غزہ جنگ بندی معاہدہ رواں ہفتے ہوجائے گا،ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
دوحا /تل ابیب /غزہ/واشنگٹن/دی ہیگ (اے پی پی /آن لائن/صباح نیوز/مانیٹرنگ ڈیسک) قطر کے دارالحکومت دوحا میں جاری غزہ جنگ بندی معاہدے کے مندرجات سامنے آگئے ہیں جن کا باضابطہ اعلان رواں ہفتے کے اختتام پر کیا جائے گا‘ 7 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ یروشلم پوسٹ نے جنگ بندی مذاکرات میں شامل ایک فلسطینی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 3 مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت ڈیل کے پہلے روز حماس 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا جبکہ اس کے اگلے ہفتے مزید4 یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر حماس34 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔اس کے بدلے میں اسرائیل نے حماس کی جانب سے فراہم کی گئی فہرست کے مطابق ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے‘ ان فلسطینی قیدیوں میں 190 ایسے ہیں جو 15 برس سے زیادہ عرصے سے اسیری کاٹ رہے ہیں۔چند یرغمالیوں کی رہائی کے فوری بعد سے ہی اسرائیل فلسطینی علاقوں سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کر دے گا اور جنوبی علاقے میں بے گھر فلسطینیوں کو شمال کی طرف سفر کرنے کی اجازت دے گا۔اس معاہدے کے تحت اسرائیلی فورسز کے پاس فلاڈیلفی کوریڈور میں 800 میٹر کے بفر زون کا انتظام ڈیڑھ ماہ تک برقرار رہے گا۔ معاہدے کے پہلے مرحلے کے مکمل ہونے میں 16 دن لگ جائیں گے جس کے بعد دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بیک وقت ڈیل جاری رکھنے کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر17 جنوری کو دستخط ہوں گے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے کے ضمن میں حماس کے سابق سربراہ یحییٰ السنوار کی میت حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں فوری طور پر حالات بہتر بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے ایک سیاسی ذرائع نے حماس کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے جس سے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ادھر حماس کے ایک وفد نے بتایا ہے کہ غزہ میں فائر بندی سے متعلق بات چیت میں اچھی پیش رفت ہو رہی ہے اور تنظیم ان کوششوں اور پیش رفت کے ساتھ مثبت طور معاملہ کر رہی ہے۔ یہ بات حماس کے وفد کی دوحا میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہی گئی۔ قطر کے شاہی دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امیر قطر نے حماس کے وفد کے علاوہ امریکی صدر جوبائیڈن اور منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندگان برائے مشرق وسطیٰ سے بھی ملاقات کی اور غزہ میں فائر بندی سے متعلق مذاکرات کی تازہ ترین پیش رفت پر بات چیت کی۔ قطر نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے مندرجات کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ غزہ جنگ بندی معاہدہ اپنے قریب ترین مقام پر آ گیا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ غزہ میں15 ماہ سے جاری جنگ بند کرنے کے لیے معاہدہ اب قریب ترین مقام پر ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ جنگ بندی پر کہا ہے کہ ڈیل کا رواں ہفتے کے آخر تک اعلان ہوجائے گا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان خیالات کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کیپیٹل ہل کی عمارت میں اپنی جماعت ریپبلکن کے ارکان کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔ نومنتخب امریکی صدر نے حماس کا نام لیے بغیر کہا کہ مصافحہ ہوچکا ہے، انہیں یہ کرنا ہوگا اب بھی اگر وہ (حماس) اسے مکمل نہیں کرتے ہیں تو انہیں (حماس کو) وہ کچھ دیکھنا ہوگا جیسا انہوں نے کبھی دیکھا نہیں ہوگا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی ہو سکتی ہے جبکہ فلسطینیوں کے لیے امداد میں وسیع پیمانے میں اضافہ ہوگا۔ وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق اپنی صدارت کی مدت کا آخری ہفتہ شروع ہونے کے بعد اپنے آخری فارن پالیسی خطاب میں صدر جوبائیڈن نے کہا کہ معاہدے کے تحت یرغمال بنائے گئے افراد رہا ہوں گے، جنگ بند ہو جائے گی جبکہاسرائیل کی سیکورٹی اس معاہدے میں شامل ہے‘ یہ معاہدہ فلسطینیوں کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کی فراہمی کا ضامن ہوگا‘ ہمارے حریف کمزور ہو چکے ہیں، غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے مزید تین قافلے امدادی سامان لیکر غزہ پہنچ گئے۔ مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے 3 امدادی قافلے مصر کے رفح بارڈر کراسنگ کے ذریعے غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے‘ ان قافلوں میں 35 ٹرک شامل تھے، جن میں 248.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے معاہدے کے تحت کے معاہدے کے مطابق پیش رفت حماس کے کے ساتھ کے خلاف کو رہا کے لیے کے بعد گیا ہے
