قائد اعظم کا وژن اور فلسطین
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
قائداعظم نومبر 1946میں لندن کانفرنس میں شرکت کے بعد مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی دعوت پر مصر پہنچے جہاں ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔
ان کے اعزاز میں عظیم الشان استقبالیہ دیا گیا جس میں قائداعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مصرکی آزادی صحیح معنوں میں آزادی اس وقت ہو گی جب پاکستان قائم ہو جائے گا۔ اور ہم لوگ بھی یعنی مسلمانان برصغیر اور مصر "حقیقی "طور پر آزاد ہونگے ورنہ ہندو ایمپرلیسٹ راج کا خطرہ سامنے آجائے گا جس کے سینگ سارے مشرق وسطی تک پہنچے ہونگے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر انڈیا پر حکمرانی ہندو ایمپرلیسٹ پاور کی ہو گی تو اس کا خطرہ مستقبل میں بھی اتنا بڑا ہو گا جتنا کہ برٹش ایمپریلزم کا تھا۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ سارا مشرق وسطیٰ کڑاہی سے نکل کر سیدھا چولہے (آگ )میں جا پڑے گا۔ مشرق وسطی کے مسلمان اگر آزاد ہونا چاہتے ہیں تو خود اپنی حکمرانی کے خواہاں ہوں ۔
انھیں کسی حلقہ اثر کے ماتحت نہیں رہنا چاہیے۔ قائداعظم کا کیا کمال کا وژن تھا۔ بلاشک وشبہ وہ مستقبل میں جھانکنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے تھے ۔ جسے آج وقت نے ثابت کردیا ہے ۔ مشرق وسطی آج امریکی سامراج کی جن زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے انھوں نے اس کا آج سے تقریباً 80برس قبل ہی صحیح صحیح اندازہ لگالیا تھا ۔ جس خطرے کی نشاندہی قائداعظم نے کی آج ہندوسامراج مشرق وسطی کے لیے ایک عظیم خطرے کی شکل میں سامنے آچکا ہے ۔ اسے مارننگ ہیرلڈ ممبئی نے رپورٹ کیا ۔
فلسطین کے بارے میں اینگلو امریکن کمیٹی نے جب ایک رپورٹ شایع کی تو اس پر قائداعظم نے یکم مئی 1946کو ایک سخت بیان دیا تھا جو یہ تھا ۔ اینگلو امریکن کمیٹی نے فلسطین پر جو رپورٹ شایع کی ہے اور آج اخباروں میں شایع ہوئی ہے وہ میں نے دیکھی ۔ میں اس پر صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان وعدوں کی سراسر خلاف ورزی اور حددرجہ بد عہدی ہے جو عربوںسے کیے گئے تھے ۔ اس کو دیکھ کر مجھے بڑا صدمہ پہنچا ہے ۔ یہ شرانگیز سفارشات جن کو روبہ عمل لانے کی کوشش کی جارہی ہے ان کو عرب اور مسلمانان عالم ہر گز قبول نہ کریں ۔
قائد اعظم کا بیان پڑھ کر مفتی اعظم فلسطین جو پیرس کے نواح میں نظر بند تھے قائداعظم کے نام ایک تاریخی مکتوب عربی زبان میں 5مئی 1946کو لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کا وہ بیان پڑھوا کے سنا جس میں آپ نے فلسطین کے بارے میں تبصرہ فرمایا ہے، میں تہہ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرنے کا موقعہ بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا کہ آپ فلسطین کے برادر مسلمانوں کو اس ظلم عظیم سے کسی طرح نجات دلائیں جس کا وہ شکار ہیں ۔ آج اہل فلسطین دوراہے پر کھڑے موت وحیات کے درمیان معلق ہیں جس کے ذمے دار یہودی، انگریز اور امریکی ہیں ۔
