Nai Baat:
2025-11-03@20:58:05 GMT

چپ ڈیل فارمولا، خفیہ ملاقاتیں، خطرناک منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

چپ ڈیل فارمولا، خفیہ ملاقاتیں، خطرناک منصوبہ

مذاکرات، الزامات، تحفظات، خدشات، مستقبل کیا ہو گا؟ کہانی ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات کے تیسرے رائونڈ سے قبل بیانات کی ریس شروع ہو گئی۔ خان آگ بجھانے کے بجائے شعلے بھڑکانے پر بضد، جنرل یحییٰ اور شیخ مجیب کا قصہ لے بیٹھے، اسلام آباد میں 26 نومبر کو ’’قتل عام‘‘ کا ذکر چھیڑ دیا۔ قتل عام میں ایک لاش ملی وہ بھی وقت فرار گنڈا پور کے گارڈز کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ مقصد حکومت کو 31 جنوری تک مصروف رکھنا اور عالمی برادری کو اپنی جانب متوجہ کرنا ٹھہرا، پہلے رائونڈ میں زبانی کلامی چار مطالبات دوسرے رائونڈ میں چار شرائط پیش، مسلم لیگ ن کے بزرگ رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے پہلے راؤنڈ میں ٹوک دیا۔ جو کہنا ہے لکھ کر دو، جو چار شرائط پیش کیں وہ ناقابل قبول، خان کو ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے رہا کیا جائے، بات چیت میں اصل فیصلے کرنے والوں کو بھی شامل کیا جائے، خان سے کھلے دالان میں مذاکراتی ٹیم کو ملاقات کی اجازت دی جائے (ایک صاحب بصیرت نے پوچھا وہی دالان جو ڈیتھ سیل کے سامنے ہے؟ جواب ندارد) تحریری مطالبات کے بجائے پہلے اجلاس کی منٹس پر اکتفا کیا جائے۔ شرائط سامنے آتے ہی سیاسی پنڈتوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مذاکرات کی بھینس گئی پانی میں، تیسرے رائونڈ کی نوبت نہیں آئے گی۔ رضی دادا گنگناتے پائے گئے۔ زندگی ایک سفر ہے سہانا، اب انہوں نے باہر نہیں آنا۔ آس اور یاس کے درمیان وقفہ سے گزرتے ہوئے خان نے مذاکراتی ٹیم کو تحریری مطالبات پیش کرنے کی اجازت دے دی، تیسرا رائونڈ ہوا نہ تحریری مطالبات دئیے گئے۔ مطالبات چار سے دو کر دئیے گئے۔ بانی سمیت اسیر کارکنوں کی رہائی 9 مئی اور 26 نومبر کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام، بیرسٹر گوہر کو حکم دیا کہ کمیشن نہ بنایا گیا تو مذاکرات ختم کر دئیے جائیں حالات کا درست تجزیہ کرنے والے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق خان کا بندوبست ہو گیا۔ مذاکرات ڈی ریل ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ حکومت ڈٹ گئی۔ پی ٹی آئی اڑ گئی۔ کوئی اپنی انا اور پوزیشن تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ 26 نومبر کے بعد پی ٹی آئی کا مورال ڈائون ہے کارکن مایوس ہیں۔ دونوں مطالبات پر پیشرفت کا انحصار، ’’چپ ڈیل فارمولے‘‘ پر ہے۔ خان اپنا رویہ بدلیں، خاموش ہو جائیں مگر چپ رہنا کپتان کی فطرت نہیں، وہ ’’شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا‘‘ کے قائل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے شاعر غلام محمد قاصر نے کہا تھا ’’کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام، مجھے تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا‘‘ ایک سیانے نے گرہ لگائی، ’’بابے کو سیاست بھی نہیں آتی صرف کھیلنا آتا ہے سو کھیل رہے ہیں‘‘ قول و فعل میں تضاد، ایک روز مذاکرات کے تیسرے رائونڈ کی ہدایت 24 گھنٹے بعد وزیر اعظم کے خلاف توہین آمیز ٹوئٹ، آرمی چیف کی ذات پر حملے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے یو اے ای کے صدر سے ہاتھ ملا لیا۔ اس پر وہ گند اچھالا گیا جو کسی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ مذاکراتی عمل تماشا بن گیا۔ اس دوران خان کو بنی گالا میں نظر بند کرنے کی خبریں دو چار دن ٹاک شوز اور ’’پسندیدہ ویلاگرز کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ پیشکش کس نے کی؟ بشریٰ بی بی، محسن نقوی، رانا ثناء اللہ کے نام لیے گئے تلاش بسیار کے بعد پتا چلا کہ یہ بھی گنڈا پور کی شرارت تھی۔ ترپ کا پتا پھینکا گیا تھا اوپر والوں کو ایک آپشن دیا گیا تھا کوئی جواب نہ ملا تو ہمت جواب دے گئی۔ امریکا کے ترجمان خارجہ کی ’’چٹھی‘‘ نے دل توڑ دیا۔ ’’جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہَوا دینے لگے، گھٹنے ٹیک دئیے‘‘ کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں زندگی کے سارے رنگ 528 دنوں کی قید نے دھندلا دئیے مگر اہلیہ سے ملاقات کے بعد امید کے چراغ روشن ہو گئے۔ ’’میں ہوں ناں بھاگ دوڑ کر رہی ہوں‘‘ ایک فقرے نے کانوں میں رس گھول دیا۔ بشریٰ بی بی ایک پراسرار کردار جو انتہائی خاموشی سے انتہائی فعال ہیں۔ انہوں نے بقول ڈاکٹر مالک شوہر کی رہائی کے لیے چار خفیہ ملاقاتیں کیں مگر ہر بار ایک ہی جواب ملا ’’خان بھی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں‘‘ وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے، زمین پائوں تلے سے سرک رہی ہے۔ خان مقبولیت سے قبولیت کا سفر منجھے ہوئے سیاستدانوں کی طرح طے کریں، لا ابالی ان کے لیے مزید سختیوں اور مشکلات کا باعث بنے گا 190 ملین پائونڈ کیس کا فیصلہ آج متوقع، سزا ہو گئی تو لمبی قید ہو گی۔ توشہ خانہ 2 کی سماعت بھی شروع ہو گئی۔ جی ایچ کیو حملہ کیس سمیت بڑے مقدمات پڑے ہیں۔ جیل سے بنی گالہ تک کا سفر طویل ہو جائے گا۔ 9 مئی کے 19 ملزموں کے رہائی پر خان کے حق میں نعرے بازی اور انہیں ہار پھول پہنانے کی حماقت اعتراف جرم، خان کے اعترافات بھی ریکارڈ پر ہیں، ایک اعلیٰ شخصیت کے مطابق 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو معافی نشتہ، حقیقی ماسٹر مائنڈ کا نام مکمل ثبوتوں کے ساتھ جلد منظر عام پر لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اعتدال پسند قیادت کو عوام میں آنے کا موقع دیا جا سکتا ہے مگر اسے 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور ان کے معدودے چند ساتھیوں سے الگ کرنا ہو گا۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ پارٹی میں دھڑے بازی اور قبضہ کی خبریں گرم ہیں۔ سول نافرمانی کی تحریک دم توڑ گئی۔ پارٹی کی مالی حالت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ نحوستوں نے گھر دیکھ لیا، مبینہ طور پر ایک ارب سردار اور راجے کھا گئے۔ تازہ صورتحال کے مطابق پارٹی کے ہیڈ آفس کے ملازمین کو 3 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، امریکی ڈاکٹروں اور دیگر ممالک کے یوتھیوں نے ہاتھ کھینچ لیے تاہم گنڈا پور وہی خود ساختہ محمود غزنوی پردازی سے باز نہیں آئے۔ انہوں نے 21 سے 31 جنوری تک گیارہ دنوں کے دوران نئے ڈیجٹ بین الاقوامی حملے اور فروری کے اوائل میں پھر اسلام آباد پر پانچویں حملہ کے لیے صوبائی خزانہ سے 3 کروڑ فراہم کر دئیے ہیں یو ٹیوبرز کو ایکٹیو کر دیا گیا ہے۔ مقصد ٹرمپ کی توجہ مبذول کرانا ہے اک نظر کرم کا سوال ہے بابا، ادھر کوچہ جاناں سے نکالے گئے فواد چوہدری کو کہیں سے ٹپ ملی ہے کہ خان 20 فروری تک رہا ہو جائیں گے۔ باہر آتے ہی الیکشن پر بات ہو گی، الیکشن ہوئے تو حکومت کہاں رہے گی۔ بیوقوفی کی باتیں اسٹیبلشمنٹ نے کرارا جواب دیا کہ قبل از وقت الیکشن کا شوشہ احمقانہ ہے حکومت پر اعتماد ہے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا گیا۔ ستارے راستہ بدل چکے ان راستوں کی نشان دہی کرنے والے صادق ملک کے مطابق خان کا انجام قریب آ گیا ہاتھ کی لکیریں بکھر چکی ہیں اب ایسی خبر آئیں گی جس سے بہتوں کی چیخیں نکل جائیں گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی انہوں نے کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ

اسلام ٹائمز: ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں، جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔  خصوصی رپورٹ:
  ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ میں جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ تجربات کے اسٹریٹجک، سفارتی اور ماحولیاتی سطحوں پر وسیع اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے وزارتِ جنگ کو فوراً جوہری تجربات کے عمل کا آغاز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام حریف طاقتوں کی جانب سے انجام دی جانے والی ایسی ہی پیشگی سرگرمیوں کے جواب میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ کی کسی بھی حریف طاقت نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہیں کیے۔ اگرچہ امریکہ نے بھی 1992ء سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا، تاہم یہ اعلان اسٹریٹجک، سفارتی، ماحولیاتی، صحتی، معاشی اور داخلی سطحوں پر گہرے مضمرات کا حامل ہے۔

اسٹریٹجک اور سیکیورٹی اثرات: ٹرمپ کے اس اعلان سے دنیا میں جوہری توازن اور سیکورٹی کا عالمی نظام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدام مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ’’زیرِ زمین دھماکوں کے ایک سلسلے‘‘ کو جنم دے سکتا ہے۔ روس نومبر 2023ء میں سی ٹی بی ٹی سے نکل گیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے تجربات دوبارہ شروع کیے تو وہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں بوروستنیک جیسے جوہری میزائلوں کے تجربے کیے ہیں، مگر ان میں کوئی جوہری دھماکہ شامل نہیں تھا۔ ماہرین کے مطابق اب امریکہ کا یہ فیصلہ روس کو حقیقی جوہری دھماکوں کی طرف مائل کر سکتا ہے، جس سے غلط حساب کتاب (miscalculation) اور عالمی کشیدگی میں خطرناک اضافہ ممکن ہے۔

چین اور دیگر جوہری طاقتیں: چین نے اپنے جوہری ذخیرے کو 2020 میں 300 وارہیڈز سے بڑھا کر 2025 تک تقریباً 600 تک پہنچا دیا ہے، اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1000 تک پہنچ جائے گی بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے مطابق اس فیصلے کے بعد چین بھی اپنے پروگرام کی رفتار مزید تیز کر سکتا ہے۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس کے آنکیٹ پانڈا نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام چین اور روس دونوں کے لیے ایک طرح کا کھلا چیک ہے، جس سے وہ بھی مکمل جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، حالانکہ چین نے 1996 سے اور روس نے 1990 سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی اپنے تجربات جاری رکھنے کا جواز مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شمالی کوریا نے آخری تصدیق شدہ جوہری تجربہ ٹرمپ کی پہلی صدارت (2017) کے دوران کیا تھا۔   سفارتی اثرات: اس اعلان نے عالمی سطح پر شدید منفی ردِعمل پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے اس اقدام کو غیر پائیدار اور عالمی عدمِ پھیلاؤ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا، اور گزشتہ 80 برسوں میں ہونے والے 2000 سے زائد جوہری تجربات کے تباہ کن ورثے کی یاد دہانی کرائی۔ ٹرمپ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد چین نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ سی ٹی بی ٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہے گا اور جوہری عدمِ پھیلاؤ کے نظام کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ 

برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک جو واشنگٹن کی جوہری چھتری (deterrence) پر انحصار کرتے ہیں، اس اعلان کے بعد امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر داریل کیمبال نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قدم اسلحہ کنٹرول مذاکرات کو کمزور کرے گا اور امریکہ کے مخالفین کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر پیش کریں۔ مزید برآں یہ اعلان جوہری عدمِ پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) کے 191 رکن ممالک کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جسے عالمی امن کے لیے ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات: اگرچہ زیرِ زمین کیے جانے والے جوہری تجربات فضا میں ہونے والے تجربات کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتے ہیں، لیکن ان سے ماحولیاتی خطرات اب بھی شدید نوعیت کے رہتے ہیں۔ فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان تجربات کے نمایاں ماحولیاتی اور حفاظتی اخراجات ہیں، جب کہ ماضی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اثرات طویل المدت اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ 1945 سے اب تک دنیا بھر میں دو ہزار سے زیادہ جوہری تجربات کیے جا چکے ہیں، جنہوں نے فضا، سمندروں اور زیرِ زمین پانی میں تابکاری (ریڈیوایکٹیو) آلودگی پھیلائی ہے۔ مثال کے طور پر 1950 کی دہائی میں امریکہ کے بحرالکاہل کے اینیوٹاک اور بکینی ایٹول (مارشل جزائر) میں کیے گئے تجربات نے سیزیم 137 اور اسٹرانشیم 90 جیسے تابکار عناصر سے مسلسل آلودگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں رونگلاپ جزیرہ ہمیشہ کے لیے غیر آباد ہو گیا۔   ریاست نیواڈا میں 1951 سے 1992 تک 928 سے زیادہ زیرِ زمین تجربات کیے گئے، جن سے زیرِ زمین پانیوں میں تابکاری رسنے لگی اور مقامی آبادی میں تھائرائڈ اور لیوکیمیا جیسے سرطانوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ زیرِ زمین دھماکے اکثر ریڈیوایکٹیو گیسوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور ٹریٹیم سمیت مختلف فِشَن (fission) مصنوعات کو ماحول میں داخل کرتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام (ecosystem) اور خوراک کی زنجیر کو متاثر کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ تابکار آلودگی دہائیوں تک مٹی اور پانی میں برقرار رہ سکتی ہے، جس کے اثرات کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • خفیہ ایٹمی تجربہ: ٹرمپ کے بیان پر چین کا ردعمل
  • خفیہ ایٹمی تجربہ کرنے کا الزام؛ صدر ٹرمپ کے بیان پر چین کا ردعمل سامنے آگیا
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے: امریکا
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے، امریکی وزیر توانائی
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
  • امریکا : ہیلو وین پر دہشتگردی کا منصوبہ ناکام‘ 4داعشی گرفتار
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • بھارت خفیہ پراکسیز کے ذریعے پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے، سپیکر پنجاب اسمبلی