پی ٹی آئی کو تسلیم نہ کرنے تک ملک افراتفری کا شکار رہے گا، فواد چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو تسلیم نہ کرنے تک ملک افراتفری کا شکار رہے گا، اگر عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے تو فوری طور پر ان کو جیل سے نکالنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر جماعت میں شدت پسند لوگ ہیں، خواجہ آصف کو مذاکرات میں شامل نہیں کیا گیا اس لیے وہ غصہ ہیں تاہم مجموعی طور پر بہت کچھ بہتر ہوا ہے، سب لوگ بتا رہے ہیں لوکل ماحول بہتر ہوا ہے، اس صورتحال میں تحریک انصاف کو مذاکرات کا حصہ بننا چاہئے کیوں کہ مذاکرات انتہائی مثبت عمل ہے، اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن میں سے لوگ پاکستان کے لیے سامنے آئیں، ملک میں سیاست کرنے کا ایک ماحول ملنا چاہیئے کیوں کہ جب تک تحریک انصاف کو تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک ملک میں افراتفری رہے گی۔بتایا جارہا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے نو مئی کے مقدمات میں اسد عمیر سمیت 104 ملزمان کی عبوری ضمانت میں 12 فروری تک توسیع کردی، اس حوالے سے جج ارشد جاوید نے علیمہ خان، عظمیٰ خان، اسد عمر، عمر ایوب اور فواد چوہدری سمیت 104 ملزمان کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی، فواد چوہدری اور اسد عمر عدالت میں پیش ہوئے، شاہ محمود قریشی اور اعظم سواتی کے جیل وارنٹ پیش کیے گئے۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ نجیب فیصل نے دلائل میں کہا کہ ’متعدد ضمانتوں کی سماعت سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے تک ضمانتوں پر کارروائی نہ کی جائے، تمام ملزمان ایک ہی طرز کے کیسوں میں نامزد ہیں، عدالت سے استدعا ہے سماعت فروری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کی جائے‘۔ بتایا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی حاضری معافی درخواست جمع کرائی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’عمران خان سے فیملی ملاقات کا دن ہے، جس کے باعث بہنیں ان سے ملنے اڈیالہ گئی ہیں، اس لیے حاضری معافی منظور کی جائے‘، جس پر عدالت نے علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی حاضری معافی منظور کرتے ہوئے پانچ مقدمات میں ملزمان کی عبوری ضمانتوں میں 12 فروری تک توسیع کر دی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: خان کی
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ : بچی سے لاتعلقی،حق مہر واپسی کا انوکھا مقدمہ، جسٹس محسن کیانی برہم، والد کو خرچہ ادا کرنے کا حکم
اسلام آباد( محمد ابراہیم عباسی) اسلام آبادہائیکورٹ میں ایک انوکھا خاندانی مقدمہ اس وقت زیرِ سماعت آیا جب خاتون عزہ مسرور نے فیملی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، جس میں بچی کے والد کی جانب سے حق مہر کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا۔
درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ بچی کے والد فہد تنویر نے نہ صرف اپنی بیٹی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ نان نفقہ کی ادائیگی سے بھی صاف انکار کر دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی اور ریمارکس دیے کہ جب مرد اور عورت شادی کرتے ہیں تو عورت کو اس کے عوض حق مہر دیا جاتا ہے
طلاق یا خلع کے بعد حق مہر واپس لینا شرعاً اور اخلاقاً درست نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا مرد حق مہر واپس لینے کے بعد عورت کا شادی سے پہلے والا سٹیٹس بحال کر سکتا ہے؟
عدالت نے بچی کے والد کو حکم دیا کہ وہ 3 لاکھ 51 ہزار روپے دو اقساط میں والدہ کو ادا کرے۔ آدھی رقم آئندہ سماعت پر عدالت میں جمع کرائی جائے گی۔ عدالت نے والدہ کو بھی ہدایت دی کہ وہ آئندہ سماعت پر بچی کو عدالت میں پیش کریں تاکہ بچی اور والد کے درمیان ہفتہ وار ملاقات ممکن ہو سکے۔
سماعت کے دوران جسٹس محسن کیانی نے والد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گناہگار کیوں بنایا جا رہا ہے، گھریلو معاملات عدالتوں میں لا کر وقت ضائع نہ کریں، گھر بیٹھ کر قرآن پر حلف دیں اور سچ بولیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ بچی خیرات پر پلتی رہے اور باپ کہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب بچی پیدا ہوئی تو والد نے اس سے لاتعلقی اختیار کر لی اور خرچہ دینے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 10 جولائی تک ملتوی کر دی۔
وفاقی دارالحکومت میںموٹرسائیکل سواردونوں افراد کیلئے ہیلمٹ لازمی قرار