Express News:
2025-11-05@01:07:30 GMT

ولی رام ولبھ : عہد ساز ادیب

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج اس وقت ممکن ہوتی ہے جب اس زبان میں ادب مستقل بنیادوں پر تحریر ہوتا رہے اور ادبی مکالمہ جاری و ساری رہے۔ تحریر و مکالمہ زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سندھی زبان کو بہت اعلیٰ پائے کے ادیب و شاعر نصیب ہوئے جن میں ایک اہم نام محترم ولی رام ولبھ کا بھی ہے۔

سندھی ادب کے حوالے سے انتہائی معتبر نام، جن کی زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت تھی۔ آپ رہنمائی کا ہنر جانتے تھے۔ولی رام ولبھ نے تھرپار کر کے شہر مٹھی میں 18 اگست 1941 میں جنم لیا۔ پرائمری کی تعلیم مٹھی سے حاصل کی۔ اردو میں ماسٹرز سندھ یونیورسٹی سے کیا۔آپ نے اردو میں ماسٹر کرنے کے بعد ایل ایل بی کیا پھر عمرانیات میں ماسٹر کیا۔ مختلف شعبہ جات میں کام کیا، اس کے بعد وہ سندھ یونیورسٹی کے تحقیقی ادارے انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کے مختلف شعبوں سے وابستہ رہے۔

دوران تعلیم 1970 کے بعد ہی لکھنے، لکھانے اور ترجمے کا کام شروع کر دیا تھا۔ تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ سندھی ادب میں نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔ ولبھ صاحب نے متعدد عالمی ادب کی کتابیں سندھی زبان میں ترجمہ کیں۔ ان کی ترجمہ کی گئی کتابوں کے کئی ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے تراجم کے ذریعے غیر ملکی ادب کو سندھی زبان میں منتقل کیا، جس کی وجہ سے نئے موضوعات اور تیکنیک متعارف ہوئیں۔

انھوں نے سندھی ادب میں مشرق و مغرب کے معروف ادیبوں کی تخلیقات کو متعارف کروایا، جس سے قارئین کے علمی اور ادبی سمجھ میں وسعت پیدا ہوئی۔ ان کے تراجم کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے ترجمے میں تخلیقی پہلوکو نظر انداز نہیں کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانے، ناول یا شاعری کسی اور زبان میں نہیں بلکہ سندھی میں تحریرکیے گئے ہیں۔

بہت کم مترجم، ترجمہ کرتے وقت، خالق کی تحریرکی اصل روح کو برقرار رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ محترم ولی رام ولبھ نے کئی ناول اورکہانیوں کی کتابیں ترجمہ کیں، انھوں نے قرۃ العین حیدر،کرشن چندر اور امرتا پریتم جیسے ادیبوں کے ناول بھی ترجمے کیے۔ ان کے تراجم پڑھنے والے قارئین ناولوں کے سحر میں ڈوب جاتے تھے۔

ناول اور افسانوں کے تراجم میں کرشن چندرکا ناول غدار، قرۃ العین حیدر کا ناول سیتا ہرن، بند دروازہ، امرتا پریتم، البیرکامیو کا ناول اسٹرینجر کا ترجمہ سندھی میں دھاریو کے نام سے کیا۔ عالمی ادب سے، تیسری دنیا کی کہانیاں تھکی زمین اور دیگر کہانیاں ( البرتو موراویا، اطالوی ) نین تارا اور دیگر کہانیاں (اردو اور ہندی)، پردیسی کہانیاں (امریکی، لاطینی امریکی، یورپی، آسٹریلیائی اور جنوبی افریقی کہانیاں) وغیرہ شامل ہیں۔

ولی رام ولبھ نے دنیا کے ادب سے بہترین کہانیاں، ناول، شاعری تحقیق، مذہب اور فلسفے پر مبنی ادب کو ترجمے کے توسط سے سندھی زبان میں منتقل کیا۔ ان کی ادبی خدمات کا مربوط حوالہ رسالہ آرسی کا اجراء تھا۔ آرسی رسالہ سندھی ادب میں نئے خیالات، نظریات اور تخلیقی مواد کے فروغ کا ذریعہ بنا۔ اس رسالے کے ذریعے انھوں نے اعلیٰ پائے کی تحریریں قارئین تک پہنچائیں۔