فلسطین کو بچانے کے لیے سب مسلمان ہم خیال ، ہم عمل ہو کر اگر آگے نہ بڑھے تو فلسطین قطعی طور پر غاصبوں کا لقمہ تر بن جائے گا اور خدانخواستہ مقدس مقامات بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے ۔ جس کا ثبوت اسرائیل نے حال ہی میں شایع ہونے والے گریٹر اسرائیل کا نقشہ شایع کرکے دے دیا ہے۔ جس میں بیشتر عرب ممالک شامل ہے ۔ یعنی آج سے 8دہائیاں پیشتر بھی فلسطینی مسلمان زندگی اور موت کے درمیان معلق تھے۔ آج تو اس ظلم کی انتہا ہوگئی ہے ۔
گزشتہ سوا سال سے دن رات فلسطینیوں کا قتل عام کرکے ان کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔ دنیا بھی بے بسی کے عالم میں خالی خولی مذمت اور احتجاج کے علاوہ کچھ کر نہیں پارہی ۔ حال ہی میں ایران، حزب اﷲ ، حماس کی کمزوری اور فال آف شام نے امریکا اور اسرائیل کو وہ سنہری موقع فراہم کردیا ہے جس کا انھیں مدتوں سے انتظار تھا۔ اب انھیں نئے مشرق وسطی کی تشکیل سے روکنا نا ممکن ہے، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کے صدر بننے کے بعد۔ مارچ میں اس حوالے سے فیصلہ کن وقت کا آغاز ہو جائے گا۔
یہ مشرق وسطی کے حوالے سے ایک تباہ کن دباؤ ہو گا جس کے اثرات سے پاکستان بھی بچ نہیں پائے گا۔اس میں بھارت کا مرکزی کردار ہوگا۔جس خطرے کا ذکر قائد اعظم نے مستقبل میں امپریلسٹ راج کی شکل میں کیا یعنی ہندوسامراج اور یہاں تک بتا دیا کہ اس سامراج کا خطرہ برٹش امپریلزم جتنا ہی ہو گا۔ اس کی مثال قائداعظم نے ایسی دی کہ پورا مشرق وسطی جیسے جلتی ہوئی کڑاہی سے نکل کر آگ میں چلا جائے ۔ زمینی حقائق ہمیں بہت تیزی سے گھسیٹ کر اب اسی طرف لے جا رہے ہیں ۔ امریکا میں لگی حالیہ آتشزدگی جس نے ایک بہت بڑے رقبے میں رہائشی عمارتوں اور چیزوں کو جلا کر اس طرح خاکستر کردیا کہ اب وہاں ڈھیر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
وہ جب سزا دیتی ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یہ سب کس طرح وقوع پذیر ہوا ۔ایک طرف غزہ کی تباہی اوردوسری طرف یہ آتشزدگی۔ سیلاب ہیری کین، برفانی طوفان اس کے علاوہ ہیں جو امریکا میں آئے روز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ ابھی تو یہ صرف ان کی ابتداء ہے ۔ان کی شدت اس طرح بڑھے گی کہ ہوش اُڑجائیں گے۔ یہ دہشت گرد بائیڈن انتظامیہ کے کرتوت ہی ہیں جس کا بھگتان امریکی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جائے گا
پڑھیں:
فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (چھٹا اور آخری حصہ)
