Jasarat News:
2025-04-26@04:37:47 GMT

غزہ جنگ بندی معاہدہ رواں ہفتے ہوجائے گا،ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

دوحا /تل ابیب /غزہ/واشنگٹن/دی ہیگ (اے پی پی /آن لائن/صباح نیوز/مانیٹرنگ ڈیسک) قطر کے دارالحکومت دوحا میں جاری غزہ جنگ بندی معاہدے کے مندرجات سامنے آگئے ہیں جن کا باضابطہ اعلان رواں ہفتے کے اختتام پر کیا جائے گا‘ 7 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ یروشلم پوسٹ نے جنگ بندی مذاکرات میں شامل ایک فلسطینی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 3 مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت ڈیل کے پہلے روز حماس 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا جبکہ اس کے اگلے ہفتے مزید4 یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر حماس34 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔اس کے بدلے میں اسرائیل نے حماس کی جانب سے فراہم کی گئی فہرست کے مطابق ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے‘ ان فلسطینی قیدیوں میں 190 ایسے ہیں جو 15 برس سے زیادہ عرصے سے اسیری کاٹ رہے ہیں۔چند یرغمالیوں کی رہائی کے فوری بعد سے ہی اسرائیل فلسطینی علاقوں سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کر دے گا اور جنوبی علاقے میں بے گھر فلسطینیوں کو شمال کی طرف سفر کرنے کی اجازت دے گا۔اس معاہدے کے تحت اسرائیلی فورسز کے پاس فلاڈیلفی کوریڈور میں 800 میٹر کے بفر زون کا انتظام ڈیڑھ ماہ تک برقرار رہے گا۔ معاہدے کے پہلے مرحلے کے مکمل ہونے میں 16 دن لگ جائیں گے جس کے بعد دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بیک وقت ڈیل جاری رکھنے کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر17 جنوری کو دستخط ہوں گے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے کے ضمن میں حماس کے سابق سربراہ یحییٰ السنوار کی میت حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں فوری طور پر حالات بہتر بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے ایک سیاسی ذرائع نے حماس کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے جس سے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ادھر حماس کے ایک وفد نے بتایا ہے کہ غزہ میں فائر بندی سے متعلق بات چیت میں اچھی پیش رفت ہو رہی ہے اور تنظیم ان کوششوں اور پیش رفت کے ساتھ مثبت طور معاملہ کر رہی ہے۔ یہ بات حماس کے وفد کی دوحا میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہی گئی۔ قطر کے شاہی دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امیر قطر نے حماس کے وفد کے علاوہ امریکی صدر جوبائیڈن اور منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندگان برائے مشرق وسطیٰ سے بھی ملاقات کی اور غزہ میں فائر بندی سے متعلق مذاکرات کی تازہ ترین پیش رفت پر بات چیت کی۔ قطر نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے مندرجات کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ غزہ جنگ بندی معاہدہ اپنے قریب ترین مقام پر آ گیا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ غزہ میں15 ماہ سے جاری جنگ بند کرنے کے لیے معاہدہ اب قریب ترین مقام پر ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ جنگ بندی پر کہا ہے کہ ڈیل کا رواں ہفتے کے آخر تک اعلان ہوجائے گا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان خیالات کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کیپیٹل ہل کی عمارت میں اپنی جماعت ریپبلکن کے ارکان کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔ نومنتخب امریکی صدر نے حماس کا نام لیے بغیر کہا کہ مصافحہ ہوچکا ہے، انہیں یہ کرنا ہوگا اب بھی اگر وہ (حماس) اسے مکمل نہیں کرتے ہیں تو انہیں (حماس کو) وہ کچھ دیکھنا ہوگا جیسا انہوں نے کبھی دیکھا نہیں ہوگا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی ہو سکتی ہے جبکہ فلسطینیوں کے لیے امداد میں وسیع پیمانے میں اضافہ ہوگا۔ وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق اپنی صدارت کی مدت کا آخری ہفتہ شروع ہونے کے بعد اپنے آخری فارن پالیسی خطاب میں صدر جوبائیڈن نے کہا کہ معاہدے کے تحت یرغمال بنائے گئے افراد رہا ہوں گے، جنگ بند ہو جائے گی جبکہاسرائیل کی سیکورٹی اس معاہدے میں شامل ہے‘ یہ معاہدہ فلسطینیوں کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کی فراہمی کا ضامن ہوگا‘ ہمارے حریف کمزور ہو چکے ہیں، غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے مزید تین قافلے امدادی سامان لیکر غزہ پہنچ گئے۔ مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے 3 امدادی قافلے مصر کے رفح بارڈر کراسنگ کے ذریعے غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے‘ ان قافلوں میں 35 ٹرک شامل تھے، جن میں 248.

