چپ ڈیل فارمولا، خفیہ ملاقاتیں، خطرناک منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
مذاکرات، الزامات، تحفظات، خدشات، مستقبل کیا ہو گا؟ کہانی ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات کے تیسرے رائونڈ سے قبل بیانات کی ریس شروع ہو گئی۔ خان آگ بجھانے کے بجائے شعلے بھڑکانے پر بضد، جنرل یحییٰ اور شیخ مجیب کا قصہ لے بیٹھے، اسلام آباد میں 26 نومبر کو ’’قتل عام‘‘ کا ذکر چھیڑ دیا۔ قتل عام میں ایک لاش ملی وہ بھی وقت فرار گنڈا پور کے گارڈز کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ مقصد حکومت کو 31 جنوری تک مصروف رکھنا اور عالمی برادری کو اپنی جانب متوجہ کرنا ٹھہرا، پہلے رائونڈ میں زبانی کلامی چار مطالبات دوسرے رائونڈ میں چار شرائط پیش، مسلم لیگ ن کے بزرگ رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے پہلے راؤنڈ میں ٹوک دیا۔ جو کہنا ہے لکھ کر دو، جو چار شرائط پیش کیں وہ ناقابل قبول، خان کو ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے رہا کیا جائے، بات چیت میں اصل فیصلے کرنے والوں کو بھی شامل کیا جائے، خان سے کھلے دالان میں مذاکراتی ٹیم کو ملاقات کی اجازت دی جائے (ایک صاحب بصیرت نے پوچھا وہی دالان جو ڈیتھ سیل کے سامنے ہے؟ جواب ندارد) تحریری مطالبات کے بجائے پہلے اجلاس کی منٹس پر اکتفا کیا جائے۔ شرائط سامنے آتے ہی سیاسی پنڈتوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مذاکرات کی بھینس گئی پانی میں، تیسرے رائونڈ کی نوبت نہیں آئے گی۔ رضی دادا گنگناتے پائے گئے۔ زندگی ایک سفر ہے سہانا، اب انہوں نے باہر نہیں آنا۔ آس اور یاس کے درمیان وقفہ سے گزرتے ہوئے خان نے مذاکراتی ٹیم کو تحریری مطالبات پیش کرنے کی اجازت دے دی، تیسرا رائونڈ ہوا نہ تحریری مطالبات دئیے گئے۔ مطالبات چار سے دو کر دئیے گئے۔ بانی سمیت اسیر کارکنوں کی رہائی 9 مئی اور 26 نومبر کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام، بیرسٹر گوہر کو حکم دیا کہ کمیشن نہ بنایا گیا تو مذاکرات ختم کر دئیے جائیں حالات کا درست تجزیہ کرنے والے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق خان کا بندوبست ہو گیا۔ مذاکرات ڈی ریل ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ حکومت ڈٹ گئی۔ پی ٹی آئی اڑ گئی۔ کوئی اپنی انا اور پوزیشن تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ 26 نومبر کے بعد پی ٹی آئی کا مورال ڈائون ہے کارکن مایوس ہیں۔ دونوں مطالبات پر پیشرفت کا انحصار، ’’چپ ڈیل فارمولے‘‘ پر ہے۔ خان اپنا رویہ بدلیں، خاموش ہو جائیں مگر چپ رہنا کپتان کی فطرت نہیں، وہ ’’شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا‘‘ کے قائل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے شاعر غلام محمد قاصر نے کہا تھا ’’کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام، مجھے تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا‘‘ ایک سیانے نے گرہ لگائی، ’’بابے کو سیاست بھی نہیں آتی صرف کھیلنا آتا ہے سو کھیل رہے ہیں‘‘ قول و فعل میں تضاد، ایک روز مذاکرات کے تیسرے رائونڈ کی ہدایت 24 گھنٹے بعد وزیر اعظم کے خلاف توہین آمیز ٹوئٹ، آرمی چیف کی ذات پر حملے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے یو اے ای کے صدر سے ہاتھ ملا لیا۔ اس پر وہ گند اچھالا گیا جو کسی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ مذاکراتی عمل تماشا بن گیا۔ اس دوران خان کو بنی گالا میں نظر بند کرنے کی خبریں دو چار دن ٹاک شوز اور ’’پسندیدہ ویلاگرز کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ پیشکش کس نے کی؟ بشریٰ بی بی، محسن نقوی، رانا ثناء اللہ کے نام لیے گئے تلاش بسیار کے بعد پتا چلا کہ یہ بھی گنڈا پور کی شرارت تھی۔ ترپ کا پتا پھینکا گیا تھا اوپر والوں کو ایک آپشن دیا گیا تھا کوئی جواب نہ ملا تو ہمت جواب دے گئی۔ امریکا کے ترجمان خارجہ کی ’’چٹھی‘‘ نے دل توڑ دیا۔ ’’جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہَوا دینے لگے، گھٹنے ٹیک دئیے‘‘ کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں زندگی کے سارے رنگ 528 دنوں کی قید نے دھندلا دئیے مگر اہلیہ سے ملاقات کے بعد امید کے چراغ روشن ہو گئے۔ ’’میں ہوں ناں بھاگ دوڑ کر رہی ہوں‘‘ ایک فقرے نے کانوں میں رس گھول دیا۔ بشریٰ بی بی ایک پراسرار کردار جو انتہائی خاموشی سے انتہائی فعال ہیں۔ انہوں نے بقول ڈاکٹر مالک شوہر کی رہائی کے لیے چار خفیہ ملاقاتیں کیں مگر ہر بار ایک ہی جواب ملا ’’خان بھی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں‘‘ وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے، زمین پائوں تلے سے سرک رہی ہے۔ خان مقبولیت سے قبولیت کا سفر منجھے ہوئے سیاستدانوں کی طرح طے کریں، لا ابالی ان کے لیے مزید سختیوں اور مشکلات کا باعث بنے گا 190 ملین پائونڈ کیس کا فیصلہ آج متوقع، سزا ہو گئی تو لمبی قید ہو گی۔ توشہ خانہ 2 کی سماعت بھی شروع ہو گئی۔ جی ایچ کیو حملہ کیس سمیت بڑے مقدمات پڑے ہیں۔ جیل سے بنی گالہ تک کا سفر طویل ہو جائے گا۔ 9 مئی کے 19 ملزموں کے رہائی پر خان کے حق میں نعرے بازی اور انہیں ہار پھول پہنانے کی حماقت اعتراف جرم، خان کے اعترافات بھی ریکارڈ پر ہیں، ایک اعلیٰ شخصیت کے مطابق 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو معافی نشتہ، حقیقی ماسٹر مائنڈ کا نام مکمل ثبوتوں کے ساتھ جلد منظر عام پر لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اعتدال پسند قیادت کو عوام میں آنے کا موقع دیا جا سکتا ہے مگر اسے 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور ان کے معدودے چند ساتھیوں سے الگ کرنا ہو گا۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ پارٹی میں دھڑے بازی اور قبضہ کی خبریں گرم ہیں۔ سول نافرمانی کی تحریک دم توڑ گئی۔ پارٹی کی مالی حالت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ نحوستوں نے گھر دیکھ لیا، مبینہ طور پر ایک ارب سردار اور راجے کھا گئے۔ تازہ صورتحال کے مطابق پارٹی کے ہیڈ آفس کے ملازمین کو 3 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، امریکی ڈاکٹروں اور دیگر ممالک کے یوتھیوں نے ہاتھ کھینچ لیے تاہم گنڈا پور وہی خود ساختہ محمود غزنوی پردازی سے باز نہیں آئے۔ انہوں نے 21 سے 31 جنوری تک گیارہ دنوں کے دوران نئے ڈیجٹ بین الاقوامی حملے اور فروری کے اوائل میں پھر اسلام آباد پر پانچویں حملہ کے لیے صوبائی خزانہ سے 3 کروڑ فراہم کر دئیے ہیں یو ٹیوبرز کو ایکٹیو کر دیا گیا ہے۔ مقصد ٹرمپ کی توجہ مبذول کرانا ہے اک نظر کرم کا سوال ہے بابا، ادھر کوچہ جاناں سے نکالے گئے فواد چوہدری کو کہیں سے ٹپ ملی ہے کہ خان 20 فروری تک رہا ہو جائیں گے۔ باہر آتے ہی الیکشن پر بات ہو گی، الیکشن ہوئے تو حکومت کہاں رہے گی۔ بیوقوفی کی باتیں اسٹیبلشمنٹ نے کرارا جواب دیا کہ قبل از وقت الیکشن کا شوشہ احمقانہ ہے حکومت پر اعتماد ہے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا گیا۔ ستارے راستہ بدل چکے ان راستوں کی نشان دہی کرنے والے صادق ملک کے مطابق خان کا انجام قریب آ گیا ہاتھ کی لکیریں بکھر چکی ہیں اب ایسی خبر آئیں گی جس سے بہتوں کی چیخیں نکل جائیں گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی انہوں نے کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ
پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ گئے جبکہ ملوث ملزمان کے سزاؤں کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 کے دوران پنجاب بھر میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی، اغوا، غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوئے۔
خواتین سے زیادتی کے سب سے زیادہ 532 کیسز لاہور میں رپورٹ ہوئے لیکن صرف 2 مجرموں کو سزا ملی۔ فیصل آباد، قصور، اور دیگر اضلاع میں بھی صورتحال تشویشناک رہی۔خواتین کے اغوا کے سب سے زیادہ واقعات بھی لاہور میں رپورٹ ہوئے، جن کی تعداد 4510 رہی، مگر سزا صرف 5 مجرموں کو ملی۔
رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے کیسز میں گوجرانوالہ سرفہرست رہا، لیکن کسی بھی کیس میں کوئی سزا نہیں دی گئی۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، اور انصاف کا نظام مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔
واضح رہے کہ سماجی تنظیم ساحل نے گزشتہ ماہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ملک بھر میں 2024 کے دوران خواتین پر تشدد کے کل 5 ہزار 253 کیس رپورٹ ہوئے، جن میں قتل، خودکشی، اغوا، ریپ، غیرت کے نام پر قتل، اور تشدد شامل تھا۔خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق ’ساحل رپورٹ‘ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کے 81 مختلف اخبارات سے جمع کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر مرتب کی گئی تھی۔