسٹ (بادل کا پھٹنا) کیا ہے اور ایسا گلگت بلتستان میں بار بار کیوں ہو رہا؟
گلگت بلتستان(نیوز ڈیسک) گلگت بلتستان کے علاقے سکردو اور ملک کے دیگر بالائی علاقوں میں بار بار ہونے والے ’کلاؤڈ برسٹ‘ نے تباہی مچا رکھی ہے۔ لیکن جو پہلے اس تواتر سے نہ ہوا وہ اب کیوں ہو رہا ہے؟ آئیے اسے سمجھتے ہیں۔
”کلاؤڈ برسٹ“، یا بادل کا پھٹ جانا، ایک ایسا قدرتی واقعہ ہے جسے سن کر ایسا لگتا ہے جیسے آسمان پھٹ پرا ہو۔ لیکن یہ ایک مختصر وقت میں ہونے والی بہت زیادہ بارش ہوتی ہے، جو عام طور پر کسی ایک مخصوص علاقے تک محدود رہتی ہے۔ ذرا تصور کریں، آپ باہر کھیل رہے ہوں اور ایک لمحے میں آسمان سے ایسا پانی برسے جیسے ہزاروں بالٹیاں ایک ساتھ انڈیلی جا رہی ہوں—یہی کلاؤڈ برسٹ ہے۔ خاص طور پر اگر ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر سے زیادہ بارش صرف 10 کلومیٹر کے علاقے میں ہو، تو سائنسدان اسے کلاؤڈ برسٹ کہتے ہیں۔
یہ عجیب و غریب بارش زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جب گرم ہوا پہاڑ سے اوپر جاتی ہے تو وہ ٹھنڈی ہو کر بارش برسانے لگتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار وہ بارش رُک جاتی ہے اور ہوا میں ہی جمع ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اچانک وہ تمام پانی ایک دھماکے کی طرح زمین پر گرتا ہے۔
یہ نہ صرف حیرت انگیز ہوتا ہے بلکہ خطرناک بھی! پہاڑوں میں جب ایسا ہوتا ہے تو پانی تیزی سے نیچے بہتا ہے، نالوں میں آ جاتا ہے، اور ساتھ میں لینڈ سلائیڈ یا مٹی کے تودے بھی آ سکتے ہیں۔ شہروں میں یہ پانی گلیوں کو ندی میں بدل دیتا ہے اور لوگ پریشان ہو جاتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ اتنی جلدی کیسے ہو گیا۔
کلاؤڈ برسٹ کے ساتھ اکثر بجلی کی چمک، زور دار آوازیں، تیز ہوائیں اور کبھی کبھار اولے بھی شامل ہوتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ایسے خطرناک موسمی واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔ جب زمین یا سمندر زیادہ گرم ہو جاتے ہیں، تو پانی زیادہ بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، آسمان میں بڑے اور گہرے بادل بنتے ہیں، جو پھر اچانک برس پڑتے ہیں۔ اور جب پہاڑوں میں بغیر منصوبہ بندی کے سڑکیں، ہوٹل، یا کالونیاں بنائی جائیں اور درخت کاٹ دیے جائیں، تو یہ خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
ایسے وقت میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہوشیار رہیں۔ محکمہ موسمیات یا مقامی انتظامیہ کی بات سنیں، اگر خطرے کی وارننگ دی جائے تو فوراً کسی اونچی جگہ چلے جائیں۔
یاد رہے، کلاؤڈ برسٹ کو روکنا ہمارے ہاتھ میں نہیں، لیکن تھوڑی سی سمجھداری اور احتیاط سے ہم اپنی جان اور دوسروں کی حفاظت ضرور کر سکتے ہیں۔
Post Views: 3