9 ٹن سے زاید امدادی سامان موجود تھا، اس میں 100 ٹن سے زاید طبی سامان شامل ہے، جن میں ڈائلیسز مشینیں، الٹراسائونڈ ڈیوائسز، بحالی کے آلات، وہیل چیئرز، سانس لینے کے ماسک، طبی استعمال کے سامان اور مختلف قسم کی دوائیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک، پناہ کے لیے خیمے، آٹا اور دیگر ضروری اشیا بھی امداد کا حصہ ہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مظاہرین نے محکمہ خارجہ کی عمارت کے سامنے صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے خلاف احتجاج کیا۔ بائیڈن کی طرف سے بلنکن کی ہمراہی میں اپنے 4 سالہ دور صدارت کی خارجہ پالیسیوں کے بارے میں تقریر سے قبل جمع ہونے والے مظاہرین نے یہ نعرے لگائے، “آج تم نے کتنے بچوں کو مارا؟” اور” ہمارے ادا کردہ ٹیکس کی رقوم کو فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے استعمال نہ کرو۔”جب بائیڈن اور بلنکن اپنی خارجہ پالیسی کے جائزے کے لیے قافلے کے ساتھ وزارت کی عمارت کو پہنچے تو مظاہرین نے “جنگی مجرم” کے نعرے لگائے۔ اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی قیادت نے فلسطینی دھڑوں کے رہنمائوں کے ساتھ متعدد مشاورتی اجلاس اور رابطے کیے ہیں، جن میں دوحا میں جاری مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی گئیں۔ حماس سے جاری تفصیلات کے مطابق ان مشاورتوں کے دوران فلسطینی دھڑوں کے قائدین نے مذاکرات کے عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ مرحلے اور اس کے تقاضوں کے لیے قومی سطح پر تیاری کی ضرورت پر زور دیا۔حماس کی قیادت اور مختلف قوتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تکمیل تک مشاورت اور رابطے جاری رکھے جائیں گے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی پر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمے میں کیوبا بھی شامل ہوگیا ہے۔ کیوبا اسرائیل کے خلاف مقدمے میں شامل بارہواں ملک بن گیا ہے ۔ کیوبا نے اسرائیل کے خلاف دائر نسل کشی مقدمے میں شمولیت کے لیے سرکاری سطح پر درخواست دے دی ہے۔ اس طرح کیوبا، ترکیہ، نکاراگوا، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، فلسطین، اسپین، چلی، مالدیپ، بولیویا اور آئر لینڈ کے بعد غزہ میں نسل کشی دعوے میں شامل ہونے والا12 واں ملک بن گیا ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے معاہدے کے تحت کے معاہدے کے مطابق پیش رفت حماس کے کے ساتھ کے خلاف کو رہا کے لیے کے بعد گیا ہے

پڑھیں:

پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور بھارت کے تعلقات قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک غیر یقینی حالات کا شکار رہے ہیں۔ سفارتی روابط سے لے کر ثقافتی منصوبوں تک، دونوں ممالک کے تعلقات بار بار بحال ہوئے اور پھر ٹوٹ گئے۔ یہی حال دو طرفہ معاہدات کا بھی رہا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد، جس کا الزام بھارت نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر پاکستان پر لگا دیا، نئی دہلی نے فوری طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ پاکستان کے درمیان اب تک کون کون سے معاہدے طے پاچکے ہیں؟

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد دریائے جہلم اور نیلم کی کیا صورتحال ہے؟

1950 کا نہرو-لیاقت معاہدہ:

یہ معاہدہ  اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تھا جس میں دونوں ممالک نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ یہ معاہدہ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے تناظر میں طے پایا۔

1960 کا سندھ طاس معاہدہ:

  سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا۔ یہ  دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق تھا۔ اس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کو اور مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ 65 سال تک نافذ رہا اور جنگوں کے باوجود برقرار رہا لیکن اب مودی سرکار نے اسے معطل کردیا ہے۔

پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ، آگے کیا ہوسکتا ہے؟ سی این این کی رپورٹ آگئی

1972 کا شملہ معاہدہ:

یہ  1971 کی جنگ کے بعد طے پایا۔ شملہ معاہدہ  دونوں ممالک کو باہمی طور پر مسائل حل کرنے کا پابند بناتا تھا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

مذہبی زیارات کا معاہدہ:

سنہ 1974 کے مذہبی زیارات کے پروٹوکول کے تحت دونوں ممالک کے زائرین کو ایک دوسرے کے ممالک میں مقدس مقامات پر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان میں 15 اور انڈیا میں پانچ مذہبی مقامات کیلئے ویزے جاری کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔اس معاہدے کے تحت پاکستان نے سکھ زائرین کو تین ہزار ویزے جاری کرنے تھے لیکن رواں سال ریکارڈ چھ ہزار 751 ویزے جاری کیے جب کہ انڈیا نے صرف 100 پاکستانیوں کو ویزے دیے۔