اب سے دو روز قبل ( چوبیس اکتوبر ) ہالوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں کے عالمی دن کے موقع پر پولینڈ میں آشوٹز کنسنٹریشن کیمپ میں ہزاروں لوگوں نے نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ان مظاہرین میں اکثریت اسی برس قبل ہالوکاسٹ میں بچ جانے والے یہودیوں کی نئی پود کی تھی۔بیشتر کے ہاتھوں میں اسرائیلی پرچم تھے۔مگر ان نوجوانوں کے ہمراہ یہ بے حس بے خبری بھی چل رہی تھی کہ ان کے جو پرکھے نازیوں کے نسل کش کیمپوں سے زندہ بچ کے فلسطین پہنچے انھوں نے وہاں کی مقامی آبادی کو اپنی زمین سے اکھاڑنے اور وجود مٹانے کے لیے لگ بھگ وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو نازیوں نے ان کے ساتھ برتے تھے۔
جس طرح آج کی اسرائیلی پود نے غزہ کے کنسنٹریشن کیمپ پر پیاس ، بھوک اور موت برسائی ہے۔بالکل اسی طرح انیس سو بیالیس تینتالیس میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے یہودی محلوں کا محاصرہ کر کے نازیوں نے ایسا ہی سلوک کیا تھا۔
مگر ہیروشیما ناگاساکی کی جوہری تباہی سے جاپانیوں نے جس طرح امن کا سبق سیکھا اور خود کو ایک توسیع پسند جنگجو قوم سے انسانیت کی پرچارک قوم میں بدلا۔اس کے عین برعکس ہٹلر کے ہالوکاسٹ کیمپوں میں بچ جانے والوں اور ان کی اگلی نسلوں نے نسل کشی کے تجربے سے انسانیت سے بلاامتیاز محبت کا سبق سیکھنے کے بجائے ہٹلری ہتھکنڈوں کو مزید جدید اور بھیانک بنا کر موجودہ مرحلے تک پہنچا دیا۔
ہٹلر میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ اس نے نسل کش کیمپوں میں لاکھوں انسانوں کے قتل کو مشتہر کرنے کے بجائے جرمنوں کی اکثریت اور باقی دنیا سے اس خونی ڈرامے کو حتی الامکان پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی۔مگر اس کے صیہونی وارث اپنی ایک ایک نسل کش حرکت کو فخریہ انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے جشن کی شکل دے رہے ہیں۔ہٹلر کے مظالم پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والے ممالک آج کے ہٹلری ہتھکنڈوں کو اسرائیلیوں کا حق ِ دفاع قرار دے رہے ہیں۔
غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیل ریاستی حقِ دفاع کے نام پر ’’ دھشت گردی ‘‘ کا قلع قمع کر رہا ہے مگر آٹھ دہائی قبل وارسا کے یہودی نازی قبضے کے خلاف جو مزاحمت کر رہے تھے وہ جبر کے خلاف دلیرانہ بغاوت کے نام پر ہر سال منائی جاتی ہے۔
وارسا کی نازی مخالف مسلح یہودی بغاوت انیس اپریل تا سولہ مئی انیس سو تینتالیس (انتیس دن) جاری رہی۔ اس مختصر سی بغاوت کی قیادت دو مقامی صیہونی گروہوں نے کی۔ان کے پاس چند اسمگلڈ رائفلیں ، دو چار درجن چھینے گئے گرینیڈ ، آتش گیر مادے سے بھری چند سو بوتلیں (مالوٹوف کاک ٹیل ) ڈنڈے اور سریے تھے۔
وارسا گھیٹو کہلائی جانے والی یہ آبادی مشرقی یورپ کی سب سے گنجان یہودی بستی تھی۔آٹھ سو تیس ایکڑ رقبے میں چار لاکھ انسان ٹھنسے ہوئے تھے۔یعنی فی کمرہ ساڑھے سات نفوس۔جولائی تا ستمبر انیس سو بیالیس نازی انتظامیہ نے روزانہ اس بستی سے سات ہزار یہودیوں کو صبح اور شام کی دو ٹرینوں میں بھر کے اسی کیلومیٹر دور قائم تریبلانکا نسل کش کیمپ کو روانہ کیا۔ان تین ماہ میں لگ بھگ پونے تین لاکھ مکینوں کو جبری طور پر موت کے سفر پر بھیجا گیا۔
ابتدا میں ان باشندوں کو یہ کہہ کر ٹرین میں سوار کروایا جاتا کہ انھیں ایک نئی جگہ بہتر زندگی گذارنے کے لیے منتقل کیا جا رہا ہے۔ زادِ راہ کے طور پر ہر کنبے کو خوراک کا تھیلا بھی دیا جاتا۔مگر بستی بدری کا سلسلہ شروع ہونے کے چند ہفتے بعد ہی یہاں کے مکینوں کو اندازہ ہو گیا کہ انھیں دوبارہ آبادکاری کے بہانے موت کے کیمپوں میں بھیجا جا رہا ہے۔اس شبہے کی ٹھوس بنیاد یہ تھی کہ روانہ ہونے والوں کا پیچھے رہ جانے والوں سے کبھی بھی کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔
چنانچہ وارسا گھیٹو کے رہائشیوں نے ٹرینوں میں سوار ہونے سے انکار کرنا شروع کر دیا۔مگر اس بستی کے مکینوں پر ہی مشتمل مقامی پولیس کو نازیوں نے یہ کام سونپا کہ روزانہ اتنے باشندے جمع کر کے روانہ کرنے میں مدد دے۔ ورنہ انھیں بھی ٹرین میں بٹھا دیا جائے گا۔
جنوری انیس سو تینتالیس تک جب یہ گھیٹو آدھے سے زیادہ خالی کروا لیا گیا تو مکینوں نے نازی اہلکاروں اور ان کی ایجنٹ مقامی پولیس کے خلاف ہفتے بھر کی بھرپور مزاحمت کی اور چند دنوں تک ان کی منتقلی کا کام معطل ہو گیا۔اس دوران مقامی یہودیوں نے خود کو بچانے کے لیے اپنے تئیں حفاظتی باڑھیں بنانے اور حملے کی صورت میں چھپنے کا انتظام شروع کر دیا۔ ان کے پولینڈ کی زیرِ زمین قومی مزاحمتی تحریکوں سے روابط استوار ہوئے اور چھوٹا موٹا اسلحہ بھی اسمگل ہو کر اندر آنے لگا۔
انیس اپریل انیس سو تینتالیس کو وارسا گھیٹو میں بغاوتِ عام شروع ہو گئی۔مکینوں نے اپنی ہی برادری کے چند غدار پولیس اہلکاروں اور مخبروں کو ٹھکانے لگا دیا۔ان کی مدد کو بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں پر سوار نازی دستے آئے تو انھیں بھی آتشگیر مادے سے بھری بوتلیں پھینک کے اندر آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔مگر مقابلہ برابری کا نہیں تھا۔
نازیوں نے بستی پر بمباری کی۔گھروں کو ترتیب وار نذرِ آتش کرنا شروع کیا۔انڈر گراونڈڈ سیوریج پائپوں میں پناہ لینے والے انسانوں کو باہر نکالنے کے لیے دھوئیں کے بم اور دستی بم بے دریغ پھینکے گئے۔اس کے باوجود بغاوت پر قابو پانے میں انتیس دن لگ گئے۔
ان انتیس دنوں میں بستی کے تیرہ ہزار مکین مارے گئے۔ایک سو دس جرمن فوجی ہلاک و زخمی ہوئے۔وارسا گھیٹو کی بغاوت نازی مقبوضہ یورپ میں پہلی بڑی شہری مزاحمت تھی۔اس سے حوصلہ پا کر اگلے برس وارسا کا پورا شہر نازیوں کے خلاف کئی ہفتے ڈٹا رہا۔
یہودی بستی کو بلڈوزروں سے زمیں بوس کرنے کے بعد وہاں زندہ بچ جانے والے لگ بھگ پچاس ہزار جوانوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو تریبلانکا اور آشوٹز منتقل کر کے گیس چیمبرز میں بھیج دیا گیا۔
اگر آپ وارسا گھیٹو کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر دیکھیں تو لگتا ہے گویا آج کے غزہ کی تصاویر ہیں۔نازی تو تاریخ کے ہاتھوں ختم ہو گئے مگر ان کی بھٹکی ہوئی ارواح نے آسانی سے قالب بدل لیا اور وہ آج تک آشوٹز ، وارسا اور تریبلانکا سے بہت دور فلسطین میں رقصاں ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)