ان کے افسانوں اور نثر نگاری میں سندھی سماج، ثقافت اور انسانی جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے افسانے مخصوص انداز میں لکھے گئے ہیں اور ان میں مقامی رنگ اور معاشرتی مسائل کو اجاگرکیا گیا ہے۔ ان کی نثر نگاری میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے، جو قارئین کو متاثرکرتی ہے۔ولبھ صاحب کے تراجم و ادبی کاوشیں، زبان اور ادب کو فروغ دینے کے لیے ان کی لازوال جدوجہد قابل تحسین ہیں، انھوں نے نظمیں بھی تخلیق کیں جو بے حد پسند کی گئیں۔ ولی رام ولبھ نے کہانیاں بھی لکھیں، یہ کہانیاں موضوعاتی طور پر دلچسپ اور منفرد ہیں، ان کہانیوں کے موضوعات، ماحول، اسلوب اور تیکنیک مہارت سے ترتیب دیے گئے ہیں۔

ولی رام ولبھ کی مدھم اسلوب کی کہانیوں کا مرکز انفرادی و سماجی دُکھ ہیں، انھوں نے شعوری طور پر، عام طبقے سے ان کہانیوں کو ترتیب دیا ہے، جو ان کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں، وہ سمجھتے تھے کہ عام لوگ زبان و ثقافت کے امین ہیں۔

ایک اچھے ادیب ہونے کے ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے۔ اچھے انسان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں اورگھرکے افراد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب آپ کا گھر گاڑی کھاتے میں تھا، ان کا گھر، ہمیشہ ادبی مکالموں کا گہوارہ ہوا کرتا۔ سندھ کے ہر علاقے کا ادیب، جب حیدرآباد آتا تو ان سے ملاقات کیے بغیر واپس نہ لوٹتا۔

ان سے گفتگو ہمیشہ با فیض ہوتی کیونکہ مختلف زبانوں پر دسترس کے ساتھ ولبھ صاحب، نثری و شاعری کی اصناف پر اچھی معلومات رکھتے تھے۔ ان کے گھر میں واقع لائبریری ادیبوں کے لیے کشش کا باعث تھی، جس سے اکثر استفادہ حاصل کیا جاتا تھا۔ آپ زیادہ تر وقت خاندان کے درمیان گھر پرگزارتے۔ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی۔ ان کی بڑی بیٹی ڈاکٹر پشپا ولبھ معروف شاعرہ ہیں۔

 ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ افسانہ نگار، دانشور و مترجم جس نے بہت شہرتیں سمیٹیں مگر اپنی ذات میں بیحد سادہ اورگوشہ نشین ہی رہے۔ ذرا بھر بھی ان میں ذات کا زعم نہ تھا۔ ایک کونے میں بیٹھ کر انھوں نے علم و ادب کی کئی شمعیں فروزاں کیں۔

ولی رام ولبھ 82 سال کی عمر میں 29 اکتوبر کو انتقال کرگئے۔ ان کی کمی گھر والوں کے ساتھ ان کے قارئین بھی محسوس کرتے رہے گے۔ دیا ہوا مثبت احساس اور بانٹیں ہوئیں محبتیں کبھی فنا نہیں ہوتیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سندھی زبان سندھی ادب انھوں نے کے تراجم کے ساتھ

پڑھیں:

استنبول: عراقی خطاط کا روح پرور کارنامہ، ہاتھ سے لکھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا قرآن پاک مکمل کرلیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ترکیہ کے شہر استنبول میں عراق سے تعلق رکھنے والے خطاط علی زمان نے وہ کارنامہ انجام دیدیا جس پر لوگ ان کے ہاتھ چومنے لگے۔