باہمی رضا مندی کے بغیر مزید کوئی نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیر اعظم شہباز شریف

جوہری تنصیبات کے تحفظ کا معاہدہ:

دونوں ملکوں میں 1988 میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی ممانعت کا معاہدہ طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک ہر سال اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست ایک دوسرے کو فراہم کرتے ہیں۔ اس معاہدے کا نفاذ 27 جنوری 1991 کو ہوا اور اس کے بعد سے دونوں ملک ہر سال یکم جنوری کو جوہری تنصیبات کی دستاویزات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی جوہری تنصیبات کا بلا واسطہ یا بالواسطہ نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

فضائی حدود کی خلاف ورزی کا معاہدہ:

لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے درمیان میچ کا ٹاس ہو گیا

6 اپریل 1991 کو نئی دہلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کا مقصد پڑوسی ممالک کے درمیان حادثاتی یا غیر ارادی ہوائی حدود کی خلاف ورزی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اس معاہدے میں فوجی طیاروں کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے گئے کہ وہ ایک دوسرے کی ہوائی حدود سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر رہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی طیارہ دوسرے ملک کے  سرحدی پانیوں کی حدود میں بغیر  پیشگی اجازت کے داخل نہیں ہو سکتا۔

لاہور اعلامیہ:
یہ اعلامیہ فروری 1999 میں سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کے ہم منصب نواز شریف کے درمیان بھارتی وزیر اعظم کے پاکستان کے دورے کے دوران دستخط ہوا۔ اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا کہ "امن اور سلامتی کا ماحول دونوں اطراف کے اعلیٰ قومی مفاد میں ہے اور تمام حل طلب مسائل، بشمول جموں و کشمیر کا حل اس مقصد کے لیے ضروری ہے"۔ انہوں نے یہ بھی اتفاق کیا کہ وہ "تمام مسائل، بشمول جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کو تیز کریں گے۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے:شاہد خاقان عباسی

بیلسٹک میزائل تجربات  کی پیشگی اطلاع کا معاہدہ:
یہ معاہدہ 2005 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان  طے پایا ۔ اس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک بیلسٹک میزائل کے تجربے سے کم از کم تین دن پہلے  ایک دوسرے کو اطلاع دیں گے۔ معاہدے کے مطابق ہر فریق کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تجرباتی پرواز کا مقام بین الاقوامی سرحد یا کنٹرول لائن سے 40 کلومیٹر کے اندر نہ ہو، اور منصوبہ بند اثر والا علاقہ 75 کلومیٹر کے اندر نہ ہو۔ یہ معاہدہ اب بھی قابل عمل ہے۔ تاہم گزشتہ سال پاکستان نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اس معاہدے کی مکمل پابندی نہیں کر رہا ۔

جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرے کو کم کرنے پر معاہدہ:
جوہری حادثات پر معاہدہ 21 فروری 2007 کو پانچ سال کی ابتدائی مدت کے لیے نافذ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت، دونوں ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور سلامتی کو بہتر بنانے،  ایک دوسرے کو کسی بھی جوہری حادثے کی اطلاع دینے، اور ایسے حادثے کے تابکاری اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کیا۔ مزید برآں دونوں ممالک میں سے ہر ایک جوہری حادثے کی صورت میں پابند ہے کہ وہ اپنے اقدامات کو دوسرے فریق کی طرف سے غلط سمجھے جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ 2012 اور 2017 میں معاہدے کو پانچ پانچ سال کے لیے مزید بڑھا دیا گیا۔

لائن آف کنٹرول  (ایل او سی) پر جنگ بندی کا معاہدہ:
نومبر 2003 میں پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بارڈر پر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ معاہدہ کچھ سالوں تک قائم رہا لیکن 2008 سے باقاعدہ خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ دریں اثنا 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے  کے بعد جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ۔ سنہ 2021 میں دونوں ممالک نے دوبارہ معاہدے کی پابندی کا عہد کیا۔ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، دونوں اطراف نے موجودہ طریقہ کار  ہاٹ لائن رابطہ اور فلیگ میٹنگز  کو دوبارہ زندہ کرنے پر اتفاق کیا تاکہ "کسی بھی غیر متوقع صورت حال یا غلط فہمی" سے نمٹا جا سکے۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر مستقل قبضے کا اسرائیلی خواب
  • سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
  • عالمی برادری مودی حکومت کے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے یکطرفہ اقدام کا نوٹس لے
  • بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات
  • یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
  • مائنز اینڈ منرلز بل امریکی اشارے پر آیا، ہماری صوبائی خودمختاری ختم ہوجائے گی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے‘ٹیرف کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے.ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ٹرمپ