پڑھیں:
نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
اسلام ٹائمز: مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔" تحریر: علی احمدی
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایسے وقت مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا جب قطر کے دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس جاری تھا۔ اس کا خیال ہے کہ غزہ پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ مستقبل پر مرکوز کرنی چاہیے۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے غزہ پر جارحیت کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور غزہ شہر کے رہائشی ٹاورز یکے بعد از دیگرے اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر مٹی کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی فوج نے اب تک غزہ شہر میں کم از کم 30 رہائشی ٹاورز کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہری بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایسے وقت امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کا دو روزہ دورہ کیا اور غزہ پر صیہونی جارحیت کی حمایت کی۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا لہذا ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس نے کہا: "میں نے اسرائیلی حکام سے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی ہے۔" مارکو روبیو نے دیوار ندبہ کی زیارت بھی کی اور امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کے ہمیشگی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے بھی زور دیا۔ معروف تجزیہ کار مائیکل کرولی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے ملاقات میں کہا کہ غزہ جنگ کے بارے میں سفارتی معاہدے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریات سے مکمل طور پر تضاد رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ "بہت جلد" غزہ میں جنگ بندی کا راہ حل حاصل ہو جائے گا۔
مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔"
مغربی ایشیا میں فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے جنرل کمشنر فلپ لازارینی نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "غزہ میں پانی کا نظام 50 فیصد کم سطح پر کام کر رہا ہے اور گذشتہ چار دنوں میں غزہ شہر میں انروا کی 10 عمارتیں اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے اس نے غزہ شہر میں پانچ فضائی حملے انجام دیے ہیں جن میں 500 سے زیادہ جگہیں نشانہ بنائی گئی ہیں۔ اس کے بقول ان جگہوں پر ممکنہ طور پر حماس کے اسنائپر تعینات تھے جبکہ کچھ عمارتیں حماس کی سرنگوں کے دروازوں پر بنائی گئی تھیں اور کچھ میں حماس کے اسلحہ کے ذخائر تھے۔" ابراہیم دہمان، تیم لستر اور چند دیگر رپورٹرز نے سی این این پر اپنی رپورٹس میں کہا: "صیہونی فوج نے تازہ ترین حملوں میں غزہ شہر میں کئی رہائشی ٹاورز کو تباہ کر دیا ہے۔"
آگاہ ذرائع کے مطابق کل اسرائیلی وزیر خارجہ، وزیر جنگ، انٹیلی جنس سربراہان اور اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کا ایک اہم اجلاس ہو گا جس میں زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی صورتحال اور غزہ شہر پر زمینی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا۔ دو اعلی سطحی اسرائیلی عہدیداروں نے سی این این کو بتایا کہ غزہ شہر پر زمینی حملہ بہت قریب ہے جبکہ ایک عہدیدار نے کہا کہ ممکن ہے یہ حملہ کل سے شروع ہو گیا ہو۔ صیہونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ایال ضمیر نے نیتن یاہو کو اطلاع دی ہے کہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کے لیے آپریشن کو چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا اور حتی مکمل فوجی قبضہ ہو جانے کے بعد بھی حماس کو نہ تو فوجی اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے شکست نہیں دی جا سکے گی۔
اس بارے میں فلپ لازارینی نے کہا: "اسرائیل کی جانب سے شدید حملے شروع ہو جانے کے بعد غزہ میں کوئی جگہ محفوظ باقی نہیں رہی اور کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ کل تک غزہ شہر کے کئی رہائشی ٹاورز جیسے المہنا ٹاور، غزہ اسلامک یونیورسٹی اور الجندی المجہول ٹاور اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے ان حملوں کے لیے یہ بہانہ پیش کیا ہے کہ حماس ان عمارتوں کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اور وہاں سے اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اصل مقصد فلسطینیوں کو جبری طور پر وہاں سے نقل مکانی کروانا ہے اور انہیں جنوب کی جانب دھکیلنا ہے تاکہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کا زمینہ فراہم ہو سکے۔" یاد رہے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اب تک اس اسرائیلی دعوے کی تردید کر چکی ہے کہ غزہ شہر میں رہائشی عمارتیں حماس کے زیر استعمال ہیں۔