عالمی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق55 سالہ خطاط نے اس عظیم و پاک کارنامے کو انجام دینے کے لیے عراق سے ترکیہ ہجرت کی اور جی جان سے 6 سال کے مختصر دورانیے میں اس حیران کردینے والے شاہکار کو مکمل کیا۔

علی زمان کے اس کارنامے کو ایمان، محبتِ قرآن اور اسلامی فنِ خطاطی کا ایک شاندار شاہکار قرار دیا جا رہا ہے۔ انھیں بچپن سے ہی اسلامی خطاطی کا شوق تھا۔

پیشے کے اعتبار سے انھوں نے سنار بننا پسند کیا لیکن پھر روحانی میلان ک باعث 2013 میں یہ کُلی طور پر خطاطی کے پیشے اپنایا۔

وہ 2017 میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ عراق چھوڑ کر استنبول پہنچے اور اس نیک کام کا ٓآغاز کیا جس کے لیے علی زمان گہرا سکوت، اطمینان اور یکسوئی کی ضرورت تھی۔

علی زمان کو یہ ماحول استنبول کی سلطان مسجد کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ملا اور پھر اسی کو انھوں نے اپنا مرکز بنالیا۔ وہ زیادہ تر وقت قرآن پاک کی خطاطی میں گزارتے۔

چھ سال کی انتھک اور بے لوث محنت کے بعد 4 میٹر لمبے اور ڈیڑھ میٹر چوڑے صفحات پر مشتمل قرآن پاک تحریر کرلیا۔

جس کے ہر لفظ اور ہر آیت کو علی زمان نے روایتی قلم سے خود لکھا اور اس کے لیے کسی جدید آلے یا خودکار تکنیک کا استعمال نہیں کیا۔

یہی وجہ ہے کہ پہلی ہی نظر میں قرآن پاک کے اس عظیم نسخے کا ہر صفحہ ایمان اور عشق سے مزین ہاتھوں سے لکھا محسوس ہوتا ہے۔

یہ نسخہ سابقہ ریکارڈ ہولڈر قرآن پاک سے بھی بڑا ہے، جس کی لمبائی 2.28 میٹر اور چوڑائی 1.55 میٹر تھی۔

علی زمان کا اس عظیم کام کو سرانجام دینے کا سفر اتنا آسان نہ تھا 2023 میں انھیں صحت کے شدید مسائل کا سامنا رہا اور کچھ عرصے کام روکنا بھی پڑا لیکن ہمت نہ ہاری۔

انھوں ایک انٹرویو میں کہا کہ قرآن کی خدمت کرنا میرے لیے عزت سے بڑھ کر عبادت ہے۔ یہ کام محض فن نہیں بلکہ قلبی تعلق کا اظہار ہے۔

علی زمان نے مزید بتایا کہ میں نے اس منصوبے کو بطور عبادت کے قبول کیا ہر آیت لکھتے وقت دل میں نیت کرتا کہ یہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔

یاد رہے کہ علی زمان کو شام، ملائیشیا، عراق اور ترکیہ میں خطاطی کے کئی بین الاقوامی اعزازات مل چکے ہیں۔

2017 میں انہیں ترکیہ کے انٹرنیشنل Hilye-i Serif مقابلے میں صدر رجب طیب اردوان نے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

علی زمان کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ یہ مقدس نسخہ ترکیہ ہی میں محفوظ رکھا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اسلامی خطاطی کی عظمت، صبر اور عقیدت کی یہ علامت دیکھ سکیں۔

انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب لوگ اس قرآن کو دیکھیں، تو وہ صرف حروف نہیں بلکہ محبت، ایمان اور اخلاص کو محسوس کریں جو اس کے ہر صفحے میں سانس لے رہا ہے۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی ڈاکوئوں کی سرپرستی بند کر ے، جئے قومی محاذ
  • استنبول: عراقی خطاط کا روح پرور کارنامہ، ہاتھ سے لکھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا قرآن پاک مکمل کرلیا
  • رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، ایک مختصر تجزیہ
  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن