راولپنڈی:

پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے کہا ہے کہ عمران خان کا کہنا ہے مذاکرات ان سے ہونے چاہئیں جن کے پاس اصل طاقت ہے، میں بھی یہی کہتا ہوں جب حکومت کے پاس اختیار نہیں تو مذاکرات میں کیوں بیٹھے ہیں؟

اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے بات چیت میں انہوں ںے کہا کہ حکومت کہہ رہی معیشت بہتر ہوگئی جبکہ ایک کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے، بانی نے کہا حکومت نے معیشت کو تباہ کیا ہے بانی نے کہا معیشت کی بہتری کیلئے قانون کی حکمرانی ضروری ہے بانی نے کہا معیشت کیلئے سرمایہ کاری ضروری ہے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے کیا ایک سال چاہیے، جوڈیشل کمیشن میں 26 نومبر کی پوری تحقیقات ہونی چاہیے، جوڈیشل کمیشن فوری طور پر بننا چاہیے، 26 نومبر سے قبل مذاکرات ایک ٹریپ تھا مذاکراتی کمیٹی کو آج تک ملنے نہیں دیا گیا تو حکومت کی سنجیدگی واضح ہے آج علیمہ خان کو بھی جیل کے اندر جانے سے روکا گیا کیونکہ وہ بولتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم الزام تراشی نہیں کررہے ہم سچ بولتے ہیں بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے مذاکرات ان سے ہونے چاہئیں جن کے پاس اصل طاقت ہے، ہمارے دو معصومانہ مطالبات ہیں ایک جوڈیشل کمیشن اور قیدیوں کی رہائی، ہم نے کہا ہے سیاسی انتقامی کارروائی نہیں ہونی چاہیے اور ہم یہ بھی کہہ رہے ہیں مقدمات بازی بھی ختم ہونی چاہیے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ عرفان صدیقی نے کہا ہے ہم سے وہ مطالبہ کرو جس کا ہمارے پاس اختیار ہے، جب حکومت کے پاس اختیار نہیں تو مذاکرات میں کیوں بیٹھے ہیں؟ ہمارے  مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان صاحبزادہ حامد رضا ہیں مذاکرات کے حوالے سے جو بات کرنی ہوگی صاحبزادہ حامد رضا کریں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شعیب شاہین نے کہا ہے کے پاس

پڑھیں:

اہل ایران، دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے

اسلام ٹائمز: مشہور قانون دان جناب سجاد حمید یوسفزئی نے لکھا ہے: "کافر کافر شیعہ کافر" کا نعرہ ہمارے سنیوں نے بہت لگایا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت کے سب سے بڑے سامراج اور اسلام دشمن ممالک، امریکہ و اسرائیل کے خلاف اگر کوئی ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف شیعہ ریاست ایران کھڑا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ غزہ کی خاطر اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی خاطر بھی اسوقت یہی شیعہ ریاست کھڑی ہے۔ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، مگر سامراج کے سامنے نہیں جھکا۔ دوسری طرف تمام ممالک وقت کے سامراج کے سامنے سجدہ ریز ہیں، اسکے بعد شیعہ کافر کا نعرہ پتہ نہیں کس منہ سے لگائیں گے۔" تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ابتدائے کائنات سے دنیا میں یہ اصول حاکم ہے کہ طاقتور ترین باقی رہے گا۔ اس دنیا میں طاقتور کے لیے کوئی ضابطہ، کوئی قانون اور کوئی اخلاق نہیں ہے۔ وہی مغرب جو جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی پر ممالک پر پابندیوں کی دھمکیاں دیتا ہے، غزہ میں کئی ہزار بچوں کی شہادت پر بھی صرف خاموش نہیں رہا بلکہ ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ پاک بھارت جنگ میں صرف ایک ماہ پہلے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امن صرف طاقت سے ہے۔ ایک دن پہلے امریکی نائب صدر کہہ رہا تھا کہ ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں اور جب پاکستان نے چھ طیاروں کو مار گرایا اور دلی تک پاکستانی ڈرونز اور میزائل پہنچنے لگے تو جنگ کی تپش محسوس ہوئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی بھاگے بھاگے آئے اور جنگ بندی ہوگئی۔ نریندر مودی بقول بلاول بھٹو زرداری ایک طرح سے نیتن یاہو کا ٹیمو ورژن یعنی دو نمبر کاپی ہے۔ اسے بھی صرف طاقت کی زبان سمجھ میں آتی ہے، اسرائیل بھی فقط طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔

حامد میر نےبڑا زبردست لکھا ہے کہ مشہور ماہر امور مشرق وسطیٰ رابرٹ فسک کہا کرتے تھے کہ نیتن یاہو عراق کی طرح ایران پر بھی حملہ کروائے گا اور امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹ لے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جنگی حکمت عملی بڑی زبردست ہے۔ ابھی تک خبردار کیا گیا، مگر کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا گیا، جس سے امریکہ میں اسرائیلی لابی کو امریکہ کو جنگ میں پھینکنے کا موقع مل جائے۔ آج جب آپ کے میزائل تل ابیت اور حیفہ میں تباہی مچا رہے ہیں تو آپ کا درد دنیا کو محسوس ہو رہا ہے۔ اب سویلینز کے حقوق، عام عمارتیں، سول انفراسٹکچر سب کچھ یاد آرہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ غزہ میں برباد نہیں کیا گیا؟ اس کو تو چھوڑیں، وہاں تو ہسپتال تک ملبے کا ڈھیر بنا دیئے گئے۔ دنیا اس وقت آپ پر حملہ کرتی ہے، جب اسے یقین ہوتا ہے کہ آپ کمزور ہیں۔ پہلے دن کے حملوں کے بعد پاکستان کا پورا سوشل میڈیا یہ سوال اٹھا رہا تھا کہ ایران اتنا کمزور ملک ہے۔؟

کچھ احمق تو یہاں بھی کوئی کٹھ پتلی حکومت دیکھ رہے تھے۔ جب محض بیس گھنٹوں کے بعد ہی اللہ کے لشکر کی مار اسرائیل پر پڑنے لگی تو سب اسے فخر سے شیئر کرنے لگے۔ آج پاکستان کی رائے عامہ سو فیصد اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں ہوچکی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف فرقہ پرستوں، امریکی اور اسرائیلی لابی کے پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ایک تحریر سوشل میڈیا پر بڑی مشہور ہو ہوئی ہے، بلامبالغہ اسے کئی لاکھ لوگوں نے پڑھا اور اس کے پاکستانی سماج پر اثرات ہوئے۔ یہ تحریر ڈاکٹر اسرار صاحب کی تنظیم اسلامی کے سربراہ جناب خالد محمود عباسی صاحب کی ہے۔ لکھتے ہیں: ‏حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں جہاں تل ابیب اور اصفہان میں کئی فلک بوس عمارات تباہ ہوئیں، وہیں ہمارے بزرگوں کی تعمیر کردہ ایک عمارت بھی تباہ ہوئی ہے۔

یہ تاریخی عمارت 80 اور 90 کے عشروں میں ہمارے خالی ذہنوں میں تعمیر کی گئی کہ ایران اسرائیل اندر سے بھائی بھائی ہیں اور محض سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے ایک دوسرے کو للکارتے ریتے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان اس عمارت کے گرنے سے ہوا ہے۔ کیونکہ اب ایسی بہت سی عمارتوں کو مخدوش قرار دیا جا سکتا ہے، جو اس بڑی عمارت کے آس پاس واقع ہیں اور لاکھوں سادہ لوح مسلمان وہاں اب بھی بال بچوں سمیت رہائش پذیر ہیں۔ ہمیں یا تو یہ مخدوش عمارتیں خالی کرنی ہوں گی یا راتوں رات جھوٹ کی ایک نئی عمارت کھڑی کرنی ہوگی جو "ایران اسرائیل بھائی بھائی" سے بھی اونچی ہو۔ اتنی اونچی کہ دیکھنے والوں کی ٹوپیاں گر جائیں۔

دنیا میں طاقتور کی بات سنی جاتی ہے اور اسی کی بات مانی جاتی ہے، دلیل و منطق سے چلنے والے طاقت سے خالی ہوں تو ان کی آواز ہوا میں ہی تحلیل ہو جاتی ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ زیٹو کے بانی مشہور امریکن تجزیہ نگار مہدی حسن نے درست سوال اٹھایا ہے کہ آپ مغربی میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں، رپورٹنگ ایسے ہو رہی ہے جیسے ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے اور اسرائیل اس کا وکٹم ہے، حالانکہ حملہ اسرائیل نے کیا ہے اور وکٹم ایران ہے، جسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ دوسرا ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں اور ایران نے این پی ٹی پر سائن بھی کیے ہیں، اس کے مقابل اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں اور اس نے این پی ٹی پر دستخط بھی نہیں کیے۔ میڈیا میں آپ کو ایسے نظر آئے گا، جیسے ایران ایٹمی پاور ہے اور اسرائیل کو خطرہ پڑا ہوا ہے۔ یہ طاقت ہی ہے کہ ٹرمپ پچھلے چند  گھنٹوں میں تین بار ایران اسرائیل جنگ بندی پر زور دے چکا ہے۔

راشد خان نے خوب لکھا ہے۔ ایرانیوں کی اپنی تہذیب سے مضبوط تعلق کی عمر پانچ میلینیم سال ہے، یہ تعلق اسے جُداگانہ شناخت کا قابل فخر احساس دیتا ہے، جبکہ واقعہ کربلا سے یہ قوم بے مثال قربانی کا جذبہ حاصل کرتی ہے۔ اسی وجہ سے جیسے جیسے اسرائیلی حملے بڑھ رہے ہیں، اہل ایران متحد ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے مقابل اسرائیل پر ہونے والا ہر حملہ وہاں انتشار پیدا کر رہا ہے، کیونکہ اسرائیل بہت چھوٹا ملک ہے۔ کوئی غیر ملکی اسرائیل میں اس لیے نہیں آیا کہ اس کی جان کو کوئی خطرہ ہو۔ ایران جو تقریباً 16 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ایک وسیع اور عریض ملک ہے، یہ حملوں کی شدت کو جغرافیائی پھیلاؤ کے باعث سہنے کی طاقت رکھتا ہے اور دشمن کے وار کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل جس کا کل رقبہ محض 22 ہزار مربع کلومیٹر ہے، ہر حملے پر فوری طور پر دباؤ محسوس کرتا ہے۔ وہاں کے شہروں، عسکری تنصیبات اور بنیادی انفراسٹرکچر پر ہونے والا کوئی بھی حملہ نہ صرف زمینی حقائق کو بدل دیتا ہے بلکہ نفسیاتی لحاظ سے بھی گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

 وطن عزیز میں لوگ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ کھڑے ہیں، وہیں وحدت امت کی راہیں پیدا ہو رہی ہیں اور غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں۔ مشہور قانون دان جناب سجاد حمید یوسفزئی نے لکھا ہے: "کافر کافر شیعہ کافر" کا نعرہ ہمارے سنیوں نے بہت لگایا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت کے سب سے بڑے سامراج اور اسلام دشمن ممالک، امریکہ و اسرائیل کے خلاف اگر کوئی ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف شیعہ ریاست ایران کھڑا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ غزہ کی خاطر اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی خاطر بھی اس وقت یہی شیعہ ریاست کھڑی ہے۔ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، مگر سامراج کے سامنے نہیں جھکا۔ دوسری طرف تمام ممالک وقت کے سامراج کے سامنے سجدہ ریز ہیں، اس کے بعد شیعہ کافر کا نعرہ پتہ نہیں کس منہ سے لگائیں گے۔"

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان: آئندہ مالی سال کا 10 کھرب 28 ارب روپے کا بجٹ پیش
  • عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
  • اس سے قبل کہ دیر ہو جائے ایران کو کشیدگی کم کرنے پر بات کرنی چاہیے، ٹرمپ
  • جعلی حکومت بانی کو قید تنہائی میں رکھ کر توڑ نہیں سکتی، بیرسٹر سیف
  • اہل ایران، دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے
  • ایران خطے میں طاقت کا توازن بدل دے گا؟
  • جعلی حکومت بانی کو قید تنہائی میں رکھ کر توڑ نہیں سکتی‘ بیرسٹر سیف
  • حکومت کشمیر پر دوٹوک موقف اختیار کرے،مرکز شوریٰ جماعت اسلامی
  • اسرائیل کسی عالمی جوہری نظم و ضبط کا پابند نہیں، مغربی دنیا کو فکر مند ہونا چاہیے، خواجہ آصف
  • اسلام آباد ترکیہ کی ریڈ لائن ہے، انقرہ کی سکیورٹی اسلام آباد سے جڑی ہے، ترک رکن پارلیمنٹ علی شاہین